قومی مقابلوں میں ہنرمندی کا حیرت انگیز مظاہرہ

نوجوان خود سمجھتے ہیں کہ ان مقابلوں سے تربیتی اداروں میں بھی صحت مندانہ مقابلے کا رجحان بڑھا ہے

zulfiqarcheema55@gmail.com

کیا سماں تھا کیا رونق تھی۔ اسلام آبادمیں منعقد ہونے والے ہنر مندی کے قومی مقابلوں میں نوجوانوں کا جوش و خروش دیدنی تھا۔ بہت سے لوگ پوچھتے رہے کہ نیوٹیک نے ہنرمندی کے مقابلے کرانے کا گُر کہا ں سے سیکھا ہے۔ مقابلوں نے تو نقشہ ہی تبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔ تربیتی اداروں کے سربراہ کہتے ہیں کہ زیرِتربیت نوجوان پہلے بے دلی سے آتے تھے اب جوش و خروش سے آتے ہیں۔

انسٹرکٹرزکا کہنا ہے کہ نوجوانوں کی دلچسپی اسقدر بڑھی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ وقت ورکشاپ یا لیب میں گزارنا چاہتے ہیں۔ منصفین کا فیصلہ ہے کہ مقابلوں نے طلباء و طالبات کی استعداد میں بہت اضافہ کیا ہے، مقابلے دیکھنے والے صنعتکاران کا خیال ہے کہ ایک دوسرے سے آگے بڑھنے اور انعامی رقم جیتنے کے شوق میں ان کے ہنر میں نکھار آیا ہے اور گورنرز، وزراء اور وزرائے اعلیٰ کے ہاتھوں انعامات لینے سے ان کی بے پناہ ہوصلہ افزائی ہوئی ہے۔

نوجوان خود سمجھتے ہیں کہ ان مقابلوں سے تربیتی اداروں میں بھی صحت مندانہ مقابلے کا رجحان بڑھا ہے جس سے تربیت کا معیار بلند ہوا ہے اور انھیں روزگار ملنے کے امکانات بہت بڑھ گئے ہیں۔ نیوٹیک کے افسران کا خیال ہے کہ Skill Competitionsنے نوجوانوں کو اس شعبے کی جانب راغب کرنے میں بڑااہم کردار ادا کیا ہے۔ایک وقت تھا کہ سال بھر میں صرف سولہ سترہ ہزار درخواستیں وصول ہوتی تھیں اور اب چار لاکھ سے زیادہ امیدوار قطار میں کھڑے ہوتے ہیں۔

نیوٹیک کے زیرِاہتمام فراہم کی جانے والی چھ ماہ کی ٹریننگ میں تربیتی اداروں پر لازم ہے کہ وہ زیرِتربیت طلباء و طالبات کا ماہانہ ٹیسٹ لیں اور تین مہینوں کی ٹریننگ کے بعد اُنکا آپس میں مقابلہ کراکے جیتنے والوں کو انعامات دیں۔پانچ مہینوں کے بعد ادارے میں پھر مقابلہ کرایا جاتا ہے اور پہلی تین پوزیشنیں حاصل کرنے والے، زونل مقابلوں میں حصہ لینے کے اہل قرار پاتے ہیں۔

ہر صوبے کو مختلف زونز میں تقسیم کیا گیا ہے، خیبرپختونخواہ مالاکنڈ، ہزارہ، پشاور ویلی اور جنوبی کے پی زونز میں تقسیم ہے، سندھ کو سکھر، حیدرآباد اور کراچی زونز، بلوچستان کو کوئٹہ، سبّی، خضدار، آئی سی ٹی کو اسلام آباد ، گلگت بلتستان اور آزادکشمیر زونز اور پنجاب کو بہاولپور، ملتان، فیصل آباد، گوجرانوالہ، سرگودھا اور لاہور زونز میں تقسیم کیا گیا ہے۔

سب سے پہلے زونل سطح پر مقابلے منعقد کیے جاتے ہیں جس میں مقامی صنعتکار، طلباء و طالبات اور عام شہری بڑی تعداد میں شریک ہوتے ہیں، بعض صنعتکار نوجوانوں کے استعداد سے متاثر ہوکر انھیں وہیں ملازمت کی پیشکش کردیتے ہیں۔ زونز میں جیتنے والے صوبائی مقابلوں میں حصہ لیتے ہیں۔ خیبرپختونخواہ کے صوبائی مقابلے گورنر صاحب کی دعوت پر گورنر ہاؤس میں منعقد ہوئے اور جیتنے والوں نے گورنر کے پی کے ہاتھوں انعامات وصول کیے اور ہر شعبے میں پہلی پوزیشن پر پچھتر ہزار ، دوسری پر پچاس ہزار اور تیسری پوزیشن پر پینتیس ہزار روپے انعام میں دیے گئے۔

بلوچستان کے صوبائی مقابلے ایک ہوٹل میں منعقد ہوئے جن میں جیتنے والوں نے بلوچستان اسمبلی کی اسپیکر محترمہ راحیلہ درانی صاحبہ سے انعامات وصول کیے۔ سندھ کے صوبائی مقابلوں میں کور کمانڈر کراچی مہمانِ خصوصی تھے اور جیتنے والے نوجوانوں کو اسٹیج پر بیٹھے ہوئے مہمانوں یعنی کورکمانڈر لیفٹنٹ جنرل شاہد بیگ مرزا، آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ، فیڈریشن آف پاکستان چیمبر اینڈ کامرس انڈسٹریز کے صدر زبیر طفیل اور کراچی چیمبر کے صدر شمیم فرپو سے انعامات وصول کیے۔

ہنرمندی کے میدان میں کسی ایک شہر کی اجارہ داری نہیں ہے، کئی شعبوں میں دور دراز کے شہروں سے تربیت حاصل کرنے والے نوجوان اپنے اعلیٰ ہنر کا مظاہرہ کرکے انعامات جیت لیتے ہیں ۔ اکثر جگہوں پر تربیت مکمل کرلینے والے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں روسٹرم پر آکر سامعین کے ساتھ اپنے تجربات شیئر کرتے ہیں ، ایسے ہی موقع پر مالاکنڈ میں چکدرہ کے نوجوان خالد خان نے اسٹیج پر آکر کہا ''میں غربت اور بے روزگاری کی چکی میں پس رہا تھا کہ کسی نے مجھے الیکٹریشن کا کورس کرنے کا مشورہ دیا، میں نے چھ مہینے کا مفت کورس کرلیا اور اب ایک کمپنی میں بیس ہزار ماہانہ تنخواہ پر ملازم ہوگیا ہوں اور بہت خوش ہوں۔" دیربالا کی حبیبہ نے کہا میں نے چھ مہینے میں کپڑے سینے کی تربیت حاصل کی ہے اور اب مجھے گھر پر ہی کپڑوں کے آرڈر مل رہے ہیں، جس سے میں مہینے کے تیس ہزار روپے آسانی سے کمارہی ہوں اور اپنی پوری فیملی کو سپورٹ کررہی ہوں۔


پشاور میں شمالی وزیرستان کے امیر خان کا کہنا تھا کہ میں پلمبر بن گیا ہوں اور اپنے اس ہنر کی مدد سے میں نے گھر سے غربت کو نکال باہر پھینکا ہے۔ ڈی آئی خان کے عمران عبّاس کا کہنا تھا" ہم نو بہن بھائی ہیں والد صاحب بوڑھے ہوچکے ہیں گھر میں غربت تھی ایک وقت روٹی پکتی تو دوسری کا کچھ پتہ نہیں ہوتا تھا۔ میں نے ویلڈنگ کا کورس کرلیا تو مجھے ایک پرائیوٹ ادارے میں بیس ہزار ماہوار کی نوکری مل گئی ہے اب ہمارے گھر میں تین وقت کی روٹی پکتی ہے"۔

کراچی میں ہونے والے صوبائی مقابلوں کے موقع پر نوجوانوں کو دعوت دی گئی تو بہت سے اسٹیج کی طرف لپکے ۔ عظمیٰ میمن نے بتایا کہ اس نے پروفیشنل فوٹوگرافی کا کورس کیا ہے اور اب وہ پچیس ہزار ماہانہ کما رہی ہے۔ سکھر کے عطاء اﷲنے بتایا کہ اس نے الیکٹریشن کا کورس کیا ہے اور اب وہ چالیس ہزار روپے ماہوار کما رہا ہے اور پورے خاندان کی کفالت کررہا ہے۔

نیوٹیک نے مارکیٹ کی طلب اور ضرورت کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے بہت سے نئے ٹریڈز میں بھی ٹریننگ کا آغاز کردیا ہے اور اپنے تربیتی پروگرام میں سی این سی مشینسٹ، ہیوی مشینری آپریٹر، فارم منیجر ، ٹنل فارمنگ، ڈیری فارمنگ، ہوٹلنگ ایند ٹورزم، پیرامیڈکس، پولٹری، پروفیشنل فوٹو گرافی اینڈ فلم میکنگ، ڈومیسٹک ہاؤس کیپر وغیرہ کے کورسز بھی شروع کروائے ہیں، جن کیطرف نوجوان بڑی تیزی سے راغب ہورہے ہیں اور ہنر سیکھ کر اپنے کُنبے کی کفالت بھی کررہے ہیں اور ملکی معیشت میں بھی حصہ ڈال رہے ہیں۔

پچھلے مہینے پنجاب بھر کے صوبائی مقابلے منعقد ہوئے پنجاب کے انتہائی مصروف اور متحّرک ترین وزیرِاعلی چونکہ ہنر کی اہمیّت اور افادیّت کا ادراک رکھتے ہیں اس لیے کئی مصروفیات چھوڑ کر ہنرمندی کے مقابلوں کی تقریب میں شریک ہوئے اور جیتنے والوں کو انعامات دیے اور وہیں یہ اعلان کرکے نوجوانوں کو خوش کردیا کہ فنّی ہنر مندی کے مقابلے جیتنے والوں کو بھی جنرل ایجوکیشن کے پوزیشن ھولڈرز کیطرح بیرونِ ممالک دورے پر بھجوایا جائے گا۔ وہاں بھی کچھ نوجوانوں نے اسٹیج پر آکر اپنے جذبات کا اظہار کیا ، رحیم یار خان کا نوجوان محمد وسیم اسٹیج پر آیا اور ٹوٹی پھوٹی اردو میں بات کرنے لگا راقم نے اسے کہا سرائیکی میں بات کرو، اس نے سرائیکی میں اپنا قصّہ سنایا کہ "میں ایک غریب گھرانے کا فرد ہوں والد صاحب بڑے عرصے سے بیمار ہیں، کسی دوست نے بتایا کہ نیوٹیک والے ہیوی مشینری کی ٹریننگ کرواتے ہیں اور فیس بھی نہیں لیتے بلکہ وظیفہ بھی دیتے ہیں تم بھی کرلو۔

میں نے چھ مہینے کا کورس کرلیا اس کے بعد سی پیک والے آئے انھوں نے ٹیسٹ لیا میں نے بھی ٹیسٹ دیا اور پاس ہوگیا اور میری پچاس ہزار روپے مہینہ تنخواہ لگ گئی ہے اور ہمارے گھر میں خوشحال آگئی ہے"۔ نوجوان کی بات سنکر وزیرِاعلیٰ کی آنکھیں بھیگ گئیں۔ ایک نوجوان بچی قرۃالعین گونگی اور بہری تھی اس نے والدین پر بوجھ بننے کے بجائے بیوٹیشن کی تربیت حاصل کی اور مقابلے میں اوّل پوزیشن لی اور اب بیس ہزار ماہوار تنخواہ پر کام کررہی ہے اس کا چہرہ خوداعتمادی اور فخر سے دمک رہا تھا۔ قرۃالعین اسٹیج پر آئی تو پورا ہال تالیوں سے گونج اُٹھا۔

ہنرمندی کے قومی مقابلے اسلام آباد میں پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس کے سبزہ زار پر منعقد ہوئے، جسمیں ہزاروں نوجوانوں نے شرکت کی، معروف صنعتکار، سفارتکار بھی بڑی تعداد میں شریک ہوئے۔ TAFEکے سی ای او کریگ روبرٹسن ہماری دعوت پر آسٹریلیا سے تشریف لائے۔ ملک بھر سے آئے ہوئے نوجوانوں نے غیر معمولی ہنر کا مظاہرہ کیا۔ فیشن ڈیزائننگ کے مقابلوں میں چیمپئن بننے والی طیبہ منوّر کا نام پکارا گیا تو اس کی آنکھیں خوشی کے آنسوؤں سے بھرگئیں۔ کُکنگ کا مقابلہ بہت سخت تھا۔

کُکنگ کی نیشنل چیمئن شپ عائشہ مرزا نے جیتی۔ پلمبنگ کے مقابلوں میں ہارون آباد کے محمد اسماعیل نے اوّل پوزیشن حاصل کرکے ایک لاکھ روپے کا انعام جیتااور ہیوی مشینری آپریٹر کے مقابلوں میں کاشان ممتاز چیمپئن قرار پائے۔ ہنرمندی کے مقابلوں کی تقریب فن میلے کا رنگ اختیار کرگئی، کہیںپولیس بینڈاپنی دھنیں بکھیر رہا تھا کہیں نیازی برادران قومی نغمے سنارہے تھے، موٹروے پولیس کے محمود کھوکھر نے اسٹیج سیکریٹری کے طور پر خوب رنگ جمایا، وسیع لان میں مہمان گھوم پھر کر نوجوانوں کے ہنر کا مظاہرہ دیکھ رہے تھے۔

آفتاب غروب ہونے لگا تو برقی قمقمے چمک اُٹھے شام کے وقت نتائج موصول ہونا شروع ہوئے غیر ملکی سفیروں، اخبارات کے مدیروں، صنعتکاروں اور اعلیٰ حکام کو اسٹیج پر بلایا جاتا اور وہ آکر نتائج کا اعلان کرتے، جسکے ساتھ ہی جیتنے والوں کے ساتھی زبردست تالیوں اور نعروں سے خوشی کا اظہار کرتے۔ جیتنے والے خوش قسمت اسٹیج پر آتے، ہا تھ لہراتے اور اپنے جذبات کا اظہار کرتے۔ ان ہنرمندوں کو انعامات دینے کی تقریب انشااﷲتیس اکتوبر کو ایوانِ صدر میں ہوگی اور صدرِمملکت اپنے ہاتھوں سے ان قابلِ فخر نوجوانوں کو انعامات دیں گے۔

تقریب کے دوران کئی صنعتکار اور دانشور کہتے رہے "آپ نوجوانوں کو ورکشاپوں سے اٹھا کر فائیو اسٹار ہوٹلوں اور گورنر ہاؤسوں میں لے آئے ہیں جس سے ان کی خود اعتمادی اور جوش و جنون میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ مقابلے جیتنے والے پروقار تقریبات میں ملک کی اہم ترین شخصیات سے انعامات حاصل کرتے ہیں جس سے نوجوانوں کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے اور پورے سیکٹر کو Recognition اورRespectability ملی ہے۔ اب کمتری کے داغ دھل رہے ہیں اور اس شعبے کے ساتھ وابستہ Stigmas بڑی تیزی سے دور ہورہے ہیں"۔
Load Next Story