دھان کے تین دانے
ایسا نہیں ہے کہ یہ سب کچھ ہمارے دیہاتوں، قصبوں یا غریب گھوں میں ہوتا ہے۔
میں خوش نصیب ہوں کہ بیٹیوں والی ہوں اور اسے بھی اپنی خوش بختی خیال کرتی ہوں کہ میری بیٹی اور بہو دونوں کی پہلی اولاد بیٹی ہے۔ بیٹیاں ایک ایسا خزانہ ہیں جو اپنی ماؤں کا آخری سانس تک ساتھ دیتی ہیں۔ اس میں غربت اور امارت کی کوئی تخصیص نہیں۔ میں نے دیکھا ہے کہ بیٹیاں اگر مختصر حال ہوں تب بھی ماں کے لیے کُٹے ہوئے گڑ پر گھی کی چند بوند ڈال کر اور روٹی میں دل کی گرم جوشی گوندھ کر لے آتی ہیں۔ جس طرح ماں کے ہاتھ کے نوالے کی مٹھاس ہم عمر بھر نہیں بھولتے، اسی طرح آتی جاتی سانس کا خنجر جب حیات کا ٹانکا ادھیڑ رہا ہوتا ہے اس وقت بیٹیوں کے ہاتھ سے گرم چائے یا ٹھنڈے پانی کا گھونٹ، ماؤں کی رخصت سہل کردیتا ہے۔
یہ تمام باتیں اس لیے دھیان میں آرہی ہیں کہ صبح شام یہ سنتی، دیکھتی اور پڑھتی ہوں کہ بہت سے گھروں میں بیٹیوں کی پیدائش سوگ کا سماں باندھ دیتی ہے۔ یہ خبریں کچھ نئی نہیں کہ بیٹی پیدا کرنے کے جرم میں ماں قتل کردی گئی اور یہ بھی حیرت کی بات نہیں کہ پیدا ہونے والی کو باپ نے ہلاک کردیا۔ پہلے یہ خبریں کم آتی تھیں، شاید اس لیے کہ اخبارات اور ٹیلی وژن کا اتنے بڑے پیمانے پر پھیلاؤ نہیں ہوا تھا لیکن اب یہ اس قدر تواتر سے آتی ہیں کہ ان پر حیرت بھی نہیں ہوتی۔
لڑکیاں بیاہ کر جائیں اور اُمید سے ہوں تو وہ خود اور ان کی ماؤں کا دم سولی پر رہتا ہے کہ کہیں بیٹی نہ ہوجائے، جیسے بیٹی کا ہونا کوئی جرم ہے۔ یہ بات لاکھ سمجھائی جائے کہ بیٹی کی پیدائش کا سبب ماں نہیں، باپ ہوتا ہے، لیکن اس سادہ سی سائنسی بات کو لوگ سننے اور سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ شوہر کے گھر کی خواتین بھی اس بارے میں ظالمانہ رویہ اختیار کرتی ہیں۔
سائنس کی ترقی کے ساتھ الٹراساؤنڈ کی سہولت نے لڑکیوں کے لیے دشمن جاں کا کردار ادا کیا ہے۔ اب یہ ممکن ہوگیا ہے کہ چند ہفتوں کے بعد ڈاکٹر یہ بتا سکے کہ آنے والی جان، لڑکی ہے یا لڑکا۔ عموماً ڈاکٹر اس بات سے گریز کرتی ہیں کہ وہ بچے کی جنس کے بارے میں بتائیں لیکن وہ بھی ہیں جو باپ کو یہ بتا دیتی ہیں۔
الٹراساؤنڈ سے پہلے، پیدائش کے فوراً بعد بچیوں کو ہلاک کرنے کا فرض دائی یا خاندان کی کوئی بزرگ عورت ادا کرتی تھی۔ جنوبی ہندوستان میں دائیاں لڑکیوں کے منہ میں دھان کے تین دانے رکھ دیتی تھیں۔ پیدا ہونے والی کے حلق میں یہ دانے اگر نہ پھنسیں اور وہ کسی طرح اسے نگل گئی تو پھر اس بچی کو زندہ رہنے دیا جاتا تھا کہ یہ دیوتاؤں کی مرضی تھی، دوسری صورت میں بچی کی ہلاکت دھان کے ان تین دانوں کے سر جاتی تھی۔ گیلا کپڑا بچی کے منہ پر اس کا دم گھونٹ دینا بھی نوزائیدہ سے نجات حاصل کرنے کا ایک طریقہ تھا۔
آج بھی ہم بہت سی ایسی خبریں پڑھتے ہیں جن میں بتایا جاتا ہے کہ باپ نے پٹخ کر یا گلا گھونٹ کر بیٹی کا کام تمام کیا۔ پچھلے دنوں ایک خبر یہ بھی آئی تھی کہ باپ کو بیٹی کی صورت نہیں بھائی تھی، اس کا خیال تھا کہ وہ بڑی ہوگی تو کون اس سے شادی کرے گا، چنانچہ اس نے چند دنوں کی بچی کو ہلاک کرنا ہی مناسب سمجھا۔ ایسے موقعوں پر وہ مائیں جو اپنی بیٹی کے قتل میں آڑے آتی ہیں، ان پر شوہر اور بعض حالات میں سسرال کی طرف سے تشدد کیا جاتا ہے۔ بہت سی مائیں ایسی بھی ہوتی ہیں جو آنسو بہا کر خاموش رہتی ہیں۔ وہ جانتی ہیں کہ ان کی بیٹی اگر بچ بھی جائے تو اس کے ساتھ کس قدر ظالمانہ سلوک ہوگا۔
ایسا نہیں ہے کہ یہ سب کچھ ہمارے دیہاتوں، قصبوں یا غریب گھوں میں ہوتا ہے۔ پڑھے لکھے خاندان بھی اس نوعیت کے سلوک میں بہت پیچھے نہیں۔ پچھلے دنوں ذکیہ مشہدی کا ایک طویل افسانہ پڑھا تھا جس میں ایک مسلمان اور ایک ہندو لڑکی، گہری سہیلیاں ہیں۔ ہندو لڑکی اعلیٰ تعلیم یافتہ اور دولت مند گھرانے سے تعلق رکھتی ہے لیکن جب تین بار بہ جبر وہ اپنی بیٹی کی پیدائش سے پہلے ہی اس سے محروم کی جاتی ہے تو چوتھی مرتبہ وہ خودکشی کرلیتی ہے۔ یہ دل دہلادینے والی ایک ایسی کہانی ہے جو پڑھنے کے بعد بھلائی نہیں جاسکتی۔ ہندوستان میں نوزائیدہ بچیوں کی ہلاکت کا ایک سبب جہیز کی لعنت بھی ہے۔ باپ اور خاندان کے مرد بیٹی کے جہیز کا بوجھ اٹھانے سے کہیں بہتر یہی سمجھتے ہیں کہ اس سے پہلے دوسرے دن ہی نجات حاصل کر لی جائے۔ یہ روایت آج کے چین میں بھی موجود ہے اور نیپال بھی نوزائیدہ بچیوں کی ہلاکت کی فہرست میں بہت آگے ہے۔
چارلس ڈارون نے 1871 میں آسٹریلیا کے قبائل کے بارے میں لکھا تھا کہ ان کے یہاں پیدائش کے فوراً بعد بچیوں کو ہلاک کردینا ایک عام سی بات تھی۔ باربرا ملر نے اپنی تحقیق سے یہ ثابت کیا کہ مغرب کے وہ علاقے جہاں عورتیں زراعت کے کاموں میں مردوں کا ہاتھ اس لیے نہیں بٹاتی تھیں کہ یہ وہاں کا رواج تھا۔ ایسے علاقوں میں بھی بہت سی نوزائیدہ بچیوں کو ہلاک کردیا جاتا تھا۔ باپ خاندان کا سربراہ ہوتا تھا اور اس کے خیال میں بیٹی کا گھریلو آمدنی میں اضافے کے سلسلے میں کوئی کردار نہیں تھا اور اس پر سے اگر اس کی شادی ہو تو اسے جہیز بھی دینا پڑتا تھا۔
دوسرے لفظوں میں یہ کہہ لیجیے کہ سارا معاملہ معیشت سے جڑا ہوا تھا۔ معاشیات میں نوبل انعام لینے والے امریتا سین کا 1990 میں نیویارک ریویو آف بکس میں ایک مضمون شایع ہوا تھا جس میں انھوں نے لکھا تھا کہ ایشیا میں (ان کی مراد ہندوستان، پاکستان، چین اور نیپال سے تھی) 10 کروڑ عورتیں/ لڑکیاں کم ہیں۔ یہ کمی اسقاط، نوزائیدہ لڑکیوں کے قتل، ان کو اگر زندہ رہنے دیا جائے تو انھیں نا کافی اور ناقص غذا پر رکھنا، وہ تمام وجوہ ہیں جو ان کی قبل از وقت ہلاکت کا سبب بنتی ہیں۔
ہندوستان میں نوازائیدہ بچیوں سے جس طرح 'نجات' حاصل کی جاتی ہے، اس کے بارے میں اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اسے ایک ایسا ملک قرار دیا جاسکتا ہے جہاں 'نوزائیدہ بچیوں کا قتل عام' ہوتا ہے۔ ادارے کا کہنا تھا کہ 2012 میں ایک سے پانچ برس کی عمر کی بچیوں کی موت کا تناسب اسی عمر کے لڑکوں کی نسبت 75 فیصد زیادہ ہے۔ بچیوں کے حقوق کی ہندوستانی تنظیم 'کرائی' کا کہنا ہے کہ پیدا ہونے والی ایک کروڑ بیس لاکھ بچیوں میں سے دس لاکھ اپنی پیدائش کے پہلے برس میں ختم ہوجاتی ہیں۔
پاکستان کے بارے میں سی این این نے رپورٹ کیا تھا کہ کچرے کے ڈھیر سے جو 10 نوزائیدہ لاشیں ملتی ہیں، ان میں سے 9 بچیاں ہوتی ہیں۔ اس نے ایدھی فاؤنڈیشن سے ملنے والے اعداد و شمار کا بھی حوالہ دیا تھا۔ تاہم یہ بات ہمارے لیے بڑی حد تک اطمینان کا سبب ہے کہ پاکستان میں نوزائیدہ بچیوں کے اسقاط یا پیدائش کے بعد ان کی ہلاکت نے وبائی صورت نہیں اختیار کی ہے۔ ایک عالمی ادارےDCAF نے اس موضوع پر دل ہلادینے والی فلم بنائی ہے۔ 2012 میں It's a Girl: The Three Deadliest Words in the World ریلیز ہوئی جس میں بہت سے انٹرویو شامل ہیں۔ ان ہی میں سے ایک انٹرویو اس ہندوستانی عورت کا بھی تھا جس نے اس بات کا اعتراف کیا کہ وہ اپنی 8 بیٹیوں سے نجات حاصل کرچکی ہے۔
یہی وہ معاملات ہیں جنہوں نے عالمی سطح پر خواتین اور مرد دانشوروں کو سر جوڑ کر بیٹھنے اور بچیوں کے لیے کچھ کرنے پر اُکسایا۔ بچیوں کو بچانے کے خواہش مند اس کرۂ ارض کے ہر گھر میں جاکر لڑکیوں کی حفاظت نہیں کرسکتے لیکن وہ یہ تو کرسکتے ہیں کہ ان کو اجتماعی طور پر تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کریں۔ ماں باپ اور خاندان کو یہ بتائیں کہ بیٹیاں کیسا انمول خزانہ ہیں۔ 11 اکتوبر 2012 کو اقوام متحدہ نے اعلان کیا کہ آج کا دن لڑکیوں کا عالمی دن ہوگا۔ ان کی زندگی کی حفاظت، ان کی صحت، تعلیم، مناسب خوراک، کم عمری میں شادی پر قانونی بندش اور ان کے قانونی حقوق، اس ریاست کی ذمے داری ٹہرائے گئے جہاں وہ پیدا ہوئیں۔ اب یہ دن ہر سال منایا جارہا ہے۔
لڑکیوں کے اس عالمی دن کو ہر سال منانے کا مقصد لوگوں میں اس شعور کو عام کرنا ہے کہ اپنی بیٹیوں کو جسمانی اور جنسی تشدد سے بچائیے، انھیں تعلیم اور ہنر دیجیے تاکہ وہ خاندان اور اپنے سماج کے لیے پیداواری قوت بن سکیں۔
اس وقت دنیا میں ایک ارب 10 کروڑ بچیاں ہیں جو اپنے اپنے خطوں، ملکوں اور سماجوں کو مستحکم بنیادوں پر قائم کرنے میں بہت اہم حصہ لے سکتی ہیں۔ دنیا کے تمام ملکوں اور خاندانوں کو یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ ان کی بیٹیاں ان کے لیے ایک اثاثہ ہیں۔ نفسیاتی، معاشی اور جذباتی اعتبار سے ایک انمول خزانہ۔ ان کی قدر کیجیے، ان کو تحفظ اور تعلیم کی دولت دیجیے، وہ آپ کو گرم جوشی سے مالا مال کردیں گی۔ الٹرا ساؤنڈ رپورٹ یا دھان کے تین دانے ان کا مقدر کیوں ہوں؟
یہ تمام باتیں اس لیے دھیان میں آرہی ہیں کہ صبح شام یہ سنتی، دیکھتی اور پڑھتی ہوں کہ بہت سے گھروں میں بیٹیوں کی پیدائش سوگ کا سماں باندھ دیتی ہے۔ یہ خبریں کچھ نئی نہیں کہ بیٹی پیدا کرنے کے جرم میں ماں قتل کردی گئی اور یہ بھی حیرت کی بات نہیں کہ پیدا ہونے والی کو باپ نے ہلاک کردیا۔ پہلے یہ خبریں کم آتی تھیں، شاید اس لیے کہ اخبارات اور ٹیلی وژن کا اتنے بڑے پیمانے پر پھیلاؤ نہیں ہوا تھا لیکن اب یہ اس قدر تواتر سے آتی ہیں کہ ان پر حیرت بھی نہیں ہوتی۔
لڑکیاں بیاہ کر جائیں اور اُمید سے ہوں تو وہ خود اور ان کی ماؤں کا دم سولی پر رہتا ہے کہ کہیں بیٹی نہ ہوجائے، جیسے بیٹی کا ہونا کوئی جرم ہے۔ یہ بات لاکھ سمجھائی جائے کہ بیٹی کی پیدائش کا سبب ماں نہیں، باپ ہوتا ہے، لیکن اس سادہ سی سائنسی بات کو لوگ سننے اور سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ شوہر کے گھر کی خواتین بھی اس بارے میں ظالمانہ رویہ اختیار کرتی ہیں۔
سائنس کی ترقی کے ساتھ الٹراساؤنڈ کی سہولت نے لڑکیوں کے لیے دشمن جاں کا کردار ادا کیا ہے۔ اب یہ ممکن ہوگیا ہے کہ چند ہفتوں کے بعد ڈاکٹر یہ بتا سکے کہ آنے والی جان، لڑکی ہے یا لڑکا۔ عموماً ڈاکٹر اس بات سے گریز کرتی ہیں کہ وہ بچے کی جنس کے بارے میں بتائیں لیکن وہ بھی ہیں جو باپ کو یہ بتا دیتی ہیں۔
الٹراساؤنڈ سے پہلے، پیدائش کے فوراً بعد بچیوں کو ہلاک کرنے کا فرض دائی یا خاندان کی کوئی بزرگ عورت ادا کرتی تھی۔ جنوبی ہندوستان میں دائیاں لڑکیوں کے منہ میں دھان کے تین دانے رکھ دیتی تھیں۔ پیدا ہونے والی کے حلق میں یہ دانے اگر نہ پھنسیں اور وہ کسی طرح اسے نگل گئی تو پھر اس بچی کو زندہ رہنے دیا جاتا تھا کہ یہ دیوتاؤں کی مرضی تھی، دوسری صورت میں بچی کی ہلاکت دھان کے ان تین دانوں کے سر جاتی تھی۔ گیلا کپڑا بچی کے منہ پر اس کا دم گھونٹ دینا بھی نوزائیدہ سے نجات حاصل کرنے کا ایک طریقہ تھا۔
آج بھی ہم بہت سی ایسی خبریں پڑھتے ہیں جن میں بتایا جاتا ہے کہ باپ نے پٹخ کر یا گلا گھونٹ کر بیٹی کا کام تمام کیا۔ پچھلے دنوں ایک خبر یہ بھی آئی تھی کہ باپ کو بیٹی کی صورت نہیں بھائی تھی، اس کا خیال تھا کہ وہ بڑی ہوگی تو کون اس سے شادی کرے گا، چنانچہ اس نے چند دنوں کی بچی کو ہلاک کرنا ہی مناسب سمجھا۔ ایسے موقعوں پر وہ مائیں جو اپنی بیٹی کے قتل میں آڑے آتی ہیں، ان پر شوہر اور بعض حالات میں سسرال کی طرف سے تشدد کیا جاتا ہے۔ بہت سی مائیں ایسی بھی ہوتی ہیں جو آنسو بہا کر خاموش رہتی ہیں۔ وہ جانتی ہیں کہ ان کی بیٹی اگر بچ بھی جائے تو اس کے ساتھ کس قدر ظالمانہ سلوک ہوگا۔
ایسا نہیں ہے کہ یہ سب کچھ ہمارے دیہاتوں، قصبوں یا غریب گھوں میں ہوتا ہے۔ پڑھے لکھے خاندان بھی اس نوعیت کے سلوک میں بہت پیچھے نہیں۔ پچھلے دنوں ذکیہ مشہدی کا ایک طویل افسانہ پڑھا تھا جس میں ایک مسلمان اور ایک ہندو لڑکی، گہری سہیلیاں ہیں۔ ہندو لڑکی اعلیٰ تعلیم یافتہ اور دولت مند گھرانے سے تعلق رکھتی ہے لیکن جب تین بار بہ جبر وہ اپنی بیٹی کی پیدائش سے پہلے ہی اس سے محروم کی جاتی ہے تو چوتھی مرتبہ وہ خودکشی کرلیتی ہے۔ یہ دل دہلادینے والی ایک ایسی کہانی ہے جو پڑھنے کے بعد بھلائی نہیں جاسکتی۔ ہندوستان میں نوزائیدہ بچیوں کی ہلاکت کا ایک سبب جہیز کی لعنت بھی ہے۔ باپ اور خاندان کے مرد بیٹی کے جہیز کا بوجھ اٹھانے سے کہیں بہتر یہی سمجھتے ہیں کہ اس سے پہلے دوسرے دن ہی نجات حاصل کر لی جائے۔ یہ روایت آج کے چین میں بھی موجود ہے اور نیپال بھی نوزائیدہ بچیوں کی ہلاکت کی فہرست میں بہت آگے ہے۔
چارلس ڈارون نے 1871 میں آسٹریلیا کے قبائل کے بارے میں لکھا تھا کہ ان کے یہاں پیدائش کے فوراً بعد بچیوں کو ہلاک کردینا ایک عام سی بات تھی۔ باربرا ملر نے اپنی تحقیق سے یہ ثابت کیا کہ مغرب کے وہ علاقے جہاں عورتیں زراعت کے کاموں میں مردوں کا ہاتھ اس لیے نہیں بٹاتی تھیں کہ یہ وہاں کا رواج تھا۔ ایسے علاقوں میں بھی بہت سی نوزائیدہ بچیوں کو ہلاک کردیا جاتا تھا۔ باپ خاندان کا سربراہ ہوتا تھا اور اس کے خیال میں بیٹی کا گھریلو آمدنی میں اضافے کے سلسلے میں کوئی کردار نہیں تھا اور اس پر سے اگر اس کی شادی ہو تو اسے جہیز بھی دینا پڑتا تھا۔
دوسرے لفظوں میں یہ کہہ لیجیے کہ سارا معاملہ معیشت سے جڑا ہوا تھا۔ معاشیات میں نوبل انعام لینے والے امریتا سین کا 1990 میں نیویارک ریویو آف بکس میں ایک مضمون شایع ہوا تھا جس میں انھوں نے لکھا تھا کہ ایشیا میں (ان کی مراد ہندوستان، پاکستان، چین اور نیپال سے تھی) 10 کروڑ عورتیں/ لڑکیاں کم ہیں۔ یہ کمی اسقاط، نوزائیدہ لڑکیوں کے قتل، ان کو اگر زندہ رہنے دیا جائے تو انھیں نا کافی اور ناقص غذا پر رکھنا، وہ تمام وجوہ ہیں جو ان کی قبل از وقت ہلاکت کا سبب بنتی ہیں۔
ہندوستان میں نوازائیدہ بچیوں سے جس طرح 'نجات' حاصل کی جاتی ہے، اس کے بارے میں اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اسے ایک ایسا ملک قرار دیا جاسکتا ہے جہاں 'نوزائیدہ بچیوں کا قتل عام' ہوتا ہے۔ ادارے کا کہنا تھا کہ 2012 میں ایک سے پانچ برس کی عمر کی بچیوں کی موت کا تناسب اسی عمر کے لڑکوں کی نسبت 75 فیصد زیادہ ہے۔ بچیوں کے حقوق کی ہندوستانی تنظیم 'کرائی' کا کہنا ہے کہ پیدا ہونے والی ایک کروڑ بیس لاکھ بچیوں میں سے دس لاکھ اپنی پیدائش کے پہلے برس میں ختم ہوجاتی ہیں۔
پاکستان کے بارے میں سی این این نے رپورٹ کیا تھا کہ کچرے کے ڈھیر سے جو 10 نوزائیدہ لاشیں ملتی ہیں، ان میں سے 9 بچیاں ہوتی ہیں۔ اس نے ایدھی فاؤنڈیشن سے ملنے والے اعداد و شمار کا بھی حوالہ دیا تھا۔ تاہم یہ بات ہمارے لیے بڑی حد تک اطمینان کا سبب ہے کہ پاکستان میں نوزائیدہ بچیوں کے اسقاط یا پیدائش کے بعد ان کی ہلاکت نے وبائی صورت نہیں اختیار کی ہے۔ ایک عالمی ادارےDCAF نے اس موضوع پر دل ہلادینے والی فلم بنائی ہے۔ 2012 میں It's a Girl: The Three Deadliest Words in the World ریلیز ہوئی جس میں بہت سے انٹرویو شامل ہیں۔ ان ہی میں سے ایک انٹرویو اس ہندوستانی عورت کا بھی تھا جس نے اس بات کا اعتراف کیا کہ وہ اپنی 8 بیٹیوں سے نجات حاصل کرچکی ہے۔
یہی وہ معاملات ہیں جنہوں نے عالمی سطح پر خواتین اور مرد دانشوروں کو سر جوڑ کر بیٹھنے اور بچیوں کے لیے کچھ کرنے پر اُکسایا۔ بچیوں کو بچانے کے خواہش مند اس کرۂ ارض کے ہر گھر میں جاکر لڑکیوں کی حفاظت نہیں کرسکتے لیکن وہ یہ تو کرسکتے ہیں کہ ان کو اجتماعی طور پر تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کریں۔ ماں باپ اور خاندان کو یہ بتائیں کہ بیٹیاں کیسا انمول خزانہ ہیں۔ 11 اکتوبر 2012 کو اقوام متحدہ نے اعلان کیا کہ آج کا دن لڑکیوں کا عالمی دن ہوگا۔ ان کی زندگی کی حفاظت، ان کی صحت، تعلیم، مناسب خوراک، کم عمری میں شادی پر قانونی بندش اور ان کے قانونی حقوق، اس ریاست کی ذمے داری ٹہرائے گئے جہاں وہ پیدا ہوئیں۔ اب یہ دن ہر سال منایا جارہا ہے۔
لڑکیوں کے اس عالمی دن کو ہر سال منانے کا مقصد لوگوں میں اس شعور کو عام کرنا ہے کہ اپنی بیٹیوں کو جسمانی اور جنسی تشدد سے بچائیے، انھیں تعلیم اور ہنر دیجیے تاکہ وہ خاندان اور اپنے سماج کے لیے پیداواری قوت بن سکیں۔
اس وقت دنیا میں ایک ارب 10 کروڑ بچیاں ہیں جو اپنے اپنے خطوں، ملکوں اور سماجوں کو مستحکم بنیادوں پر قائم کرنے میں بہت اہم حصہ لے سکتی ہیں۔ دنیا کے تمام ملکوں اور خاندانوں کو یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ ان کی بیٹیاں ان کے لیے ایک اثاثہ ہیں۔ نفسیاتی، معاشی اور جذباتی اعتبار سے ایک انمول خزانہ۔ ان کی قدر کیجیے، ان کو تحفظ اور تعلیم کی دولت دیجیے، وہ آپ کو گرم جوشی سے مالا مال کردیں گی۔ الٹرا ساؤنڈ رپورٹ یا دھان کے تین دانے ان کا مقدر کیوں ہوں؟