ٹیکنوکریٹ حکومت… امکانات اور خدشات
پاکستان نے اپنی زندگی کے 30 سال سے زائد مارشل لاء کے سائے میں گزارے۔
KARACHI:
حالیہ دنوں میں اسلام آباد کی فضاؤں،اخبارات کی سرخیوں اور محترم اینکر پرسنز اور پھر ہر موضوع پرخود اعتمادی سے گفتگو کرتے تجزیہ کاروں کی زبان سے نکلنے والے جملے اس بات کی نوید سنا رہے ہیں، پاکستان کے تمام مسائل کا حل بوتل میں بند ہے جیسے ہی جن بوتل باہر نکلے گا، پاکستان کے تمام مسائل راتوں رات حل ہو جائیں گے۔
دانشوران قوم اور تجزیہ کار اِس جن کو ٹیکنوکریٹس حکومت کا نام دے رہے ہیں۔ اس تناظر میں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ شاید الیکشن دو تین سال کے لیے ملتوی ہوجائیں اوریہ کہہ کر بھی ڈرایا جارہا ہے کہ 2018ء میں الیکشن ہوتے ہوئے نظر نہیں آرہے۔اس طرح کاماحول اور ذہن بنانے والے تجزیہ کار اور سیاستدان یہ نہیں بتا رہے کہ الیکشن کیوں ملتوی کیے جائیں گے۔الیکشن ملتوی کرنے سے پاکستان کے سیاسی نظام میں کیا تبدیلی آئے گی؟ ملک میں پھرکب الیکشن ہوں گے؟ اگر الیکشن ملتوی ہوئے تو ملک کیسے چلے گا؟کیا ایک اور مارشل لاء آئے گا؟ یا پھر ٹیکنوکریٹس حکومت قائم ہوگی؟ اگر ملک الیکشن اور جمہوریت کا متحمل نہیں ہوسکتا تو پھر مارشل لاء اور ٹیکنوکریٹس حکومت کا کیسے متحمل ہوسکتا ہے؟ پاکستان پہلے بھی چارمارشل لاء کا بوجھ اْٹھا چکا ہے۔کیا ان تیس برسوں میں ملک کے تمام مسائل حل کرلیے گئے تھے؟
پاکستان میں مارشل لاء کی تاریخ بہت تلخ ہے، اکتوبر 1958ء میں ایوب خان نے ملک میں پہلا مارشل لاء نافذکیا اور جواز یہ دیا گیا کہ سیاستدان ناکام ہوچکے تھے۔ آج بھی یہی بات کہی جا رہی ہے کہ پاکستان کے سیاستدان کرپشن میں ملوث ہیں جس کی وجہ سے پاکستان اقتصادی اور معاشی طور پرکمزور ہو رہا ہے۔ جب پہلا مارشل لاء نافذ کیا گیا اس وقت لوگ مارشل لاء کے لفظ سے بھی آشنا نہیں تھے۔ مارشل لاء کے سخت قوانین، فوجی عدالتوں اور سخت سزاؤں کی خوف سے پہلے مارشل لاء کو برداشت کرگئے۔ 11 سال بعد 25 مارچ کو ایوب خان نے عوامی تحریک کے نتیجے میں اقتدار چھوڑا تو عنان حکومت اسپیکر قومی اسمبلی کے حوالے کرنے کی بجائے، جنرل یحییٰ خان کے حوالے کردی۔ یوں ملک دوسرے مارشل لاء کی زد میں آگیا ۔1962ء کا آئین منسوخ کردیا گیا۔
سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد جنرل یحییٰ خان نے اقتدار ذوالفقارعلی بھٹوکے حوالے کر دیا۔ 1970ء کے الیکشن کی بنیاد پر باقی ماندہ پاکستان میں بھٹوکی حکومت قائم ہوئی اور ایک بار پھر ملک جمہوری سفر پرگامزن ہوا جس سفرکو 1958ء میں روک دیا گیا تھا۔ بھٹو نے مارشل لاء کا راستہ روکنے کے لیے 1973ء کے آئین میں یہ درج کروا دیا کہ آئین توڑنے کی سزا، سزائے موت ہوگی۔
اس کے باوجود 9 ستاروں نے ایک نئے مارشل کی لا راہ ہموارکی۔ 5 جولائی 1977ء کو جنرل ضیا نے ملک میں تیسرا مارشل لاء لگایا اورآئین کی بہت سی شقوں کو معطل کردیا۔ پہلے اور دوسرے مارشل لاء کے نتیجے میں ملک دولخت ہوا اور تیسرے مارشل لاء میں 1973ء کے آئین کے خالق ذوالفقارعلی بھٹوکو پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا گیا۔ جنرل ضیا الحق کی فوجی حکومت 11 سال برقرار رہی۔ جنرل ضٰیاالحق نے تاریخ سے یہ سبق سیکھا تھاکہ وردی کے بغیر حکومت زیادہ دیر تک برقرار نہیں رہ سکتی۔ لہٰذا انھوں نے مرتے دم تک وردی نہیں اتاری اور 17 اگست 1988ء کو جنرل ضیا الحق ایک فضائی حادثے میں جان سے گزرے۔ 1989ء کے انتخابات کے بعد ملک میں ایک بار پھر جمہوری سفرکا آغاز ہوا، لیکن قدرت کی ستم ظریفی دیکھیں کہ ملک 11 سال بعد پھر مارشل لاء کی زد میں آگیا۔
12 اکتوبر 1999ء کو منتخب وزیراعظم نواز شریف کی حکومت برطرف کردی گئی اورانھیں گرفتارکرلیا گیا۔ مختصر عرصے کی عدالتی کارروائی کے بعد نوازشریف کو ہائی جیکنگ کیس میں سزا سنائی گئی، مگر سعودی عرب کے دباؤ پر نا صرف سزا معاف کی گئی بلکہ انھیں خاندان سمیت ایک معاہدے کے تحت ملک سے جانے کی اجازت بھی دی گئی۔ پرویز مشرف بھی فوجی وردی کو اپنی طاقت سمجھتے تھے و ہ بھی اپنی وردی اْتارنے کے لیے تیار نہیں تھے وہ وردی کو اپنی کھال کہا کرتے تھے۔ بالاخر 28 نومبر 2007ء کو غیر ملکی دباؤ اوراندرونی سازشوں کی وجہ سے مشرف کو وردی اتارنا ہی پڑی۔ تمام تر کوششوں کے باوجود وہ اپنی کنگ پارٹی مسلم لیگ ق کو 2008ء کے انتخابات میں کامیاب کرنے میں ناکام رہے۔ پرویز مشرف نے مواخذہ کی کارروائی سے بچنے کے لیے 18 اگست 2008ء کو استعفیٰ دے دیا، یوں ملک پر مسلط چوتھے مارشل لاکا خاتمہ ہوا۔
حقیقت پسندی سے جائزہ لیا جائے تو توملک میں نافذ کیے گئے چاروں مارشل لاء کی قطعی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ پاکستان نے اپنی زندگی کے 30 سال سے زائد مارشل لاء کے سائے میں گزارے۔ مارشل لاء کی وجہ سے جمہوری سفر بار بار رکتا رہا اگر جمہوریت کو پٹری سے اتارنے، سیاست دانوں کو قید و بند کرنے، ایمرجنسی نافذ کرنے اور آئین معطل کر نے سے معاملات بہتر ہوتے، ملک ترقی کی سمیت کی جانب گامزن ہوتا، غربت کا خاتمہ ہوتا، معیشت بہتر ہوتی، ایک عام انسان کی زندگی میں مثبت تبدیلی کے اثرات نمایاں ہوتے تو مارشل لاء کو مثبت تبدیلی کی علامات سمجھتے ہوئے قبول کیا جاسکتا تھا، مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا ڈکٹیٹر نے اقتدار پر قبضہ کرتے ہوئے قوم سے جو بھی وعدے کیے ان وعدوں کو کبھی وفا نہیں کیا۔
ماضی کے تلخ تجربات کے باوجود سیاست دان ناجانے کیوں مشکل وقت میں مارشل لاء اور ٹیکنوکریٹس حکومت کے بارے میں سوچنے لگتے ہیں بلکہ اشاروں اورکنایوں سے فوج کو اقتدار میں آ نے کی دعوت دیتے نظرآتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی جانب سے انتخابی اصلاحات کی بات کی جارہی ہے مگرکسی بھی جماعت کی طرف سے بلیک اینڈ وائٹ پیپر سامنے نہیں آیا کہ انتخابات سے پہلے کس طرح کی تبدیلیاں کی جائیں کہ ملک بھر میں شفاف اور غیر جانب دار الیکشن کا انعقاد ممکن ہوسکے۔صرف اس بنیاد پرکہ انتخابات میں دھاندلی ہوتی ہے لہٰذا انتخابات کو دو تین سال کے لیے ملتوی کردیا جائے۔
کب تک اس ڈر سے الیکشن کو روکا جاسکتا ہے۔ ہم کسی کی جیت کو تسلیم نہیں کرتے اور اپنی ہارکو قبول نہیں کرتے یہ ہمارے معاشرے کا اجتماعی مزاج بن گیا ہے۔ الیکشن سے فرار اور ٹیکنوکریٹس حکومت کا خواہش وہ سیاستدان اور وہ جماعتیں کررہی ہیں جنھیں آیندہ انتخابات میں اپنی کامیابی کی امید نہیں ہے۔ ان حلقوں کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ الیکشن ملتوی ہوسکتے ہیں، ٹیکنوکریٹس حکومت قائم ہوسکتی ہے۔
کیا ٹیکنو کریٹس کی حکومت الیکشن کا متبادل ہے؟کیا ٹیکنوکریٹ حکومت جمہوریت کا متبادل ہوسکتا ہے؟ اگر تین سال کی ٹیکنو کریٹ حکومت بن بھی جاتی ہے پھر بھی بعد الیکشن کروانے ہی پڑیں گے۔ عوام کو کب تک اس کے جمہوری حق سے محروم رکھا جائے گا؟ 3 سال تک؟ 5 سال تک؟ 10 سال تک ؟ کبھی نہ کبھی تو الیکشن کروانے ہی ہوں گے تو پھر اب کیوں نہیں؟ کیا الیکشن کا التوا جمہوریت کوکمزور کرنے کی کوشش نہیں ہے۔ عوام چاہتی ہے کہ ملک میں الیکشن ہوں اورجمہوری عمل چلتا رہے۔ پاکستان کا حال اور مستقبل جمہوریت سے وابستہ ہے۔ پاکستان کی عوام نے کبھی مارشل لاء اور ٹیکنوکریٹ حکومت کو قبول نہیں کیا، یہی وجہ ہے کہ ایوب خان کے خلاف عوامی تحریک چلی ۔ جس کے نتیجے میں ان کواقتدار چھوڑکر جانا ہی پڑا۔
جنرل ضیا نے بینظیر بھٹو کا راستہ روکنے کی لاکھ کوشش کی مگر عوام نے بینظیر بھٹوکو وزیراعظم بنایا۔ پرویز مشرف دس سال کے لیے نواز شریف کو پاکستان سے باہر بھیج کر سمجھ رہے تھے کہ اب نوازشریف کی سیاست ختم ہوگی مگر وہ تیسری بار وزیر اعظم بن گئے۔ ٹیکنوکریٹ حکومت بنا کر آپ نہ کسی کا راستہ روک سکتے ہیں اور نہ سزائیں دے کر سیاستدانوں کو عوام سے دور کرسکتے ہیں۔ جمہوریت میں عوام ہی فیصلہ کرتے ہیں لہٰذا عوام کے فیصلوں کو تسلیم کیا جائے اور عوامی منڈیٹ کااحترام کیا جائے تاکہ ملک بھی ترقی کرے، ادارے بھی مضبوط ہوں۔
حالیہ دنوں میں اسلام آباد کی فضاؤں،اخبارات کی سرخیوں اور محترم اینکر پرسنز اور پھر ہر موضوع پرخود اعتمادی سے گفتگو کرتے تجزیہ کاروں کی زبان سے نکلنے والے جملے اس بات کی نوید سنا رہے ہیں، پاکستان کے تمام مسائل کا حل بوتل میں بند ہے جیسے ہی جن بوتل باہر نکلے گا، پاکستان کے تمام مسائل راتوں رات حل ہو جائیں گے۔
دانشوران قوم اور تجزیہ کار اِس جن کو ٹیکنوکریٹس حکومت کا نام دے رہے ہیں۔ اس تناظر میں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ شاید الیکشن دو تین سال کے لیے ملتوی ہوجائیں اوریہ کہہ کر بھی ڈرایا جارہا ہے کہ 2018ء میں الیکشن ہوتے ہوئے نظر نہیں آرہے۔اس طرح کاماحول اور ذہن بنانے والے تجزیہ کار اور سیاستدان یہ نہیں بتا رہے کہ الیکشن کیوں ملتوی کیے جائیں گے۔الیکشن ملتوی کرنے سے پاکستان کے سیاسی نظام میں کیا تبدیلی آئے گی؟ ملک میں پھرکب الیکشن ہوں گے؟ اگر الیکشن ملتوی ہوئے تو ملک کیسے چلے گا؟کیا ایک اور مارشل لاء آئے گا؟ یا پھر ٹیکنوکریٹس حکومت قائم ہوگی؟ اگر ملک الیکشن اور جمہوریت کا متحمل نہیں ہوسکتا تو پھر مارشل لاء اور ٹیکنوکریٹس حکومت کا کیسے متحمل ہوسکتا ہے؟ پاکستان پہلے بھی چارمارشل لاء کا بوجھ اْٹھا چکا ہے۔کیا ان تیس برسوں میں ملک کے تمام مسائل حل کرلیے گئے تھے؟
پاکستان میں مارشل لاء کی تاریخ بہت تلخ ہے، اکتوبر 1958ء میں ایوب خان نے ملک میں پہلا مارشل لاء نافذکیا اور جواز یہ دیا گیا کہ سیاستدان ناکام ہوچکے تھے۔ آج بھی یہی بات کہی جا رہی ہے کہ پاکستان کے سیاستدان کرپشن میں ملوث ہیں جس کی وجہ سے پاکستان اقتصادی اور معاشی طور پرکمزور ہو رہا ہے۔ جب پہلا مارشل لاء نافذ کیا گیا اس وقت لوگ مارشل لاء کے لفظ سے بھی آشنا نہیں تھے۔ مارشل لاء کے سخت قوانین، فوجی عدالتوں اور سخت سزاؤں کی خوف سے پہلے مارشل لاء کو برداشت کرگئے۔ 11 سال بعد 25 مارچ کو ایوب خان نے عوامی تحریک کے نتیجے میں اقتدار چھوڑا تو عنان حکومت اسپیکر قومی اسمبلی کے حوالے کرنے کی بجائے، جنرل یحییٰ خان کے حوالے کردی۔ یوں ملک دوسرے مارشل لاء کی زد میں آگیا ۔1962ء کا آئین منسوخ کردیا گیا۔
سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد جنرل یحییٰ خان نے اقتدار ذوالفقارعلی بھٹوکے حوالے کر دیا۔ 1970ء کے الیکشن کی بنیاد پر باقی ماندہ پاکستان میں بھٹوکی حکومت قائم ہوئی اور ایک بار پھر ملک جمہوری سفر پرگامزن ہوا جس سفرکو 1958ء میں روک دیا گیا تھا۔ بھٹو نے مارشل لاء کا راستہ روکنے کے لیے 1973ء کے آئین میں یہ درج کروا دیا کہ آئین توڑنے کی سزا، سزائے موت ہوگی۔
اس کے باوجود 9 ستاروں نے ایک نئے مارشل کی لا راہ ہموارکی۔ 5 جولائی 1977ء کو جنرل ضیا نے ملک میں تیسرا مارشل لاء لگایا اورآئین کی بہت سی شقوں کو معطل کردیا۔ پہلے اور دوسرے مارشل لاء کے نتیجے میں ملک دولخت ہوا اور تیسرے مارشل لاء میں 1973ء کے آئین کے خالق ذوالفقارعلی بھٹوکو پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا گیا۔ جنرل ضیا الحق کی فوجی حکومت 11 سال برقرار رہی۔ جنرل ضٰیاالحق نے تاریخ سے یہ سبق سیکھا تھاکہ وردی کے بغیر حکومت زیادہ دیر تک برقرار نہیں رہ سکتی۔ لہٰذا انھوں نے مرتے دم تک وردی نہیں اتاری اور 17 اگست 1988ء کو جنرل ضیا الحق ایک فضائی حادثے میں جان سے گزرے۔ 1989ء کے انتخابات کے بعد ملک میں ایک بار پھر جمہوری سفرکا آغاز ہوا، لیکن قدرت کی ستم ظریفی دیکھیں کہ ملک 11 سال بعد پھر مارشل لاء کی زد میں آگیا۔
12 اکتوبر 1999ء کو منتخب وزیراعظم نواز شریف کی حکومت برطرف کردی گئی اورانھیں گرفتارکرلیا گیا۔ مختصر عرصے کی عدالتی کارروائی کے بعد نوازشریف کو ہائی جیکنگ کیس میں سزا سنائی گئی، مگر سعودی عرب کے دباؤ پر نا صرف سزا معاف کی گئی بلکہ انھیں خاندان سمیت ایک معاہدے کے تحت ملک سے جانے کی اجازت بھی دی گئی۔ پرویز مشرف بھی فوجی وردی کو اپنی طاقت سمجھتے تھے و ہ بھی اپنی وردی اْتارنے کے لیے تیار نہیں تھے وہ وردی کو اپنی کھال کہا کرتے تھے۔ بالاخر 28 نومبر 2007ء کو غیر ملکی دباؤ اوراندرونی سازشوں کی وجہ سے مشرف کو وردی اتارنا ہی پڑی۔ تمام تر کوششوں کے باوجود وہ اپنی کنگ پارٹی مسلم لیگ ق کو 2008ء کے انتخابات میں کامیاب کرنے میں ناکام رہے۔ پرویز مشرف نے مواخذہ کی کارروائی سے بچنے کے لیے 18 اگست 2008ء کو استعفیٰ دے دیا، یوں ملک پر مسلط چوتھے مارشل لاکا خاتمہ ہوا۔
حقیقت پسندی سے جائزہ لیا جائے تو توملک میں نافذ کیے گئے چاروں مارشل لاء کی قطعی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ پاکستان نے اپنی زندگی کے 30 سال سے زائد مارشل لاء کے سائے میں گزارے۔ مارشل لاء کی وجہ سے جمہوری سفر بار بار رکتا رہا اگر جمہوریت کو پٹری سے اتارنے، سیاست دانوں کو قید و بند کرنے، ایمرجنسی نافذ کرنے اور آئین معطل کر نے سے معاملات بہتر ہوتے، ملک ترقی کی سمیت کی جانب گامزن ہوتا، غربت کا خاتمہ ہوتا، معیشت بہتر ہوتی، ایک عام انسان کی زندگی میں مثبت تبدیلی کے اثرات نمایاں ہوتے تو مارشل لاء کو مثبت تبدیلی کی علامات سمجھتے ہوئے قبول کیا جاسکتا تھا، مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا ڈکٹیٹر نے اقتدار پر قبضہ کرتے ہوئے قوم سے جو بھی وعدے کیے ان وعدوں کو کبھی وفا نہیں کیا۔
ماضی کے تلخ تجربات کے باوجود سیاست دان ناجانے کیوں مشکل وقت میں مارشل لاء اور ٹیکنوکریٹس حکومت کے بارے میں سوچنے لگتے ہیں بلکہ اشاروں اورکنایوں سے فوج کو اقتدار میں آ نے کی دعوت دیتے نظرآتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی جانب سے انتخابی اصلاحات کی بات کی جارہی ہے مگرکسی بھی جماعت کی طرف سے بلیک اینڈ وائٹ پیپر سامنے نہیں آیا کہ انتخابات سے پہلے کس طرح کی تبدیلیاں کی جائیں کہ ملک بھر میں شفاف اور غیر جانب دار الیکشن کا انعقاد ممکن ہوسکے۔صرف اس بنیاد پرکہ انتخابات میں دھاندلی ہوتی ہے لہٰذا انتخابات کو دو تین سال کے لیے ملتوی کردیا جائے۔
کب تک اس ڈر سے الیکشن کو روکا جاسکتا ہے۔ ہم کسی کی جیت کو تسلیم نہیں کرتے اور اپنی ہارکو قبول نہیں کرتے یہ ہمارے معاشرے کا اجتماعی مزاج بن گیا ہے۔ الیکشن سے فرار اور ٹیکنوکریٹس حکومت کا خواہش وہ سیاستدان اور وہ جماعتیں کررہی ہیں جنھیں آیندہ انتخابات میں اپنی کامیابی کی امید نہیں ہے۔ ان حلقوں کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ الیکشن ملتوی ہوسکتے ہیں، ٹیکنوکریٹس حکومت قائم ہوسکتی ہے۔
کیا ٹیکنو کریٹس کی حکومت الیکشن کا متبادل ہے؟کیا ٹیکنوکریٹ حکومت جمہوریت کا متبادل ہوسکتا ہے؟ اگر تین سال کی ٹیکنو کریٹ حکومت بن بھی جاتی ہے پھر بھی بعد الیکشن کروانے ہی پڑیں گے۔ عوام کو کب تک اس کے جمہوری حق سے محروم رکھا جائے گا؟ 3 سال تک؟ 5 سال تک؟ 10 سال تک ؟ کبھی نہ کبھی تو الیکشن کروانے ہی ہوں گے تو پھر اب کیوں نہیں؟ کیا الیکشن کا التوا جمہوریت کوکمزور کرنے کی کوشش نہیں ہے۔ عوام چاہتی ہے کہ ملک میں الیکشن ہوں اورجمہوری عمل چلتا رہے۔ پاکستان کا حال اور مستقبل جمہوریت سے وابستہ ہے۔ پاکستان کی عوام نے کبھی مارشل لاء اور ٹیکنوکریٹ حکومت کو قبول نہیں کیا، یہی وجہ ہے کہ ایوب خان کے خلاف عوامی تحریک چلی ۔ جس کے نتیجے میں ان کواقتدار چھوڑکر جانا ہی پڑا۔
جنرل ضیا نے بینظیر بھٹو کا راستہ روکنے کی لاکھ کوشش کی مگر عوام نے بینظیر بھٹوکو وزیراعظم بنایا۔ پرویز مشرف دس سال کے لیے نواز شریف کو پاکستان سے باہر بھیج کر سمجھ رہے تھے کہ اب نوازشریف کی سیاست ختم ہوگی مگر وہ تیسری بار وزیر اعظم بن گئے۔ ٹیکنوکریٹ حکومت بنا کر آپ نہ کسی کا راستہ روک سکتے ہیں اور نہ سزائیں دے کر سیاستدانوں کو عوام سے دور کرسکتے ہیں۔ جمہوریت میں عوام ہی فیصلہ کرتے ہیں لہٰذا عوام کے فیصلوں کو تسلیم کیا جائے اور عوامی منڈیٹ کااحترام کیا جائے تاکہ ملک بھی ترقی کرے، ادارے بھی مضبوط ہوں۔