قیدیوں کے قیدی
اگر آپ بھوک کے قیدی ہیں تو پھر آپ جنونیوں کے سردار کہلائے جائیں گے
کوئی مجرم اپنے جرم پر پشیمان اور نادم ہونے کے بجائے اُلٹا مصنفوں کو بُرا بھلا کہنا شروع کردے اور ساتھ ساتھ ان پر الزامات بھی لگائے تو سمجھ لو یا تو قیامت بالکل قریب آگئی ہے یا مجرم اپنا ذہنی توازن کھوچکا ہے۔ اور یہ بھی کہ مجرم ان حرکتوں کے بعد صرف اپنے جرم کا ہی قصور وار اور ذمے دار نہیں رہا ہے بلکہ وہ پورے سماج اور معاشرے کا بھی مجرم بن چکا ہے۔
اس لیے کہ معاشرے اور سماج انصاف، عدل اور اصولوں کی وجہ سے قائم اور زندہ رہتے ہیں۔ اگر کوئی شخص یا اشخاص انصاف، عدل اور اصولوں کو اپنی لونڈی بنانے یا سمجھنے پر بضد ہو جائیں تو پھر ایسے شخص یا اشخاص کو پورے سماج اور معاشرے کو پکڑ کر بیانان جنگل میں چھوڑ آنا چاہیے کیونکہ جنگل میں کوئی قانون، انصاف اور اصول نہیں ہوتے ہیں۔ وہاں صرف اور صرف طاقت کی حکمرانی قائم ہے اور یہ بھی کہ آپ جنگل میں جو چاہیں جیسا چاہیں کرتے پھریں کیونکہ وہاں کوئی قانون، انصاف، عدل اور اصول جنگل میں ڈھونڈے سے بھی آپ کو نہیں مل پائیں گے۔ اس لیے آپ کے کسی بھی جرم پر وہاں نہ تو آپ کو سزا ہو سکتی ہے نہ ہی آپ پر مقدمات قائم ہو سکتے ہیں اور نہ ہی عدالتوں میں آپ کی پیشی لگ سکتی ہے۔
دن میں وہاں آپ کی ملاقات بار بار آپ سے زیادہ طاقتور اور خونخوار شیروں، چیتوں، سانپوں، ہاتھیوں سے ہوتی رہے گی آپ ان سے جتنا چاہیں زور آزمائی کرسکتے ہیں اور اپنے دل کے سارے ارمان بھی نکال سکتے ہیں اور رات میں بقول فلاسفر نطشے کے سوائے چمگادڑوں، اُلوؤں اور پاگل چاند کے اورکچھ نہیں ہے۔ یاد رہے ہر انسان اپنی سوچ کا قیدی ہوتا ہے چونکہ قید کی اقسام مختلف ہوتی ہے اس لیے ہر انسان کی قید بھی مختلف ہوتی ہے۔ یہ آپ کی سوچ کی مرضی ہے کہ وہ آپ کوکس قسم کا قیدی بناتی ہے۔
لیکن یہ طے ہے کہ آپ کی قید کا عرصہ انتہائی با مشقت ہوتا ہے، قید کے دوران آپ کو ہر قسم کی اذیتیں، تکلیفیں سہنی ہی سہنی ہیں، اگر آپ طاقت کے قیدی ہیں تو پھر آپ سارا وقت صرف اور صرف جمع کرنے اور اضافے کرنے کی اذیتوں اور تکلیفوں میں مبتلا رہیں گے، جب سکندر اعظم 325 ق م میں شمال مغربی ہندوستان میں گھوما تو وہ پنجاب میں اور اس کے آس پاس مقامی بادشاہوں کے ساتھ لڑائیوں کے ایک سلسلے میں الجھا اور ساری کی ساری لڑائیاں جیت لیں لیکن وہ اس قابل نہ ہو سکا کہ اپنے سپاہیوں میں اتنا جوش و خروش پیدا کر سکے کہ وہ طاقتور شاہی نندا خاندان پر حملہ کر سکیں جو مشرقی ہندوستان کے شہر پٹالی پترا (جو اب پٹنہ کہلاتا ہے) سے ہندوستان کے بیشتر حصے پر حکومت کرتا تھا۔ تاہم سکندر خاموشی سے یونان واپس جانے کے لیے تیار نہ تھا اور ارسطو کے اچھے شاگرد کے طور پر اس نے خاصا وقت ہندوستانی فلسفیوں اور نظریہ سازوں، مذہبی اور سماجی رہنماؤں کے ساتھ پرسکون گفتگوئیں منعقد کرنے میں گزارا۔
ایک زیادہ پرجوش مباحثے میں دنیا کے فاتح نے جین فلسفیوں کے ایک گروہ سے پوچھا کہ وہ اس کی طرف توجہ دینے کو کیوں نظرانداز کر رہے ہیں اس سوال کا اس نے درج ذیل فراخدلانہ جمہوری جواب پایا ''بادشاہ سکندر ہر شخص صرف زمین کے اتنے حصے کا مالک ہو سکتا ہے جتنے پر ہم کھڑے ہوئے ہیں آپ بھی ہم میں سے باقی سب کی طرح ایک انسان ہو سوائے اس کے کہ آپ ہر وقت مصروف رہتے ہو اور کسی اچھائی کے لیے نہیں اپنے گھر سے اتنے میل ہا میل دور سفر کر رہے ہو اپنے لیے اور دوسروں کے لیے ایک پریشانی کا باعث ہو آپ جلد ہی مر جاؤ گے اور تب آپ صرف اس قدر زمین کے مالک ہو گے جو آپ کو اپنے اندر چھپانے کے لیے کافی ہوگی۔''
یہ سچ ہے کہ سکندر اعظم کی طرح آپ بھی صرف اپنے قد کے مطابق زمین کے حق دار ہوں گے اور آپ کی پیچھے چھوڑی ہوئی چیزوں سے آپ کے وارث بیدردی سے لطف اندوز ہو رہے ہوں گے اور آپ اوپر حساب پہ حساب دے رہے ہوں گے ایسے حساب جو آپ کا کبھی بھی پیچھا نہیں چھوڑ رہے ہوں گے۔ اگر آپ لالچ کے قیدی ہیں تو اس سے زیادہ ہولناک قید کوئی اور ہو ہی نہیں سکتی کیونکہ یہ وہ قید ہے جس سے چھٹکارا حاصل کرنا ممکن نہیں۔ آپ اپنے ساتھ ساتھ ہر ایک کا جینا حرام کردیتے ہیں، یہ بھوک کی بدترین شکلوں میں سب سے زیادہ مکروہ شکل ہے اور اگر آپ احساس کمتری کے قیدی ہیں تو پھر آپ سے ہر کسی کو ہر قسم کے ہر وقت خطرات کا سامنا رہتا ہے کیونکہ آپ اپنی وجہ سے کسی بھی وقت سانحے اور وحشت ناک حادثے کو جنم دے سکتے ہیں۔
اگر آپ بھوک کے قیدی ہیں تو پھر آپ جنونیوں کے سردار کہلائے جائیں گے کیونکہ بھوک جس سے چمٹ جاتی ہے قبر تک پھر اس کا ساتھ نہیں چھوڑتی ہے، اس کا قیدی سراپا وحشت کے اور کچھ نہیں رہتا ہے اگر آپ جھوٹ کے قیدی ہیں تو پھر آپ چن چن کر سچ کا قتل عام کرتے پھرتے ہیں سچ کو دیکھ کر آپ کی آنکھوں میں خون اتر آتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان کے بیس کروڑ لوگ چند ہزار قیدیوں کے قیدی ہیں تو کیا یہ کہنا غلط ہوگا وہ چند ہزار اذیت زدہ قیدی کیا اپنی اپنی تکلیفیں اور وحشتیں اپنے قیدیوں میں منتقل نہیں کررہے ہیں کیا ان کی وجہ سے آج پورا ملک درد سے نہیں کراہ رہا ہے کیا پورے ملک میں ان کی وجہ سے خاک اُڑتی نہیں پھر رہی ہے۔
اگر یہ کہا جائے کہ پورے ملک میں صرف مردے ہی قبروں میں چین اور سکون سے ہیں تو کیا غلط ہوگا؟ کیا بیس کروڑ انسان ان کی وجہ سے اندر سے کھوکھلے نہیں ہوگئے ہیں اگر آپ کو اس بات پر کوئی شک ہے تو آپ بیس کروڑ انسانوں میں سے کسی بھی ایک کا سر سے لے کر پاؤں تک ایکسرے کرا کے دیکھ لیں آپ کو اس میں صرف کھوکھلے پن کے علاوہ اور کچھ دکھائی نہیں دے گا ۔ اس لیے تو کہہ رہے ہیں کہ اس نظام کو آگ لگا دو ان قید خانوں کو جلا کر بھسم کردو تاکہ بیس کروڑ معصوم انسانوں کو چند ہزار قیدیوں کی اذیت زدہ اور وحشت زدہ قید سے نجات حاصل ہو سکے۔
اس لیے کہ معاشرے اور سماج انصاف، عدل اور اصولوں کی وجہ سے قائم اور زندہ رہتے ہیں۔ اگر کوئی شخص یا اشخاص انصاف، عدل اور اصولوں کو اپنی لونڈی بنانے یا سمجھنے پر بضد ہو جائیں تو پھر ایسے شخص یا اشخاص کو پورے سماج اور معاشرے کو پکڑ کر بیانان جنگل میں چھوڑ آنا چاہیے کیونکہ جنگل میں کوئی قانون، انصاف اور اصول نہیں ہوتے ہیں۔ وہاں صرف اور صرف طاقت کی حکمرانی قائم ہے اور یہ بھی کہ آپ جنگل میں جو چاہیں جیسا چاہیں کرتے پھریں کیونکہ وہاں کوئی قانون، انصاف، عدل اور اصول جنگل میں ڈھونڈے سے بھی آپ کو نہیں مل پائیں گے۔ اس لیے آپ کے کسی بھی جرم پر وہاں نہ تو آپ کو سزا ہو سکتی ہے نہ ہی آپ پر مقدمات قائم ہو سکتے ہیں اور نہ ہی عدالتوں میں آپ کی پیشی لگ سکتی ہے۔
دن میں وہاں آپ کی ملاقات بار بار آپ سے زیادہ طاقتور اور خونخوار شیروں، چیتوں، سانپوں، ہاتھیوں سے ہوتی رہے گی آپ ان سے جتنا چاہیں زور آزمائی کرسکتے ہیں اور اپنے دل کے سارے ارمان بھی نکال سکتے ہیں اور رات میں بقول فلاسفر نطشے کے سوائے چمگادڑوں، اُلوؤں اور پاگل چاند کے اورکچھ نہیں ہے۔ یاد رہے ہر انسان اپنی سوچ کا قیدی ہوتا ہے چونکہ قید کی اقسام مختلف ہوتی ہے اس لیے ہر انسان کی قید بھی مختلف ہوتی ہے۔ یہ آپ کی سوچ کی مرضی ہے کہ وہ آپ کوکس قسم کا قیدی بناتی ہے۔
لیکن یہ طے ہے کہ آپ کی قید کا عرصہ انتہائی با مشقت ہوتا ہے، قید کے دوران آپ کو ہر قسم کی اذیتیں، تکلیفیں سہنی ہی سہنی ہیں، اگر آپ طاقت کے قیدی ہیں تو پھر آپ سارا وقت صرف اور صرف جمع کرنے اور اضافے کرنے کی اذیتوں اور تکلیفوں میں مبتلا رہیں گے، جب سکندر اعظم 325 ق م میں شمال مغربی ہندوستان میں گھوما تو وہ پنجاب میں اور اس کے آس پاس مقامی بادشاہوں کے ساتھ لڑائیوں کے ایک سلسلے میں الجھا اور ساری کی ساری لڑائیاں جیت لیں لیکن وہ اس قابل نہ ہو سکا کہ اپنے سپاہیوں میں اتنا جوش و خروش پیدا کر سکے کہ وہ طاقتور شاہی نندا خاندان پر حملہ کر سکیں جو مشرقی ہندوستان کے شہر پٹالی پترا (جو اب پٹنہ کہلاتا ہے) سے ہندوستان کے بیشتر حصے پر حکومت کرتا تھا۔ تاہم سکندر خاموشی سے یونان واپس جانے کے لیے تیار نہ تھا اور ارسطو کے اچھے شاگرد کے طور پر اس نے خاصا وقت ہندوستانی فلسفیوں اور نظریہ سازوں، مذہبی اور سماجی رہنماؤں کے ساتھ پرسکون گفتگوئیں منعقد کرنے میں گزارا۔
ایک زیادہ پرجوش مباحثے میں دنیا کے فاتح نے جین فلسفیوں کے ایک گروہ سے پوچھا کہ وہ اس کی طرف توجہ دینے کو کیوں نظرانداز کر رہے ہیں اس سوال کا اس نے درج ذیل فراخدلانہ جمہوری جواب پایا ''بادشاہ سکندر ہر شخص صرف زمین کے اتنے حصے کا مالک ہو سکتا ہے جتنے پر ہم کھڑے ہوئے ہیں آپ بھی ہم میں سے باقی سب کی طرح ایک انسان ہو سوائے اس کے کہ آپ ہر وقت مصروف رہتے ہو اور کسی اچھائی کے لیے نہیں اپنے گھر سے اتنے میل ہا میل دور سفر کر رہے ہو اپنے لیے اور دوسروں کے لیے ایک پریشانی کا باعث ہو آپ جلد ہی مر جاؤ گے اور تب آپ صرف اس قدر زمین کے مالک ہو گے جو آپ کو اپنے اندر چھپانے کے لیے کافی ہوگی۔''
یہ سچ ہے کہ سکندر اعظم کی طرح آپ بھی صرف اپنے قد کے مطابق زمین کے حق دار ہوں گے اور آپ کی پیچھے چھوڑی ہوئی چیزوں سے آپ کے وارث بیدردی سے لطف اندوز ہو رہے ہوں گے اور آپ اوپر حساب پہ حساب دے رہے ہوں گے ایسے حساب جو آپ کا کبھی بھی پیچھا نہیں چھوڑ رہے ہوں گے۔ اگر آپ لالچ کے قیدی ہیں تو اس سے زیادہ ہولناک قید کوئی اور ہو ہی نہیں سکتی کیونکہ یہ وہ قید ہے جس سے چھٹکارا حاصل کرنا ممکن نہیں۔ آپ اپنے ساتھ ساتھ ہر ایک کا جینا حرام کردیتے ہیں، یہ بھوک کی بدترین شکلوں میں سب سے زیادہ مکروہ شکل ہے اور اگر آپ احساس کمتری کے قیدی ہیں تو پھر آپ سے ہر کسی کو ہر قسم کے ہر وقت خطرات کا سامنا رہتا ہے کیونکہ آپ اپنی وجہ سے کسی بھی وقت سانحے اور وحشت ناک حادثے کو جنم دے سکتے ہیں۔
اگر آپ بھوک کے قیدی ہیں تو پھر آپ جنونیوں کے سردار کہلائے جائیں گے کیونکہ بھوک جس سے چمٹ جاتی ہے قبر تک پھر اس کا ساتھ نہیں چھوڑتی ہے، اس کا قیدی سراپا وحشت کے اور کچھ نہیں رہتا ہے اگر آپ جھوٹ کے قیدی ہیں تو پھر آپ چن چن کر سچ کا قتل عام کرتے پھرتے ہیں سچ کو دیکھ کر آپ کی آنکھوں میں خون اتر آتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان کے بیس کروڑ لوگ چند ہزار قیدیوں کے قیدی ہیں تو کیا یہ کہنا غلط ہوگا وہ چند ہزار اذیت زدہ قیدی کیا اپنی اپنی تکلیفیں اور وحشتیں اپنے قیدیوں میں منتقل نہیں کررہے ہیں کیا ان کی وجہ سے آج پورا ملک درد سے نہیں کراہ رہا ہے کیا پورے ملک میں ان کی وجہ سے خاک اُڑتی نہیں پھر رہی ہے۔
اگر یہ کہا جائے کہ پورے ملک میں صرف مردے ہی قبروں میں چین اور سکون سے ہیں تو کیا غلط ہوگا؟ کیا بیس کروڑ انسان ان کی وجہ سے اندر سے کھوکھلے نہیں ہوگئے ہیں اگر آپ کو اس بات پر کوئی شک ہے تو آپ بیس کروڑ انسانوں میں سے کسی بھی ایک کا سر سے لے کر پاؤں تک ایکسرے کرا کے دیکھ لیں آپ کو اس میں صرف کھوکھلے پن کے علاوہ اور کچھ دکھائی نہیں دے گا ۔ اس لیے تو کہہ رہے ہیں کہ اس نظام کو آگ لگا دو ان قید خانوں کو جلا کر بھسم کردو تاکہ بیس کروڑ معصوم انسانوں کو چند ہزار قیدیوں کی اذیت زدہ اور وحشت زدہ قید سے نجات حاصل ہو سکے۔