الیکشن کمیشن مردم شماری کے بغیربھی کراچی میں حلقہ بندی کرسکتا ہے سپریم کورٹ
1998کے بعد سے ملک میں مردم شماری نہیں ہوسکی لیکن اس کے باوجود نئی حلقہ بندیوں کی ضرورت ہے،سپریم کورٹ
سپریم کورٹ نے کراچی بد امنی کیس کے عبوری حکم نامے میں کہا ہے کہ الیکشن کمیشن کو حلقہ بندیوں کا مکمل اختیار حاصل ہے نئی مردم شماری کے بغیر بھی حلقہ بندیاں ہوسکتی ہیں۔
جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ کی جانب سے جاری کیا گیا عبوری فیصلہ 27 صفحات پر مشتمل ہے جس میں جسٹس خلجی عارف حسین کا 6 صفحات پر مشتمل خصوصی نوٹ بھی شامل ہے۔
عبوری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ وطن پارٹی کیس میں عدالتی فیصلے کو معاشرے کے مختلف طبقات کی جانب سے سراہاگیا لیکن عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد نہیں ہوا۔ سپریم کورٹ نےاپنےفیصلےمیں حلقہ بندی کے لئے آبرویشن نہیں احکامات دیےتھے، الیکشن کمیشن کئی اجلاسوں کے باوجود سپریم کورٹ کے فیصلے پرعملدرآمد نہیں کراسکا۔
عبوری حکم میں قرار دیا گیا ہے کہ آرٹیکل 51 کی سب سیکشن 2 قومی اسمبلی کی نشستیں مختص کرنےسےمتعلق ہے انتخابی حلقوں کی حدبندی سےمتعلق نہیں۔ 1974 کا حلقہ بندی ایکٹ نئی حلقہ بندیوں پر کوئی پابندی عائد نہیں کرتا، نہ ہی الیکشن کمیشن کےاختیارات پرپابندی لگاتا ہے۔ عدالت مانتی ہے کہ 1998 کے بعد سے ملک میں مردم شماری نہیں ہوسکی لیکن اس کے باوجود نئی حلقہ بندیوں کی ضرورت ہے ۔ یہ حلقہ بندیاں مساوی آبادی کے بجائے متناسب آبادی کی بنیاد پر ہونی چاہئے۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے کراچی بدامنی کیس میں سپریم کورٹ نے چوتھی بار عبوری حکم جاری کیا ہے،گزشتہ سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے مختلف جرائم میں ملوث پولیس اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی یقین دہانی پر آئی جی سندھ کو جاری کیا گیا نوٹس واپس لے لیا تھا جبکہ زمینوں کی ناجائز الاٹمنٹ کے سلسلے میں اویس مظفر ٹپی کے خلاف نوٹس جاری کیا تھا۔
جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ کی جانب سے جاری کیا گیا عبوری فیصلہ 27 صفحات پر مشتمل ہے جس میں جسٹس خلجی عارف حسین کا 6 صفحات پر مشتمل خصوصی نوٹ بھی شامل ہے۔
عبوری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ وطن پارٹی کیس میں عدالتی فیصلے کو معاشرے کے مختلف طبقات کی جانب سے سراہاگیا لیکن عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد نہیں ہوا۔ سپریم کورٹ نےاپنےفیصلےمیں حلقہ بندی کے لئے آبرویشن نہیں احکامات دیےتھے، الیکشن کمیشن کئی اجلاسوں کے باوجود سپریم کورٹ کے فیصلے پرعملدرآمد نہیں کراسکا۔
عبوری حکم میں قرار دیا گیا ہے کہ آرٹیکل 51 کی سب سیکشن 2 قومی اسمبلی کی نشستیں مختص کرنےسےمتعلق ہے انتخابی حلقوں کی حدبندی سےمتعلق نہیں۔ 1974 کا حلقہ بندی ایکٹ نئی حلقہ بندیوں پر کوئی پابندی عائد نہیں کرتا، نہ ہی الیکشن کمیشن کےاختیارات پرپابندی لگاتا ہے۔ عدالت مانتی ہے کہ 1998 کے بعد سے ملک میں مردم شماری نہیں ہوسکی لیکن اس کے باوجود نئی حلقہ بندیوں کی ضرورت ہے ۔ یہ حلقہ بندیاں مساوی آبادی کے بجائے متناسب آبادی کی بنیاد پر ہونی چاہئے۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے کراچی بدامنی کیس میں سپریم کورٹ نے چوتھی بار عبوری حکم جاری کیا ہے،گزشتہ سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے مختلف جرائم میں ملوث پولیس اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی یقین دہانی پر آئی جی سندھ کو جاری کیا گیا نوٹس واپس لے لیا تھا جبکہ زمینوں کی ناجائز الاٹمنٹ کے سلسلے میں اویس مظفر ٹپی کے خلاف نوٹس جاری کیا تھا۔