محکمہ ثقافت کے زیر اہتمام خوشحال خان خٹک پر کامیاب تھیٹر پلے
جدید تھیٹرکسی ایک خطے،نسلی گروہ یا تہذیبی منطقے کا اثاثہ نہیں بلکہ اس کی جمالیاتی افادیت اورمقصدیت سے استفادے کا حق۔۔۔
موجودہ صدی سائنس اورثقافت میں نئی ایجادات کے حصول کی صدی ہے۔
زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جو اس صدی کی سائنسی،فنی اورتکنیکی ایجادات سے متاثرنہ ہوا ہو، یہی وجہ ہے کہ اب ایک سائنسی کلچر کا تصور پروان چڑھ رہاہے کہ نئے انسانی تمدنی اورثقافتی مظاہرات اور ورثے کی اُستواری،ترقی اوربقاء سائنس سے مربوط ہوگئی ہے جس کی بدولت فنون لطیفہ اور ثقافت میں ایک عالمگیر ثقافت کا تصور ابھرا،ثقافت کا حسن اورشناخت برقرار رکھتے ہوئے بین الاقوامیت کی طرف سفرایک ہمہ گیر پائیدار بین الاقوامی انسان کا تصور مظاہراتی فنون کے ذریعے سے گزشتہ چندسالوں سے عملی صورت اختیار کرتا نظر آ رہا ہے،اس لیے آج دنیا کے کسی بھی حصے میں تخلیق ہونے والے فن پارے اپنی مقامیت کے باوجوداپنے موضوع، تکنیک اور فنی اقدار کے حوالے سے عالمی حیثیت رکھتے ہیں کہ جدید زندگی سے منسلک فن اور ثقافت کی دیوارسے بالا ہو کر سب انسانوں کی مشترکہ میراث بن جاتے ہیں۔
اس حوالے سے جدید تھیٹر کسی ایک خطے، نسلی گروہ یا تہذیبی منطقے کا اثاثہ نہیں بلکہ اس کی جمالیاتی افادیت اور مقصدیت سے استفادے کا حق سب انسانوں کو ہے، جدید تھیٹر نئے انسان کے مسائل، خودآگہی اور آشوب کا موثر ترین اظہار، تفریح، تبلیغ اور تبدیلی کا بہترین ہتھیار ہے۔ نیلی شکاری آنکھیں، جنگجو ناک، چہرے پر دانشورانہ جھریاں، سر پر لمبے لمبے شاعرانہ بال، لمبی لمبی فلسفیانہ داڑھی، گال پر کالا تل جو انسانی نفسیات پر عبور رکھنے کی واضح علامت ہے، مضبوط توانا جسم اور دراز قد و قامت کے مالک، نابغہ روزگار شخصیت، پشتو زبان کے عظیم قوم پرست اور وطن پرست شاعر، ادیب، سردار، فلسفی، سیاستدان، ماہر نفسیات، شکاری، حکیم اور جنگجو خوشحال خان خٹک مغل شہنشاہ نورالدین جہانگیر کے دور حکومت میں1022ھ بمطابق مئی1613ء کو خٹک قبیلے کے سردار شہباز خان کے ہاں اکوڑہ خٹک (نوشہرہ) میں پیدا ہوئے۔ خوشحال خان نے اپنے زمانے کی رائج ابتدائی تعلیم اپنے گھر اور مسجد کے اساتذہ سے حاصل کی مگر پڑھائی سے زیادہ ان کی توجہ شکار کھیلنے کی جانب رہی کیونکہ ان کے گھر اور حجرے میں ہر طرف نیزوں، تیر وکمان، برچھوں، تیز دھار چھریوں، تلواروں اور بندوقوں کے انبار لگے رہتے تھے۔
ان کے خاندان کے تمام افراد کے دو بڑے مشاغل تھے، ایک شکار کھیلنا اور دوسرا جنگ وجدل میں مصروف رہنا، یہی وجہ تھی کہ خوشحال خان کو بچپن ہی سے شکار کھیلنے میں بہت زیادہ دل چسپی پیدا ہوگئی تھی۔ وہ خود اعتراف کرتے ہیں کہ پورے جہاں کی تعلیم اور تحصیل میری ہوتی، اگر میں شکار کے شغل میں مبتلا نہ رہتا۔ انہیں باز پالنے کا اتنا شوق تھا کہ ''بازنامہ'' کے نام سے ایک پوری منظوم کتاب بھی لکھی ہے جس میں باز پالنے کے طور طریقوں سے لے کر اس کے جملہ امراض، علاج اور دوا کا بھی ذکر موجود ہے۔ شکار کے اتنے رسیا تھے کہ اپنی زندگی کے مصروف ترین لمحوں میں بھی اس مشغلے کو ترک نہیں کیا۔ ہزاروں اشعار پر مشتمل کلیات اور نثر کی متعدد کتابیںان کی ذہنی صلاحیتوں، وسعت مطالعہ، دنیا کے مختلف علوم اور مضامین پر ان کی کامل دسترس کی گواہی دیتی ہیں۔ وہ خود اس بات کو اپنے ایک شعر میں بڑے فخریہ انداز میں بیان کرتے ہیں کہ ''میرے باپ دادا اس دنیا سے شہید ہوکر گئے ہیں اور یہ ہمارا پُشت در پُشت ہنرو کمال ہے۔''
ان کی زندگی اور جدوجہد پر محکمہ ثقافت خیبر پختونخوا کے زیراہتمام پختونوں کی تاریخ میں پہلی بار تھیٹرڈرامہ نشترہال میں پیش کیا گیا۔ تھیٹر پلے کو معروف ترقی پسند لکھاری نور البشر نوید نے لکھا اور اس کی ڈائریکشن معروف ڈائریکٹر مسعود احمد شاہ نے کی۔ ڈرامے کے تمام انتظامات میں کلچر ڈائریکٹوریٹ کے ڈائریکٹر پرویز خان صبعت خیل نے دن رات محنت کی خوشحال خان خٹک کا کردار نوجوان اداکار کلیم خان نے بہت عمدہ طریقے سے ادا کرکے ناظرین سے خوب داد وصول کی۔ اس سے قبل شاعر انسانیت رحمان بابا کے حوالے سے بھی تھیٹر پلے پیش کیا گیا تھا تاہم کلیم خان کے کردار کو کافی سراہا گیا۔
ڈرامے کے دیگر اداکاروں میں طارق جمال، جمیل بابر، جاوید بابر، حبیب مہتاب، ایچ ایم رضا، عشرت عباس، نعیم جان عمر دراز، عمرگل، پروفیسر محمد خامس، آصف شاہ، سلطان حسین، مینہ شمس، معصومہ سارہ خان، شہناز، مشال، سراج اکبر، فضل سبحان، عزیز شیرپاؤ، شہنشاہ آفریدی، جہانگیر عادل، صمد شا د اور دیگر شامل تھے۔ ڈرامہ تین روز تک جاری رہا۔ موسلادھار بارش اورسخت سردی کے باوجود ہال میں تل دھرنے کے لیے جگہ نہیںتھی، اگرچہ خوشحال خان خٹک پہلودار شخصیت کے مالک تھے اور ان کی زندگی کے بے شمارمختلف رنگ ہیں مگر نور البشر نوید جوکہ ٹیلی ڈرامہ کے ایک مانے ہوئے لکھاری ہیں، نے اس تین روزہ ڈرامے میں ان کے تمام پہلو بہت خوبصورت انداز میں اجاگرکیے اور ساتھ ڈرامے کے ڈائریکٹر مسعود احمدشاہ نے بھی اپنے تجربے کا ثبوت پیش کیا۔
خیبر پختونخوا کے وزیر ثقافت و اطلاعات میاں افتخار حسین نے ''ایکسپریس'' کو بتایا کہ نئی نسل کی صحیح سمت میں رہنمائی کے لیے اپنی دھرتی کے تمام مشاہیر کے پیغامات کو عام کرنے کے لیے ان کی زندگیوں پر خصوصی تھیٹر پلے اور دستاویزی فلمیں تیارکئے جا رہے ہیں اور اس سلسلے کا پہلا کامیاب تھیٹر پلے پشتو کے شاعرانسانیت عبدالرحمان بابا کے بعد خوشحال خان خٹک پر پیش کیا گیا۔ اپنے مشاہیر کی سوچ و افکار اور تعلیمات پر عمل پیرا ہو کراس دھرتی کو مشکل صورتحال سے نکال کر ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن کریں گے اور اس عظیم مقصد کے لیے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔
اگر ہم اپنے مشاہیر کی سوچ و افکار اور تعلیمات پر عمل کرتے تو آج ہمیں اس مشکل صورتحال کا سامنا نہ ہوتا لیکن بدقسمتی سے ایک سازش کے تحت ہمیں اپنی عظیم ہستیوں اور مشاہیر کی تعلیمات و افکار سے دور رکھا گیا ہے۔ رحمان بابا، خوشحال خان خٹک، بازیدانصاری المعروف پیر روخان اور باچا خان کے پیغامات عالمگیریت اور پختون وحدت پر مبنی ہیں اور ان کی زندگی سے انسانیت کی بھر پور جھلک نظر آتی ہے۔ ان ہستیوں پر تھیٹر پلے بنانے کا مقصد ان کے پیغام کو عام کرنا اور ان کی صحیح امیج پیش کرنا ہے ان کی زندگیوں کو تھیٹر پلے کے ذریعے اجاگر کرنے میں انتہائی احتیاط کا مظاہرہ کرنا ہوگا کیونکہ اس سلسلے میں اگر معمولی کوتاہی بھی گئی تو آئندہ نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔
اس میں شک نہیں کہ اس وقت اگر خیبرپختونخوا میں ثقافت کی سانسیں کسی حد تک بحال ہوئی ہیں تو اس کا کریڈٹ میاں افتخارحسین اور کلچر ڈائریکٹوریٹ کو ہی دینا پڑے گا جنھوں نے آتے ہی خیبر پختونخوا میں ثقافت کے سب سے بڑے مرکز نشتر ہال کے تالے کھلوائے اور وہاں پر تقریبات کا انعقاد کیا یہ وہی نشتر ہال تھا جس کو 2002ء کے انتخابات کے بعد ایم ایم اے نے اقتدار میں آتے ہی یہ کہتے ہوئے مقفل کر دیا تھا کہ یہاں ہونے والے پروگرام فحاشی کا سبب بن رہے ہیں، اس طرح ایم ایم اے حکومت نے ایک ہال تو بند کر دیا لیکن پھر جگہ جگہ سی ڈیز ڈرامے بننے لگے جس سے ثقافتی اقدار بری طرح مجروح ہوئیں، نشتر ہال کی بندش سے جو فنکار بیروزگار ہوئے انہوں نے تو اپنی دال روٹی چلانے کے لیے سی ڈیز ڈراموں کا رخ کیا اور اس فیلڈ میں نان پروفیشنل لوگوں کی آمد بھی شروع ہو گئی۔
اس دوران شدت پسند بھی فنکاروں کے پیچھے رہے کئی گلوکارائیں بھی قتل ہوئیں کچھ اغواء ہوئے اور یوں بڑی تعداد میں فنکاروں کو دوسرے شہروں میں منتقل ہونا پڑا اس سے وہ ثقافتی جمود پیدا ہوا کہ فنون لطیفہ کو جانے کیا کیا سمجھا جانے لگا اور دنیا یہ سمجھنے لگی کہ پختونوں کا کلچر بندوق سے شروع ہو کر دشمنیوں پر ختم ہو جاتا ہے حالاں کہ ایسا ہر گز نہیں آج پاکستان ہی نہیں دنیا بھر کے فنون لطیفہ کے میدان پر نظر دوڑائی جائے تو سب سے زیادہ پختون ہی دکھائی دیتے ہیں جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پختون امن پسند اور ثقافت و فنون لطیفہ سے پیار کرنے والے لوگ ہیں۔
کچھ لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ ثقافت شاید صرف گانے بجانے اور ڈرامے کا نام ہے لیکن ایسا بھی نہیں بلکہ ثقافت تو ایک ایسا آئینہ ہے جس میں کسی قوم کے طور اطوار، زندگی، نفسیات وغیرہ سب کچھ دکھائی دیتا ہے، موجودہ حکومت نے ثقافت کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے جو کچھ کیا ہے وہ خوش آئند تو ضرور ہے لیکن شاید کافی نہیں، ضروری ہے کہ خوشحال خان خٹک تھیٹرپلے کو کراچی، کوئٹہ، لاہور اور افغانستان میں بھی پیش کیا جائے۔
زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جو اس صدی کی سائنسی،فنی اورتکنیکی ایجادات سے متاثرنہ ہوا ہو، یہی وجہ ہے کہ اب ایک سائنسی کلچر کا تصور پروان چڑھ رہاہے کہ نئے انسانی تمدنی اورثقافتی مظاہرات اور ورثے کی اُستواری،ترقی اوربقاء سائنس سے مربوط ہوگئی ہے جس کی بدولت فنون لطیفہ اور ثقافت میں ایک عالمگیر ثقافت کا تصور ابھرا،ثقافت کا حسن اورشناخت برقرار رکھتے ہوئے بین الاقوامیت کی طرف سفرایک ہمہ گیر پائیدار بین الاقوامی انسان کا تصور مظاہراتی فنون کے ذریعے سے گزشتہ چندسالوں سے عملی صورت اختیار کرتا نظر آ رہا ہے،اس لیے آج دنیا کے کسی بھی حصے میں تخلیق ہونے والے فن پارے اپنی مقامیت کے باوجوداپنے موضوع، تکنیک اور فنی اقدار کے حوالے سے عالمی حیثیت رکھتے ہیں کہ جدید زندگی سے منسلک فن اور ثقافت کی دیوارسے بالا ہو کر سب انسانوں کی مشترکہ میراث بن جاتے ہیں۔
اس حوالے سے جدید تھیٹر کسی ایک خطے، نسلی گروہ یا تہذیبی منطقے کا اثاثہ نہیں بلکہ اس کی جمالیاتی افادیت اور مقصدیت سے استفادے کا حق سب انسانوں کو ہے، جدید تھیٹر نئے انسان کے مسائل، خودآگہی اور آشوب کا موثر ترین اظہار، تفریح، تبلیغ اور تبدیلی کا بہترین ہتھیار ہے۔ نیلی شکاری آنکھیں، جنگجو ناک، چہرے پر دانشورانہ جھریاں، سر پر لمبے لمبے شاعرانہ بال، لمبی لمبی فلسفیانہ داڑھی، گال پر کالا تل جو انسانی نفسیات پر عبور رکھنے کی واضح علامت ہے، مضبوط توانا جسم اور دراز قد و قامت کے مالک، نابغہ روزگار شخصیت، پشتو زبان کے عظیم قوم پرست اور وطن پرست شاعر، ادیب، سردار، فلسفی، سیاستدان، ماہر نفسیات، شکاری، حکیم اور جنگجو خوشحال خان خٹک مغل شہنشاہ نورالدین جہانگیر کے دور حکومت میں1022ھ بمطابق مئی1613ء کو خٹک قبیلے کے سردار شہباز خان کے ہاں اکوڑہ خٹک (نوشہرہ) میں پیدا ہوئے۔ خوشحال خان نے اپنے زمانے کی رائج ابتدائی تعلیم اپنے گھر اور مسجد کے اساتذہ سے حاصل کی مگر پڑھائی سے زیادہ ان کی توجہ شکار کھیلنے کی جانب رہی کیونکہ ان کے گھر اور حجرے میں ہر طرف نیزوں، تیر وکمان، برچھوں، تیز دھار چھریوں، تلواروں اور بندوقوں کے انبار لگے رہتے تھے۔
ان کے خاندان کے تمام افراد کے دو بڑے مشاغل تھے، ایک شکار کھیلنا اور دوسرا جنگ وجدل میں مصروف رہنا، یہی وجہ تھی کہ خوشحال خان کو بچپن ہی سے شکار کھیلنے میں بہت زیادہ دل چسپی پیدا ہوگئی تھی۔ وہ خود اعتراف کرتے ہیں کہ پورے جہاں کی تعلیم اور تحصیل میری ہوتی، اگر میں شکار کے شغل میں مبتلا نہ رہتا۔ انہیں باز پالنے کا اتنا شوق تھا کہ ''بازنامہ'' کے نام سے ایک پوری منظوم کتاب بھی لکھی ہے جس میں باز پالنے کے طور طریقوں سے لے کر اس کے جملہ امراض، علاج اور دوا کا بھی ذکر موجود ہے۔ شکار کے اتنے رسیا تھے کہ اپنی زندگی کے مصروف ترین لمحوں میں بھی اس مشغلے کو ترک نہیں کیا۔ ہزاروں اشعار پر مشتمل کلیات اور نثر کی متعدد کتابیںان کی ذہنی صلاحیتوں، وسعت مطالعہ، دنیا کے مختلف علوم اور مضامین پر ان کی کامل دسترس کی گواہی دیتی ہیں۔ وہ خود اس بات کو اپنے ایک شعر میں بڑے فخریہ انداز میں بیان کرتے ہیں کہ ''میرے باپ دادا اس دنیا سے شہید ہوکر گئے ہیں اور یہ ہمارا پُشت در پُشت ہنرو کمال ہے۔''
ان کی زندگی اور جدوجہد پر محکمہ ثقافت خیبر پختونخوا کے زیراہتمام پختونوں کی تاریخ میں پہلی بار تھیٹرڈرامہ نشترہال میں پیش کیا گیا۔ تھیٹر پلے کو معروف ترقی پسند لکھاری نور البشر نوید نے لکھا اور اس کی ڈائریکشن معروف ڈائریکٹر مسعود احمد شاہ نے کی۔ ڈرامے کے تمام انتظامات میں کلچر ڈائریکٹوریٹ کے ڈائریکٹر پرویز خان صبعت خیل نے دن رات محنت کی خوشحال خان خٹک کا کردار نوجوان اداکار کلیم خان نے بہت عمدہ طریقے سے ادا کرکے ناظرین سے خوب داد وصول کی۔ اس سے قبل شاعر انسانیت رحمان بابا کے حوالے سے بھی تھیٹر پلے پیش کیا گیا تھا تاہم کلیم خان کے کردار کو کافی سراہا گیا۔
ڈرامے کے دیگر اداکاروں میں طارق جمال، جمیل بابر، جاوید بابر، حبیب مہتاب، ایچ ایم رضا، عشرت عباس، نعیم جان عمر دراز، عمرگل، پروفیسر محمد خامس، آصف شاہ، سلطان حسین، مینہ شمس، معصومہ سارہ خان، شہناز، مشال، سراج اکبر، فضل سبحان، عزیز شیرپاؤ، شہنشاہ آفریدی، جہانگیر عادل، صمد شا د اور دیگر شامل تھے۔ ڈرامہ تین روز تک جاری رہا۔ موسلادھار بارش اورسخت سردی کے باوجود ہال میں تل دھرنے کے لیے جگہ نہیںتھی، اگرچہ خوشحال خان خٹک پہلودار شخصیت کے مالک تھے اور ان کی زندگی کے بے شمارمختلف رنگ ہیں مگر نور البشر نوید جوکہ ٹیلی ڈرامہ کے ایک مانے ہوئے لکھاری ہیں، نے اس تین روزہ ڈرامے میں ان کے تمام پہلو بہت خوبصورت انداز میں اجاگرکیے اور ساتھ ڈرامے کے ڈائریکٹر مسعود احمدشاہ نے بھی اپنے تجربے کا ثبوت پیش کیا۔
خیبر پختونخوا کے وزیر ثقافت و اطلاعات میاں افتخار حسین نے ''ایکسپریس'' کو بتایا کہ نئی نسل کی صحیح سمت میں رہنمائی کے لیے اپنی دھرتی کے تمام مشاہیر کے پیغامات کو عام کرنے کے لیے ان کی زندگیوں پر خصوصی تھیٹر پلے اور دستاویزی فلمیں تیارکئے جا رہے ہیں اور اس سلسلے کا پہلا کامیاب تھیٹر پلے پشتو کے شاعرانسانیت عبدالرحمان بابا کے بعد خوشحال خان خٹک پر پیش کیا گیا۔ اپنے مشاہیر کی سوچ و افکار اور تعلیمات پر عمل پیرا ہو کراس دھرتی کو مشکل صورتحال سے نکال کر ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن کریں گے اور اس عظیم مقصد کے لیے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔
اگر ہم اپنے مشاہیر کی سوچ و افکار اور تعلیمات پر عمل کرتے تو آج ہمیں اس مشکل صورتحال کا سامنا نہ ہوتا لیکن بدقسمتی سے ایک سازش کے تحت ہمیں اپنی عظیم ہستیوں اور مشاہیر کی تعلیمات و افکار سے دور رکھا گیا ہے۔ رحمان بابا، خوشحال خان خٹک، بازیدانصاری المعروف پیر روخان اور باچا خان کے پیغامات عالمگیریت اور پختون وحدت پر مبنی ہیں اور ان کی زندگی سے انسانیت کی بھر پور جھلک نظر آتی ہے۔ ان ہستیوں پر تھیٹر پلے بنانے کا مقصد ان کے پیغام کو عام کرنا اور ان کی صحیح امیج پیش کرنا ہے ان کی زندگیوں کو تھیٹر پلے کے ذریعے اجاگر کرنے میں انتہائی احتیاط کا مظاہرہ کرنا ہوگا کیونکہ اس سلسلے میں اگر معمولی کوتاہی بھی گئی تو آئندہ نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔
اس میں شک نہیں کہ اس وقت اگر خیبرپختونخوا میں ثقافت کی سانسیں کسی حد تک بحال ہوئی ہیں تو اس کا کریڈٹ میاں افتخارحسین اور کلچر ڈائریکٹوریٹ کو ہی دینا پڑے گا جنھوں نے آتے ہی خیبر پختونخوا میں ثقافت کے سب سے بڑے مرکز نشتر ہال کے تالے کھلوائے اور وہاں پر تقریبات کا انعقاد کیا یہ وہی نشتر ہال تھا جس کو 2002ء کے انتخابات کے بعد ایم ایم اے نے اقتدار میں آتے ہی یہ کہتے ہوئے مقفل کر دیا تھا کہ یہاں ہونے والے پروگرام فحاشی کا سبب بن رہے ہیں، اس طرح ایم ایم اے حکومت نے ایک ہال تو بند کر دیا لیکن پھر جگہ جگہ سی ڈیز ڈرامے بننے لگے جس سے ثقافتی اقدار بری طرح مجروح ہوئیں، نشتر ہال کی بندش سے جو فنکار بیروزگار ہوئے انہوں نے تو اپنی دال روٹی چلانے کے لیے سی ڈیز ڈراموں کا رخ کیا اور اس فیلڈ میں نان پروفیشنل لوگوں کی آمد بھی شروع ہو گئی۔
اس دوران شدت پسند بھی فنکاروں کے پیچھے رہے کئی گلوکارائیں بھی قتل ہوئیں کچھ اغواء ہوئے اور یوں بڑی تعداد میں فنکاروں کو دوسرے شہروں میں منتقل ہونا پڑا اس سے وہ ثقافتی جمود پیدا ہوا کہ فنون لطیفہ کو جانے کیا کیا سمجھا جانے لگا اور دنیا یہ سمجھنے لگی کہ پختونوں کا کلچر بندوق سے شروع ہو کر دشمنیوں پر ختم ہو جاتا ہے حالاں کہ ایسا ہر گز نہیں آج پاکستان ہی نہیں دنیا بھر کے فنون لطیفہ کے میدان پر نظر دوڑائی جائے تو سب سے زیادہ پختون ہی دکھائی دیتے ہیں جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پختون امن پسند اور ثقافت و فنون لطیفہ سے پیار کرنے والے لوگ ہیں۔
کچھ لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ ثقافت شاید صرف گانے بجانے اور ڈرامے کا نام ہے لیکن ایسا بھی نہیں بلکہ ثقافت تو ایک ایسا آئینہ ہے جس میں کسی قوم کے طور اطوار، زندگی، نفسیات وغیرہ سب کچھ دکھائی دیتا ہے، موجودہ حکومت نے ثقافت کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے جو کچھ کیا ہے وہ خوش آئند تو ضرور ہے لیکن شاید کافی نہیں، ضروری ہے کہ خوشحال خان خٹک تھیٹرپلے کو کراچی، کوئٹہ، لاہور اور افغانستان میں بھی پیش کیا جائے۔