مصباح کے شکوے کپتانی کے سوال پر شعیب کا شرمانا
جنوبی افریقہ میں قومی کرکٹرز کی سرگرمیوں کا دلچسپ احوال
''پلے کرکٹ اینڈ سی دا ورلڈ'' (کرکٹ کھیلو اور دنیا دیکھو) کالج کے دنوں میں جب خاصی تگ و دو کے بعد میں راشدلطیف کا آٹوگراف لینے میں کامیاب ہوا تو اس میں یہ عبارت درج تھی۔
اب اس میں تھوڑا اضافہ کیا جا سکتا ہے،کرکٹ صحافت میں آکر بھی آپ دنیا دیکھ سکتے ہیں، جس طرح کھلاڑیوں کو اپنی کارکردگی کی فکر ہوتی ہے اسی طرح صحافیوں کے ساتھ بھی ہوتا ہے، اگلے دن کے اخبار میں اپنی اچھی خبریں دیکھ کر وہی خوشی محسوس ہوتی ہے جو کوئی کرکٹر سنچری، ففٹی بنانے یاوکٹیں حاصل کرنے پر محسوس کرتا ہے۔ اسپورٹس صحافت میں آنے سے مجھے بھی دنیا کے مختلف ملکوں میںجانے کا اتفاق ہوا، البتہ جنوبی افریقہ کبھی نہیں آیا تھا،اس بار ادارے نے پاکستانی سیریزکی کوریج کے لیے نامزد کر کے یہ موقع بھی فراہم کر دیا۔
کراچی سے دبئی آنے کے بعدڈربن تک کی فلائٹ تقریباً ساڑھے8 گھنٹے کی ہوتی ہے، وہاں پہنچنے کے بعد ٹیکسی سے ہوٹل کا سفر شروع کیا، ڈرائیور ایک ادھیڑ عمر کی افریقی خاتون تھیں، انھوں نے فوراً سوال داغ دیا کہ '' پسٹوریس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے'' ان کا اشارہ دونوں ٹانگوں سے محروم جنوبی افریقی بلیڈ رنر ایتھلیٹ کی جانب تھا جو گرل فرینڈ ریوا اسٹین کیمپ کو قتل کرنے کے بعد ضمانت پر رہا ہیں، جب میں نے اپنی رائے کا اظہار کر دیا تو اس سے متفق مذکورہ خاتون غصے سے آگ بگولہ ہو کر بولیں '' آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں، یہ کوئی بات نہ ہوئی کہ اگر کوئی مشہور اور دولتمند انسان کسی کو قتل کر دے تو اسے ضمانت پر چھوڑ دیا جائے، پسٹوریس کے گھر کی دیواریں اتنی بلند اور وہاں ایسا سکیورٹی نظام نصب ہے کہ کوئی پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا۔
ایسے میں اس نے کیسے سمجھا کہ چور داخل ہو گیا تھا، اگر یہ بات مان بھی لی جائے تو چار گولیاں کیوں ماریں، اس سے تو یہی لگتا ہے کہ قتل کا ارادہ تھا، اس معاملے میں تمام جنوبی افریقی خواتین پسٹوریس کیخلاف اور بعض تنظیموں نے اسے سزا دلانے کے لیے مہم بھی چلائی ہوئی ہے''۔ ان کی یہ بات تو صحیح تھی مگر عدالت نے کچھ سوچ کر ہی پسٹوریس کو رہا کیا ہوگا، دیکھتے ہیں اس کیس میں مستقبل میں کیا ہوتا ہے،البتہ اپنی منزل پر پہنچ کر جب ساڑھے چارسورینڈ(5ہزار سے زائد پاکستان روپے) کرایہ ادا کیا تو مجھے اندازہ ہو گیا کہ یہاں بھی کچھ سستا نہیں ہوگا۔
اس وقت تک پاکستانی ٹیم نے بھی ڈربن پہنچ کر پریکٹس کا آغاز کر دیا تھا، میں نے ایسا ہوٹل منتخب کیا جو سہارا اسٹیڈیم سے چند منٹ کی ہی مسافت پر واقع تھا ، فاسٹ بولر جنید خان کی فٹنس کے بارے میں جب منیجر نوید اکرم چیمہ سے پوچھا تو انھوں نے جواب دیا کہ '' نیٹ میں اس نے اچھی رفتار سے بولنگ کی اور وہ مکمل فٹ ہو چکا ہے''۔
اگلے دن ایکریڈیشن کارڈ بنوانے کے لیے صبح ہی اسٹیڈیم پہنچ گیا، وہاں کچھ انتظار کا کہا گیا تو اسٹیڈیم دیکھنے کے لیے چل پڑا،ادھرسکیورٹی تو یقینا نظر آئی مگر پاکستان کی طرح کئی سو مسلح اہلکار موجود نہیں تھے،اسٹیڈیم کے باہر بھی لوگ ٹکٹیں خریدنے کے لیے قطار بنائے نظر آئے، منتظمین نے بتایا کہ شائقین کا جوش وخروش عروج پر ہے اور چند ٹکٹ ہی باقی رہ گئے ہیں،اس دوران گراؤنڈ میں جنوبی افریقی ٹیم پریکٹس کرتی دکھائی دی، پلیئرز ڈائیو لگا کر کیچز تھامتے اور پھر وکٹوں کا نشانہ بنا کر ایسی ہی خوشی کا اظہار کرتے جیسے کسی کھلاڑی کو آؤٹ کر دیا ہو، پروٹیز کا زیادہ زور فیلڈنگ پر ہی تھا،انداز بیحد منفرد دکھائی دیا، ہمارے فیلڈنگ کوچ جولین فاؤنٹین کو بجائے پاکستانی رنگ میں رنگنے کے ان سے سیکھنا چاہیے۔
جنوبی افریقی پلیئرز کو ٹریننگ میں مدد دینے کے لیے بڑے بڑے ٹائرز بھی گراؤنڈ میں رکھے گئے تھے،کچھ دیر بعد کپتان فاف ڈوپلیسس کی پریس کانفرنس ہوئی، جس طرح ماضی میں پروٹیز نے کم عمری میں ناتجربہ کار گریم اسمتھ کو قیادت سونپی جنھوں نے ٹیم کو ٹیسٹ نمبر ون بنا دیا اور بطور قائد میچز کی سنچری بھی مکمل کر چکے، اب ٹی ٹوئنٹی میں ڈوپلیسس کو کپتانی سونپی گئی ہے، اس کی وجہ آئندہ برس بنگلہ دیش میں شیڈول مختصر طرز کا ورلڈکپ بنا،اسکواڈ میں بھی بیشتر نئے اور تروتازہ کھلاڑی شامل کیے گئے جو میگا ایونٹ ہونے تک صلاحیتیں منوا چکے ہوں گے، پاکستانی کپتان کی دوپہر کو پریس کانفرنس شیڈول تھی مگر محمد حفیظ اور منیجر قدرے تاخیر سے آئے، نوید اکرم چیمہ نے اس پر صحافیوں سے معذرت بھی کی، اس دوران حفیظ کو دیکھا تو اندازہ ہوا کہ کارکردگی اچھی نہ ہو تو انسان سے چہرے کی رونق بھی روٹھ جاتی ہے، بڑھی ہوئی شیو کے ساتھ موجود حفیظ ٹی ٹوئنٹی میں عمدہ کارکردگی کی آس دلاتے رہے، جب میں نے ٹیسٹ میں ناقص کارکردگی کا سوال کیا تو انھوں نے وہی جواب دیا جو میں اب تک کئی آؤٹ آف فارم کھلاڑیوں سے سن چکا ہوں کہ ''فارم اچھی ہے مگر اسکور نہیں ہو رہا، ایسا ہر کرکٹر کے ساتھ ہوتا ہے، نیٹ میں بڑی محنت کر رہا ہوں جلد بڑی اننگز کھیلنے میں کامیاب رہوں گا''۔
کچھ عرصے قبل یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ مصباح کو الوداع کہہ کر تینوں طرز میں حفیظ کو کپتان بنا دیا جائے گا، مگر اب ایسا ہوتا ممکن دکھائی نہیں دیتا، بورڈ حکام کو نیا قائد تلاش کرنا پڑ سکتا ہے، شعیب ملک کے ''چاہنے والے'' بڑے دنوں سے انھیں منصب قیادت پر بٹھانے کے لیے کوشاں ہیں اس حوالے سے میں رپورٹ بھی دے چکا، میچ والے دن اس بارے میں خبر پڑھ کر آل راؤنڈر نے شرماتے ہوئے کہا کہ '' بھائی میں تو صرف اپنے کھیل پر توجہ دے رہا ہوں کپتانی کا نہیں سوچتا'' نجانے کیوں مجھے یہ جملہ بھی کچھ سنا سنا لگا۔
اس دوران علم ہوا کہ بورڈ نے کھلاڑیوں کی مخالفت کے باوجود فیملیز کو واپس بلانے کے اعلان پر عمل درآمد کر لیا ہے، یہ اس لحاظ سے ضروری تھا کہ ٹورز میں پلیئرز کی توجہ بٹی رہتی اورہروقت یہی خیال رہتا ہے کہ ہوٹل میں بچے اور بیگم آرام سے ہیں انھیں پسند کاکھانا ملا یا نہیں، ایک دورے میں تو معروف بیٹسمین اپنے بچے کو ڈائپرز تبدیل کرتے بھی دکھائی دیے تھے، اگر ٹیم جیت رہی ہوتی تو اور بات تھی ، تینوں ٹیسٹ ہارنے کے بعد بورڈ نے پلیئرز کو فیملیز سے دور کر کے کچھ غصہ ٹھنڈا کیا۔
پاکستانی ٹی ٹوئنٹی ٹیم ڈربن مگر مصباح الحق اور یونس خان سمیت ون ڈے کے پلیئرز جوہانسبرگ میں ہی مقیم تھے، میری کپتان سے فون پر بات ہوئی تو انھوں نے بتایا کہ وانڈررز میں پریکٹس جاری رکھے ہوئے ہیں،جنوبی افریقہ میں پاکستانیوں کی بڑی تعداد مقیم ہے، ایسے میں پلیئرز اکثر دعوتیں اڑاتے دکھائی دیے، ان میں فیشل کرانے کا رحجان بھی دیکھا گیا، بڑھتی عمر والے کھلاڑی جلد کو تروتازہ اور رنگ گورا کرانے کے لیے کوشاں نظر آئے۔
جنوبی افریقہ میں جرائم کی شرح بہت زیادہ ہے، یہاں کے بارے میں مشہور ہیں کہ اگر کوئی کچھ مانگے تو بغیر چوں چراں کیے دے دو،یہ گولی پہلے مارتے اور وجہ بعد میں بتاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ یہاں رات کو اکیلے باہر جانا خطرے سے خالی نہیں ہوتا،غیر ملکی تو فوراً ہی نظروں میں آ جاتے ہیں، ایسے میں اگر ہاتھ میں لیپ ٹاپ ہو تو یہ تو کسی ڈاکو کو خود ہی دعوت دینے کے مترادف ہو گا، ایک روز میں لنچ کرنے کے بعد ٹیکسی کا انتظار کر رہا تھا تو ایک باریش صاحب نے کہا '' برادر یہاں سے چلے جائیں ایسے کھڑے نہ ہوں ورنہ ہاتھ میں موجود بیگ کے ساتھ بقیہ سامان بھی گنوا دیں گے'' اتفاق سے فوراً ہی ٹیکسی آئی اور میں روانہ ہوگیا، پاکستان سے معروف ٹیلی ویژن جرنلسٹ سہیل عمران اور دو فری لانس نوجوان صحافی بھی ڈربن آئے تھے۔
ان میں سے ایک نے اپنے ساتھ ہوا واقعہ سناتے ہوئے کہا کہ رات کو ہوٹل سے باہر نکلا تھا کہ پولیس کی وردی میں ملبوس ایک افریقی شخص نے سو رینڈ مانگے، میں نے کہا کیوں تو اس نے ایک موٹی سی گالی دے کر شرٹ کے نیچے موجود پستول کی جانب اشارہ کیا، پرس کھول کر جب سو رینڈ دیے تو اس کی دیگر نوٹوں پر بھی نظر پڑ گئی اور بقیہ تین سو رینڈ بھی لے کر بھاگ نکلا، ایسے میں ایک اور پولیس اہلکار نظر آیا اس سے شکایت کی تو جواب دیا کہ یہاں ایسا عام ہے جعلی وردی میں لٹیرے اپنا کام کرجاتے ہیں، اگر کسی کی جیب میں وائرلیس نہ رکھا ہو تو سمجھ جائیں وہ نقلی پولیس والا ہے۔
پہلے ٹی ٹوئنٹی سے ایک روز قبل سے ہی بارش وقفے وقفے سے جاری تھی، میچ کے دن بھی ایسا ہوتا رہا، درمیان بھی کچھ وقفہ آیا تو امید ہوئی کہ شائد مقابلے کا انعقاد ہو جائے مگر ایسا نہ ہو سکا، تمام ٹکٹیں فروخت ہونے کے باوجود شائقین کی کم تعداد اسٹیڈیم آئی تھی شائد انھیں اندازہ ہو گیا تھا کہ بارش میچ نہیں ہونے دی گی، اس دوران مصباح الحق کو فون کیا جو شکوہ کرنے لگے کہ''ایکسپریس میں آج کل میرے بارے میں بہت کچھ آ رہا ہے،مجھے لوگ بتاتے رہتے ہیں'' اس پر میں نے انھیں یاد دلایا کہ شکست پر تنقید سہنے کے لیے تیار رہنا چاہیے تو وہ جذباتی ہو گئے اور کہا کہ ''جنوبی افریقہ یا آسٹریلیا میں کب پاکستان جیتتا ہے، ہمیں وجوہات تلاش کرنا ہوں گی صرف تنقید سے کچھ حاصل نہیں ہونا''، اس گفتگو کی مزید تفصیل یقینا قارئین کی نظروں سے گذر چکی ہو گی، میں نے بھی سوچا کہ مصباح کا کہنا غلط تو نہیں، 1992-3 میں کیپ ٹاؤن جنوبی افریقہ میں ہی پاکستانی ٹیم 43 رنز کے کمتر اسکور پر ڈھیر ہوچکی، بڑے بڑے کپتان یہاں سے خالی ہاتھ واپس گئے مگر اسے موجودہ اسکواڈ کے خراب کھیل کا جواز قرار نہیں دیا جا سکتا ، البتہ یہ تجویز مناسب ہے کہ نوجوان قومی کرکٹرز کو تجربہ حاصل کرنے کے لیے جنوبی افریقہ اور آسٹریلیا بھیجنا چاہیے۔ مصباح شکستوں کے ساتھ خود ذاتی فارم کے سبب بھی دباؤ کا شکار ہیں،ان کے بیٹ سے رنز اگلنا بند ہوگئے اور ٹیم بھی ہار رہی ہے، اس دوہرے دباؤ سے ون ڈے سیریز کے دوران نمٹنا انکے لیے آسان نہ ہوگا۔
یکم مارچ شاہدآفریدی کی سالگرہ کا بھی دن تھا، میں نے جب ان سے اس حوالے سے بات کی تو کہنے لگے کہ ''یاد ہے وہ وقت جب کرکٹرز ثقلین مشتاق اور مشتاق احمد کے ساتھ بھی13،14 سال قبل سالگرہ منائی تھی، اب ایسا نہیں کرتا''۔ آفریدی کے کئی چاہنے والے یہاں بھی موجود ہیں جنھیں میچ بارش کی نذر ہونے سے شدید مایوسی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
قومی ٹیم کے منیجر نوید اکرم چیمہ شریف النفس انسان ہیں، انھیں ایک مشورہ دیا جو قارئین سے بھی شیئر کرنا چاہوں گا کہ پلیئنگ الیون کو ایسے نہ چھپایا کریں جیسے یہ کوئی قومی راز ہو، دنیا کے دیگر ممالک کی طرح ایک روز قبل ہی اعلان کر دیں تاکہ میڈیا اندازے نہ لگاتا پھرے۔ ٹیم کے کوچ ڈیوواٹمور ان دنوں شدید تنقید کی زد میں ہیں، سابق کپتان حنیف محمد نے تو انھیں اردو سیکھنے کا مشورہ دے دیا ہے تاکہ کھلاڑیوں تک اپنی بات اچھے انداز سے پہنچا سکیں، ایسا ہونا ممکن دکھائی نہیں دیتا البتہ کوچ نے پاکستانی کرکٹ کی سیاست اور جگہ برقرار رکھنے کے لیے جو اقدامات ضروری ہیں وہ ضرور سیکھ لیے ہیں، اسی وجہ سے اب وہ بھی سینئرز کی ہاں میں ہاں ملاتے دکھائی دیتے ہیں، البتہ انھیں یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ جب سینئرز ہی نہیں رہیں گے تو پھر وہ کیسے اپنی پوزیشن بچائیں گے،ان کا کام کھلاڑیوں کو بڑے مقابلوںکے لیے تیار کرنا ہے اور اس ذمے داری کو پوری ایمانداری سے نبھانا چاہیے، پاکستان میں ہر سیریز میں شکست کے بعد قربانی کا بکرا تلاش کیا جاتا ہے اور وہ ملکی یا غیرملکی کوئی بھی ہو سکتا ہے، شائد کوئی پاکستانی اس کا انگریزی میں ترجمہ کر کے کوچ کو بتادے۔
پاکستانی اسکواڈ کی اب اگلی منزل سنچورین ہے جہاں اتوار کو دوسرا ٹی ٹوئنٹی میچ کھیلا جائے گا، اب سے چند گھنٹے بعد کی فلائٹ سے ٹیم جوہانسبرگ اور پھر وہاں سے بائی روڈ چند کلومیٹر دور واقع سنچورین پہنچے گی، مسلسل شکستوں سے پلیئرز کا مورال گرگیا ایسے میں ٹی ٹوئنٹی اور ون ڈے میں عمدہ کارکردگی کھوئی ہوئی مسکراہٹ واپس لا سکتی ہے، جس وقت میں یہ سطور تحریر کر رہا ہوں ، ہوٹل روم کی کھڑکی سے آسمان پر بادل چھٹتے دکھائی دے رہے ہیں، کاش ایسا کل ہو جاتا تو میچ بارش کی نذر نہ ہوتا، اب سنچورین میں فتح کی امید ہے، مجھے بھی روانگی کے لیے سامان پیک کرنا ہے ، دورے کی مزید روداد انہی صفحات پر آئندہ پیش کرنے کی کوشش کروں گا۔
اب اس میں تھوڑا اضافہ کیا جا سکتا ہے،کرکٹ صحافت میں آکر بھی آپ دنیا دیکھ سکتے ہیں، جس طرح کھلاڑیوں کو اپنی کارکردگی کی فکر ہوتی ہے اسی طرح صحافیوں کے ساتھ بھی ہوتا ہے، اگلے دن کے اخبار میں اپنی اچھی خبریں دیکھ کر وہی خوشی محسوس ہوتی ہے جو کوئی کرکٹر سنچری، ففٹی بنانے یاوکٹیں حاصل کرنے پر محسوس کرتا ہے۔ اسپورٹس صحافت میں آنے سے مجھے بھی دنیا کے مختلف ملکوں میںجانے کا اتفاق ہوا، البتہ جنوبی افریقہ کبھی نہیں آیا تھا،اس بار ادارے نے پاکستانی سیریزکی کوریج کے لیے نامزد کر کے یہ موقع بھی فراہم کر دیا۔
کراچی سے دبئی آنے کے بعدڈربن تک کی فلائٹ تقریباً ساڑھے8 گھنٹے کی ہوتی ہے، وہاں پہنچنے کے بعد ٹیکسی سے ہوٹل کا سفر شروع کیا، ڈرائیور ایک ادھیڑ عمر کی افریقی خاتون تھیں، انھوں نے فوراً سوال داغ دیا کہ '' پسٹوریس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے'' ان کا اشارہ دونوں ٹانگوں سے محروم جنوبی افریقی بلیڈ رنر ایتھلیٹ کی جانب تھا جو گرل فرینڈ ریوا اسٹین کیمپ کو قتل کرنے کے بعد ضمانت پر رہا ہیں، جب میں نے اپنی رائے کا اظہار کر دیا تو اس سے متفق مذکورہ خاتون غصے سے آگ بگولہ ہو کر بولیں '' آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں، یہ کوئی بات نہ ہوئی کہ اگر کوئی مشہور اور دولتمند انسان کسی کو قتل کر دے تو اسے ضمانت پر چھوڑ دیا جائے، پسٹوریس کے گھر کی دیواریں اتنی بلند اور وہاں ایسا سکیورٹی نظام نصب ہے کہ کوئی پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا۔
ایسے میں اس نے کیسے سمجھا کہ چور داخل ہو گیا تھا، اگر یہ بات مان بھی لی جائے تو چار گولیاں کیوں ماریں، اس سے تو یہی لگتا ہے کہ قتل کا ارادہ تھا، اس معاملے میں تمام جنوبی افریقی خواتین پسٹوریس کیخلاف اور بعض تنظیموں نے اسے سزا دلانے کے لیے مہم بھی چلائی ہوئی ہے''۔ ان کی یہ بات تو صحیح تھی مگر عدالت نے کچھ سوچ کر ہی پسٹوریس کو رہا کیا ہوگا، دیکھتے ہیں اس کیس میں مستقبل میں کیا ہوتا ہے،البتہ اپنی منزل پر پہنچ کر جب ساڑھے چارسورینڈ(5ہزار سے زائد پاکستان روپے) کرایہ ادا کیا تو مجھے اندازہ ہو گیا کہ یہاں بھی کچھ سستا نہیں ہوگا۔
اس وقت تک پاکستانی ٹیم نے بھی ڈربن پہنچ کر پریکٹس کا آغاز کر دیا تھا، میں نے ایسا ہوٹل منتخب کیا جو سہارا اسٹیڈیم سے چند منٹ کی ہی مسافت پر واقع تھا ، فاسٹ بولر جنید خان کی فٹنس کے بارے میں جب منیجر نوید اکرم چیمہ سے پوچھا تو انھوں نے جواب دیا کہ '' نیٹ میں اس نے اچھی رفتار سے بولنگ کی اور وہ مکمل فٹ ہو چکا ہے''۔
اگلے دن ایکریڈیشن کارڈ بنوانے کے لیے صبح ہی اسٹیڈیم پہنچ گیا، وہاں کچھ انتظار کا کہا گیا تو اسٹیڈیم دیکھنے کے لیے چل پڑا،ادھرسکیورٹی تو یقینا نظر آئی مگر پاکستان کی طرح کئی سو مسلح اہلکار موجود نہیں تھے،اسٹیڈیم کے باہر بھی لوگ ٹکٹیں خریدنے کے لیے قطار بنائے نظر آئے، منتظمین نے بتایا کہ شائقین کا جوش وخروش عروج پر ہے اور چند ٹکٹ ہی باقی رہ گئے ہیں،اس دوران گراؤنڈ میں جنوبی افریقی ٹیم پریکٹس کرتی دکھائی دی، پلیئرز ڈائیو لگا کر کیچز تھامتے اور پھر وکٹوں کا نشانہ بنا کر ایسی ہی خوشی کا اظہار کرتے جیسے کسی کھلاڑی کو آؤٹ کر دیا ہو، پروٹیز کا زیادہ زور فیلڈنگ پر ہی تھا،انداز بیحد منفرد دکھائی دیا، ہمارے فیلڈنگ کوچ جولین فاؤنٹین کو بجائے پاکستانی رنگ میں رنگنے کے ان سے سیکھنا چاہیے۔
جنوبی افریقی پلیئرز کو ٹریننگ میں مدد دینے کے لیے بڑے بڑے ٹائرز بھی گراؤنڈ میں رکھے گئے تھے،کچھ دیر بعد کپتان فاف ڈوپلیسس کی پریس کانفرنس ہوئی، جس طرح ماضی میں پروٹیز نے کم عمری میں ناتجربہ کار گریم اسمتھ کو قیادت سونپی جنھوں نے ٹیم کو ٹیسٹ نمبر ون بنا دیا اور بطور قائد میچز کی سنچری بھی مکمل کر چکے، اب ٹی ٹوئنٹی میں ڈوپلیسس کو کپتانی سونپی گئی ہے، اس کی وجہ آئندہ برس بنگلہ دیش میں شیڈول مختصر طرز کا ورلڈکپ بنا،اسکواڈ میں بھی بیشتر نئے اور تروتازہ کھلاڑی شامل کیے گئے جو میگا ایونٹ ہونے تک صلاحیتیں منوا چکے ہوں گے، پاکستانی کپتان کی دوپہر کو پریس کانفرنس شیڈول تھی مگر محمد حفیظ اور منیجر قدرے تاخیر سے آئے، نوید اکرم چیمہ نے اس پر صحافیوں سے معذرت بھی کی، اس دوران حفیظ کو دیکھا تو اندازہ ہوا کہ کارکردگی اچھی نہ ہو تو انسان سے چہرے کی رونق بھی روٹھ جاتی ہے، بڑھی ہوئی شیو کے ساتھ موجود حفیظ ٹی ٹوئنٹی میں عمدہ کارکردگی کی آس دلاتے رہے، جب میں نے ٹیسٹ میں ناقص کارکردگی کا سوال کیا تو انھوں نے وہی جواب دیا جو میں اب تک کئی آؤٹ آف فارم کھلاڑیوں سے سن چکا ہوں کہ ''فارم اچھی ہے مگر اسکور نہیں ہو رہا، ایسا ہر کرکٹر کے ساتھ ہوتا ہے، نیٹ میں بڑی محنت کر رہا ہوں جلد بڑی اننگز کھیلنے میں کامیاب رہوں گا''۔
کچھ عرصے قبل یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ مصباح کو الوداع کہہ کر تینوں طرز میں حفیظ کو کپتان بنا دیا جائے گا، مگر اب ایسا ہوتا ممکن دکھائی نہیں دیتا، بورڈ حکام کو نیا قائد تلاش کرنا پڑ سکتا ہے، شعیب ملک کے ''چاہنے والے'' بڑے دنوں سے انھیں منصب قیادت پر بٹھانے کے لیے کوشاں ہیں اس حوالے سے میں رپورٹ بھی دے چکا، میچ والے دن اس بارے میں خبر پڑھ کر آل راؤنڈر نے شرماتے ہوئے کہا کہ '' بھائی میں تو صرف اپنے کھیل پر توجہ دے رہا ہوں کپتانی کا نہیں سوچتا'' نجانے کیوں مجھے یہ جملہ بھی کچھ سنا سنا لگا۔
اس دوران علم ہوا کہ بورڈ نے کھلاڑیوں کی مخالفت کے باوجود فیملیز کو واپس بلانے کے اعلان پر عمل درآمد کر لیا ہے، یہ اس لحاظ سے ضروری تھا کہ ٹورز میں پلیئرز کی توجہ بٹی رہتی اورہروقت یہی خیال رہتا ہے کہ ہوٹل میں بچے اور بیگم آرام سے ہیں انھیں پسند کاکھانا ملا یا نہیں، ایک دورے میں تو معروف بیٹسمین اپنے بچے کو ڈائپرز تبدیل کرتے بھی دکھائی دیے تھے، اگر ٹیم جیت رہی ہوتی تو اور بات تھی ، تینوں ٹیسٹ ہارنے کے بعد بورڈ نے پلیئرز کو فیملیز سے دور کر کے کچھ غصہ ٹھنڈا کیا۔
پاکستانی ٹی ٹوئنٹی ٹیم ڈربن مگر مصباح الحق اور یونس خان سمیت ون ڈے کے پلیئرز جوہانسبرگ میں ہی مقیم تھے، میری کپتان سے فون پر بات ہوئی تو انھوں نے بتایا کہ وانڈررز میں پریکٹس جاری رکھے ہوئے ہیں،جنوبی افریقہ میں پاکستانیوں کی بڑی تعداد مقیم ہے، ایسے میں پلیئرز اکثر دعوتیں اڑاتے دکھائی دیے، ان میں فیشل کرانے کا رحجان بھی دیکھا گیا، بڑھتی عمر والے کھلاڑی جلد کو تروتازہ اور رنگ گورا کرانے کے لیے کوشاں نظر آئے۔
جنوبی افریقہ میں جرائم کی شرح بہت زیادہ ہے، یہاں کے بارے میں مشہور ہیں کہ اگر کوئی کچھ مانگے تو بغیر چوں چراں کیے دے دو،یہ گولی پہلے مارتے اور وجہ بعد میں بتاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ یہاں رات کو اکیلے باہر جانا خطرے سے خالی نہیں ہوتا،غیر ملکی تو فوراً ہی نظروں میں آ جاتے ہیں، ایسے میں اگر ہاتھ میں لیپ ٹاپ ہو تو یہ تو کسی ڈاکو کو خود ہی دعوت دینے کے مترادف ہو گا، ایک روز میں لنچ کرنے کے بعد ٹیکسی کا انتظار کر رہا تھا تو ایک باریش صاحب نے کہا '' برادر یہاں سے چلے جائیں ایسے کھڑے نہ ہوں ورنہ ہاتھ میں موجود بیگ کے ساتھ بقیہ سامان بھی گنوا دیں گے'' اتفاق سے فوراً ہی ٹیکسی آئی اور میں روانہ ہوگیا، پاکستان سے معروف ٹیلی ویژن جرنلسٹ سہیل عمران اور دو فری لانس نوجوان صحافی بھی ڈربن آئے تھے۔
ان میں سے ایک نے اپنے ساتھ ہوا واقعہ سناتے ہوئے کہا کہ رات کو ہوٹل سے باہر نکلا تھا کہ پولیس کی وردی میں ملبوس ایک افریقی شخص نے سو رینڈ مانگے، میں نے کہا کیوں تو اس نے ایک موٹی سی گالی دے کر شرٹ کے نیچے موجود پستول کی جانب اشارہ کیا، پرس کھول کر جب سو رینڈ دیے تو اس کی دیگر نوٹوں پر بھی نظر پڑ گئی اور بقیہ تین سو رینڈ بھی لے کر بھاگ نکلا، ایسے میں ایک اور پولیس اہلکار نظر آیا اس سے شکایت کی تو جواب دیا کہ یہاں ایسا عام ہے جعلی وردی میں لٹیرے اپنا کام کرجاتے ہیں، اگر کسی کی جیب میں وائرلیس نہ رکھا ہو تو سمجھ جائیں وہ نقلی پولیس والا ہے۔
پہلے ٹی ٹوئنٹی سے ایک روز قبل سے ہی بارش وقفے وقفے سے جاری تھی، میچ کے دن بھی ایسا ہوتا رہا، درمیان بھی کچھ وقفہ آیا تو امید ہوئی کہ شائد مقابلے کا انعقاد ہو جائے مگر ایسا نہ ہو سکا، تمام ٹکٹیں فروخت ہونے کے باوجود شائقین کی کم تعداد اسٹیڈیم آئی تھی شائد انھیں اندازہ ہو گیا تھا کہ بارش میچ نہیں ہونے دی گی، اس دوران مصباح الحق کو فون کیا جو شکوہ کرنے لگے کہ''ایکسپریس میں آج کل میرے بارے میں بہت کچھ آ رہا ہے،مجھے لوگ بتاتے رہتے ہیں'' اس پر میں نے انھیں یاد دلایا کہ شکست پر تنقید سہنے کے لیے تیار رہنا چاہیے تو وہ جذباتی ہو گئے اور کہا کہ ''جنوبی افریقہ یا آسٹریلیا میں کب پاکستان جیتتا ہے، ہمیں وجوہات تلاش کرنا ہوں گی صرف تنقید سے کچھ حاصل نہیں ہونا''، اس گفتگو کی مزید تفصیل یقینا قارئین کی نظروں سے گذر چکی ہو گی، میں نے بھی سوچا کہ مصباح کا کہنا غلط تو نہیں، 1992-3 میں کیپ ٹاؤن جنوبی افریقہ میں ہی پاکستانی ٹیم 43 رنز کے کمتر اسکور پر ڈھیر ہوچکی، بڑے بڑے کپتان یہاں سے خالی ہاتھ واپس گئے مگر اسے موجودہ اسکواڈ کے خراب کھیل کا جواز قرار نہیں دیا جا سکتا ، البتہ یہ تجویز مناسب ہے کہ نوجوان قومی کرکٹرز کو تجربہ حاصل کرنے کے لیے جنوبی افریقہ اور آسٹریلیا بھیجنا چاہیے۔ مصباح شکستوں کے ساتھ خود ذاتی فارم کے سبب بھی دباؤ کا شکار ہیں،ان کے بیٹ سے رنز اگلنا بند ہوگئے اور ٹیم بھی ہار رہی ہے، اس دوہرے دباؤ سے ون ڈے سیریز کے دوران نمٹنا انکے لیے آسان نہ ہوگا۔
یکم مارچ شاہدآفریدی کی سالگرہ کا بھی دن تھا، میں نے جب ان سے اس حوالے سے بات کی تو کہنے لگے کہ ''یاد ہے وہ وقت جب کرکٹرز ثقلین مشتاق اور مشتاق احمد کے ساتھ بھی13،14 سال قبل سالگرہ منائی تھی، اب ایسا نہیں کرتا''۔ آفریدی کے کئی چاہنے والے یہاں بھی موجود ہیں جنھیں میچ بارش کی نذر ہونے سے شدید مایوسی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
قومی ٹیم کے منیجر نوید اکرم چیمہ شریف النفس انسان ہیں، انھیں ایک مشورہ دیا جو قارئین سے بھی شیئر کرنا چاہوں گا کہ پلیئنگ الیون کو ایسے نہ چھپایا کریں جیسے یہ کوئی قومی راز ہو، دنیا کے دیگر ممالک کی طرح ایک روز قبل ہی اعلان کر دیں تاکہ میڈیا اندازے نہ لگاتا پھرے۔ ٹیم کے کوچ ڈیوواٹمور ان دنوں شدید تنقید کی زد میں ہیں، سابق کپتان حنیف محمد نے تو انھیں اردو سیکھنے کا مشورہ دے دیا ہے تاکہ کھلاڑیوں تک اپنی بات اچھے انداز سے پہنچا سکیں، ایسا ہونا ممکن دکھائی نہیں دیتا البتہ کوچ نے پاکستانی کرکٹ کی سیاست اور جگہ برقرار رکھنے کے لیے جو اقدامات ضروری ہیں وہ ضرور سیکھ لیے ہیں، اسی وجہ سے اب وہ بھی سینئرز کی ہاں میں ہاں ملاتے دکھائی دیتے ہیں، البتہ انھیں یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ جب سینئرز ہی نہیں رہیں گے تو پھر وہ کیسے اپنی پوزیشن بچائیں گے،ان کا کام کھلاڑیوں کو بڑے مقابلوںکے لیے تیار کرنا ہے اور اس ذمے داری کو پوری ایمانداری سے نبھانا چاہیے، پاکستان میں ہر سیریز میں شکست کے بعد قربانی کا بکرا تلاش کیا جاتا ہے اور وہ ملکی یا غیرملکی کوئی بھی ہو سکتا ہے، شائد کوئی پاکستانی اس کا انگریزی میں ترجمہ کر کے کوچ کو بتادے۔
پاکستانی اسکواڈ کی اب اگلی منزل سنچورین ہے جہاں اتوار کو دوسرا ٹی ٹوئنٹی میچ کھیلا جائے گا، اب سے چند گھنٹے بعد کی فلائٹ سے ٹیم جوہانسبرگ اور پھر وہاں سے بائی روڈ چند کلومیٹر دور واقع سنچورین پہنچے گی، مسلسل شکستوں سے پلیئرز کا مورال گرگیا ایسے میں ٹی ٹوئنٹی اور ون ڈے میں عمدہ کارکردگی کھوئی ہوئی مسکراہٹ واپس لا سکتی ہے، جس وقت میں یہ سطور تحریر کر رہا ہوں ، ہوٹل روم کی کھڑکی سے آسمان پر بادل چھٹتے دکھائی دے رہے ہیں، کاش ایسا کل ہو جاتا تو میچ بارش کی نذر نہ ہوتا، اب سنچورین میں فتح کی امید ہے، مجھے بھی روانگی کے لیے سامان پیک کرنا ہے ، دورے کی مزید روداد انہی صفحات پر آئندہ پیش کرنے کی کوشش کروں گا۔