ترین نے ٹرسٹ ظاہرکیا نہ 18 ہزارایکڑ کی لیز ثابت کر سکے سپریم کورٹ

پاناما کیس میں بھی بینی فیشل اونر کا معاملہ تھا،کیا لندن کاگھراثاثہ نہیں، فل بینچ

رقم منتقلی سے منی لانڈرنگ کا تاثر ملا نہ کمپنی کے متعلق جواب میں بے ایمانی نظرآئی: عدالت، وکیل کے دلائل مکمل، سماعت 7نومبرتک ملتوی فوٹو: فائل

سپریم کورٹ نے جہانگیر ترین نااہلی کیس میں ریمارکس دیے ہیں کہ جہانگیر ترین نے ویلتھ گوشواروں میں ٹرسٹ کو ظاہر نہیں کیا جبکہ 18ہزار ایکڑ اراضی کی لیز بھی دستاویزات سے ثابت نہیں کرسکے۔ پاناما کیس میں بھی ٹرسٹ کے بینی فیشل اونر کا معاملہ تھا، بینکنگ ٹرانزیکشنز سے منی لانڈرنگ کا تاثر نہیں لیا جا سکتا۔

جہانگیر ترین کے وکیل نے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا کہ انکے موکل کا مقدمہ پاناما کیس سے مختلف ہے، مفروضوں پر کسی کو نااہل نہیں کیا جاسکتا۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں فل بینچ نے بدھ کو حنیف عباسی کی درخواستوں پر سماعت کی۔ سکندر بشیر نے موقف اپنایا کہ جہانگیرترین نے اپنی قانونی آمدن سے رقم بیرون ملک بھیجی، 2011میں 25 لاکھ پائونڈ،2012 میں 5لاکھ پائونڈ اور 2014 میں11لاکھ ڈالر منتقل کیے۔ لندن سے باہرگھرکی تعمیر کیلیے اگست 2011میں بینک سے قرضہ لیا۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیاکہ کیا یہ قرض جہانگیر ترین نے اداکیا؟ تو وکیل کا کہنا تھا کہ 21لاکھ پائونڈ کا قرض جہانگیر ترین نے بینک سے لیا اور وہی ٹرسٹ کو رقم بھیجتے تھے۔

بینک سے قرض آف شور کمپنی نے لیا اور کمپنی بینک کوقرض اداکرتی تھی۔ جسٹس فیصل عرب کے استفسار پر کیاکہ کیا لندن کاگھراثاثہ نہیں؟ وکیل نے جواب دیا کہ قانونی طورپر وہ جہانگیر ترین کااثاثہ نہیں۔ جسٹس فیصل عرب نے کہاکہ دستاویزات سے معلوم نہیں ہوتاکہ رقم کسی اکائونٹ میں منتقل ہوئی، وکیل کا کہنا تھا کہ پاکستان سے رقم آف شور کمپنی کے اکائونٹ میں منتقل ہوئی، عدالت حکم دے تو اکائونٹ کی تفصیل منگوا لوں گا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ رقم کی ٹرانزیکشن سے یہ تاثر نہیں لیاجاسکتاکہ منی لانڈرنگ ہوئی، رقم منتقلی بذریعہ بینک ہوئی۔ حنیف عباسی کے وکیل عاضد نفیس نے بتایا کہ رقم ٹرسٹ نہیں بلکہ آف شور کمپنی کے اکائونٹ میں منتقل ہوئی۔ چیف جسٹس نے کہاکہ درخواست گزارکا مقدمہ آف شورکمپنی کوظاہرنہ کرنے کاہے لیکن ایک سوال یہ ہے کہ کیارقم کی منتقلی اور جائیداد کی خریداری میں بے ایمانی ہوئی؟


کیس میں ایمانداری کودیکھناہے تاہم جہانگیرترین کی کمپنی سے متعلق جواب میں بے ایمانی نظرنہیں آتی۔ حنیف عباسی کے وکیل کا کہنا تھا کہ جہانگیرترین نے بچوں کوکروڑوں روپے کے تحفے دیے جس پر سکندر بشیر نے جواب دیا کہ جہانگیرترین نے تحفوں پر ٹیکس ادا کر رکھا تھا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیاتحائف کے تبادلوں کوکسی جگہ چیلنج کیاگیا؟ سکندر بشیر کا کہنا تھا کہ ٹیکس حکام کوریکارڈ سے مطمئن کیاگیا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ کیاتحائف کے تبادلوں کو184/3 کے مقدمہ میں بے ایمانی قراردے سکتے ہیں؟ تو وکیل نے جواب دیا کہ 184/3میں عدالت قانونی اقدامات پرکسی کو بے ایمان نہیں کہہ سکتی۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اس مقدمے میں اتنی دستاویزات آئی ہیں یہ توقع نہ کریں 24گھنٹے میں فیصلہ دیدیں گے۔

جسٹس بندیال نے کہاکہ جہانگیرترین نے ویلتھ گوشواروں میں ٹرسٹ کوظاہرنہیں کیا اور بچوں کے تحائف کوظاہر کیا حالانکہ بچوں کے اثاثے بھی ظاہرکرنا ہوتے ہیں۔ جسٹس فیصل عرب کے استفسار پرکہ اگرٹرسٹ ختم ہوجائے توجہانگیرترین کوکیا ملے گا، وکیل نے کہاکہ اثاثے کی تقسیم میں جوجہانگیرترین کوملے وہ ان کااثاثہ ہوگا۔ جسٹس بندیال نے کہاکہ پاناما کیس میں بھی بینیفشل مالک کا ایشو تھا، وکیل نے کہا کہ حسین نواز کا ٹرسٹ جہانگیر ترین کے ٹرسٹ سے مختلف تھاکیونکہ حسین نواز کمپنیوں کے بینیفشل مالک تھے لیکن جہانگیر ترین بنیفشل مالک نہیں۔

چیف جسٹس نے کہاکہ اکرم شیخ نے موقف لیاتھاکہ سب چیزوں کوبھول جائیں، عمران خان نے ایک لاکھ پائونڈ، این ایس ایل اور فلیٹ کے ایڈوانس کوظاہر نہیں کیا، انکے مطابق پاناما کیس اورعمران خان کے کیس میں مطابقت ہے جبکہ عمران خان نے اثاثوں کوظاہرنہیں کیا، اس لئے آپ یہ بتائیں ان مقدمات کو اور جہانگیر ترین کے مقدمے میں عدم مطابقت کیاہے۔ پاناما فیصلہ قابل وصول تنخواہ ظاہرنہ کرنے پر دیاگیا۔ پاناما کیس میں 2 ججوں نے بیانات میں تضاد پر نااہلی کا فیصلہ کیا جبکہ3 ججوں نے قرار دیا کہ قابل وصول تنخواہ اثاثہ تھا جسے ظاہر نہ کرنا بددیانتی ہے۔ جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ پاناما کیس کو زیرغور کیس سے الگ کرنا انتہائی اہم ہوگا کیونکہ دونوں مقدمات میں ٹرسٹ اور ملکیت کا ہی تنازع ہے۔

سکندر بشیر نے کہاکہ پاناما فیصلہ جھوٹابیان حلفی دینے پرہوا۔جہانگیرترین نے دستاویزات پیش کی ہیں جبکہ نوازشریف نے پریوں کی کہانیاں سنائیں ۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ہم نے دیانت داری کے نکتے کو دیکھنا ہے جس کے لیے نیت نہیں عمل کو دیکھا جاتا ہے۔ اے پی پی کے مطابق جسٹس فیصل عرب نے استفسار کیا کہ آخر اس کی کیا وجہ ہے کہ امیر ترین آدمی کو اسکے بچوں نے تحائف دیے، چیف جسٹس نے کہا کہ والد کے امیر، غریب ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا،ایسی آمدن جس پر ٹیکس دیا ہو اسکو تحفہ کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ سکندر بشیر کے دلائل مکمل ہوگئے جس پر عدالت نے مزید سماعت 7نومبرتک ملتوی کردی اور اٹارنی جنرل کو سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن ایکٹ کی شق 15اے اور بی کے حوالے سے دلائل پیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔
Load Next Story