آنے والے دن بہتر مستقبل کی نوید
حکومت جب آپ کو مقتدر قوتوں کی من مانی شرائط کے ساتھ ملے تو پھر وہی ہوتا ہے جو موجودہ وفاقی حکومت کے ساتھ ہوا۔
چند دن جاتے ہیں کہ ہمارے یہاں بھی وہ دن طلوع ہوگا جب ایک جمہوری حکومت اپنی مدت مکمل کرے گی، حزب اقتدار اور حزب اختلاف کی مشاورت سے ایک نگراں حکومت قائم ہوگی،جس کے بعد ریٹائرڈ جسٹس فخر الدین جی ابراہیم کی نگرانی میں کام کرنے والا الیکشن کمیشن اپنی حد تک پوری کوشش کرے گا کہ ملک بھر میں آزاد اور شفاف انتخابات ہوسکیں تاکہ ایک نئی منتخب حکومت ملکی نظم و نسق سنبھال سکے۔ عوام سکھ کا سانس لیں اور بجا طور پر یہ امید کریں کہ جمہوریت کے ثمرات انھیں ملنے کا آغاز ہوسکے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہم لوگوں کو موجودہ حکومت سے بہت سی شکایتیں رہی ہیں جن میں سب سے اہم نظم و نسق کی تباہی، امن وامان کی المناک صورتحال، توانائی کا بحران، مہنگائی اور دہشتگردی کا گرداب ہیں۔ ان شکایتوں کے ساتھ ہی یہ بھی تسلیم کرتے بنتی ہے کہ گزشتہ پانچ برس کے دوران این آر او کی شرائط کے تحت اقتدار میں آنیوالی حکومت بہت سے معاملات میں بے بس تھی۔ حکومت جب آپ کو مقتدر قوتوں کی من مانی شرائط کے ساتھ ملے تو پھر وہی ہوتا ہے جو موجودہ وفاقی حکومت کے ساتھ ہوا۔
یہاں داد کے حقدار مسلم لیگ (ن) کے رہنما نواز شریف ٹھہرتے ہیں جن کی جماعت نے ابتداء میں وفاقی حکومت میں وزارتیں سنبھالیں لیکن جب انھیں اندازہ ہوا کہ این آر او کی شرائط میں جکڑی ہوئی حکومت اپنے طور پر فیصلے نہ کرسکے گی تو انھوں نے اس سے علیحدہ ہونے میں عافیت سمجھی۔ جمہوریت کے دشمنوں نے اس علیحدگی پر بہت ڈھول تاشے بجائے۔ میاں صاحب کو بار بار اکسایا گیا کہ وہ پیپلز پارٹی کی حکومت کا دھڑن تختہ کردیں لیکن انھوں نے بہت تحمل اور سیاسی تدبر سے کام لیا۔
وہ جانتے تھے کہ یہ دام ہم رنگ زمیں ملک میں ایک بار پھر جمہوریت کے خاتمے کے لیے بچھایا جارہا ہے۔ ان کی سیاست کا محور و مرکز جناب آصف علی زرداری کی حکومت کا خاتمہ نہیں، ملک میں جمہوریت کی بالادستی اور استحکام رہا ہے۔ وہ یہ سمجھتے تھے کہ پانچ برس اگر ان کی پارٹی صرف پنجاب میں یک سوئی سے حکومت کرسکے اور وہاں جمہوری کلچر کو مستحکم کرنے کا فرض ادا کرسکے تو یہ ایک بڑی بات ہوگی۔ انھوں نے محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ میثاق جمہوریت پر دستخط کیے تھے اور آج تک وہ اپنے اس معاہدے پر قائم رہے ہیں۔ محترمہ نے جنرل پرویز مشرف سے جس این آر او پر دستخط کیے، اس سے میاں صاحب کا کوئی علاقہ نہیں تھا لیکن یہ بالکل درست ہے کہ این آر او ہوجانے کے بعد میاں صاحب واپس آنے میں کامیاب ہوسکے۔
گزشتہ پانچ برسوں میں جمہوریت کو جتنے جھٹکے لگے ہیں، وہ زرداری صاحب اور میاں صاحب دونوں کو معلوم ہیں۔ پیپلز پارٹی بہ ظاہر اسے خواہ تسلیم نہ کرے لیکن بہ باطن اس کا ہر فرد جانتا ہے کہ وفاقی حکومت اگر پانچ برس قائم رہی تو اس میں صدر، عدلیہ، سول سوسائٹی کا کردار ضرور تھا لیکن اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ میاںصاحب نے کسی قسم کی بھی تحریص میں آنے سے انکار کردیا تھا۔ اس دوران کیسی کیسی اصطلاحات ایجاد نہیں کی گئیں۔جمہوریت کو قائم رکھنے کے لیے میاں صاحب نے اگر کسی بھی قسم کا غلط اقدام نہیںکیا تو اسے 'مک مکا' کے نام سے پکارا گیا۔پاکستان میں سیاستدانوں کی ڈوریاں ہلانے والوں اور کٹھ پتلی تماشا دکھانے والوں کو اندازہ تھا کہ اگر منتخب حکومت نے ایک مرتبہ بھی اپنی مدت پوری کرلی اور اقتدار دوسری منتخب حکومت کو منتقل کردیا تو اس کے بعد اقتدار کا کھیل ان کے ہاتھ سے نکل جائے گا اور وہ اس پر قادر نہ ہوسکیں گے کہ جس کے سرپر چاہیں حکومت کا ہما بٹھائیں اور جب چاہیں اس شخص کی گردن مروڑ کر پھینک دیں اور ہما کے لیے کسی دوسرے سر کا انتخاب کریں۔
ہم نے ان پانچ برسوں میں کیسے کیسے تماشے نہ دیکھے۔ ایک طرف سونامی خان تھے جو کرکٹ کی اصطلاحات بولتے ہوئے میدان میں اترے اور انھوں نے اپنے ورود مسعود کے پہلے دن سے کلین سوئپ کانعرہ لگایا اور آج تک یہی ان کے ورد زباں ہے۔ جب اندازہ ہوا کہ سونامی بھی جمہوریت کے نازک پودے کو بہا لے جانے میں ناکام رہا ہے تو پھر ہم پر کینیڈین اسکائی لیب کا حملہ ہوا۔ یہ حملہ تو کسی کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا۔ وہ اپنا 'چالیس لاکھ' کا لشکر لے کر چلے جو کسی طرح بھی چالیس ہزار سے زیادہ نہ تھا اور وہ بھی اس ملک کے عوام پر مشتمل نہ تھا۔ ان کے مرید، ان کے مدرسوں اور اسکولوں میں کام کرنے والوں کے خاندان سب ہی شامل تھے۔
وہ واقعہ کربلا کا ذکر کرتے ہوئے آئے اور پھر حشر ان کا ابرہہ کے لشکر جیسا ہوا۔ اس پر ابابیلوں نے کنکر برسائے تھے، یہاں تو وہ اپنے بلٹ پروف اور بم پروف کاروان میں محفوظ رہے ۔ لیکن ان کے ساتھ آنے والے بے قصور بچوں، عورتوں اور مردوں پر اسلام آباد کے آسمان نے اولے برسائے۔ جس شان سے آئے تھے، اسی قدر خاموشی سے واپس ہوئے۔ فتح کے نشانات دکھاتے ہوئے سپریم کورٹ تشریف لے گئے اور جب وہاں سے بہ یک بینی ودو گوش رخصت کیے گئے تو کف در دہن تھے۔
بس نہیں چلتا تھا کہ سپریم کورٹ کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں۔ کیوں کہ وہ انتخابات ملتوی کرانے کا فریضہ انجام نہیں دے سکے تھے۔ صرف یہی نہیں ہوا اس دوران دہشت گردی کے کیسے کیسے بھیانک کھیل نہیں کھیلے گئے۔ صرف خیبرپختونخوا میں 57 خود کش دھماکے ہوئے جن میںہزاروں بے گناہ جان سے گئے۔ مقدس مزار اڑائے گئے تاکہ کسی طرح مسلکی لڑائی شروع ہوسکے، جب اس میں بھی ناکامی ہوئی تو پھر شیعہ سنی فسادات کے لیے کوئٹہ میں کیسی خوفناک بساط نہیں بچھائی گئی؟ اس بساط کو بچھانے والوں کو یقین تھا کہ اب سارے ملک میں سنی اور شیعہ دست وگریباں ہوجائیں گے اور خون کی وہ ندیاں بہیں گی جس کے بعد انتخابات ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
الیکشن کمیشن کو اور چیف الیکشن کمشنر کو متنازعہ بنانے کی کیسی کیسی کوششیں نہیں ہوئیں، سپریم کورٹ میں کیسے کیسے دلچسپ مقدمات نہیں دائر ہوئے۔ ہر طرح کوشش یہی تھی کہ انتخابات ملتوی ہوجائیں اور کم سے کم تین برس کے لیے ایک ایسی حکومت برسراقتدار آجائے جو من مانی کرتی رہے اور اپنے سرپرستوں کے لیے آئندہ اقتدار پر قبضہ کرنے کی راہ ہموار کر سکے۔یہ پاکستان کی بیشتر سیاسی جماعتوں کی بالغ نظری ہے کہ انھوں نے کسی بھی مرحلے پر لالچ اور حرص و ہوس کے جال میں پھنسنے سے انکار کردیا اور وہ صبرو سکون سے اس بات کا انتظار کرتے رہے کہ جمہوری عمل کو ہر قیمت پر کام کرنے دیا جائے۔
سب ہی جانتے ہیں کہ اس جمہوری عمل کی رفتار کس قدر سست ہے لیکن وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ کسی نوزائیدہ کو اگر دوڑانے کی کوشش کی جائے تو وہ منہ کے بل گرے گا۔ یہ نوزائیدہ جمہوریت اپنے دوستوں کے سہارے کی طلبگار ہے اور یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ سپریم کورٹ کے ساتھ ساتھ تمام جمہوری اداروں نے اپنا مثبت کردار ادا کیا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ ایک انہونی ہوئی ہے اور پاکستانی فوج کی طرف سے بھی بار بار جمہوریت کی پاسداری کی یقین دہانی کرائی جارہی ہے ۔ یہ کہا جارہا ہے کہ فوج کا ادارہ جمہوری عمل کی پشت پر کھڑا ہے اور وہ ملک میں آزاد اور شفاف انتخابات ہونے اور اس کے بعد جس جماعت کو بھی اکثریت ملے اس کو اقتدار کی منتقلی کا حامی ہے۔
اس نوعیت کا بیان جب پہلی مرتبہ ڈی جی آئی ایس پی آر کی طرف سے آیا تو لوگوں کو اپنی سماعتوں پر یقین نہیں آیا لیکن پھر چیف آف آرمی اسٹاف کی طرف سے بھی واضح الفاظ میں یہی کہا گیا کہ وہ جمہوری عمل کے استحکام اور اس کے تسلسل کے طرفدار ہیں تو دودھ کے جلے لوگوں کو کچھ کچھ یقین آیا۔ یوں بھی جب اس سے پہلے فوج کی طرف سے نئے ڈاکٹرائن کو اختیار کرنے کا اعلان آیا تو اس پر بھی لوگوں کو بڑی مشکل سے اعتبار آیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس بیان کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں تھا کہ وہ بات جسے ملک کے سیاستدان، دانشور، قانون دان ، صحافی اور سول سوسائٹی کے دیگر اہم اراکین سالہاسال سے کہہ رہے تھے، اسے فوج نے تسلیم کرلیا ہے۔ وہ عناصر جنھیں اپناا سٹرٹیجک اثاثہ کہا جاتا تھا، ان کی سرپرستی سے دست کش ہونے کی بات کی جارہی ہے۔
بیرونی دشمن سے لڑنے کی چھ دہائی پرانی حکمت عملی سے گزیر کرکے سرحدوں کے اندر انتہا پسندی کے خطرات سے نمٹنے کا نقطۂ نظر اختیار کیا جارہا ہے تاکہ ریاست کو ٹکڑے ٹکڑے ہونے سے بچایا جاسکے۔ یہ بات اب سمجھ لی گئی ہے کہ جس طرح ایک میان میں دو تلواریں نہیں رہ سکتیں، اسی طرح ایک ریاست کے اندر دو عسکری قوتوں کا گزر ممکن نہیں۔
یہ وہ تمام خوش آئند معاملات ہیںجن کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ناامیدی کے بادل چھٹ رہے ہیں جو دن آرہے ہیں وہ پاکستان اور اس کے لوگوں کے لیے بہتر مستقبل کی نوید لے کر آنے والے ہیں۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہم لوگوں کو موجودہ حکومت سے بہت سی شکایتیں رہی ہیں جن میں سب سے اہم نظم و نسق کی تباہی، امن وامان کی المناک صورتحال، توانائی کا بحران، مہنگائی اور دہشتگردی کا گرداب ہیں۔ ان شکایتوں کے ساتھ ہی یہ بھی تسلیم کرتے بنتی ہے کہ گزشتہ پانچ برس کے دوران این آر او کی شرائط کے تحت اقتدار میں آنیوالی حکومت بہت سے معاملات میں بے بس تھی۔ حکومت جب آپ کو مقتدر قوتوں کی من مانی شرائط کے ساتھ ملے تو پھر وہی ہوتا ہے جو موجودہ وفاقی حکومت کے ساتھ ہوا۔
یہاں داد کے حقدار مسلم لیگ (ن) کے رہنما نواز شریف ٹھہرتے ہیں جن کی جماعت نے ابتداء میں وفاقی حکومت میں وزارتیں سنبھالیں لیکن جب انھیں اندازہ ہوا کہ این آر او کی شرائط میں جکڑی ہوئی حکومت اپنے طور پر فیصلے نہ کرسکے گی تو انھوں نے اس سے علیحدہ ہونے میں عافیت سمجھی۔ جمہوریت کے دشمنوں نے اس علیحدگی پر بہت ڈھول تاشے بجائے۔ میاں صاحب کو بار بار اکسایا گیا کہ وہ پیپلز پارٹی کی حکومت کا دھڑن تختہ کردیں لیکن انھوں نے بہت تحمل اور سیاسی تدبر سے کام لیا۔
وہ جانتے تھے کہ یہ دام ہم رنگ زمیں ملک میں ایک بار پھر جمہوریت کے خاتمے کے لیے بچھایا جارہا ہے۔ ان کی سیاست کا محور و مرکز جناب آصف علی زرداری کی حکومت کا خاتمہ نہیں، ملک میں جمہوریت کی بالادستی اور استحکام رہا ہے۔ وہ یہ سمجھتے تھے کہ پانچ برس اگر ان کی پارٹی صرف پنجاب میں یک سوئی سے حکومت کرسکے اور وہاں جمہوری کلچر کو مستحکم کرنے کا فرض ادا کرسکے تو یہ ایک بڑی بات ہوگی۔ انھوں نے محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ میثاق جمہوریت پر دستخط کیے تھے اور آج تک وہ اپنے اس معاہدے پر قائم رہے ہیں۔ محترمہ نے جنرل پرویز مشرف سے جس این آر او پر دستخط کیے، اس سے میاں صاحب کا کوئی علاقہ نہیں تھا لیکن یہ بالکل درست ہے کہ این آر او ہوجانے کے بعد میاں صاحب واپس آنے میں کامیاب ہوسکے۔
گزشتہ پانچ برسوں میں جمہوریت کو جتنے جھٹکے لگے ہیں، وہ زرداری صاحب اور میاں صاحب دونوں کو معلوم ہیں۔ پیپلز پارٹی بہ ظاہر اسے خواہ تسلیم نہ کرے لیکن بہ باطن اس کا ہر فرد جانتا ہے کہ وفاقی حکومت اگر پانچ برس قائم رہی تو اس میں صدر، عدلیہ، سول سوسائٹی کا کردار ضرور تھا لیکن اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ میاںصاحب نے کسی قسم کی بھی تحریص میں آنے سے انکار کردیا تھا۔ اس دوران کیسی کیسی اصطلاحات ایجاد نہیں کی گئیں۔جمہوریت کو قائم رکھنے کے لیے میاں صاحب نے اگر کسی بھی قسم کا غلط اقدام نہیںکیا تو اسے 'مک مکا' کے نام سے پکارا گیا۔پاکستان میں سیاستدانوں کی ڈوریاں ہلانے والوں اور کٹھ پتلی تماشا دکھانے والوں کو اندازہ تھا کہ اگر منتخب حکومت نے ایک مرتبہ بھی اپنی مدت پوری کرلی اور اقتدار دوسری منتخب حکومت کو منتقل کردیا تو اس کے بعد اقتدار کا کھیل ان کے ہاتھ سے نکل جائے گا اور وہ اس پر قادر نہ ہوسکیں گے کہ جس کے سرپر چاہیں حکومت کا ہما بٹھائیں اور جب چاہیں اس شخص کی گردن مروڑ کر پھینک دیں اور ہما کے لیے کسی دوسرے سر کا انتخاب کریں۔
ہم نے ان پانچ برسوں میں کیسے کیسے تماشے نہ دیکھے۔ ایک طرف سونامی خان تھے جو کرکٹ کی اصطلاحات بولتے ہوئے میدان میں اترے اور انھوں نے اپنے ورود مسعود کے پہلے دن سے کلین سوئپ کانعرہ لگایا اور آج تک یہی ان کے ورد زباں ہے۔ جب اندازہ ہوا کہ سونامی بھی جمہوریت کے نازک پودے کو بہا لے جانے میں ناکام رہا ہے تو پھر ہم پر کینیڈین اسکائی لیب کا حملہ ہوا۔ یہ حملہ تو کسی کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا۔ وہ اپنا 'چالیس لاکھ' کا لشکر لے کر چلے جو کسی طرح بھی چالیس ہزار سے زیادہ نہ تھا اور وہ بھی اس ملک کے عوام پر مشتمل نہ تھا۔ ان کے مرید، ان کے مدرسوں اور اسکولوں میں کام کرنے والوں کے خاندان سب ہی شامل تھے۔
وہ واقعہ کربلا کا ذکر کرتے ہوئے آئے اور پھر حشر ان کا ابرہہ کے لشکر جیسا ہوا۔ اس پر ابابیلوں نے کنکر برسائے تھے، یہاں تو وہ اپنے بلٹ پروف اور بم پروف کاروان میں محفوظ رہے ۔ لیکن ان کے ساتھ آنے والے بے قصور بچوں، عورتوں اور مردوں پر اسلام آباد کے آسمان نے اولے برسائے۔ جس شان سے آئے تھے، اسی قدر خاموشی سے واپس ہوئے۔ فتح کے نشانات دکھاتے ہوئے سپریم کورٹ تشریف لے گئے اور جب وہاں سے بہ یک بینی ودو گوش رخصت کیے گئے تو کف در دہن تھے۔
بس نہیں چلتا تھا کہ سپریم کورٹ کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں۔ کیوں کہ وہ انتخابات ملتوی کرانے کا فریضہ انجام نہیں دے سکے تھے۔ صرف یہی نہیں ہوا اس دوران دہشت گردی کے کیسے کیسے بھیانک کھیل نہیں کھیلے گئے۔ صرف خیبرپختونخوا میں 57 خود کش دھماکے ہوئے جن میںہزاروں بے گناہ جان سے گئے۔ مقدس مزار اڑائے گئے تاکہ کسی طرح مسلکی لڑائی شروع ہوسکے، جب اس میں بھی ناکامی ہوئی تو پھر شیعہ سنی فسادات کے لیے کوئٹہ میں کیسی خوفناک بساط نہیں بچھائی گئی؟ اس بساط کو بچھانے والوں کو یقین تھا کہ اب سارے ملک میں سنی اور شیعہ دست وگریباں ہوجائیں گے اور خون کی وہ ندیاں بہیں گی جس کے بعد انتخابات ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
الیکشن کمیشن کو اور چیف الیکشن کمشنر کو متنازعہ بنانے کی کیسی کیسی کوششیں نہیں ہوئیں، سپریم کورٹ میں کیسے کیسے دلچسپ مقدمات نہیں دائر ہوئے۔ ہر طرح کوشش یہی تھی کہ انتخابات ملتوی ہوجائیں اور کم سے کم تین برس کے لیے ایک ایسی حکومت برسراقتدار آجائے جو من مانی کرتی رہے اور اپنے سرپرستوں کے لیے آئندہ اقتدار پر قبضہ کرنے کی راہ ہموار کر سکے۔یہ پاکستان کی بیشتر سیاسی جماعتوں کی بالغ نظری ہے کہ انھوں نے کسی بھی مرحلے پر لالچ اور حرص و ہوس کے جال میں پھنسنے سے انکار کردیا اور وہ صبرو سکون سے اس بات کا انتظار کرتے رہے کہ جمہوری عمل کو ہر قیمت پر کام کرنے دیا جائے۔
سب ہی جانتے ہیں کہ اس جمہوری عمل کی رفتار کس قدر سست ہے لیکن وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ کسی نوزائیدہ کو اگر دوڑانے کی کوشش کی جائے تو وہ منہ کے بل گرے گا۔ یہ نوزائیدہ جمہوریت اپنے دوستوں کے سہارے کی طلبگار ہے اور یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ سپریم کورٹ کے ساتھ ساتھ تمام جمہوری اداروں نے اپنا مثبت کردار ادا کیا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ ایک انہونی ہوئی ہے اور پاکستانی فوج کی طرف سے بھی بار بار جمہوریت کی پاسداری کی یقین دہانی کرائی جارہی ہے ۔ یہ کہا جارہا ہے کہ فوج کا ادارہ جمہوری عمل کی پشت پر کھڑا ہے اور وہ ملک میں آزاد اور شفاف انتخابات ہونے اور اس کے بعد جس جماعت کو بھی اکثریت ملے اس کو اقتدار کی منتقلی کا حامی ہے۔
اس نوعیت کا بیان جب پہلی مرتبہ ڈی جی آئی ایس پی آر کی طرف سے آیا تو لوگوں کو اپنی سماعتوں پر یقین نہیں آیا لیکن پھر چیف آف آرمی اسٹاف کی طرف سے بھی واضح الفاظ میں یہی کہا گیا کہ وہ جمہوری عمل کے استحکام اور اس کے تسلسل کے طرفدار ہیں تو دودھ کے جلے لوگوں کو کچھ کچھ یقین آیا۔ یوں بھی جب اس سے پہلے فوج کی طرف سے نئے ڈاکٹرائن کو اختیار کرنے کا اعلان آیا تو اس پر بھی لوگوں کو بڑی مشکل سے اعتبار آیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس بیان کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں تھا کہ وہ بات جسے ملک کے سیاستدان، دانشور، قانون دان ، صحافی اور سول سوسائٹی کے دیگر اہم اراکین سالہاسال سے کہہ رہے تھے، اسے فوج نے تسلیم کرلیا ہے۔ وہ عناصر جنھیں اپناا سٹرٹیجک اثاثہ کہا جاتا تھا، ان کی سرپرستی سے دست کش ہونے کی بات کی جارہی ہے۔
بیرونی دشمن سے لڑنے کی چھ دہائی پرانی حکمت عملی سے گزیر کرکے سرحدوں کے اندر انتہا پسندی کے خطرات سے نمٹنے کا نقطۂ نظر اختیار کیا جارہا ہے تاکہ ریاست کو ٹکڑے ٹکڑے ہونے سے بچایا جاسکے۔ یہ بات اب سمجھ لی گئی ہے کہ جس طرح ایک میان میں دو تلواریں نہیں رہ سکتیں، اسی طرح ایک ریاست کے اندر دو عسکری قوتوں کا گزر ممکن نہیں۔
یہ وہ تمام خوش آئند معاملات ہیںجن کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ناامیدی کے بادل چھٹ رہے ہیں جو دن آرہے ہیں وہ پاکستان اور اس کے لوگوں کے لیے بہتر مستقبل کی نوید لے کر آنے والے ہیں۔