کرائے کے نوحہ گر
شکر ہمارے ملک میں دوسری چیزیں ملاوٹ زدہ ضرور ہیں لیکن آنسو خالص اور اپنے ہی ہیں۔
دنیا میں بے شمار چیزیں ایسی ہیں جو کرائے پر چلتی ہیں، کرایہ وصول بھی کیا جاتا ہے اور دیا بھی جاتا ہے، لیکن یہ بات ہماری معلومات میں پہلی بار آئی کہ اموات کے مواقعوں پر رونے والوں کو بھی کرائے پر بلایا جاتا ہے، رونے یا خوش ہونے کا تعلق انسان کے جذبات و احساسات سے ہوتا ہے، کوئی کسی کو زبردستی نہ ہنسا سکتا ہے اور نہ رلا سکتا ہے، تاوقتیکہ انسان کا حقیقی معنوں میں غم واندوہ سے واسطہ پڑا ہو یا خوشی کی ساعتیں اس کا مقدر بن گئی ہیں، لیکن جناب اخبار کی ایک خبر کے مطابق جنازوں میں رونے کا ماحول بنانے والی تائیوانی لڑکی فی پرفارمنس چھ سو ڈالر کماتی ہے، اس لڑکی کا نام لیوجن ہے، اسے ہر روز اجنبی لوگوں کے جنازوں میں یہ ہی کام کرنا پڑتا ہے، وہ تائیوان کی مشہور ترین پیشہ ور نوحہ گر ہے، نیز یہ ہے کہ نوحہ گری تائیوان کی پرانی روایت ہے۔ لیوا کا کہنا ہے کہ جب آپ کا کوئی عزیز فوت ہوتا ہے تو جنازے کا وقت آتے آتے آنسو خشک ہوجاتے ہیں تو پھر آپ غم کا اظہار کس طرح کریں گے؟ لیوا ماتمی ماحول قائم کرنے میں مدد دیتی ہے، لیوا کی ماں اور نانی بھی پیشہ ور نوحہ گر تھیں، گویا یہ خاندانی سلسلہ چل رہا ہے۔ ورنہ تو ہوتا تو کچھ اس طرح ہے کہ رونے کی کوئی نہ کوئی وجہ ہوتی ہے، جس طرح مرزا غالب نے اپنے رونے کی وجہ بیان کی ہے:
دل ہی تو ہے نہ سنگ وخشت درد سے بھر نہ آئے کیوں؟
روئیں گے ہم ہزار بار کوئی ہمیں ستائے کیوں
بنا ستائے اور بنا دکھ پہنچے کیونکر اشک باری کی جاسکتی ہے؟ لیکن اس مکر وفریب کی دنیا میں یقیناً ہر بات ممکن ہے، اپنوں کے دکھ میں چیخنا پکارنا، بین کرنا ضروری نہیں ہوتا ہے۔ غموں اور اپنوں سے جدائی کے احساس کا تعلق دل سے ہے، دل غمگین ہے تو پوری دنیا میں ہر سو دکھ ہی دکھ نظر آتا ہے۔ غالب کے دل میں اس قدر ویرانی اور سناٹا ہے کہ انھیں گھر دشت معلوم ہوتا ہے، کہتے ہیں کہ ؎
کوئی ویرانی سی ویرانی ہے
دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا
جب دل غموں کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوب چکا ہو تو کرائے کے نوحہ خوانوں کی بھلا کیا ضرورت۔ ہمارے ہاں تو کسی کی موت ہوجائے تو لواحقین کے لیے قیامت کا دن ہوتا ہے، زور زور سے رونے کی تو مذہب ویسے بھی اجازت نہیں دیتا لیکن آنسوؤں کا دریا جاری ہوجاتا ہے۔ آج کل تو یہ حال ہے کہ قدم قدم پر اموات ہوتی نظر آتی ہیں، بے چارے گھر والے روتے اس لیے ہیں اور عزیز واقارب مرنے والے کے گھر میں کھانے کا اہتمام کرتے ہیں، میت میں آنے والے بوٹیوں پر ہاتھ صاف کرتے ہیں۔ اکبر الٰہ آبادی نے ایسی ہی صورت حال کی وضاحت کی ہے ؎
بتاؤں بعد مرنے کے میرے کیا ہوگا
کھائیں گے پلاؤ احباب اور فاتحہ ہوگا
شکر ہمارے ملک میں دوسری چیزیں ملاوٹ زدہ ضرور ہیں لیکن آنسو خالص اور اپنے ہی ہیں، کسی ملک سے امپورٹ کرنے کی قطعی ضرورت نہیں ہے کہ دلوں میں محبت ہے، انسانیت اور نرم گوشہ ہے، میت کے گھر میں گھر والے تو گھر والے، اہل محلہ اور دور دور سے آئے ہوئے لوگ اپنے آنسو بہاتے ہیں، کئی کئی دن تک دل اداس رہتا ہے اور مرحوم کی ہر بات یاد آتی ہے اور آٹھ آٹھ آنسو رلاتی ہے۔ اپنے کیا غیر، سب ہی یاد کرکے آہیں بھرتے ہیں اور بالکل فطری انداز میں۔ جب اپنے پاس آنسوؤں کا ذخیرہ ہو، دل میں سچی محبت ہو تو دھاڑیں مارنے کی کیا ضرورت ہے بھلا؟ سچ ہے کہ دیار غیر میں جہاں بہت سی باتیں اور اصول اچھے ہیں، وہاں کچھ طور طریقے حیران کن اور پریشان کن ہیں۔ اولڈ ہوم کا تصور بھی مغرب سے ہی مشرق میں آیا ہے۔ ورنہ بھلا یہ کیا بات ہوئی اپنے والدین کو اس وقت جب انھیں سہارے اور مدد کی ضرورت ہوتی ہے، اولڈ ہوم لے جاکر بے کار سامان کی طرح پھینک دیا جائے اور پھر پلٹ کر دیکھنا بھی گوارا نہ کریں۔
اسی طرح شادی کی ضرورت کو بھی انھوں نے اہمیت نہیں دی ہے، جس کا دل چاہے شادی کے بندھن میں بندھ جائے اور جو چاہے تو آزاد رہ کر زندگی بسر کرے۔ شادی کرنے کی زبردستی تو ہمارے ملک میں بھی نہیں ہے، لیکن الحمدﷲ بے راہ روی بھی نہیں ہے۔ شادی کرنا سنت ہے اور سنت کا ادا کرنا انسانیت کی بقا، عزت و وقار اور دلی خوشی و اطمینان کا باعث ہوتا ہے، اس قلبی سکون سے وہی واقف ہیں جو سنتیں ادا کرتے ہیں اور ایک پاکیزہ زندگی بسر کرتے ہیں۔ اہل مغرب بھی شادی کرنے پر یقین رکھتے ہیں اور باقاعدگی کے ساتھ شادی کی رسومات ادا کرتے ہیں، لیکن آزادی کے حوالے سے انھوں نے کچھ قوانین بنالیے ہیں، جن کی رو سے جو جس طرح چاہے زندگی بسر کرے، کسی کو کسی سے شکایت نہیں لیکن ہمارے یہاں شکایات ہی شکایات ہیں، جہیز کم دیا جائے تو شکایت اور بعض اوقات شکایتیں حکایتوں میں بدل جاتی ہیں اور جہیز کے لالچی سسرال والے بیوی کو ہی ایندھن کی جگہ آگ میں جھونک دیتے ہیں۔
اکثر لالچی شوہر اپنی منکوحہ کو موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں۔ اس طرح کے واقعات آئے دن پیش آتے ہیں، شادی بیاہ کے مواقعوں پر اختلافات بات بات پر پیدا ہوجاتے ہیں، اس نے کھانے کے وقت نہیں پوچھا، عزت نہیں کی، نیک نہیں دیا، جوتا چھپائی میں بہنوئی جی نے کنجوسی دکھائی، آپس کی رنجشیں، چھوٹی چھوٹی باتوں پر جنم لیتی ہیں اور اس کے اثرات دماغ پر سالہا سال رہتے ہیں۔
ان تمام باتوں کے باوجود الحمدﷲ بہت سی بری رسومات سے ہم دور بہت دور ہیں، کم ازکم' ہمیں غم کے موقع پر کسی کو اشک بہانے اور واویلا کرنے کے لیے نہیں بلایا جاتا ہے، ہمارے اپنے غم اور اپنے سکھ میں گویا ہم ان معاملات میں خود کفیل ہیں کہ نرم گوشہ رکھتے ہیں اور پھر یہ کہ خونی رشتوں کا کوئی نعم البدل نہیں ہوتا ہے، ہر رشتے میں ہی محبت و ایثار ہے، ایک دوسرے پر جان قربان کرنے اور مسئلے مسائل کو بیان کرنے کے۔ پوری دنیا کے لوگ ان رشتوں کی حرمت و تقدس اور اہمیت سے واقف ہوتے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اگر گھر کے کسی فرد کو کوئی صدمہ پہنچے، حادثے کا شکار ہو، سانحات کا حملہ ہو، پورا گھر متاثر ہوتا ہے اور والدین تو ہر پل دعاگو اور سوگوار رہتے ہیں کہ کب ان کے بچوں کی تکلیف دور ہو تو وہ سکھ کا سانس لیں۔
مغرب میں بے شمار چیزیں مصنوعی نظر آتی ہیں اور غر فطری و غیر حقیقی بھی۔ بچوں کی پرورش خصوصاً اولاد کی آزادی، ماں کی بے توجہی، وہاں کی مائیں مشرق کی ماؤں سے یکسر مختلف ہیں، وہ اپنے ننھے منے بچوں کو بہت جلد اپنے سے جدا کردیتی ہیں، ان کے سونے، رہنے سہنے کے لیے کمرہ مختص کردیا جاتا ہے۔ اسلام کی تعلیمات کے حوالے سے بھی اگر دیکھا جائے تو بچے جہاں سمجھدار ہوں ان کے لیے علیحدہ سونے کا بندوبست کرنا ضروری ہے، اگر گھر میں جگہ میسر ہو تو؟ مگر مشرقی ماں اپنے لخت جگر، نور نظرکو ہر لمحے اپنے سینے سے لگائے رکھتی ہے، دن ہو یا رات جب تک بچہ چھوٹا ہے اس کا یہ ہی وطیرہ رہتا ہے۔
بعض گھرانوں میں بڑے بچے بھی ماؤں کی آغوش کے خواہشمند نظر آتے ہیں اور جہاں موقع ملا قبضہ کرلیا اور ماں جیسی عظیم ہستی اپنی محبت و شفقت کے معاملے میں اپنی اولاد کو کبھی مایوس نہیں کرتی۔ اسے اور اس کے گھرانے کو کسی بھی موقع پر تصنع و بناوٹ کا سہارا نہیں لینا پڑتا ہے، غم ہو یا خوشی ہر معاملے میں دلی جذبات کا اظہار کیا جاتا ہے، کسی عزیز کے بچھڑنے پر ان کے اپنے آنسو، آہیں اور سسکیاں کافی ہیں، کرائے کے نوحہ خوانوں کو بلانے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی ہے، چونکہ یہ سچے رشتے ہیں اور ان رشتوں کا وجود اﷲ رب العزت کے حکم سے آیا ہے۔
دل ہی تو ہے نہ سنگ وخشت درد سے بھر نہ آئے کیوں؟
روئیں گے ہم ہزار بار کوئی ہمیں ستائے کیوں
بنا ستائے اور بنا دکھ پہنچے کیونکر اشک باری کی جاسکتی ہے؟ لیکن اس مکر وفریب کی دنیا میں یقیناً ہر بات ممکن ہے، اپنوں کے دکھ میں چیخنا پکارنا، بین کرنا ضروری نہیں ہوتا ہے۔ غموں اور اپنوں سے جدائی کے احساس کا تعلق دل سے ہے، دل غمگین ہے تو پوری دنیا میں ہر سو دکھ ہی دکھ نظر آتا ہے۔ غالب کے دل میں اس قدر ویرانی اور سناٹا ہے کہ انھیں گھر دشت معلوم ہوتا ہے، کہتے ہیں کہ ؎
کوئی ویرانی سی ویرانی ہے
دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا
جب دل غموں کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوب چکا ہو تو کرائے کے نوحہ خوانوں کی بھلا کیا ضرورت۔ ہمارے ہاں تو کسی کی موت ہوجائے تو لواحقین کے لیے قیامت کا دن ہوتا ہے، زور زور سے رونے کی تو مذہب ویسے بھی اجازت نہیں دیتا لیکن آنسوؤں کا دریا جاری ہوجاتا ہے۔ آج کل تو یہ حال ہے کہ قدم قدم پر اموات ہوتی نظر آتی ہیں، بے چارے گھر والے روتے اس لیے ہیں اور عزیز واقارب مرنے والے کے گھر میں کھانے کا اہتمام کرتے ہیں، میت میں آنے والے بوٹیوں پر ہاتھ صاف کرتے ہیں۔ اکبر الٰہ آبادی نے ایسی ہی صورت حال کی وضاحت کی ہے ؎
بتاؤں بعد مرنے کے میرے کیا ہوگا
کھائیں گے پلاؤ احباب اور فاتحہ ہوگا
شکر ہمارے ملک میں دوسری چیزیں ملاوٹ زدہ ضرور ہیں لیکن آنسو خالص اور اپنے ہی ہیں، کسی ملک سے امپورٹ کرنے کی قطعی ضرورت نہیں ہے کہ دلوں میں محبت ہے، انسانیت اور نرم گوشہ ہے، میت کے گھر میں گھر والے تو گھر والے، اہل محلہ اور دور دور سے آئے ہوئے لوگ اپنے آنسو بہاتے ہیں، کئی کئی دن تک دل اداس رہتا ہے اور مرحوم کی ہر بات یاد آتی ہے اور آٹھ آٹھ آنسو رلاتی ہے۔ اپنے کیا غیر، سب ہی یاد کرکے آہیں بھرتے ہیں اور بالکل فطری انداز میں۔ جب اپنے پاس آنسوؤں کا ذخیرہ ہو، دل میں سچی محبت ہو تو دھاڑیں مارنے کی کیا ضرورت ہے بھلا؟ سچ ہے کہ دیار غیر میں جہاں بہت سی باتیں اور اصول اچھے ہیں، وہاں کچھ طور طریقے حیران کن اور پریشان کن ہیں۔ اولڈ ہوم کا تصور بھی مغرب سے ہی مشرق میں آیا ہے۔ ورنہ بھلا یہ کیا بات ہوئی اپنے والدین کو اس وقت جب انھیں سہارے اور مدد کی ضرورت ہوتی ہے، اولڈ ہوم لے جاکر بے کار سامان کی طرح پھینک دیا جائے اور پھر پلٹ کر دیکھنا بھی گوارا نہ کریں۔
اسی طرح شادی کی ضرورت کو بھی انھوں نے اہمیت نہیں دی ہے، جس کا دل چاہے شادی کے بندھن میں بندھ جائے اور جو چاہے تو آزاد رہ کر زندگی بسر کرے۔ شادی کرنے کی زبردستی تو ہمارے ملک میں بھی نہیں ہے، لیکن الحمدﷲ بے راہ روی بھی نہیں ہے۔ شادی کرنا سنت ہے اور سنت کا ادا کرنا انسانیت کی بقا، عزت و وقار اور دلی خوشی و اطمینان کا باعث ہوتا ہے، اس قلبی سکون سے وہی واقف ہیں جو سنتیں ادا کرتے ہیں اور ایک پاکیزہ زندگی بسر کرتے ہیں۔ اہل مغرب بھی شادی کرنے پر یقین رکھتے ہیں اور باقاعدگی کے ساتھ شادی کی رسومات ادا کرتے ہیں، لیکن آزادی کے حوالے سے انھوں نے کچھ قوانین بنالیے ہیں، جن کی رو سے جو جس طرح چاہے زندگی بسر کرے، کسی کو کسی سے شکایت نہیں لیکن ہمارے یہاں شکایات ہی شکایات ہیں، جہیز کم دیا جائے تو شکایت اور بعض اوقات شکایتیں حکایتوں میں بدل جاتی ہیں اور جہیز کے لالچی سسرال والے بیوی کو ہی ایندھن کی جگہ آگ میں جھونک دیتے ہیں۔
اکثر لالچی شوہر اپنی منکوحہ کو موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں۔ اس طرح کے واقعات آئے دن پیش آتے ہیں، شادی بیاہ کے مواقعوں پر اختلافات بات بات پر پیدا ہوجاتے ہیں، اس نے کھانے کے وقت نہیں پوچھا، عزت نہیں کی، نیک نہیں دیا، جوتا چھپائی میں بہنوئی جی نے کنجوسی دکھائی، آپس کی رنجشیں، چھوٹی چھوٹی باتوں پر جنم لیتی ہیں اور اس کے اثرات دماغ پر سالہا سال رہتے ہیں۔
ان تمام باتوں کے باوجود الحمدﷲ بہت سی بری رسومات سے ہم دور بہت دور ہیں، کم ازکم' ہمیں غم کے موقع پر کسی کو اشک بہانے اور واویلا کرنے کے لیے نہیں بلایا جاتا ہے، ہمارے اپنے غم اور اپنے سکھ میں گویا ہم ان معاملات میں خود کفیل ہیں کہ نرم گوشہ رکھتے ہیں اور پھر یہ کہ خونی رشتوں کا کوئی نعم البدل نہیں ہوتا ہے، ہر رشتے میں ہی محبت و ایثار ہے، ایک دوسرے پر جان قربان کرنے اور مسئلے مسائل کو بیان کرنے کے۔ پوری دنیا کے لوگ ان رشتوں کی حرمت و تقدس اور اہمیت سے واقف ہوتے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اگر گھر کے کسی فرد کو کوئی صدمہ پہنچے، حادثے کا شکار ہو، سانحات کا حملہ ہو، پورا گھر متاثر ہوتا ہے اور والدین تو ہر پل دعاگو اور سوگوار رہتے ہیں کہ کب ان کے بچوں کی تکلیف دور ہو تو وہ سکھ کا سانس لیں۔
مغرب میں بے شمار چیزیں مصنوعی نظر آتی ہیں اور غر فطری و غیر حقیقی بھی۔ بچوں کی پرورش خصوصاً اولاد کی آزادی، ماں کی بے توجہی، وہاں کی مائیں مشرق کی ماؤں سے یکسر مختلف ہیں، وہ اپنے ننھے منے بچوں کو بہت جلد اپنے سے جدا کردیتی ہیں، ان کے سونے، رہنے سہنے کے لیے کمرہ مختص کردیا جاتا ہے۔ اسلام کی تعلیمات کے حوالے سے بھی اگر دیکھا جائے تو بچے جہاں سمجھدار ہوں ان کے لیے علیحدہ سونے کا بندوبست کرنا ضروری ہے، اگر گھر میں جگہ میسر ہو تو؟ مگر مشرقی ماں اپنے لخت جگر، نور نظرکو ہر لمحے اپنے سینے سے لگائے رکھتی ہے، دن ہو یا رات جب تک بچہ چھوٹا ہے اس کا یہ ہی وطیرہ رہتا ہے۔
بعض گھرانوں میں بڑے بچے بھی ماؤں کی آغوش کے خواہشمند نظر آتے ہیں اور جہاں موقع ملا قبضہ کرلیا اور ماں جیسی عظیم ہستی اپنی محبت و شفقت کے معاملے میں اپنی اولاد کو کبھی مایوس نہیں کرتی۔ اسے اور اس کے گھرانے کو کسی بھی موقع پر تصنع و بناوٹ کا سہارا نہیں لینا پڑتا ہے، غم ہو یا خوشی ہر معاملے میں دلی جذبات کا اظہار کیا جاتا ہے، کسی عزیز کے بچھڑنے پر ان کے اپنے آنسو، آہیں اور سسکیاں کافی ہیں، کرائے کے نوحہ خوانوں کو بلانے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی ہے، چونکہ یہ سچے رشتے ہیں اور ان رشتوں کا وجود اﷲ رب العزت کے حکم سے آیا ہے۔