چین کے سرطان زدہ دیہات
آج سے محض تیس برس قبل چین میں سرطان کا قریباً نام ونشان نہیں تھا۔ آج جگر،پھیپھڑوں اورآنتوں کا سرطان عام مرض ہوگئے ہیں۔
ہر چیز کی ایک قیمت ہوا کرتی ہے، صنعتی ترقی کی بھی ایک قیمت ہے۔ چین کے عوام یہ قیمت کینسر کی شکل میں ادا کر رہے ہیں۔ ''دی ٹیلیگراف'' 10 فروری کو رپورٹ کرتا ہے کہ چین دنیا کا سب سے بڑا کاروباری ملک ہے۔ درآمدات اور برآمدات میں چین نے گزشتہ برس سپرپاور امریکا کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ 2012 میں امریکی درآمدات اور برآمدات کا حجم 3.82 ٹریلین ڈالر تھا جب کہ چین نے 3.87 ٹریلین ڈالر کی درآمدات و برآمدات کیں۔ معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ اس برس چین کی کارکردگی مزید بہتر ہوگی۔ قوت خرید اور جی ڈی پی کے لحاظ سے چین امریکا کے بعد دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت ہے۔
یہ شاندار ترقی چین نے محض گزشتہ تین دہائیوں میں حاصل کی ہے۔ یہ تمام تر ترقی صنعتی انقلاب کے بغیر ناممکن تھی لیکن آج چین کے عوام یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ اس ترقی کی انھیں بھاری قیمت چکانی پڑ رہی ہے۔ درآمدات اور برآمدات میں یقینا چین نے سب کو پیچھے چھوڑ دیا ہے اور وہ اس دوڑ میں سب سے آگے ہے۔ لیکن زمین کا ماحول برباد کرنے میں بھی چین سب سے آگے ہے۔ آج سب سے زیادہ بجلی استعمال کرنے والا ملک بھی چین ہی ہے اور آپ جب بھی اور جہاں بھی بجلی بناتے ہیں کاربن کا بے تحاشا اخراج ہوتا ہے۔یہ کاربن زمین کے لیے زہر ہے۔
کاربن کے نتیجے میں زمین اور زمین پر رہنے والوں کا سانس رکنے اور دم گھٹنے لگتا ہے، اسی طرح حیات کی دوسری اساس پانی ہے۔ چین میں صنعتی فضلے کی وجہ سے دریا کے دریا زہر آلود ہوگئے ہیں۔ آج بیجنگ میں آلودگی کی وجہ سے لوگوں کا سانس لینا دوبھر ہے۔ صاف پانی عنقا ہوتا جارہا ہے۔ لوگوں کو صحت کے شدید مسائل لاحق ہیں۔ یہاں تک کہ سرطان وبا کی شکل اختیار کرتا چلا جارہا ہے۔ آج سے محض تیس برس قبل چین میں سرطان کا قریباً نام و نشان نہیں تھا۔ آج جگر، پھیپھڑوں اور آنتوں کا سرطان عام مرض ہوگئے ہیں۔ ژین ژی ایک صنعتی کارکن ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ہم ایسے پیسے کا کیا کریں جو ہم بڑی محنت سے کمائیں اور ڈاکٹروں کو دے دیں؟ بیماری کی اذیت مفت میں۔ صنعتوں نے ہمیں اذیت ناک اور اندوہناک زندگی اور اذیت ناک موت کے علاوہ کچھ نہیں دیا۔
چین کے سب سے بڑے انٹرنیٹ مہیا کرنے والے ادارے ''مایون'' نے چین کے دولت مندوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ کسی بھی قیمت پر فضائی آلودگی کی بنا پر لاحق ہونے والے سرطان سے نہیں بچ سکتے۔ ''یابولی'' چینی کمپنیوں کی تیرہویں سالانہ نشست کے موقعے پر چین کی ای کامرس کمپنی ''علی بابا'' کے بانی اور سی ای نے اجلاس کے دوران تمام تر رسمی گفتگو کو ترک کرتے ہوئے آلودگی کا ذکر کیا۔ انھوں نے آلودگی کے نتیجے میں چین کے افراد کو لاحق ہونے والے خطرات خاص کر سرطان کا بالخصوص ذکر کیا۔
بیجنگ جو آج کل فضائی آلودگی کی بنا پر ہر وقت دھند کا شکار رہتا ہے، سرطان زدہ ہوتا جارہا ہے۔ بیجنگ میں سرطان کے مریضوں کی تعداد میں 67 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ہوا کا معیار جانچنے کے لیے اے کیو آئی (ایئر کوالٹی انڈیکس) ترتیب دیا گیا ہے۔ اس کے 6 درجے ہیں جو عمدہ سے خطرناک ترین تک ہیں۔ صفر سے 50 کے مابین اے کیو آئی عمدہ قرار دی گئی ہے۔ 300 اور اس سے زیادہ مضر یا خطرناک ترین۔ بیجنگ کا اے کیو آئی 479 ہے۔ جہاں فضائی آلودگی کا یہ عالم ہو کیا وہ حیات باقی بچے گی؟ یہ کیسی صنعتی ترقی ہے کہ ہم اپنا، اپنی اولاد کا اور اس سیارے پر رہنے والے جانداروں کا گلا خود اپنے ہاتھوں سے گھونٹ رہے ہیں۔ یہ تہذیب کی اپنے ہی خنجر سے خودکشی نہیں تو اور کیا ہے؟
''ڈینگ فی'' چین کے صحافی ہیں۔ آپ نے گزشتہ برس گوگل میپ شایع کیا۔ اس نقشے کو بہت شہرت ملی۔ ڈینگ فی نے تحقیق کے بعد نقشے پر 100 دیہاتوں کی نشاندہی کی۔ ان دیہاتوں کو ''کینسر ولیج'' یا سرطان زدہ دیہات کہا گیا۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق یہ تعداد 400 سے زیادہ ہوسکتی ہے۔ دراصل چین کی حکومت پر صنعتی ترقی کی ایسی دھن سوار ہے کہ اسے صنعت کاری کے علاوہ کچھ دکھائی نہیں دے رہا۔ وہ صنعت کاری کی راہ میں حائل ہر رکاوٹ ختم کردینے کے درپے ہے ۔ خواہ وہ رکاوٹ چین کے عوام کی صحت ہی کیوں نہ ہو۔ اس شدید موقف نے اطلاعات تک رسائی کے عمل کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ صحافیوں کا خیال ہے کہ چین میں اعدادوشمار اور اطلاعات تک رسائی آسان کام نہیں۔
نیز حکومتی مروجہ پالیسی کے خلاف کسی بھی چیز کو کچل دیا جاتا ہے۔ ابھی کچھ عرصہ قبل کی بات ہے کہ ''نہان'' صوبے کے دیہاتی ایک بس میں علاج معالجے کے لیے قریبی شہر جارہے تھے،ان کے گاؤں کے قریب ایک پلانٹ لگایا گیا تھا۔ اس پلانٹ نے سیسے کی ایسی تاب کاری پھیلائی کہ قریباً سارا کا سارا گاؤں ہی شدید بیمار ہوگیا۔ کوئی دشمن ایٹم بم کیا مارے گا۔ صنعت کاری کیمیائی بم مار مار کر اپنے ہی شہریوں کو ہلاک کیے ڈال رہی ہے۔ تابکاری جب بہت بڑھ گئی، لوگ شدید اذیت میں مبتلا ہوئے تو انھوں نے علاج کے لیے قریبی شہر کا رخ کیا۔ ابھی راستے ہی میں تھے کہ پولیس نے بس کو روک کر سب کوگرفتار کرلیا۔ پولیس کو خدشہ تھا کہ مبادا یہ مریض حکومت کے خلاف احتجاج نہ شروع کردیں۔ یہ بات یہیں ختم نہیں ہوجاتی واقعہ یہ ہے کہ ان مریضوں میں سے کچھ کو 6 ماہ کی قید بھی ہوگئی۔
شہر تو شہر دیہاتوں میں بھی آلودگی کا یہ عالم ہے کہ بعض جگہ تو آبادی کے نصف بچے سیسے کی آلودگی کا شکار ہیں۔ ایک تو چین کی حکومت کی عاجلانہ پالیسی کی بنا پر بچے وہاں ویسے ہی کم ہیں۔ اگر کسی علاقے کے نصف بچے سیسے کی تابکاری سے بیمار ہوجائیں تو وہاں کے بڑوں کو اپنی زندگی میں کیا معنی نظر آئیں گے؟
صنعتی ترقی کے تاریخی کارنامے نے چین کو جہاں ایک جانب انسانی تاریخ کا خطرناک ترین آلودگی اگلنے والا ملک بنادیا ہے وہیں چین میں بڑے پیمانے پر ہجرت کا عمل بھی ہوا۔ لوگوں نے تیز رفتاری سے شہروں کا رخ کیا۔ خیال ہے کہ یہ بھی انسانی تاریخ کی بڑی نقل مکانی ہوگی۔ ایک اندازے کے مطابق 2030 تک زمین کے رہنے والوں میں سے ہر آٹھواں چین کے شہر کا رہائشی ہوگا۔
اعدادوشمار کے مطابق نقل مکانی کرکے آئے ہوئے صنعتی کارکنان کی تعداد بائیس کروڑ ہے۔ ان کارکنان کے پاس ایک خاص اجازت نامہ ''ہوکو'' نہیں ہوتا۔ ''ہوکو'' کی عدم موجودگی میں یہ نہ تو اپنے لیے فلیٹ خرید سکتے ہیں نہ ہی ان کے بچے پبلک اسکول میں داخل ہوسکتے ہیں۔ یوں آج چین کے شہروں میں دنیا کی وسیع ترین جھونپڑیاں بنتی چلی جارہی ہیں۔ ان میں سے اکثریت ایسے کارکنان کی ہے جو صنعتوں میں بہ طور ایندھن جھونکے تو جارہے ہیں لیکن ان کی رہائش اور ان کے کھانے پینے کا کوئی انتظام نہیں۔ وہ صنعتی آلودگیوں سے بیمار ہوکر مر تو رہے ہیں لیکن ان کا علاج نہیں ہوسکتا۔ دیہاتوں سے شہروں کی جانب نقل مکانی سے کیا حاصل ہوا؟ کیا چین کے لوگوں کی زندگی بہتر ہوگئی یا وہ مزید مسائل و مصائب کا شکار ہوگئے؟ صنعتی ترقی چین کو آباد کر رہی ہے یا برباد؟ چین کے عوام نے پیسے کمانے میں زندگی کھپا دی، کیا یہ پیسہ ان کی زندگی واپس لاسکے گا؟
یہ شاندار ترقی چین نے محض گزشتہ تین دہائیوں میں حاصل کی ہے۔ یہ تمام تر ترقی صنعتی انقلاب کے بغیر ناممکن تھی لیکن آج چین کے عوام یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ اس ترقی کی انھیں بھاری قیمت چکانی پڑ رہی ہے۔ درآمدات اور برآمدات میں یقینا چین نے سب کو پیچھے چھوڑ دیا ہے اور وہ اس دوڑ میں سب سے آگے ہے۔ لیکن زمین کا ماحول برباد کرنے میں بھی چین سب سے آگے ہے۔ آج سب سے زیادہ بجلی استعمال کرنے والا ملک بھی چین ہی ہے اور آپ جب بھی اور جہاں بھی بجلی بناتے ہیں کاربن کا بے تحاشا اخراج ہوتا ہے۔یہ کاربن زمین کے لیے زہر ہے۔
کاربن کے نتیجے میں زمین اور زمین پر رہنے والوں کا سانس رکنے اور دم گھٹنے لگتا ہے، اسی طرح حیات کی دوسری اساس پانی ہے۔ چین میں صنعتی فضلے کی وجہ سے دریا کے دریا زہر آلود ہوگئے ہیں۔ آج بیجنگ میں آلودگی کی وجہ سے لوگوں کا سانس لینا دوبھر ہے۔ صاف پانی عنقا ہوتا جارہا ہے۔ لوگوں کو صحت کے شدید مسائل لاحق ہیں۔ یہاں تک کہ سرطان وبا کی شکل اختیار کرتا چلا جارہا ہے۔ آج سے محض تیس برس قبل چین میں سرطان کا قریباً نام و نشان نہیں تھا۔ آج جگر، پھیپھڑوں اور آنتوں کا سرطان عام مرض ہوگئے ہیں۔ ژین ژی ایک صنعتی کارکن ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ہم ایسے پیسے کا کیا کریں جو ہم بڑی محنت سے کمائیں اور ڈاکٹروں کو دے دیں؟ بیماری کی اذیت مفت میں۔ صنعتوں نے ہمیں اذیت ناک اور اندوہناک زندگی اور اذیت ناک موت کے علاوہ کچھ نہیں دیا۔
چین کے سب سے بڑے انٹرنیٹ مہیا کرنے والے ادارے ''مایون'' نے چین کے دولت مندوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ کسی بھی قیمت پر فضائی آلودگی کی بنا پر لاحق ہونے والے سرطان سے نہیں بچ سکتے۔ ''یابولی'' چینی کمپنیوں کی تیرہویں سالانہ نشست کے موقعے پر چین کی ای کامرس کمپنی ''علی بابا'' کے بانی اور سی ای نے اجلاس کے دوران تمام تر رسمی گفتگو کو ترک کرتے ہوئے آلودگی کا ذکر کیا۔ انھوں نے آلودگی کے نتیجے میں چین کے افراد کو لاحق ہونے والے خطرات خاص کر سرطان کا بالخصوص ذکر کیا۔
بیجنگ جو آج کل فضائی آلودگی کی بنا پر ہر وقت دھند کا شکار رہتا ہے، سرطان زدہ ہوتا جارہا ہے۔ بیجنگ میں سرطان کے مریضوں کی تعداد میں 67 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ہوا کا معیار جانچنے کے لیے اے کیو آئی (ایئر کوالٹی انڈیکس) ترتیب دیا گیا ہے۔ اس کے 6 درجے ہیں جو عمدہ سے خطرناک ترین تک ہیں۔ صفر سے 50 کے مابین اے کیو آئی عمدہ قرار دی گئی ہے۔ 300 اور اس سے زیادہ مضر یا خطرناک ترین۔ بیجنگ کا اے کیو آئی 479 ہے۔ جہاں فضائی آلودگی کا یہ عالم ہو کیا وہ حیات باقی بچے گی؟ یہ کیسی صنعتی ترقی ہے کہ ہم اپنا، اپنی اولاد کا اور اس سیارے پر رہنے والے جانداروں کا گلا خود اپنے ہاتھوں سے گھونٹ رہے ہیں۔ یہ تہذیب کی اپنے ہی خنجر سے خودکشی نہیں تو اور کیا ہے؟
''ڈینگ فی'' چین کے صحافی ہیں۔ آپ نے گزشتہ برس گوگل میپ شایع کیا۔ اس نقشے کو بہت شہرت ملی۔ ڈینگ فی نے تحقیق کے بعد نقشے پر 100 دیہاتوں کی نشاندہی کی۔ ان دیہاتوں کو ''کینسر ولیج'' یا سرطان زدہ دیہات کہا گیا۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق یہ تعداد 400 سے زیادہ ہوسکتی ہے۔ دراصل چین کی حکومت پر صنعتی ترقی کی ایسی دھن سوار ہے کہ اسے صنعت کاری کے علاوہ کچھ دکھائی نہیں دے رہا۔ وہ صنعت کاری کی راہ میں حائل ہر رکاوٹ ختم کردینے کے درپے ہے ۔ خواہ وہ رکاوٹ چین کے عوام کی صحت ہی کیوں نہ ہو۔ اس شدید موقف نے اطلاعات تک رسائی کے عمل کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ صحافیوں کا خیال ہے کہ چین میں اعدادوشمار اور اطلاعات تک رسائی آسان کام نہیں۔
نیز حکومتی مروجہ پالیسی کے خلاف کسی بھی چیز کو کچل دیا جاتا ہے۔ ابھی کچھ عرصہ قبل کی بات ہے کہ ''نہان'' صوبے کے دیہاتی ایک بس میں علاج معالجے کے لیے قریبی شہر جارہے تھے،ان کے گاؤں کے قریب ایک پلانٹ لگایا گیا تھا۔ اس پلانٹ نے سیسے کی ایسی تاب کاری پھیلائی کہ قریباً سارا کا سارا گاؤں ہی شدید بیمار ہوگیا۔ کوئی دشمن ایٹم بم کیا مارے گا۔ صنعت کاری کیمیائی بم مار مار کر اپنے ہی شہریوں کو ہلاک کیے ڈال رہی ہے۔ تابکاری جب بہت بڑھ گئی، لوگ شدید اذیت میں مبتلا ہوئے تو انھوں نے علاج کے لیے قریبی شہر کا رخ کیا۔ ابھی راستے ہی میں تھے کہ پولیس نے بس کو روک کر سب کوگرفتار کرلیا۔ پولیس کو خدشہ تھا کہ مبادا یہ مریض حکومت کے خلاف احتجاج نہ شروع کردیں۔ یہ بات یہیں ختم نہیں ہوجاتی واقعہ یہ ہے کہ ان مریضوں میں سے کچھ کو 6 ماہ کی قید بھی ہوگئی۔
شہر تو شہر دیہاتوں میں بھی آلودگی کا یہ عالم ہے کہ بعض جگہ تو آبادی کے نصف بچے سیسے کی آلودگی کا شکار ہیں۔ ایک تو چین کی حکومت کی عاجلانہ پالیسی کی بنا پر بچے وہاں ویسے ہی کم ہیں۔ اگر کسی علاقے کے نصف بچے سیسے کی تابکاری سے بیمار ہوجائیں تو وہاں کے بڑوں کو اپنی زندگی میں کیا معنی نظر آئیں گے؟
صنعتی ترقی کے تاریخی کارنامے نے چین کو جہاں ایک جانب انسانی تاریخ کا خطرناک ترین آلودگی اگلنے والا ملک بنادیا ہے وہیں چین میں بڑے پیمانے پر ہجرت کا عمل بھی ہوا۔ لوگوں نے تیز رفتاری سے شہروں کا رخ کیا۔ خیال ہے کہ یہ بھی انسانی تاریخ کی بڑی نقل مکانی ہوگی۔ ایک اندازے کے مطابق 2030 تک زمین کے رہنے والوں میں سے ہر آٹھواں چین کے شہر کا رہائشی ہوگا۔
اعدادوشمار کے مطابق نقل مکانی کرکے آئے ہوئے صنعتی کارکنان کی تعداد بائیس کروڑ ہے۔ ان کارکنان کے پاس ایک خاص اجازت نامہ ''ہوکو'' نہیں ہوتا۔ ''ہوکو'' کی عدم موجودگی میں یہ نہ تو اپنے لیے فلیٹ خرید سکتے ہیں نہ ہی ان کے بچے پبلک اسکول میں داخل ہوسکتے ہیں۔ یوں آج چین کے شہروں میں دنیا کی وسیع ترین جھونپڑیاں بنتی چلی جارہی ہیں۔ ان میں سے اکثریت ایسے کارکنان کی ہے جو صنعتوں میں بہ طور ایندھن جھونکے تو جارہے ہیں لیکن ان کی رہائش اور ان کے کھانے پینے کا کوئی انتظام نہیں۔ وہ صنعتی آلودگیوں سے بیمار ہوکر مر تو رہے ہیں لیکن ان کا علاج نہیں ہوسکتا۔ دیہاتوں سے شہروں کی جانب نقل مکانی سے کیا حاصل ہوا؟ کیا چین کے لوگوں کی زندگی بہتر ہوگئی یا وہ مزید مسائل و مصائب کا شکار ہوگئے؟ صنعتی ترقی چین کو آباد کر رہی ہے یا برباد؟ چین کے عوام نے پیسے کمانے میں زندگی کھپا دی، کیا یہ پیسہ ان کی زندگی واپس لاسکے گا؟