غزوۂ بدر اسباب و نتائج
’’اے اﷲ! تُو نے مجھ سے جو وعدہ فرمایا ہے، اُسے پورا کر!‘‘
''اور بے شک اﷲ نے مقام بدر میں تمہاری مدد کی حالاں کہ تم بے سر و سامان تھے۔ پس، اﷲ سے ڈرتے رہو، تاکہ تم شکر گزار بن جاؤ۔''اس آیت کی شان نزول یہ ہے کہ غزوۂ احد میں 70 مسلمان شہید ہوئے جس سے مسلمان غمگین تھے۔ اس آیت مبارکہ میں جنگ بدر کی فتح مبین یاد دلا کر مسلمانوں کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔''بدر'' وہ مقام ہے جہاں 17 رمضان المبارک 2ھ جمعے کے دن کفار اور اہل ایمان کے درمیان جنگ ہوئی۔ مقام بدر مدینہ منور ہ سے مکہ مکرمہ کے پرانے راستے پر تقریباً 80 میل کے فاصلے پر واقع ہے۔
یہاں ایک کنواں تھا جس کے مالک کا نام بدر بن عامر تھا، اسی سے اس کنویں اور پھر اس جگہ کا نام بدر پڑا۔یہ جنگ کیوں لڑی گئی؟ مؤرخین نے اس جنگ کی متعدد وجوہ بیان کی ہیں۔ مگر جنگ بدر کی بڑی وجہ یہ واقعہ تھا۔ حضرت سعد بن معاذ انصاریؓ طواف کعبہ کے لیے جارہے تھے کہ ابوجہل نے ان سے کہا:''اگر تم ابی صفوان (امیہ) کے مہمان نہ ہوتے تو اپنے گھر صحیح سلامت واپس نہ لوٹتے۔ ''جواب میں حضرت سعد نے فرمایا:''اگر تم ہمیں کعبہ جانے سے روکو گے تو ہم تمہارا تجارتی راستہ (یعنی شام کا راستہ) روک دیں گے۔''قریش نے کبھی کسی کو خانہ کعبہ آنے سے نہیں روکا تھا، یہ پہلا واقعہ تھا، لہٰذا حضور نبی کریم ﷺ نے کفار مکہ کو اس پابندی کے ہٹانے پر مجبور کرنے کے لیے حضرت سعد بن معاذ کی دھمکی کے مطابق اقدامات اٹھانے کا فیصلہ کیا۔
ان دنوں کفار قریش کا ایک تجارتی قافلہ ابوسفیان کی سربراہی میں شام سے واپس آرہا تھا۔ نبی اکرمؐﷺ اور آپؐ کے صحابہ جن کی تعداد تین سو سے کچھ زائد تھی، نہایت جلدی میں اور کم سامان جنگ کے ساتھ گھر سے نکلے۔ ادھر مکہ مکرمہ سے کفار قریش کا ایک بہت بڑا لشکر جس کی تعداد ایک ہزار کے قریب تھی، ہر قسم کے اسلحہ سے لیس ہوکر اپنے تجارتی قافلے کو بچانے کے لیے بدر کی طرف روانہ ہوا۔
غزوۂ بدر کے چند اہم واقعات درج ذیل ہیں:
٭جب نبی کریم ﷺ نے چند بچوں کو جنگ میں جانے سے روک کر واپس بھیجا تو سعد بن ابی وقاص کے چھوٹے بھائی عمیر بن ابی وقاص پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ یہ دیکھ کر نبی اکرم ؐ بہت متاثر ہوئے اور آپؐ نے انہیں جہاد میں شرکت کی اجازت دے دی۔
٭لشکر اسلام سولہ (16) رمضان المبارک کو مقام بدر پر پہنچا۔ صحیح بخاری میں حضرت انس سے مروی ہے کہ رسول پاکؐ زمین پر ایک خاص جگہ ہاتھ رکھتے اور فرماتے:''یہ فلاں کافر کے مر کر گرنے کی جگہ ہے۔'' اور ایسا ہی ہوا۔ رسول کریمؐ کے ارشاد کے مطابق ہر کافر اسی جگہ مرا۔ کتب احادیث میں عمر فاروق اور دیگر صحابہ سے مروی ہے کہ دوسرے روز جنگ ختم ہونے کے بعد جب ہم نے ان نشانات کو دیکھا تو ہر کافر اسی جگہ مرا پڑا تھا جہاں حضورﷺ نے نشان لگائے تھے۔٭ نبی کریم ؐ کے لیے ایک جھونپڑی بنائی گئی۔ حضرت ابوبکر صدیق ننگی تلوار لے کر اس جھونپڑی کے پاس ڈٹے رہے۔ روایت ہے کہ حضرت علی نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا:''بتاؤ سب سے بہادر کون ہے؟''
لوگوں نے مختلف نام بیان کیے۔ مگر حضرت علی نے فرمایا:''صحابہ میں سب سے بہادر حضرت ابوبکر صدیق ہیں۔ جب سب سے پوچھا گیا کہ نبی اکرم ؐ کی جھونپڑی پر پہرا کون دے گا تو دیگر لوگ خاموش تھے کہ صدیق اکبر نے کہا، میں پہرا دوں گا۔''
٭حضورﷺ ساری رات اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعائیں فرماتے رہے۔ پھر اگلے روز یعنی 17 رمضان المبارک کو صحابہ کی صف بندی اس طرح فرمائی کہ قلت تعداد کے باوجود وہ بہت زیادہ نظر آتے تھے۔ اس کے بعد جھونپڑی میں نہایت گریہ و زاری کے ساتھ کھڑے ہوکر یہ دعا فرمائی:
''اے اﷲ! تو نے مجھ سے جو وعدہ فرمایا ہے، اسے پورا کر! اے اﷲ! جو تو نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے مجھے عطا فرما! اے اﷲ! اگر اہل اسلام کی یہ جماعت ہلاک ہوگئی تو زمین پر تیری عبادت نہیں ہوگی۔''
نبی پاکؐ نہایت گریہ و زاری کے ساتھ ہاتھوں کو پھیلا کر اونچی آواز سے دعا کررہے تھے کہ آپؐ کے کندھوں سے چادر مبارک گر گئی تو ابوبکر صدیق حاضر نے چادر مبارک کندھوں پر ڈال دی اور عرض کیا:''یا نبی اﷲ! آپؐ کی اﷲ سے یہ دعا کافی ہے۔ آپؐ کا رب آپ سے کیا ہوا وعدہ ضرور پورا کرے گا۔''اس کے بعد رسول مکرم ؐ کی زبان مبارک پر یہ کلمات جاری ہوئے:''عنقریب کفار کی فوج کو شکست ہوگی اور وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے۔''٭ نبی کریم ﷺ چھڑی سے مجاہدین کی صفیں درست کررہے تھے کہ آپؐ کی چھڑی حضرت سواد کے پیٹ پر لگی جس پر حضرت سواد نے قصاص کا مطالبہ کیا تو حضورؐ نے اپنے پیٹ مبارک سے پیراہن اٹھا کر فرمایا:''میرا شکم قصاص کے لیے حاضر ہے۔''حضرت سواد فوراً شکم مبارک کو چوم لیا۔ بعد میں جب حضرت سواد سے پوچھا گیا کہ آپ نے نبیؐ سے قصاص کا مطالبہ کیوں کیا تو انہوں نے جواب دیا:''میدان جنگ میں یکایک اس تمنا نے جوش مارا کہ کاش مرتے وقت میرا بدن رسول کریمؐ کے جسم مبارک سے چھو جائے۔''
اس پر حضور ؐ نے حضرت سواد کے لیے دعا فرمائی۔
٭حضرت حذیفہ اور حضرت ابوحسیل کہیں سے آرہے تھے کہ کفار نے راستے میں روک لیا اور اس وعدے پر چھوڑا کہ وہ لڑائی میں حصہ نہیں لیں گے۔ یہ دونوں صحابی میدان میں پہنچے اور پوری صورت حال نبی ؐ کی خدمت میں بیان کی تو رسول عربیؐ نے ان دونوں کو صفوں سے الگ کردیا اور ارشاد فرمایا:''ہم ہر حال میں عہد کی پابندی کریں گے۔''
جنگ بدر میں افراد کی کمی کے باوجود حضورﷺ کا یہ فیصلہ ایفائے عہد کی عظیم مثال ہے۔٭رمضان المبارک 2ھ کی 17 تاریخ، جمعۃ المبارک کا دن تھا کہ دوپہر کے وقت لڑائی شروع ہوئی۔ سب سے پہلے عمر فاروق کے غلام مہجع شہید ہوئے۔
ابتداء میں انفرادی لڑائی ہوئی پھر اجتماعی جنگ ہوئی۔ حضرت علی، حضرت حمزہ اور دیگر صحابہ نے شجاعت وبہادری کے جوہر دکھائے اور دو، ڈھائی گھنٹے کی مختصر مدت میں کفار کی صفوں کو منتشر کردیا۔ کفار نے ہتھیار ڈال دیے۔ 70 کافر قتل ہوئے (جن میں 22 سردار شامل تھے) 70 گرفتار ہوئے اور باقی فرار ہوگئے۔ اس جنگ میں صرف 14مسلمان شہید ہوئے۔ اس طرح اﷲ تعالیٰ نے رسول عربی ﷺ اور آپؐ کے غلاموں کو فتح مبین عطا فرمائی۔
جنگ بدر میں ابوعبیدہ نے اپنے والد جراح کو، عمر فاروق نے اپنے ماموں عاص بن ہشام کو، مصعب نے اپنے بھائی عبداﷲ کو اور اسی طرح بہت سے صحابہ نے اپنے قریبی رشتے داروں کو اپنے ہاتھوں سے قتل کرکے غیرت اسلامی اور محبت نبوی کا بے مثال مظاہرہ کیا۔ قیدیوں کے بارے میں مشاورت ہوئی۔ عمر فاروق نے مشورہ دیا کہ ان قیدیوں کو قتل کردیا جائے اور ہر مسلمان اپنے قریبی رشتے داروں کو خود قتل کرے۔ ابوبکر صدیق نے مشورہ دیا کہ تعلیم یافتہ قیدیوں سے دس دس ان پڑھ مسلمانوں کو لکھنا پڑھنا سکھانے کا معاہدہ کیا جائے، اور دیگر قیدیوں سے ایک ہزار سے لے کر چار ہزار درہم تک یا حسب استطاعت فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے۔
نبی رحمتؐ نے صدیق اکبر کے مشورے کے مطابق فیصلہ صادر فرمایا۔حضرت زبیر نے جنگ بدر میں ایک ایسے کافر کو ہلاک کیا جو سر سے لے کر پاؤں تک مسلح تھا اور جس نے مسلمانوں کو للکارا تھا۔ حضرت زبیر نے اس کی آنکھ میں تاک کر ایسی برچھی ماری جس سے وہ فوراً جہنم واصل ہوگیا۔ زبیر نے اس کی لاش پر پائوں رکھ کر بڑے زور سے برچھی نکالی جس سے برچھی کا سرا مڑ گیا۔ غزوۂ بدر کے موقع پر بنت رسول اور زوجۂ عثمان غنی، بی بی رقیہ شدید علیل تھیں۔ چناں چہ حضور ﷺ نے عثمان کو ان کی دیکھ بھال پر مامور کیا، جس کی وجہ سے وہ غزوۂ بدر میں شامل نہ ہوسکے۔
لیکن غزوے کے بعد جب مال غنیمت تقسیم ہوا تو حضورؐ نے عثمان کو بھی غازیان بدر میں شامل کرکے مال غنیمت میں سے حصہ عطا فرمایا، لہٰذا عثمان غنی کو بھی بدری صحابہ میں شمار کیا جاتا ہے۔جب مال دار قیدیوں سے فدیہ طلب کیا جارہا تھا تو حضورؐ کے چچا حضرت عباس نے کہا:''جو سونا میرے پاس تھا، وہ مال غنیمت میں شامل کرلیا گیا ہے۔ میرے پاس فدیے کے لیے کچھ نہیں بچا، میں کہاں سے ادا کروں؟''
یہ سن کر نبیؐ نے ارشاد فرمایا:''اے چچا! جب آپ مکہ مکرمہ سے چلے تھے تو آپ نے کچھ مال میری چچی ام فضل کے سپرد کیا تھا!''
یہ ایسی بات تھی جس کا علم کسی کو نہیں تھا۔ چناں چہ نبی کریمؐ کی اس بات سے متاثر ہو کر عباس، عقیل اور نوفل نے اسلام قبول کرلیا۔
یہاں ایک کنواں تھا جس کے مالک کا نام بدر بن عامر تھا، اسی سے اس کنویں اور پھر اس جگہ کا نام بدر پڑا۔یہ جنگ کیوں لڑی گئی؟ مؤرخین نے اس جنگ کی متعدد وجوہ بیان کی ہیں۔ مگر جنگ بدر کی بڑی وجہ یہ واقعہ تھا۔ حضرت سعد بن معاذ انصاریؓ طواف کعبہ کے لیے جارہے تھے کہ ابوجہل نے ان سے کہا:''اگر تم ابی صفوان (امیہ) کے مہمان نہ ہوتے تو اپنے گھر صحیح سلامت واپس نہ لوٹتے۔ ''جواب میں حضرت سعد نے فرمایا:''اگر تم ہمیں کعبہ جانے سے روکو گے تو ہم تمہارا تجارتی راستہ (یعنی شام کا راستہ) روک دیں گے۔''قریش نے کبھی کسی کو خانہ کعبہ آنے سے نہیں روکا تھا، یہ پہلا واقعہ تھا، لہٰذا حضور نبی کریم ﷺ نے کفار مکہ کو اس پابندی کے ہٹانے پر مجبور کرنے کے لیے حضرت سعد بن معاذ کی دھمکی کے مطابق اقدامات اٹھانے کا فیصلہ کیا۔
ان دنوں کفار قریش کا ایک تجارتی قافلہ ابوسفیان کی سربراہی میں شام سے واپس آرہا تھا۔ نبی اکرمؐﷺ اور آپؐ کے صحابہ جن کی تعداد تین سو سے کچھ زائد تھی، نہایت جلدی میں اور کم سامان جنگ کے ساتھ گھر سے نکلے۔ ادھر مکہ مکرمہ سے کفار قریش کا ایک بہت بڑا لشکر جس کی تعداد ایک ہزار کے قریب تھی، ہر قسم کے اسلحہ سے لیس ہوکر اپنے تجارتی قافلے کو بچانے کے لیے بدر کی طرف روانہ ہوا۔
غزوۂ بدر کے چند اہم واقعات درج ذیل ہیں:
٭جب نبی کریم ﷺ نے چند بچوں کو جنگ میں جانے سے روک کر واپس بھیجا تو سعد بن ابی وقاص کے چھوٹے بھائی عمیر بن ابی وقاص پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ یہ دیکھ کر نبی اکرم ؐ بہت متاثر ہوئے اور آپؐ نے انہیں جہاد میں شرکت کی اجازت دے دی۔
٭لشکر اسلام سولہ (16) رمضان المبارک کو مقام بدر پر پہنچا۔ صحیح بخاری میں حضرت انس سے مروی ہے کہ رسول پاکؐ زمین پر ایک خاص جگہ ہاتھ رکھتے اور فرماتے:''یہ فلاں کافر کے مر کر گرنے کی جگہ ہے۔'' اور ایسا ہی ہوا۔ رسول کریمؐ کے ارشاد کے مطابق ہر کافر اسی جگہ مرا۔ کتب احادیث میں عمر فاروق اور دیگر صحابہ سے مروی ہے کہ دوسرے روز جنگ ختم ہونے کے بعد جب ہم نے ان نشانات کو دیکھا تو ہر کافر اسی جگہ مرا پڑا تھا جہاں حضورﷺ نے نشان لگائے تھے۔٭ نبی کریم ؐ کے لیے ایک جھونپڑی بنائی گئی۔ حضرت ابوبکر صدیق ننگی تلوار لے کر اس جھونپڑی کے پاس ڈٹے رہے۔ روایت ہے کہ حضرت علی نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا:''بتاؤ سب سے بہادر کون ہے؟''
لوگوں نے مختلف نام بیان کیے۔ مگر حضرت علی نے فرمایا:''صحابہ میں سب سے بہادر حضرت ابوبکر صدیق ہیں۔ جب سب سے پوچھا گیا کہ نبی اکرم ؐ کی جھونپڑی پر پہرا کون دے گا تو دیگر لوگ خاموش تھے کہ صدیق اکبر نے کہا، میں پہرا دوں گا۔''
٭حضورﷺ ساری رات اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعائیں فرماتے رہے۔ پھر اگلے روز یعنی 17 رمضان المبارک کو صحابہ کی صف بندی اس طرح فرمائی کہ قلت تعداد کے باوجود وہ بہت زیادہ نظر آتے تھے۔ اس کے بعد جھونپڑی میں نہایت گریہ و زاری کے ساتھ کھڑے ہوکر یہ دعا فرمائی:
''اے اﷲ! تو نے مجھ سے جو وعدہ فرمایا ہے، اسے پورا کر! اے اﷲ! جو تو نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے مجھے عطا فرما! اے اﷲ! اگر اہل اسلام کی یہ جماعت ہلاک ہوگئی تو زمین پر تیری عبادت نہیں ہوگی۔''
نبی پاکؐ نہایت گریہ و زاری کے ساتھ ہاتھوں کو پھیلا کر اونچی آواز سے دعا کررہے تھے کہ آپؐ کے کندھوں سے چادر مبارک گر گئی تو ابوبکر صدیق حاضر نے چادر مبارک کندھوں پر ڈال دی اور عرض کیا:''یا نبی اﷲ! آپؐ کی اﷲ سے یہ دعا کافی ہے۔ آپؐ کا رب آپ سے کیا ہوا وعدہ ضرور پورا کرے گا۔''اس کے بعد رسول مکرم ؐ کی زبان مبارک پر یہ کلمات جاری ہوئے:''عنقریب کفار کی فوج کو شکست ہوگی اور وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے۔''٭ نبی کریم ﷺ چھڑی سے مجاہدین کی صفیں درست کررہے تھے کہ آپؐ کی چھڑی حضرت سواد کے پیٹ پر لگی جس پر حضرت سواد نے قصاص کا مطالبہ کیا تو حضورؐ نے اپنے پیٹ مبارک سے پیراہن اٹھا کر فرمایا:''میرا شکم قصاص کے لیے حاضر ہے۔''حضرت سواد فوراً شکم مبارک کو چوم لیا۔ بعد میں جب حضرت سواد سے پوچھا گیا کہ آپ نے نبیؐ سے قصاص کا مطالبہ کیوں کیا تو انہوں نے جواب دیا:''میدان جنگ میں یکایک اس تمنا نے جوش مارا کہ کاش مرتے وقت میرا بدن رسول کریمؐ کے جسم مبارک سے چھو جائے۔''
اس پر حضور ؐ نے حضرت سواد کے لیے دعا فرمائی۔
٭حضرت حذیفہ اور حضرت ابوحسیل کہیں سے آرہے تھے کہ کفار نے راستے میں روک لیا اور اس وعدے پر چھوڑا کہ وہ لڑائی میں حصہ نہیں لیں گے۔ یہ دونوں صحابی میدان میں پہنچے اور پوری صورت حال نبی ؐ کی خدمت میں بیان کی تو رسول عربیؐ نے ان دونوں کو صفوں سے الگ کردیا اور ارشاد فرمایا:''ہم ہر حال میں عہد کی پابندی کریں گے۔''
جنگ بدر میں افراد کی کمی کے باوجود حضورﷺ کا یہ فیصلہ ایفائے عہد کی عظیم مثال ہے۔٭رمضان المبارک 2ھ کی 17 تاریخ، جمعۃ المبارک کا دن تھا کہ دوپہر کے وقت لڑائی شروع ہوئی۔ سب سے پہلے عمر فاروق کے غلام مہجع شہید ہوئے۔
ابتداء میں انفرادی لڑائی ہوئی پھر اجتماعی جنگ ہوئی۔ حضرت علی، حضرت حمزہ اور دیگر صحابہ نے شجاعت وبہادری کے جوہر دکھائے اور دو، ڈھائی گھنٹے کی مختصر مدت میں کفار کی صفوں کو منتشر کردیا۔ کفار نے ہتھیار ڈال دیے۔ 70 کافر قتل ہوئے (جن میں 22 سردار شامل تھے) 70 گرفتار ہوئے اور باقی فرار ہوگئے۔ اس جنگ میں صرف 14مسلمان شہید ہوئے۔ اس طرح اﷲ تعالیٰ نے رسول عربی ﷺ اور آپؐ کے غلاموں کو فتح مبین عطا فرمائی۔
جنگ بدر میں ابوعبیدہ نے اپنے والد جراح کو، عمر فاروق نے اپنے ماموں عاص بن ہشام کو، مصعب نے اپنے بھائی عبداﷲ کو اور اسی طرح بہت سے صحابہ نے اپنے قریبی رشتے داروں کو اپنے ہاتھوں سے قتل کرکے غیرت اسلامی اور محبت نبوی کا بے مثال مظاہرہ کیا۔ قیدیوں کے بارے میں مشاورت ہوئی۔ عمر فاروق نے مشورہ دیا کہ ان قیدیوں کو قتل کردیا جائے اور ہر مسلمان اپنے قریبی رشتے داروں کو خود قتل کرے۔ ابوبکر صدیق نے مشورہ دیا کہ تعلیم یافتہ قیدیوں سے دس دس ان پڑھ مسلمانوں کو لکھنا پڑھنا سکھانے کا معاہدہ کیا جائے، اور دیگر قیدیوں سے ایک ہزار سے لے کر چار ہزار درہم تک یا حسب استطاعت فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے۔
نبی رحمتؐ نے صدیق اکبر کے مشورے کے مطابق فیصلہ صادر فرمایا۔حضرت زبیر نے جنگ بدر میں ایک ایسے کافر کو ہلاک کیا جو سر سے لے کر پاؤں تک مسلح تھا اور جس نے مسلمانوں کو للکارا تھا۔ حضرت زبیر نے اس کی آنکھ میں تاک کر ایسی برچھی ماری جس سے وہ فوراً جہنم واصل ہوگیا۔ زبیر نے اس کی لاش پر پائوں رکھ کر بڑے زور سے برچھی نکالی جس سے برچھی کا سرا مڑ گیا۔ غزوۂ بدر کے موقع پر بنت رسول اور زوجۂ عثمان غنی، بی بی رقیہ شدید علیل تھیں۔ چناں چہ حضور ﷺ نے عثمان کو ان کی دیکھ بھال پر مامور کیا، جس کی وجہ سے وہ غزوۂ بدر میں شامل نہ ہوسکے۔
لیکن غزوے کے بعد جب مال غنیمت تقسیم ہوا تو حضورؐ نے عثمان کو بھی غازیان بدر میں شامل کرکے مال غنیمت میں سے حصہ عطا فرمایا، لہٰذا عثمان غنی کو بھی بدری صحابہ میں شمار کیا جاتا ہے۔جب مال دار قیدیوں سے فدیہ طلب کیا جارہا تھا تو حضورؐ کے چچا حضرت عباس نے کہا:''جو سونا میرے پاس تھا، وہ مال غنیمت میں شامل کرلیا گیا ہے۔ میرے پاس فدیے کے لیے کچھ نہیں بچا، میں کہاں سے ادا کروں؟''
یہ سن کر نبیؐ نے ارشاد فرمایا:''اے چچا! جب آپ مکہ مکرمہ سے چلے تھے تو آپ نے کچھ مال میری چچی ام فضل کے سپرد کیا تھا!''
یہ ایسی بات تھی جس کا علم کسی کو نہیں تھا۔ چناں چہ نبی کریمؐ کی اس بات سے متاثر ہو کر عباس، عقیل اور نوفل نے اسلام قبول کرلیا۔