مواخات

باہمی رحم و مروت، باہمی محبت، اسلامی اخوت کی بنیاد ہے۔

drtayyabsinghanvi100@gmail.com

لاہور:
''مومن تو آپس میں بھائی بھائی ہیں'' حضور اکرمؐ نے اس حکم قرآنی کے تحت اختلاف رنگ و نسل مٹا کر تمام مسلمانوں کو بھائی بھائی بنادیا۔ اللہ کے اس فضل و نعمت کا ذکر قرآن مجید میں اس طرح کیا گیا ہے ''اور تم اپنے اوپر اللہ کے اس احسان کو یاد کرو۔ جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے۔ تو اللہ تعالیٰ نے تمہارے دلوں کو جوڑ دیا اور تم اس کی نعمت اور فضل سے بھائی بھائی ہوگئے۔'' (آل عمران۔ آیت۔103)

آپؐ نے مہاجرین و انصار کے درمیان ''رشتہ اخوت'' قائم کردیا۔ ہر مہاجرکوکسی انصاری کا بھائی بنادیا۔ انصارکے ایثارکا یہ حال تھا کہ وہ اپنی ساری جائیداد کا نصف حصہ خوشی خوشی اپنے دینی بھائیوں کو دے رہے تھے۔ یہ مواخات فرمان الٰہی ''مسلمان تو سب بھائی بھائی ہیں'' کی جیتی جاگتی تصویر اور بے مثال عملی نظیر تھی۔انصار نے جس ایثار کا ثبوت دیا اس کی مثال تاریخ عالم میں ڈھونڈنے سے نہیں ملتی۔ جب بنونضیر کا علاقہ ختم ہوا تو انصارؓ نے عرض کیا یہ متروکہ اراضی آپؐ مہاجرین میں بانٹ دیں اور ہماری جائیدادوں میں سے بھی جوکچھ آپ چاہیں ان کو دے سکتے ہیں۔

جذبۂ ایثار سے سرشار انصارؓ کی تعریف میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ''اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں خواہ اپنی جگہ خود محتاج ہوں۔'' (الحشر۔آیت۔9) ۔ اللہ کی دی ہوئی دولت کو اللہ کی خوشنودی کی خاطر، اللہ کی راہ میں خرچ کرنا چوٹی کی نیکی ہے۔ فرمان الٰہی ہے ''تم نیکی میں ہرگزکمال حاصل نہ کرسکو گے جب تک خرچ نہ کرو اپنی پیاری چیز میں سے۔'' (سورۃ۔30۔ آیت۔92) قرآن میں مسلمان کی شان اس طرح بیان کی گئی ہے ''اور اللہ کی محبت میں مسکین اور یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں۔ (اور ان سے کہتے ہیں کہ) ہم تمہیں صرف اللہ کی خوشنودی کی خاطر کھلا رہے ہیں ہم تم سے نہ کوئی بدلہ چاہتے ہیں نہ شکریہ۔ ہمیں تو اپنے رب سے اس دن کے عذاب کا خوف لاحق ہے جو سخت مصیبت کا انتہائی طویل دن ہوگا۔ پس اللہ تعالیٰ انھیں اس دن کے شر سے بچا لے گا اور انھیں تازگی اور سرور بخشے گا۔'' (الدّھر۔ آیات8 تا11)۔

باہمی رحم و مروت، باہمی محبت، اسلامی اخوت کی بنیاد ہے۔ باہمی معاونت ماتھے کا جھومر ہے۔ اخوت کا رشتہ ناقابل شکست ہے۔ یہ کبھی ٹوٹ نہیں سکتا۔ کوئی مسلمان اسے توڑنا چاہے تو وہ اسلام سے ہی ہٹ جاتا ہے۔ قرآن حکیم کا مسلمانوں کے بارے میں ارشاد ہے ''وہ ایک دوسرے کے لیے پیکر رحم ہوتے ہیں۔'' مسلمان کی زندگی راہ خدا میں وقت ہوتی ہے۔ کوئی کسی مشکل یا مصیبت میں ہو تو اس کی حاجت روائی سے جان بوجھ کر گریز کرنا سخت گناہ ہے۔ آپؐ کا فرمان ہے ''کسی آدمی کے پاس چٹیل میدان میں فالتو پانی ہو اور وہ مسافر کو نہ دے تو اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اس سے کلام نہ کرے گا نہ اس پر رحم کی نظر ڈالے گا اور نہ اسے گناہوں سے پاک کرے گا۔'' اسلامی فقہ کا مسئلہ ہے کہ اگر چند اشخاص کے پاس پانی ہو اور ان کے قریب کوئی آدمی ان کے علم کے باوجود پیاسا مر جائے تو ان پر اس کی جان کا تاوان ڈالا جائے گا۔

مسلمان ایک دوسرے کے ولی ہوتے ہیں۔ مراد یہ ہے کہ ان کے درمیان قلبی رفاقت کا رشتہ ہے۔ اس رفاقت کو نبھانا، آپس میں تعاون کرنا اور ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ہونا مسلمان کا خاصا ہے، اسلام کی نظر میں زندگی تعاون، ہمدردی اور مواساۃ کا نام ہے۔ خدمت، عبادت ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ (1) دین تو خیرخواہی کا نام ہے۔

(2) ایک مومن دوسرے مومن کے لیے ایسا ہے جیسے دیوار کا ہر جز دوسرے جز کو تقویت پہنچاتا ہے۔

(3) تو اللہ پر ایمان رکھنے والوں کو ایک دوسرے سے رحم اور محبت اور مہربانی میں ایسا دیکھے گا کہ جیسے بدن کا ایک عضو مریض ہوجائے تو سارے اعضا بخار اور درد و کرب کے ساتھ شب بیداری میں اس کے شریک ہوجاتے ہیں۔


(4) مومن، دوسرے مومن کا بھائی ہے اور بمنزلہ اس کی آنکھ کے ہے (اس کی خوبیاں اور برائیاں اسے دکھاتا ہے) وہ اس کے لیے ایک آئینے کی مانند ہے (اس کی برائیوں اور اچھائیوں کی نشاندہی کرتا ہے) اس کا رہنما ہے۔

(5) مومن، مومن کا بھائی ہے اور مسلمان تن واحد اور روح واحد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ مومن کی پہچان یہ ہے کہ اگر دوسرا مسلمان بھوکا ہو تو وہ کھانا نہ کھائے۔ (6)۔ جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں مصروف رہتا ہے اللہ تعالیٰ بندے کا مددگار رہتا ہے۔ جس نے مسلمان سے تنگی دور کی، اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اس سے تنگی دور کرے گا۔

(7) اللہ تعالیٰ تمہیں صرف تمہارے غریب لوگوں کی مدد کے عوض ہی رزق دیتا ہے اور مدد کرتا ہے۔

(8) مجھے رمضان بھر کے روزے رکھنے اور اس مہینے مسجد حرام میں بیٹھ کر اعتکاف کرنے سے یہ زیادہ عزیز ہے کہ اپنے بھائی کی بوقت ضرورت امداد کروں۔

(9) جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا، اللہ تعالیٰ اس پر رحم نہیں کرتا۔

(10) جو شخص اپنے دن کا آغاز کرے اور مسلمانوں کے امور کی اصلاح کا کوئی اہتمام نہ کرے وہ مسلمان نہیں ہے۔

(11) مسلمان کو چاہیے کہ اس کا دینی بھائی پریشان ہو تو اس پر رحم کرے، بدگو اور عیب جو اشخاص کے مقابلے میں اس کا دفاع کرے، حوادث کا مقابلہ کرنے کے لیے اسے تنہا نہ چھوڑے، جو چیز اپنے لیے پسند کرے وہ اس کے لیے پسند کرے۔

اسلام کے رشتہ اخوت کی نظیر پوری دنیا میں ملنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ یہ مواخات اپنی مثال آپ، بے مثال اور لازوال ہے۔
Load Next Story