مشرف واپسی سے پہلے سیاستدانوں اور فوج کا ردعمل دیکھنا چاہتے ہیں
القاعدہ اورطالبان کی ہٹ لسٹ پربھی ہیں، پہلے شجاع پاشا نے واپسی رکوائی تھی
سابق صدرجنرل(ر) پرویز مشرف کی واپسی پران کے ٹرائل سے پاک فوج شدید دباؤ میں آ سکتی ہے۔
پرویزمشرف کو بینظیر بھٹو کیس، نواب اکبربگٹی کیس، لال مسجدآپریشن اورجمہوری حکومت کا تختہ الٹنے پر آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس کے علاوہ وہ القاعدہ اور طالبان کے سیکڑوں افرادکوپکڑکر امریکا کے حوالے کرنے کی پاداش میں شدت پسندتنظیموں کی بھی ہٹ لسٹ پر ہیں۔ بلوچ قوم پرست بھی انھیں نا پسندکرتے ہیں۔
وہ نواب اکبربگٹی کے قتل اورلاتعداد افرادکی گمشدگیوں کا انھیں ذمے دار قراردیتے ہیں۔ انھوںنے وطن واپسی کا اعلان ایسے وقت کیا جب مذہبی اور سیاسی جماعتوں نے طالبان کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کا اعلان کیاہے۔ پیپلزپارٹی کی حکومت نے انھیں پروٹوکول کے ساتھ رخصت توکیاتھا لیکن اب ہوسکتاہے کہ صدرزرداری ان کی واپسی پران کے ٹرائل کی مخالفت نہ کریں۔ اس ساری صورتحال پرفوج خاموش رہیگی؟ ملکی تاریخ میں پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی سابق آرمی چیف کا سویلین عدالت میں مقدمہ چلاہو۔
چندسال قبل فرانس سے خریدی گئی آبدوزوں کے کیس میں کمیشن کی وصولی کے مقدمے میں سابق نیول چیف منصورالحق کوسزا ہوگئی تھی لیکن انھیں بعد ازاں عجیب وغریب طریقے سے پلی بارگیننگ کے ذریعے رہا کروا لیاگیاتھا۔ چندماہ قبل فوج نے تھری اسٹار ریٹائرجنرلوں کوبحال کرکے ان کا کورٹ مارشل کیا تھا، وہ اب سابق آرمی چیف کا ٹرائل کرنے دے گی؟ ایسا ہوا تونئی تاریخ رقم ہوگی۔ آرمی اسٹیبلشمنٹ کیلیے فیصلہ کرناآسان نہیں ہوگا کیونکہ مسلم لیگ ن اورمذہبی جماعتیں مشرف کی واپسی پراحتجاج کی تیاری کررہی ہیں ، وہ ان کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی کا مطالبہ کریں گی۔
جنرل کیانی کواب فیصلہ کرناہوگا یاتوسویلین عدالت میں مشرف کے خلاف مقدمہ چلنے دیں یاپھرانھیں غیرمعمولی سیکیورٹی فراہم کرناپڑے گی۔ اس سے قبل پرویز مشرف نے جب واپسی کا اعلان کیاتھا تواس وقت کے آئی ایس آئی چیف شجاع پاشا نے انھیں واپسی ملتوی کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ اب وہ واپسی پر بضد ہیں۔ ان کاٹرائل آسان نہیں ہوگا۔ وہ ریٹائرڈجنرلوں کے بارے میں بہت سے انکشافات کرسکتے ہیں۔ انھوں نے ابھی واپسی کی تاریخ اس لیے نہیں دی کیونکہ وہ سیاسی جماعتوں اورفوج کا ردعمل معلوم کرناچاہتے ہیں۔ اب شایدمتحدہ قومی موومنٹ اورق لیگ بھی ان کا ساتھ نہ دیں۔ موجود ہ حالات میں اگرچہ وہ واپسی کیلیے پرعزم ہیں لیکن زمینی حقائق اس سے بالکل مختلف ہیں۔ انھیں واپس آکر الیکشن لڑنے کے فیصلے پرنظرثانی کرناپڑسکتی ہے۔ وہ خطرات کے باوجود واپس آتے ہیں تو مقدمات کا سامنا کرنے کے ساتھ فوج کیلیے پریشانی کا سبب بن سکتے ہیں۔
پرویزمشرف کو بینظیر بھٹو کیس، نواب اکبربگٹی کیس، لال مسجدآپریشن اورجمہوری حکومت کا تختہ الٹنے پر آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس کے علاوہ وہ القاعدہ اور طالبان کے سیکڑوں افرادکوپکڑکر امریکا کے حوالے کرنے کی پاداش میں شدت پسندتنظیموں کی بھی ہٹ لسٹ پر ہیں۔ بلوچ قوم پرست بھی انھیں نا پسندکرتے ہیں۔
وہ نواب اکبربگٹی کے قتل اورلاتعداد افرادکی گمشدگیوں کا انھیں ذمے دار قراردیتے ہیں۔ انھوںنے وطن واپسی کا اعلان ایسے وقت کیا جب مذہبی اور سیاسی جماعتوں نے طالبان کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کا اعلان کیاہے۔ پیپلزپارٹی کی حکومت نے انھیں پروٹوکول کے ساتھ رخصت توکیاتھا لیکن اب ہوسکتاہے کہ صدرزرداری ان کی واپسی پران کے ٹرائل کی مخالفت نہ کریں۔ اس ساری صورتحال پرفوج خاموش رہیگی؟ ملکی تاریخ میں پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی سابق آرمی چیف کا سویلین عدالت میں مقدمہ چلاہو۔
چندسال قبل فرانس سے خریدی گئی آبدوزوں کے کیس میں کمیشن کی وصولی کے مقدمے میں سابق نیول چیف منصورالحق کوسزا ہوگئی تھی لیکن انھیں بعد ازاں عجیب وغریب طریقے سے پلی بارگیننگ کے ذریعے رہا کروا لیاگیاتھا۔ چندماہ قبل فوج نے تھری اسٹار ریٹائرجنرلوں کوبحال کرکے ان کا کورٹ مارشل کیا تھا، وہ اب سابق آرمی چیف کا ٹرائل کرنے دے گی؟ ایسا ہوا تونئی تاریخ رقم ہوگی۔ آرمی اسٹیبلشمنٹ کیلیے فیصلہ کرناآسان نہیں ہوگا کیونکہ مسلم لیگ ن اورمذہبی جماعتیں مشرف کی واپسی پراحتجاج کی تیاری کررہی ہیں ، وہ ان کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی کا مطالبہ کریں گی۔
جنرل کیانی کواب فیصلہ کرناہوگا یاتوسویلین عدالت میں مشرف کے خلاف مقدمہ چلنے دیں یاپھرانھیں غیرمعمولی سیکیورٹی فراہم کرناپڑے گی۔ اس سے قبل پرویز مشرف نے جب واپسی کا اعلان کیاتھا تواس وقت کے آئی ایس آئی چیف شجاع پاشا نے انھیں واپسی ملتوی کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ اب وہ واپسی پر بضد ہیں۔ ان کاٹرائل آسان نہیں ہوگا۔ وہ ریٹائرڈجنرلوں کے بارے میں بہت سے انکشافات کرسکتے ہیں۔ انھوں نے ابھی واپسی کی تاریخ اس لیے نہیں دی کیونکہ وہ سیاسی جماعتوں اورفوج کا ردعمل معلوم کرناچاہتے ہیں۔ اب شایدمتحدہ قومی موومنٹ اورق لیگ بھی ان کا ساتھ نہ دیں۔ موجود ہ حالات میں اگرچہ وہ واپسی کیلیے پرعزم ہیں لیکن زمینی حقائق اس سے بالکل مختلف ہیں۔ انھیں واپس آکر الیکشن لڑنے کے فیصلے پرنظرثانی کرناپڑسکتی ہے۔ وہ خطرات کے باوجود واپس آتے ہیں تو مقدمات کا سامنا کرنے کے ساتھ فوج کیلیے پریشانی کا سبب بن سکتے ہیں۔