دس سال بعد
ٹھیک دس سال بعد اک نئی سمت ہے، جو ہونے کو جارہی ہے۔
سیاست کے طبل تیز ہوگئے ہیں۔ قانوں حرکت میں ہے تو خود دنیا میں تبدیلی کچھ اس طرح سے امڈ رہی ہے کہ ایشیا اب اس کا مرکز بن رہا ہے۔ اک طرف حلقہ NA-120 میں انتخابات سے لاہور کی نبض دیکھنے میں آئی تو دوسری طرف حلقہ NA-04 نے بھی پشاور کے پختون ووٹ کا مجموعی رویہ بتادیا۔ لگ بھگ ایک کروڑ چالیس لاکھ نئے ووٹرز کا اندراج 2018 کے الیکشن سے پہلے ہورہا ہے۔
2017 کی مردم شماری نے لازم کردیا کہ نئی حلقہ بندی کی جائی۔ معاشی انڈیکٹر مجموعی طور اچھے نہیں دکھائی دے رہے ہیں لیکن یہ جو ملک ہے وہ ایک نئی کروٹ لینے کے لیے مکمل تیار ہے۔ 2007 کی وکلا تحریک کو دس سال ہونے کو ہیں اور دس سال بعد پھر سے یہ ملک ایک نئی نوید لے کر آرہا ہے۔ وہ بے نظیر جو 2008 میں آئی تھی، آکے وہ پھر چلی بھی گئیں۔ دس سال بعد پھر سے ہم الیکشن میں جارہے ہیں۔ یہ ہمارا تیسرا بیلٹ باکس ہوگا، بغیر کسی تعطل کے۔
کل جو کورٹ آرٹیکل 2A میں الجھ جاتی تھی اسے آئین کے بنیادی ڈھانچے کو ترتیب دینے کی کوئی فکر نہیں تھی، وہ جو نظریہ ضرورت میں بار بار ڈوب جاتی تھی، اور وہ اسٹیبلشمنٹ جو شب خوں کے لیے کوئی بھی سنہری موقع آنے کے تعاقب میں رہتی تھی، وہ سب اگر تاریخ نہیں بھی ہے تو ناممکن کے پڑوس میں اب ضرور رہتا ہے۔ ن م راشد کے ''گماں کے ممکن'' کی مانند۔
یہ ہے میرا پاکستان، موقع پرست سیاست کے اکھاڑوں سے الجھا ہوا پاکستان۔ شرفاؤں کے مفادات والی سیاست کا امین پاکستان، جہاں انصاف بہت مہنگا ہے، جہاں اسمبلی کا ممبر بننا سب امیروں کے چونچلے ہیں۔ جہاں حاملہ عورت اسپتال پہنچتے پہنچتے فٹ پاتھ پر بالآخر بچے کو جنم دیتی ہے۔ جہاں عورت کی پستی دنیا میں اک نمبر پر ہے، کہ خود حلقہ NA-4 میں خواتیں ووٹر کا ووٹ ڈالنے کا تناسب فقط 14 فیصد رہا، جب کہ مردوں کا 41 فیصد۔ یہ ہے پشاور جو کہ اربن ہے۔ مشال کے کیس میں سرکاری وکیل استعفیٰ دیتا ہے کہ اسے ان 43 ملزماں کی طرف سے دھمکیاں ملتی ہیں اور ان ملزمان کی اکثریت PTI سے وابستہ ہے۔ تبدیلی لاتے لاتے شاید عمران خان سسٹم کا شکار ہوگئے۔
یہ ہے میرا پاکستان جہاں اسکولوں سے باہر بچوں کی تعداد دنیا میں پانچ بدتر ملکوں میں آتی ہے۔ جہاں تعلیم پر خرچ نہایت کم ہوتا ہے۔ وہاں جو بچے اگر اسکول جاتے بھی ہیں تو پانچویں جماعت سے اوپر پہنچتے آدھے اسکولوں سے رخصت ہوجاتے ہیں۔ وہ اسکول جہاں بچوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ جہاں آدھے سے زیادہ استاد صرف ریکارڈ میں تنخواہ کے لیے درج ہیں اور اسکول پڑھانے نہیں آتے۔ مگر پھر بھی قندیل بلوچ کے کیس نے اک سمت لے لی ہے۔ نیب پھر سے تازہ دم ہوکر کرپشن کے خلاف میدان میں اتر پڑا ہے۔
اور سب سے بڑی بات ہمارا میڈیا۔ الیکٹرانک ہو پرنٹ ہو یا خود سوشل میڈیا ہو۔ اک انقلاب برپا ہوچکا ہے۔ چیزیں ٹوٹتی پھوٹتی جارہی ہیں۔ اک عالم بے قراری ہے۔ جنھوں نے پاکستاں کو انتہاپرستی کا اکھاڑا بنانا چاہا وہ پسپا ہورہے ہیں۔ نوجوان اب کی بار بہت متحرک ہیں، وہ اک ایسا پاکستان چاہتے ہیں جہاں روزگار کے مواقع ہوں۔ پاکستان کی فطری شرح نمو سات فیصد سے اوپر ہے، جو اصل مسئلہ ہے، وہ یہ ہے کہ ہماری 70 سال کی سیاست نے اداروں کے بنانے کے بجائے اداروں کو بگاڑنے کا کام کیا ہے۔ ٹھیک دس سال بعد اک نئی سمت ہے، جو ہونے کو جارہی ہے۔ سی پیک کسی ایک فرد کا کرشمہ نہیں یہ ایک ریاستی سوچ کا عمل ہے، اچھا یا برا سے ہٹ کر ہمیں اس بات کو ماننا ہوگا۔ جو لوگ ریاستی سوچ بنانے میں اہمیت رکھتے ہیں یہ ان کا فکری عمل تھا۔
یہ بھی سوچ اوباما والا امریکا، کیری لوگر بل میں پاکستان کی سول قیادت کو ہمت دینا، خود شب خون کے لیے بین الاقوامی طور راہیں مشکل کرنا کہ جو اگر کوئی Adventurous سوچ رکھنے والا آئے بھی تو اس کے لیے شب خون لانا اتنا آسان نہ ہو۔ ہم اپنے خطے میں کٹ کر اک طرف رہ تو گئے ہیں لیکن ہمیں ان حقائق کا ادراک بھی ہے۔ ہم نے بالآخر امریکا کو اپنا آقا ماننے سے انکار کردیا۔ ہم نے اک ایسے ملک کے ساتھ اپنا تعلق اور رفیق کردیا جو دنیا میں سپر طاقت بن کر ابھر رہا ہے۔ CPEC اس کے ون بیلٹ ون روڈ کی پالیسی کا سب سے اہم ستون ہے۔ ایک ایسا دوست جو ہر آزمائے ہوئے وقت میں اپنی دوستی کے معیار پر پورا اترا۔ ڈالر کے بعد اب دنیا کی دوسری بڑی کرنسی چینی یو آن کے نام سے ابھر رہی ہے۔ بہت تیزی سے چین دنیا کے نقشے پر سپر طاقت کی حیثیت سے ابھر رہا ہے۔
ہم جب خود سعودی عرب سے تعلقات کو دیکھ رہے ہیں، اک یہ بھی خبر ہے کہ وہاں ولی عہد شہزادہ سلمان نے اب Moderate Islam کو اپنانے کی پالیسی ترتیب دی ہے۔ سعودی عرب خود اندر سے تبدیل ہونے کے لیے تیار ہے۔ اس کے علاوہ اس کے پاس اب کوئی چارہ نہیں۔
ہمارے تعلقات اب ایران سے بھی بہتر ہوتے جارہے ہیں۔ خود ایران کے اندر بڑی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں، جس سے ایران اوپن سوسائٹی ہونے کی طرف جارہا ہے۔
کشمیر ہندوستان سے سنبھالا نہیں جارہا۔ افغانستان غنی کی ہاتھوں سے کھسک رہا ہے۔ ہماری خواہش ہونی چاہیے کہ ہم ہندوستان کے مودی کی انتہاپرست سیاست اور امریکا کے خودغرض عزائم سے دور رکھنے کے لیے حکمت عملی اپنائیں۔
اس ساری بحث کا نچوڑ یہ ہے کہ ٹھیک دس سال بعد بالآخر ہم جامع و دوررس پالیسی بنانے میں کامیاب جارہے ہیں۔ اور جمہوریت کو اور Mature ہونے کے لیے راستے بناتے جارہے ہیں۔ ٹھیک دس سال بعد ہم معاشی و سیاسی و سماجی اعتبار سے اک نئے موڑ پر آچکے ہیں، آیندہ دہائی پاکستان کی دہائی ہوگی۔
2017 کی مردم شماری نے لازم کردیا کہ نئی حلقہ بندی کی جائی۔ معاشی انڈیکٹر مجموعی طور اچھے نہیں دکھائی دے رہے ہیں لیکن یہ جو ملک ہے وہ ایک نئی کروٹ لینے کے لیے مکمل تیار ہے۔ 2007 کی وکلا تحریک کو دس سال ہونے کو ہیں اور دس سال بعد پھر سے یہ ملک ایک نئی نوید لے کر آرہا ہے۔ وہ بے نظیر جو 2008 میں آئی تھی، آکے وہ پھر چلی بھی گئیں۔ دس سال بعد پھر سے ہم الیکشن میں جارہے ہیں۔ یہ ہمارا تیسرا بیلٹ باکس ہوگا، بغیر کسی تعطل کے۔
کل جو کورٹ آرٹیکل 2A میں الجھ جاتی تھی اسے آئین کے بنیادی ڈھانچے کو ترتیب دینے کی کوئی فکر نہیں تھی، وہ جو نظریہ ضرورت میں بار بار ڈوب جاتی تھی، اور وہ اسٹیبلشمنٹ جو شب خوں کے لیے کوئی بھی سنہری موقع آنے کے تعاقب میں رہتی تھی، وہ سب اگر تاریخ نہیں بھی ہے تو ناممکن کے پڑوس میں اب ضرور رہتا ہے۔ ن م راشد کے ''گماں کے ممکن'' کی مانند۔
یہ ہے میرا پاکستان، موقع پرست سیاست کے اکھاڑوں سے الجھا ہوا پاکستان۔ شرفاؤں کے مفادات والی سیاست کا امین پاکستان، جہاں انصاف بہت مہنگا ہے، جہاں اسمبلی کا ممبر بننا سب امیروں کے چونچلے ہیں۔ جہاں حاملہ عورت اسپتال پہنچتے پہنچتے فٹ پاتھ پر بالآخر بچے کو جنم دیتی ہے۔ جہاں عورت کی پستی دنیا میں اک نمبر پر ہے، کہ خود حلقہ NA-4 میں خواتیں ووٹر کا ووٹ ڈالنے کا تناسب فقط 14 فیصد رہا، جب کہ مردوں کا 41 فیصد۔ یہ ہے پشاور جو کہ اربن ہے۔ مشال کے کیس میں سرکاری وکیل استعفیٰ دیتا ہے کہ اسے ان 43 ملزماں کی طرف سے دھمکیاں ملتی ہیں اور ان ملزمان کی اکثریت PTI سے وابستہ ہے۔ تبدیلی لاتے لاتے شاید عمران خان سسٹم کا شکار ہوگئے۔
یہ ہے میرا پاکستان جہاں اسکولوں سے باہر بچوں کی تعداد دنیا میں پانچ بدتر ملکوں میں آتی ہے۔ جہاں تعلیم پر خرچ نہایت کم ہوتا ہے۔ وہاں جو بچے اگر اسکول جاتے بھی ہیں تو پانچویں جماعت سے اوپر پہنچتے آدھے اسکولوں سے رخصت ہوجاتے ہیں۔ وہ اسکول جہاں بچوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ جہاں آدھے سے زیادہ استاد صرف ریکارڈ میں تنخواہ کے لیے درج ہیں اور اسکول پڑھانے نہیں آتے۔ مگر پھر بھی قندیل بلوچ کے کیس نے اک سمت لے لی ہے۔ نیب پھر سے تازہ دم ہوکر کرپشن کے خلاف میدان میں اتر پڑا ہے۔
اور سب سے بڑی بات ہمارا میڈیا۔ الیکٹرانک ہو پرنٹ ہو یا خود سوشل میڈیا ہو۔ اک انقلاب برپا ہوچکا ہے۔ چیزیں ٹوٹتی پھوٹتی جارہی ہیں۔ اک عالم بے قراری ہے۔ جنھوں نے پاکستاں کو انتہاپرستی کا اکھاڑا بنانا چاہا وہ پسپا ہورہے ہیں۔ نوجوان اب کی بار بہت متحرک ہیں، وہ اک ایسا پاکستان چاہتے ہیں جہاں روزگار کے مواقع ہوں۔ پاکستان کی فطری شرح نمو سات فیصد سے اوپر ہے، جو اصل مسئلہ ہے، وہ یہ ہے کہ ہماری 70 سال کی سیاست نے اداروں کے بنانے کے بجائے اداروں کو بگاڑنے کا کام کیا ہے۔ ٹھیک دس سال بعد اک نئی سمت ہے، جو ہونے کو جارہی ہے۔ سی پیک کسی ایک فرد کا کرشمہ نہیں یہ ایک ریاستی سوچ کا عمل ہے، اچھا یا برا سے ہٹ کر ہمیں اس بات کو ماننا ہوگا۔ جو لوگ ریاستی سوچ بنانے میں اہمیت رکھتے ہیں یہ ان کا فکری عمل تھا۔
یہ بھی سوچ اوباما والا امریکا، کیری لوگر بل میں پاکستان کی سول قیادت کو ہمت دینا، خود شب خون کے لیے بین الاقوامی طور راہیں مشکل کرنا کہ جو اگر کوئی Adventurous سوچ رکھنے والا آئے بھی تو اس کے لیے شب خون لانا اتنا آسان نہ ہو۔ ہم اپنے خطے میں کٹ کر اک طرف رہ تو گئے ہیں لیکن ہمیں ان حقائق کا ادراک بھی ہے۔ ہم نے بالآخر امریکا کو اپنا آقا ماننے سے انکار کردیا۔ ہم نے اک ایسے ملک کے ساتھ اپنا تعلق اور رفیق کردیا جو دنیا میں سپر طاقت بن کر ابھر رہا ہے۔ CPEC اس کے ون بیلٹ ون روڈ کی پالیسی کا سب سے اہم ستون ہے۔ ایک ایسا دوست جو ہر آزمائے ہوئے وقت میں اپنی دوستی کے معیار پر پورا اترا۔ ڈالر کے بعد اب دنیا کی دوسری بڑی کرنسی چینی یو آن کے نام سے ابھر رہی ہے۔ بہت تیزی سے چین دنیا کے نقشے پر سپر طاقت کی حیثیت سے ابھر رہا ہے۔
ہم جب خود سعودی عرب سے تعلقات کو دیکھ رہے ہیں، اک یہ بھی خبر ہے کہ وہاں ولی عہد شہزادہ سلمان نے اب Moderate Islam کو اپنانے کی پالیسی ترتیب دی ہے۔ سعودی عرب خود اندر سے تبدیل ہونے کے لیے تیار ہے۔ اس کے علاوہ اس کے پاس اب کوئی چارہ نہیں۔
ہمارے تعلقات اب ایران سے بھی بہتر ہوتے جارہے ہیں۔ خود ایران کے اندر بڑی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں، جس سے ایران اوپن سوسائٹی ہونے کی طرف جارہا ہے۔
کشمیر ہندوستان سے سنبھالا نہیں جارہا۔ افغانستان غنی کی ہاتھوں سے کھسک رہا ہے۔ ہماری خواہش ہونی چاہیے کہ ہم ہندوستان کے مودی کی انتہاپرست سیاست اور امریکا کے خودغرض عزائم سے دور رکھنے کے لیے حکمت عملی اپنائیں۔
اس ساری بحث کا نچوڑ یہ ہے کہ ٹھیک دس سال بعد بالآخر ہم جامع و دوررس پالیسی بنانے میں کامیاب جارہے ہیں۔ اور جمہوریت کو اور Mature ہونے کے لیے راستے بناتے جارہے ہیں۔ ٹھیک دس سال بعد ہم معاشی و سیاسی و سماجی اعتبار سے اک نئے موڑ پر آچکے ہیں، آیندہ دہائی پاکستان کی دہائی ہوگی۔