آکیوپیشنل تھراپی سے دماغی مسائل کا حل بھی ممکن ہے
آکیوپیشنل تھراپی سے اہم فوائد حاصل کرنے کےلیے عوام میں اس کے حوالے سے آگہی اور شعور بڑھانا اشد ضروری ہے۔
گزشتہ بلاگ میں ہم نے معین صاحب کا واقعہ پیش کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ایک آکیوپیشنل تھراپسٹ کی ضرورت اور اہمیت کیا معنی رکھتی ہے۔ اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ معین صاحب تو درمیان میں ہی رہ گئے۔ اصل میں وہ آج بھی کبھی کبھار اپنے دفتر سے واپسی پر بغیر کسی سہارے کے، آنکھوں میں واضح چمک، چہرے پر اعتماد اور ہاتھ میں بغیر کسی دِقت کے پکڑی فائل تھامے نہایت خوداعتمادی سے قدم اُٹھائے صرف ملاقات کی غرض سے تشریف لاتے ہیں اور کچھ دیر بیتی باتوں کو یاد کرتے ہیں۔
ناکامی سے کامیابی کا سفر ہر مرتبہ کسی نئے مایوس شخص کےلیے حوصلہ افزائی کا باعث ہوتا ہے اور ایک آکیوپیشنل تھراپسٹ کا اصل مشن اسی طرح ہر آنے والے مایوس شخص کو زندگی سے بھرپور خوشی اور اعتماد دلانا ہوتا ہے۔ یہ تو تھا معین صاحب کا سفر۔ اب بات ہو جائے کچھ آکیوپیشنل تھراپی کے اُس سفر کی جسے پاکستان میں متعارف کرانے، لوگوں تک پہنچانے اور آگے بڑھانے کا سہرا پہلی آکیوپیشنل تھراپسٹ مِس نگہت لودھی کے سر ہے۔
ڈاکٹر نگہت لودھی کی شہرت اگرچہ زبان زدِ عام نہیں مگر پاکستان میں آکیوپیشنل تھراپی کے حوالے سے ان کا نام بڑے احترام سے لیا جاتا ہے۔ انہوں نے 1971 میں عالمی ادارہ صحت سے آکیوپیشنل تھراپی کی باقاعدہ تربیت حاصل کی، جس کے بعد بیرونِ ملک جاکر خود کو مزید آگے بڑھانے کے بجائے اپنی زندگی کو اس شعبے اور اپنے مریضوں کی آنکھوں میں خود اعتمادی کی چمک پیدا کرنے کےلیے وقف کردیا۔ مشن انتہائی بڑا اور راستہ دشوار سہی مگر مِس لودھی نے اپنی ذہانت، تگ و دو اور انتھک محنت سے آگے بڑھ کر ہر نیک مشن میں حصہ لیا۔ یہی نہیں بلکہ جناح اسپتال کے ساتھ پاکستان کے پہلے اسکول آف آکیوپشنل تھراپی کا قیام بھی آپ ہی کی کوششوں سے عمل میں آیا جہاں مقامی طور پر طلبا کی تربیت کا آغاز کیا گیا۔
ان کی کاوشیں مزید رنگ لائیں اور ڈاؤ یونیورسٹی کے انسٹیٹیوٹ آف فزیکل میڈیسن اینڈ ری ہیبی لٹیشن میں ڈاکٹر نبیلا سومرو نے اس شعبے کی اہمیت محسوس کرتے ہوئے پاکستان میں دوسرے آکیوپیشنل تھراپی کے ادارے کی بنیاد رکھی۔ یوں دوسرا تربیتی ادارہ شروع ہوا اور آج یہ اپنی نوعیت کا منفرد اور جدید ادارہ بن چکا ہے جہاں چار سالہ ''بی ایس آکیوپیشنل تھراپی'' پروگرام جاری ہے۔ آج یہ ادارہ مریضوں کو خودمختار بنانے کےلیے خصوصی آلات تیار کرنے والا واحد ادارہ ہے جہاں بنائے جانے والے کم خرچ لیکن معیاری اور پائیدار آلات اس ادارے کی افادیت اور سماجی خدمت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
یہی نہیں بلکہ مریضوں کے گھر جا کر، گھر کے ماحول میں ان کی جانچ پڑتال کرنا اور وہاں موجود ان اسباب کا خاتمہ کرنا جو ان کے چلنے پھرنے اور کام کرنے میں دقت پیدا کرتے ہیں، یہ بھی اس ادارے کی چیدہ چیدہ خدمات میں شامل ہے۔ یہ پورا عمل جس میں گھر کو مریض کی ضروریات کے مطابق تبدیل کیا جاتا ہے ''ہوم موڈی فکیشن'' (گھریلو ترمیم) بھی کہلاتا ہے جسے پاکستان میں متعارف کروانے کا سہرا بھی اسی ادارے کے سر ہے۔
اس کی مثال ایک مریضہ سے دینا چاہوں گی جو بیماری میں مسلسل پیش رفت کی وجہ سے تھراپی کے باوجود کمزور ہوتی جارہی تھیں اور انہیں اٹھنے بیٹھنے اور چلنے پھرنے میں دقت کا سامنا تھا۔ ان کی ضرورت کے اعتبار سے ان کے گھر میں کچھ تبدیلیاں کی گئیں اور جدت لائی گئی جس سے ان کا روزمرہ معیارِ زندگی خاصا بہتر ہوگیا۔
بہرحال، بیج پروان چڑھ کر درخت بنتا ہے تو دنیا کو سایہ دیتا ہے۔ اسی طرح مسلسل کوششوں کے نتیجے میں آج لوگوں میں اتنی آگہی ضرور آگئی ہے کہ اگر انہیں روزمرہ کے کاموں میں مشکل ہو، کمزوری بڑھنے سے دقت ہو، پوسچر کے مسائل ہوں، ہاتھ سر سے اوپر نہ جاسکے، جوڑوں کے مسائل درپیش ہوں، نفسیاتی مسائل ہوں یا بچوں میں چڑچڑے پن، ضدی پن اور اعتماد میں کمی کی وجہ سے پڑھائی سے دوری، تو ہو تو بہت سے لوگ آکیوپیشنل تھراپسٹ سے رجوع کرتے ہیں، تاہم ابھی اس آگہی کو بڑھانے کی اشد ضرورت ہے۔
اس ادارے میں الگ الگ یونٹس ہیں جہاں مریضوں کو ان کے مسائل کے مطابق علاج اور تربیت کی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں جن میں فزیکل، پیڈز (Peads)، روزمرہ کے کام (ADL Areas) اور سینسری ایریا (Sensory Area) شامل ہیں۔ کئی بار شوگر، نیورو پیتھی یا کسی مرض کے نتیجے میں نیوروپیتھی کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے جس میں یا تو ٹھنڈا گرم محسوس ہی نہیں ہوتا، یا پھر بہت زیادہ ہوجاتا ہے؛ کسی چیز کے چبھنے کا احساس نہیں ہوتا۔ ایسی صورت میں ماہر تھراپسٹ سینسری طریقۂ کار سے علاج کرتے ہیں تاکہ مریض کو جس حد تک ممکن ہو، اس کی حسیات بحال کی جاسکیں۔
اب کچھ تذکرہ ہوجائے نفسیاتی مسائل کا اور ان کے حل میں آکیوپیشنل تھراپی کے کردار کا۔
ہمارے پاس صابر نامی ایک صاحب کا کیس آیا۔ یہ ایک 35 سالہ جوان تھا جو دفتری امور بخوبی انجام دیتے دیتے اچانک ہی خود سے باتیں کرنے لگتا، یکایک چلانے لگتا اور اسے کانوں میں آوازیں سنائی دینے لگیں۔ تشخیص سے معلوم ہوا کہ وہ ''شیزوفرینیا'' نامی دماغی بیماری میں مبتلا تھا۔ اس بیماری کے باعث وہ روزمرہ زندگی میں بات بات پر شک اور بدگمانی کرنے لگا اور نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ وہ عملی زندگی سے بالکل دور ہوگیا جبکہ اس کے اہلِ خانہ بھی اس کے پاس جاتے ہوئے کترانے لگے۔ دوسری طرف وہ لوگوں کو یہ بتاتے ہوئے بھی ڈرتے تھے کہ صابر نفسیاتی بیماری کا شکار ہے۔
اب آپ خود ہی سوچیے کہ اگر کسی شخص کی بیماری اس طرح خفیہ رکھی جائے تو اس کا علاج کیسے ممکن ہے؟ صابر صاحب کی حالت دیکھ کر بہ آسانی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کا علاج شروع کرنے سے پہلے ان کے اہلِ خانہ کو اس بات پر قائل کرنا ضروری رہا ہوگا۔ انہیں یہ سمجھانا ضروری تھا کہ صابر صاحب ایک دماغی تکلیف میں مبتلا ہیں جو علاج سے بہتر ہوسکتی ہے؛ اور انہیں علاج سے بھی زیادہ آپ کے تعاون اور بہتر رویّے کی ضرورت ہے۔
یہ تمام کام ایک آکیوپیشنل تھراپسٹ اپنی صلاحیت، مختلف طریقہ ہائے کار اور (فارغ رہنے کی عادت سے نقصان اُٹھانے والے) مریضوں میں کسی ہنر کا شوق پیدا کرکے اور ووکیشنل ٹریننگ کے مواقع فراہم کرکے کرسکتے ہیں۔ تاہم یہ کوئی آسان کام نہیں بلکہ اس میں بڑی محنت درکار ہوتی ہے اور خاصا وقت لگ جاتا ہے۔
مرض چاہے جسمانی ہو، ذہنی/ نفسیاتی ہو یا روزمرہ کی دقت، اس کے اسباب کی درست تشخیص اور علاج پر توجہ بہت ضروری ہیں۔ اسی پر بس نہیں بلکہ عام لوگوں کے علاوہ ڈاکٹروں اور علاج معالجے سے وابستہ دیگر افراد کو بھی اس بارے میں آگہی ہونی چاہیے کہ اگر کسی مریض کو ہاتھ اُٹھا کر منہ تک لے جانے میں پریشانی ہو، یا اس میں سوچنے کی صلاحیت نارمل نہ ہو تو اسے کس طرح سنبھالنا چاہیے اور اس سے کس طرح علاج کےلیے آمادہ کیا جائے۔
طریقہ علاج کچھ بھی ہوسکتا ہے: ورزش، بامقصد سرگرمیاں، خاص ٹریننگ اور ایجوکیشن یا فیملی کاؤنسلنگ (counseling)؛ البتہ اس سب کا کلیدی مقصد مریض کو جسمانی، سماجی، نفسیاتی اور روزمرہ کے امور میں اعتماد دیتے ہوئے خودمختار بنانا ہے۔ اس کےلیے مریضوں کو علیحدہ سیشن یا گروپ میں بھی سہولت فراہم کی جاتی ہے۔ کھیل اور دوسری روزمرہ کی سرگرمیوں کو پیش نظر ضروریات کے مطابق تبدیل کرکے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
ایسا ہی ایک واقعہ 32 سالہ انیل صاحب کا ہے۔ وہ بیڈمنٹن کھیلنے کے شوقین تھے لیکن اچانک ہی ان کے ہاتھوں میں رعشہ رہنے لگا اور ہاتھ سے ریکٹ بار بار گرنے لگا جس کی وجہ سے دوست احباب انہیں اپنے ساتھ کھلانے سے گریز کرنے لگے۔ مگر آج وہ ایک سال بعد اپنا شوق اُسی طرح پورا کررہے ہیں کیونکہ ان کی ضرورت رعشہ کو روکنا تھی، جس کےلیے ان کے ریکٹ کو تھوڑی ترمیم کے بعد قدرے بھاری بنادیا گیا۔ ساتھ ہی ساتھ گرپر (gripper) بھی کردیا گیا جس سے ان کے ہاتھ میں رعشے کے جھٹکے (Tremors) رک جاتے ہیں اور وہ آرام سے کھیل سکتے ہیں۔
یہ تو کامیابی کی صرف ایک مثال ہے ورنہ اس طریقۂ علاج کی اہمیت ثابت کرنے کےلیے ایسے سینکڑوں واقعات ریکارڈ پر ہیں جو مجبوری سے شروع ہوئے لیکن آکیوپیشنل تھراپسٹ کی مسلسل کوششوں سے آخرکار خودمختاری اور کامیابی پر اختتام پذیر ہوئے۔ یہ واقعات ہمیں بھی نیا حوصلہ دیتے ہیں۔
لیکن ہمارا سفر یہاں ختم نہیں ہوا۔ ابھی مزید آگہی کی اشد ضرورت ہے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی بتاتے چلیں کہ دنیا بھر میں آکیوپیشنل تھراپی کا دن یعنی ''ورلڈ آکیوپیشنل تھراپی ڈے'' ہر سال 27 اکتوبر کو منایا جاتا ہے جس میں سیمینار، آگہی نشستیں، پروگرام اور کیمپ لگائے جاتے ہیں تاکہ لوگوں کو زیادہ معلومات فراہم کرکے انہیں بھی معین صاحب، صابر صاحب یا انیل صاحب کی طرح کامیابی کی جانب سفر شروع کرنے کی ترغیب دی جاسکے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
ناکامی سے کامیابی کا سفر ہر مرتبہ کسی نئے مایوس شخص کےلیے حوصلہ افزائی کا باعث ہوتا ہے اور ایک آکیوپیشنل تھراپسٹ کا اصل مشن اسی طرح ہر آنے والے مایوس شخص کو زندگی سے بھرپور خوشی اور اعتماد دلانا ہوتا ہے۔ یہ تو تھا معین صاحب کا سفر۔ اب بات ہو جائے کچھ آکیوپیشنل تھراپی کے اُس سفر کی جسے پاکستان میں متعارف کرانے، لوگوں تک پہنچانے اور آگے بڑھانے کا سہرا پہلی آکیوپیشنل تھراپسٹ مِس نگہت لودھی کے سر ہے۔
ڈاکٹر نگہت لودھی کی شہرت اگرچہ زبان زدِ عام نہیں مگر پاکستان میں آکیوپیشنل تھراپی کے حوالے سے ان کا نام بڑے احترام سے لیا جاتا ہے۔ انہوں نے 1971 میں عالمی ادارہ صحت سے آکیوپیشنل تھراپی کی باقاعدہ تربیت حاصل کی، جس کے بعد بیرونِ ملک جاکر خود کو مزید آگے بڑھانے کے بجائے اپنی زندگی کو اس شعبے اور اپنے مریضوں کی آنکھوں میں خود اعتمادی کی چمک پیدا کرنے کےلیے وقف کردیا۔ مشن انتہائی بڑا اور راستہ دشوار سہی مگر مِس لودھی نے اپنی ذہانت، تگ و دو اور انتھک محنت سے آگے بڑھ کر ہر نیک مشن میں حصہ لیا۔ یہی نہیں بلکہ جناح اسپتال کے ساتھ پاکستان کے پہلے اسکول آف آکیوپشنل تھراپی کا قیام بھی آپ ہی کی کوششوں سے عمل میں آیا جہاں مقامی طور پر طلبا کی تربیت کا آغاز کیا گیا۔
ان کی کاوشیں مزید رنگ لائیں اور ڈاؤ یونیورسٹی کے انسٹیٹیوٹ آف فزیکل میڈیسن اینڈ ری ہیبی لٹیشن میں ڈاکٹر نبیلا سومرو نے اس شعبے کی اہمیت محسوس کرتے ہوئے پاکستان میں دوسرے آکیوپیشنل تھراپی کے ادارے کی بنیاد رکھی۔ یوں دوسرا تربیتی ادارہ شروع ہوا اور آج یہ اپنی نوعیت کا منفرد اور جدید ادارہ بن چکا ہے جہاں چار سالہ ''بی ایس آکیوپیشنل تھراپی'' پروگرام جاری ہے۔ آج یہ ادارہ مریضوں کو خودمختار بنانے کےلیے خصوصی آلات تیار کرنے والا واحد ادارہ ہے جہاں بنائے جانے والے کم خرچ لیکن معیاری اور پائیدار آلات اس ادارے کی افادیت اور سماجی خدمت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
یہی نہیں بلکہ مریضوں کے گھر جا کر، گھر کے ماحول میں ان کی جانچ پڑتال کرنا اور وہاں موجود ان اسباب کا خاتمہ کرنا جو ان کے چلنے پھرنے اور کام کرنے میں دقت پیدا کرتے ہیں، یہ بھی اس ادارے کی چیدہ چیدہ خدمات میں شامل ہے۔ یہ پورا عمل جس میں گھر کو مریض کی ضروریات کے مطابق تبدیل کیا جاتا ہے ''ہوم موڈی فکیشن'' (گھریلو ترمیم) بھی کہلاتا ہے جسے پاکستان میں متعارف کروانے کا سہرا بھی اسی ادارے کے سر ہے۔
اس کی مثال ایک مریضہ سے دینا چاہوں گی جو بیماری میں مسلسل پیش رفت کی وجہ سے تھراپی کے باوجود کمزور ہوتی جارہی تھیں اور انہیں اٹھنے بیٹھنے اور چلنے پھرنے میں دقت کا سامنا تھا۔ ان کی ضرورت کے اعتبار سے ان کے گھر میں کچھ تبدیلیاں کی گئیں اور جدت لائی گئی جس سے ان کا روزمرہ معیارِ زندگی خاصا بہتر ہوگیا۔
بہرحال، بیج پروان چڑھ کر درخت بنتا ہے تو دنیا کو سایہ دیتا ہے۔ اسی طرح مسلسل کوششوں کے نتیجے میں آج لوگوں میں اتنی آگہی ضرور آگئی ہے کہ اگر انہیں روزمرہ کے کاموں میں مشکل ہو، کمزوری بڑھنے سے دقت ہو، پوسچر کے مسائل ہوں، ہاتھ سر سے اوپر نہ جاسکے، جوڑوں کے مسائل درپیش ہوں، نفسیاتی مسائل ہوں یا بچوں میں چڑچڑے پن، ضدی پن اور اعتماد میں کمی کی وجہ سے پڑھائی سے دوری، تو ہو تو بہت سے لوگ آکیوپیشنل تھراپسٹ سے رجوع کرتے ہیں، تاہم ابھی اس آگہی کو بڑھانے کی اشد ضرورت ہے۔
اس ادارے میں الگ الگ یونٹس ہیں جہاں مریضوں کو ان کے مسائل کے مطابق علاج اور تربیت کی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں جن میں فزیکل، پیڈز (Peads)، روزمرہ کے کام (ADL Areas) اور سینسری ایریا (Sensory Area) شامل ہیں۔ کئی بار شوگر، نیورو پیتھی یا کسی مرض کے نتیجے میں نیوروپیتھی کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے جس میں یا تو ٹھنڈا گرم محسوس ہی نہیں ہوتا، یا پھر بہت زیادہ ہوجاتا ہے؛ کسی چیز کے چبھنے کا احساس نہیں ہوتا۔ ایسی صورت میں ماہر تھراپسٹ سینسری طریقۂ کار سے علاج کرتے ہیں تاکہ مریض کو جس حد تک ممکن ہو، اس کی حسیات بحال کی جاسکیں۔
اب کچھ تذکرہ ہوجائے نفسیاتی مسائل کا اور ان کے حل میں آکیوپیشنل تھراپی کے کردار کا۔
ہمارے پاس صابر نامی ایک صاحب کا کیس آیا۔ یہ ایک 35 سالہ جوان تھا جو دفتری امور بخوبی انجام دیتے دیتے اچانک ہی خود سے باتیں کرنے لگتا، یکایک چلانے لگتا اور اسے کانوں میں آوازیں سنائی دینے لگیں۔ تشخیص سے معلوم ہوا کہ وہ ''شیزوفرینیا'' نامی دماغی بیماری میں مبتلا تھا۔ اس بیماری کے باعث وہ روزمرہ زندگی میں بات بات پر شک اور بدگمانی کرنے لگا اور نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ وہ عملی زندگی سے بالکل دور ہوگیا جبکہ اس کے اہلِ خانہ بھی اس کے پاس جاتے ہوئے کترانے لگے۔ دوسری طرف وہ لوگوں کو یہ بتاتے ہوئے بھی ڈرتے تھے کہ صابر نفسیاتی بیماری کا شکار ہے۔
اب آپ خود ہی سوچیے کہ اگر کسی شخص کی بیماری اس طرح خفیہ رکھی جائے تو اس کا علاج کیسے ممکن ہے؟ صابر صاحب کی حالت دیکھ کر بہ آسانی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کا علاج شروع کرنے سے پہلے ان کے اہلِ خانہ کو اس بات پر قائل کرنا ضروری رہا ہوگا۔ انہیں یہ سمجھانا ضروری تھا کہ صابر صاحب ایک دماغی تکلیف میں مبتلا ہیں جو علاج سے بہتر ہوسکتی ہے؛ اور انہیں علاج سے بھی زیادہ آپ کے تعاون اور بہتر رویّے کی ضرورت ہے۔
یہ تمام کام ایک آکیوپیشنل تھراپسٹ اپنی صلاحیت، مختلف طریقہ ہائے کار اور (فارغ رہنے کی عادت سے نقصان اُٹھانے والے) مریضوں میں کسی ہنر کا شوق پیدا کرکے اور ووکیشنل ٹریننگ کے مواقع فراہم کرکے کرسکتے ہیں۔ تاہم یہ کوئی آسان کام نہیں بلکہ اس میں بڑی محنت درکار ہوتی ہے اور خاصا وقت لگ جاتا ہے۔
مرض چاہے جسمانی ہو، ذہنی/ نفسیاتی ہو یا روزمرہ کی دقت، اس کے اسباب کی درست تشخیص اور علاج پر توجہ بہت ضروری ہیں۔ اسی پر بس نہیں بلکہ عام لوگوں کے علاوہ ڈاکٹروں اور علاج معالجے سے وابستہ دیگر افراد کو بھی اس بارے میں آگہی ہونی چاہیے کہ اگر کسی مریض کو ہاتھ اُٹھا کر منہ تک لے جانے میں پریشانی ہو، یا اس میں سوچنے کی صلاحیت نارمل نہ ہو تو اسے کس طرح سنبھالنا چاہیے اور اس سے کس طرح علاج کےلیے آمادہ کیا جائے۔
طریقہ علاج کچھ بھی ہوسکتا ہے: ورزش، بامقصد سرگرمیاں، خاص ٹریننگ اور ایجوکیشن یا فیملی کاؤنسلنگ (counseling)؛ البتہ اس سب کا کلیدی مقصد مریض کو جسمانی، سماجی، نفسیاتی اور روزمرہ کے امور میں اعتماد دیتے ہوئے خودمختار بنانا ہے۔ اس کےلیے مریضوں کو علیحدہ سیشن یا گروپ میں بھی سہولت فراہم کی جاتی ہے۔ کھیل اور دوسری روزمرہ کی سرگرمیوں کو پیش نظر ضروریات کے مطابق تبدیل کرکے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
ایسا ہی ایک واقعہ 32 سالہ انیل صاحب کا ہے۔ وہ بیڈمنٹن کھیلنے کے شوقین تھے لیکن اچانک ہی ان کے ہاتھوں میں رعشہ رہنے لگا اور ہاتھ سے ریکٹ بار بار گرنے لگا جس کی وجہ سے دوست احباب انہیں اپنے ساتھ کھلانے سے گریز کرنے لگے۔ مگر آج وہ ایک سال بعد اپنا شوق اُسی طرح پورا کررہے ہیں کیونکہ ان کی ضرورت رعشہ کو روکنا تھی، جس کےلیے ان کے ریکٹ کو تھوڑی ترمیم کے بعد قدرے بھاری بنادیا گیا۔ ساتھ ہی ساتھ گرپر (gripper) بھی کردیا گیا جس سے ان کے ہاتھ میں رعشے کے جھٹکے (Tremors) رک جاتے ہیں اور وہ آرام سے کھیل سکتے ہیں۔
یہ تو کامیابی کی صرف ایک مثال ہے ورنہ اس طریقۂ علاج کی اہمیت ثابت کرنے کےلیے ایسے سینکڑوں واقعات ریکارڈ پر ہیں جو مجبوری سے شروع ہوئے لیکن آکیوپیشنل تھراپسٹ کی مسلسل کوششوں سے آخرکار خودمختاری اور کامیابی پر اختتام پذیر ہوئے۔ یہ واقعات ہمیں بھی نیا حوصلہ دیتے ہیں۔
لیکن ہمارا سفر یہاں ختم نہیں ہوا۔ ابھی مزید آگہی کی اشد ضرورت ہے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی بتاتے چلیں کہ دنیا بھر میں آکیوپیشنل تھراپی کا دن یعنی ''ورلڈ آکیوپیشنل تھراپی ڈے'' ہر سال 27 اکتوبر کو منایا جاتا ہے جس میں سیمینار، آگہی نشستیں، پروگرام اور کیمپ لگائے جاتے ہیں تاکہ لوگوں کو زیادہ معلومات فراہم کرکے انہیں بھی معین صاحب، صابر صاحب یا انیل صاحب کی طرح کامیابی کی جانب سفر شروع کرنے کی ترغیب دی جاسکے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔