بلوچستان مرکزی دھارے سے دور کیوں
سی پیک نہ صرف بلوچستان بلکہ پاکستان کی تقدیر بدلنے کی بھی قوت رکھتا ہے اور بھارت، جسے یہ بات ہضم نہیں ہورہی۔
22 اکتوبر 2017ء کی شا م جب میں بلوچستان اسمبلی کی اسپیکر، راحیلہ درانی کے عشائیہ میں شرکت کے لیے سی پی این ای کے وفد کے ساتھ کوئٹہ کلب میں داخل ہورہا تھا،میرے بیٹے ضرار نے نیویارک سے واٹس ایپ پر ہیلوئن کاسٹیوم پہنے میرے تین پوتوں کی تصویر ارسال کی۔
یہ عجیب اتفاق ہے کہ اب سے ٹھیک65 برس قبل 1952ء کے اوائل میں میری مرحومہ بہن شہناز (جس کی عمر اس وقت تین برس تھی) اور میں کوئٹہ کلب میں "Fancy Dress Party" میں شریک ہوئے تھے۔کلب کے راستے میں موجود متعدد سیکیورٹی چیک پوسٹس، جو کسی قلعے کا تاثر دیتی تھیں، اُس منظر سے یکسر متصادم تھیں، جب مسز محمود جان، مسز ایرانی، مسز لیسلے، میری والدہ اور دیگر خواتین (جن کے شوہر کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج سے منسلک تھے) ٹینس اور اسکوائش کھیلنے بائی سائیکل پر کوئٹہ کلب آیا جایا کرتی تھیں۔
مجھے1967ء میں اپنے "Weapons and Tactics Course" کے دوران کمانڈنٹ انفینٹری اسکول، بریگیڈیئر محمود جان اور کمانڈر کوئٹہ لوگ ایریا، بریگیڈیئر ایس جی بی ایرانی کے اتوار کے ظہرانوں میں شرکت کا موقع ملا۔ یادیں، جن کا محور کراچی میں پلی بڑھی میری بیوی شہناز ہے، مجھے 1973ء میں "Seven Streams" کے نزدیک قلی کیمپ اور مردار پہرکے مدمقابل واقع ہٹ 7/4 میں لے جاتی ہیں، جہاں نل میں پانی نہیں آتا تھا۔
میرے کمانڈنگ آفیسر، جو بعد میں بریگیڈئیر بنے، لیفٹینٹ کرنل تاج، ستارہ جرات اینڈ بار نے ایک فیصلہ کیا تھا۔ میں اور میجر شمشاد، دونوں ہی کی چند ماہ پہلے شادی ہوئی تھی، 44 پنجاب کے (جو اب 4 سندھ کہلاتی ہے) گورنر نواب اکبر بگٹی کی وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو سے خصوصی درخواست پر مری قبیلے کے خلاف شروع کردہ آپریشن سے قبل ان کا فیصلہ تھا کہ ہم ہنی مون کے حق دار ہیں۔
نصابی کتب میں درج "advance and encounter battle" کی تعریف کے مطابق ہم نے دنیا کے گرم ترین علاقوں میں سے ایک یعنی سبی سے، سال کے گرم ترین دن، حکم کے مطابق ہیلمٹ پہنے یہ دشوار سفر شروع کیا۔ وہ بھی کیا زمانہ تھا صاحب!
خیر، صوبائی اسمبلی کی اسپیکر راحیلہ درانی کا عشائیہ ایک خوشگوار تجربہ تھا۔ بلوچ معاشرے میں ایک خاتون کا اعلیٰ عہدے پر فائز ہونا انوکھااور قابل تقلید واقعہ ہے۔ اس موقع پر درانی صاحبہ نے خاندان کی مرضی کے خلاف ایک اردو روزنامے سے بہ طور جونیئر رپورٹر کیریر کے آغاز، لا کی پریکٹس کو اپنی گزر اوقات کا ذریعہ بنانا اور آخر میں سیاست میں آنے کا قصہ بیان کیا۔ ایک نابغۂ روزگار بلوچ خاتون سے متعلق، جو کراٹے میں بلیک بیلٹ بھی ہیں، سی پی این ای کے ارکان کا تاثر خاصا مثبت تھا۔ یہ حیرت انگیز امر ہے کہ عالمی دنیا میں پاکستان کی مثبت امیج کی تشکیل میں اُن کی صلاحیتوں سے زیادہ استفادہ نہیں کیا گیا۔
ہنہ جھیل کا سفر، جسے بدقسمتی سے ہم نہیں دیکھ سکے، ماضی کی کتنی ہی حسین یادیں تازہ کر گیا۔ 1955ء میں جب ہمارے والد کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج کی فیکلٹی کا حصہ تھے، منہاج علی خان (بریگیڈئیر ظفر علی خان، ایچ جے کے صاحبزادے)، شاہد امجد اور ارشد امجد (بریگیڈیئر امجد چوہدری، ایچ جے کے صاحبزادے) ڈیرک مفتی (اسٹاف کالج کی لائبریرین مسز مفتی کے صاحبزادے) اور میں اکثر پیدل یہ سفر طے کیا کرتے تھے۔ چیف منسٹر ریسٹ ہاؤس میں CPNE کے وفدکے لیے ظہرانے کا اہتمام کیا گیا، جس کے میزبان وزیر اعلیٰ بلوچستان، نواب ثنا اللہ زہری خاصے متحرک دکھائی دیے۔ وہ قبائلی پس منظر رکھنے والے سیاستداں ہیں۔ ان کے نیک ارادوں پر شک نہیں، مگر کیا یہ ارادے نتیجہ خیزثابت ہوں گے؟
ہوٹل میںہمارے لیے چائے رکھی گئی۔ ہمارے میزبان وزیر اعلیٰ بلوچستان کے ترجمان انوار الحق کاکڑ تھے۔ اس اجلاس کا مقصد حکومت کی کارکردگی سے آگاہی فراہم کرنا تھا۔ انھوں نے سیکیورٹی صورتحال میں بہتری کو مضبوط سول ملٹری روابط سے منسوب کیا جسکے پیچھے پختہ سیاسی عزم کارفرما تھا۔ معدنی ذخائر سے مالامال اپنے صوبے کا تذکرہ کرتے ہوئے اُنھوں نے رکودک پراجیکٹ کی ممکنہ تجدید کا بھی ذکر کیا۔ ساتھ ہی قومی اسمبلی میںبلوچستان کی نمائندگی میں رقبے اور آبادی کے تناسب سے، سوچ بچار کے بعد طے کردہ فارمولے کے تحت اضافے کی متوازن تجویز پیش کی چونکہ مردم شماری ہو چکی ہے، یہ عمل حدود کے تعین میں ترجیح بن سکتا ہے۔
جہاں تک ناراض خودساختہ جلاوطن عناصر کا تعلق ہے، اگر وہ مذاکرات کرکے واپس آنا چاہتے ہیں، تو خوش آمدید مگر ان کی جانب سے پاکستان اور اس کے آئین کو تسلیم کرنے کے معاملے میں کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ ڈاکٹر عبدالمالک اور حاصل بزنجو سے بھی سی پی این ای کے مندوبین کی ملاقات ہوئی جس میں بہت کچھ سمجھنے کا موقع ملا۔ ادھر وزیر داخلہ سرفراز بگٹی بھی انوار الحق کاکڑ کے مانند عسکریت پسندوں کے معاملے میں کسی سمجھوتے کے قائل نہیں۔ ان کا مؤقف ہے کہ سیکیورٹی کی صورتحال اب بڑی حد تک قابو میں ہے۔ انھوں نے عسکریت پسندوں کی جانب سے ہاکرز کو اخبارات کی ترسیل روکنے کی دھمکی کو مسترد کر دیا۔گورنر بلوچستان محمد خان اچکزئی ایک نفیس، جہاں دیدہ اورعمدہ میزبان ہیں۔
بلوچستان دہائیوں سے Hybrid Warfare کا نشانہ رہا ہے۔ گو کردار، مقاصد اور دشمنوں کی نوعیت وقت کے ساتھ بدلتی رہی ہے مگر ہندوستان کی عداوت مستقل ہے اور کلبھوشن یادوکیس گزشتہ تین چاربرس میں پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تناظر میں ہندوستان کی اضافی جارحیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔سی پیک نہ صرف بلوچستان بلکہ پاکستان کی تقدیر بدلنے کی بھی قوت رکھتا ہے اور بھارت، جسے یہ بات ہضم نہیں ہورہی۔ حالیہ جنگ میں اطلاعات کی فراہمی روکنے کے لیے تازہ اقدام ہاکرز کو اخبارات کی ترسیل سے باز رکھنے کی کوششیں ہیں۔
صوبے بھر میں اخبارات کی ترسیل روکنے کی ''را''کی معاونت سے رچی اِس سازش کا ہر صورت سدباب ضروری ہے۔ ہاکر برادری اپنے اور اپنے اہل خانہ کے تحفظ سے متعلق فکرمند ہے مگر عسکریت پسندوں کے مطالبات تسلیم کرنا بھی کسی صورت قابل قبول نہیں۔ گو بحالی امن کی تمام علامتیں موجود ہیںمگر ماضی ہی کی طرح سیکیورٹی کے سخت اقدامات کے باعث Déjà vu کا احساس ہوتا ہے۔بڑے پیمانے پر ہونے والے سیاسی اور اقتصادی اقدامات، جن میں زراعت کے فروغ کے لیے درجنوں چھوٹے ڈیموں کی تعمیر بھی شامل ہے، بلوچستان کی مرکزی دھارے میں واپسی کے لیے از حد ضروری ہیں۔
(فاضل مصنف سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)
یہ عجیب اتفاق ہے کہ اب سے ٹھیک65 برس قبل 1952ء کے اوائل میں میری مرحومہ بہن شہناز (جس کی عمر اس وقت تین برس تھی) اور میں کوئٹہ کلب میں "Fancy Dress Party" میں شریک ہوئے تھے۔کلب کے راستے میں موجود متعدد سیکیورٹی چیک پوسٹس، جو کسی قلعے کا تاثر دیتی تھیں، اُس منظر سے یکسر متصادم تھیں، جب مسز محمود جان، مسز ایرانی، مسز لیسلے، میری والدہ اور دیگر خواتین (جن کے شوہر کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج سے منسلک تھے) ٹینس اور اسکوائش کھیلنے بائی سائیکل پر کوئٹہ کلب آیا جایا کرتی تھیں۔
مجھے1967ء میں اپنے "Weapons and Tactics Course" کے دوران کمانڈنٹ انفینٹری اسکول، بریگیڈیئر محمود جان اور کمانڈر کوئٹہ لوگ ایریا، بریگیڈیئر ایس جی بی ایرانی کے اتوار کے ظہرانوں میں شرکت کا موقع ملا۔ یادیں، جن کا محور کراچی میں پلی بڑھی میری بیوی شہناز ہے، مجھے 1973ء میں "Seven Streams" کے نزدیک قلی کیمپ اور مردار پہرکے مدمقابل واقع ہٹ 7/4 میں لے جاتی ہیں، جہاں نل میں پانی نہیں آتا تھا۔
میرے کمانڈنگ آفیسر، جو بعد میں بریگیڈئیر بنے، لیفٹینٹ کرنل تاج، ستارہ جرات اینڈ بار نے ایک فیصلہ کیا تھا۔ میں اور میجر شمشاد، دونوں ہی کی چند ماہ پہلے شادی ہوئی تھی، 44 پنجاب کے (جو اب 4 سندھ کہلاتی ہے) گورنر نواب اکبر بگٹی کی وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو سے خصوصی درخواست پر مری قبیلے کے خلاف شروع کردہ آپریشن سے قبل ان کا فیصلہ تھا کہ ہم ہنی مون کے حق دار ہیں۔
نصابی کتب میں درج "advance and encounter battle" کی تعریف کے مطابق ہم نے دنیا کے گرم ترین علاقوں میں سے ایک یعنی سبی سے، سال کے گرم ترین دن، حکم کے مطابق ہیلمٹ پہنے یہ دشوار سفر شروع کیا۔ وہ بھی کیا زمانہ تھا صاحب!
خیر، صوبائی اسمبلی کی اسپیکر راحیلہ درانی کا عشائیہ ایک خوشگوار تجربہ تھا۔ بلوچ معاشرے میں ایک خاتون کا اعلیٰ عہدے پر فائز ہونا انوکھااور قابل تقلید واقعہ ہے۔ اس موقع پر درانی صاحبہ نے خاندان کی مرضی کے خلاف ایک اردو روزنامے سے بہ طور جونیئر رپورٹر کیریر کے آغاز، لا کی پریکٹس کو اپنی گزر اوقات کا ذریعہ بنانا اور آخر میں سیاست میں آنے کا قصہ بیان کیا۔ ایک نابغۂ روزگار بلوچ خاتون سے متعلق، جو کراٹے میں بلیک بیلٹ بھی ہیں، سی پی این ای کے ارکان کا تاثر خاصا مثبت تھا۔ یہ حیرت انگیز امر ہے کہ عالمی دنیا میں پاکستان کی مثبت امیج کی تشکیل میں اُن کی صلاحیتوں سے زیادہ استفادہ نہیں کیا گیا۔
ہنہ جھیل کا سفر، جسے بدقسمتی سے ہم نہیں دیکھ سکے، ماضی کی کتنی ہی حسین یادیں تازہ کر گیا۔ 1955ء میں جب ہمارے والد کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج کی فیکلٹی کا حصہ تھے، منہاج علی خان (بریگیڈئیر ظفر علی خان، ایچ جے کے صاحبزادے)، شاہد امجد اور ارشد امجد (بریگیڈیئر امجد چوہدری، ایچ جے کے صاحبزادے) ڈیرک مفتی (اسٹاف کالج کی لائبریرین مسز مفتی کے صاحبزادے) اور میں اکثر پیدل یہ سفر طے کیا کرتے تھے۔ چیف منسٹر ریسٹ ہاؤس میں CPNE کے وفدکے لیے ظہرانے کا اہتمام کیا گیا، جس کے میزبان وزیر اعلیٰ بلوچستان، نواب ثنا اللہ زہری خاصے متحرک دکھائی دیے۔ وہ قبائلی پس منظر رکھنے والے سیاستداں ہیں۔ ان کے نیک ارادوں پر شک نہیں، مگر کیا یہ ارادے نتیجہ خیزثابت ہوں گے؟
ہوٹل میںہمارے لیے چائے رکھی گئی۔ ہمارے میزبان وزیر اعلیٰ بلوچستان کے ترجمان انوار الحق کاکڑ تھے۔ اس اجلاس کا مقصد حکومت کی کارکردگی سے آگاہی فراہم کرنا تھا۔ انھوں نے سیکیورٹی صورتحال میں بہتری کو مضبوط سول ملٹری روابط سے منسوب کیا جسکے پیچھے پختہ سیاسی عزم کارفرما تھا۔ معدنی ذخائر سے مالامال اپنے صوبے کا تذکرہ کرتے ہوئے اُنھوں نے رکودک پراجیکٹ کی ممکنہ تجدید کا بھی ذکر کیا۔ ساتھ ہی قومی اسمبلی میںبلوچستان کی نمائندگی میں رقبے اور آبادی کے تناسب سے، سوچ بچار کے بعد طے کردہ فارمولے کے تحت اضافے کی متوازن تجویز پیش کی چونکہ مردم شماری ہو چکی ہے، یہ عمل حدود کے تعین میں ترجیح بن سکتا ہے۔
جہاں تک ناراض خودساختہ جلاوطن عناصر کا تعلق ہے، اگر وہ مذاکرات کرکے واپس آنا چاہتے ہیں، تو خوش آمدید مگر ان کی جانب سے پاکستان اور اس کے آئین کو تسلیم کرنے کے معاملے میں کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ ڈاکٹر عبدالمالک اور حاصل بزنجو سے بھی سی پی این ای کے مندوبین کی ملاقات ہوئی جس میں بہت کچھ سمجھنے کا موقع ملا۔ ادھر وزیر داخلہ سرفراز بگٹی بھی انوار الحق کاکڑ کے مانند عسکریت پسندوں کے معاملے میں کسی سمجھوتے کے قائل نہیں۔ ان کا مؤقف ہے کہ سیکیورٹی کی صورتحال اب بڑی حد تک قابو میں ہے۔ انھوں نے عسکریت پسندوں کی جانب سے ہاکرز کو اخبارات کی ترسیل روکنے کی دھمکی کو مسترد کر دیا۔گورنر بلوچستان محمد خان اچکزئی ایک نفیس، جہاں دیدہ اورعمدہ میزبان ہیں۔
بلوچستان دہائیوں سے Hybrid Warfare کا نشانہ رہا ہے۔ گو کردار، مقاصد اور دشمنوں کی نوعیت وقت کے ساتھ بدلتی رہی ہے مگر ہندوستان کی عداوت مستقل ہے اور کلبھوشن یادوکیس گزشتہ تین چاربرس میں پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تناظر میں ہندوستان کی اضافی جارحیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔سی پیک نہ صرف بلوچستان بلکہ پاکستان کی تقدیر بدلنے کی بھی قوت رکھتا ہے اور بھارت، جسے یہ بات ہضم نہیں ہورہی۔ حالیہ جنگ میں اطلاعات کی فراہمی روکنے کے لیے تازہ اقدام ہاکرز کو اخبارات کی ترسیل سے باز رکھنے کی کوششیں ہیں۔
صوبے بھر میں اخبارات کی ترسیل روکنے کی ''را''کی معاونت سے رچی اِس سازش کا ہر صورت سدباب ضروری ہے۔ ہاکر برادری اپنے اور اپنے اہل خانہ کے تحفظ سے متعلق فکرمند ہے مگر عسکریت پسندوں کے مطالبات تسلیم کرنا بھی کسی صورت قابل قبول نہیں۔ گو بحالی امن کی تمام علامتیں موجود ہیںمگر ماضی ہی کی طرح سیکیورٹی کے سخت اقدامات کے باعث Déjà vu کا احساس ہوتا ہے۔بڑے پیمانے پر ہونے والے سیاسی اور اقتصادی اقدامات، جن میں زراعت کے فروغ کے لیے درجنوں چھوٹے ڈیموں کی تعمیر بھی شامل ہے، بلوچستان کی مرکزی دھارے میں واپسی کے لیے از حد ضروری ہیں۔
(فاضل مصنف سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)