امریکا کا افغانستان
افغانستان کے باسیوں کی سرشت میں یہ بات شامل ہے کہ وہ بیرونی قوتوں کا مقابلہ کرتے رہے ہیں۔
27 دسمبر 1979ء کی رات سابق سوویت یونین (روس) نے افغانستان کی ماسکو نواز سوشلسٹ حکومت کے خلاف پُھوٹ پڑنے والی بغاوت کو کچلنے کے لیے اپنی فوج دارالحکومت کابل میں اُتار دی۔ اس سے دو روز قبل روس کی 40 ویں کور پہلے ہی افغانستان میں زمینی راستے سے داخل ہوچکی تھی۔ امریکا کے مشیر برائے قومی سلا متی زبگینو برزنسکی نے اس موقع پر اپنے صدر جمی کارٹر کو لکھا تھا:
We Now Have The Oppertunity Of Giving To USSR Its Vietnam War.
''یقینا اب ہمارے پاس موقع ہے کہ ہم روس کی جھولی میں ''اُس کی ویت نام جنگ'' ڈال دیں''۔ زبگینو برزنسکی نے اپنے صدر کو جو مشورہ دیا اس پر مکمل عملدرآمد ہوا۔ آج روس کے صدر ولادیمر پیوٹن کو ان کا کوئی ''برزنسکی'' مشورہ دے رہا ہو کہ ''کیوں نہ افغانستان کو امریکا کے لیے جہنم بنا دیا جائے۔''
امریکا کو اس بات کا پورا احساس ہے کہ اس نے پاکستان کی مدد سے افغانستان کو روس کے لیے ''ویت نام'' بنا دیا تھا۔ خطے کے نئے منظر نامے میں روس کو زخمی کرنے والے امریکی نیزے کی اَنی، یعنی پاکستان، اب امریکا کا دست و بازو نہیں اور خطے میںامریکا کا نیا اتحادی بھارت پہلے سے پاکستان کے ساتھ دشمنی کا طویل کھاتہ رکھتا ہے، ایسے میں امریکا کو بالکل نئے سرے سے اپنی حکمت عملی ترتیب دینی تھی جو دی جا چکی۔ گزشتہ دنوں امریکی صدر نے جس افغان پالیسی کا اعلان کیا تھا، اس کی ترجیحات اسی نئی حکمتِ عملی کی جانب اشارہ کرتی ہیں۔ میں تو کہوں گا اسے افغان کے بجائے پاکستان پالیسی کہنا زیادہ مناسب ہوگا کیونکہ افغانستان میں تو امریکا کو رہنا ہے، پاکستان کے لیے اس میں زیادہ سنگین خطرات اور اندیشے موجود ہیں۔
سفارتی سطح پر بات کرنے کے لیے جو زبان استعمال کی جاتی ہے اس کے رموز تب آشکار ہوتے ہیں جب ریاستی مشینری عملی اقدامات کرتی ہے۔ نئی امریکی حکمت عملی کے دو اہم ترین پہلو یہ نظر آتے ہیں۔ اول: جنوبی ایشیاء میں امریکی مفادات کی ناگہانی بلا شرکت غیرے، بھارت کے پاس ہوگی اور یہ کام بھارت مفت میں نہیںکرے گا۔ ظاہر ہے امریکا اس کی قیمت بھارتی مفادات کے حصول میں مدد فراہم کرکے چکائے گا۔ دوئم یہ کہ پاک افغان سرحدی علاقوں میں ایک غیر ریاستی قوت طالبان کا خاتمہ کرکے اس کی جگہ دوسری غیر ریاستی قوت داعش کو متعارف کرادیا جائے گا۔ قابل غور بات یہ ہے کہ امریکا یہاں سے غیر ریاستی عناصر کے خاتمے کا ہرگز خواہش مند نہیں۔
یہاں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ آخر امریکا طالبان کی جگہ داعش کو کیوں لانا چاہتا ہے۔ عموماً یہی کہا جاتا ہے کہ طالبان کو امریکا نے کھڑا کیا تھا۔ اس بارے میں مخمصہ دور کرلینا چاہیے۔ طالبان سوویت یونین (روس) کے خلاف مسلح مزاحمت ہی کی توسیع ہیں۔ امریکا انھیں بنانے والا نہیں بلکہ اسے پہلے سے موجود عسکریت پسندوں کی مجبوراً سرپرستی قبول کرنا پڑی، کیونکہ اس کے سوا کوئی اور راستہ نہ تھا۔ جہاں تک داعش کا تعلق ہے تو یہ تنظیم امریکا نے خالصتاً اپنے مفادات کے لیے بنائی ہے۔
سب سے پہلی بات یہ ہے کہ طالبان مقامی جب کہ داعش ایک باہر کی طاقت ہے۔ داعش میں مقامی افراد کی تعداد محض اتنی ہوتی ہے جو ناگزیر ہو۔ غالب اکثریت غیر افغانیوں کی ہوگی۔ جوکسی رو رعایت کے بغیر احکامات کی تعمیل کریں گے۔ افغانستان کے باسیوں کی سرشت میں یہ بات شامل ہے کہ وہ بیرونی قوتوں کا مقابلہ کرتے رہے ہیں۔ داعش کو غلبہ حاصل ہو جائے تو ایسے غیرت کے مظاہرے سے چھٹکارہ مل جائے گا۔افغانستان پر سوویت حملے کے بعد امریکا اور ساری دنیا یک سو ہوکر افغان جہاد کی پشت پر کھڑی ہوگئی تھی جس کے باعث روس کو افغانستان سے نکلنا پڑا۔
اب دہشتگردی کے حوالے سے عالمی امریکی پراپیگنڈہ نے ایسا ماحول بنا رکھا ہے کہ طالبان کو کسی بیرونی مدد کے بغیر قابض امریکی افواج کا مقابلہ کرنا پڑ رہا ہے۔ لیکن داعش کے پاس ٹینکوں، توپوں سمیت وہ سارا بھاری اسلحہ اور گولہ بارود ہوگا جو ایک جدید فوج کے پاس ہوتا ہے۔ افغان طالبان آزادی کی جنگ لڑرہے ہیں۔ امریکا کو ایک ایسی جنگجو قوت کی ضرورت ہے جو ریاست پر یقین نہ رکھتی ہو اور ملک کی آزادی اس کے لیے بے معنی تصور ہو۔
بظاہر داعش کا ایجنڈہ اسلامی خلافت کا قیام ہے۔ اسی مقصد کے نام پر کئی اسلامی ملکوں کو مکمل تباہی سے دوچار کرنیوالی یہ عسکری مشین اب ہمارے خطے میں استعمال کرنے کی تیاریاں مکمل ہیں۔ داعش کا فائدہ یہ ہوگا کہ یہ گوریلا اور روایتی جنگ لڑنے کے قابل ہوگی۔ جب ہم سنتے ہیں کہ داعش کسی علاقے سے غائب ہوگئی ہے تو اس کا مطلب شکست نہیں ہوتا بلکہ یہ کسی ریگولر آرمی کی طرح وہاں نمودار ہوتی ہے جہاں اس کی ضرورت ہو اور پھر اپنے حصے کا کام کرکے پیچھے ہٹ جاتی ہے۔
جب پاک افغان سرحدی معاملات داعش کی سرگرمیوں کے باعث دگرگوں ہوجائیں گے تو پھر پاکستان کے خلاف ایک کیس تیار کیا جائے گا۔ امریکا اقوام عالم کے سامنے ڈرامہ رچا کر دنیا کو دو حصوں میں تقسیم کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو پھر اس محاذ آرائی کے باعث سی پیک سمیت چین کے تمام علاقائی منصوبے خطرے میں پڑجائیں گے۔ اس اندیشے کے باعث افغان طالبان اور پاکستان میں ان کے ہم خیال گروپ غیر معمولی اہمیت اختیار کرجاتے ہیں۔
اب اگر داعش کے مقابل روس طالبان پر ہاتھ رکھ دے تو یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ پاکستان ہی کو اس معاملے میں کلیدی کردار ادا کرنا ہوگا۔ ہمارے لیے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ افغانستان میں امریکی فوج کی موجودگی تین دہائیاں قبل افغانستان میں سرخ فوج کی موجودگی سے کہیں زیادہ خطرناک مسئلہ ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن کے حالیہ دورے کے موقع پر حکومت کا رویہ معقولیت پر مبنی تھا۔ حالات مزید سنجیدگی کے متقاضی ہیں کیونکہ آنے والے دنوں میں ہمیں عظیم چیلنجز درپیش ہوں گے۔
We Now Have The Oppertunity Of Giving To USSR Its Vietnam War.
''یقینا اب ہمارے پاس موقع ہے کہ ہم روس کی جھولی میں ''اُس کی ویت نام جنگ'' ڈال دیں''۔ زبگینو برزنسکی نے اپنے صدر کو جو مشورہ دیا اس پر مکمل عملدرآمد ہوا۔ آج روس کے صدر ولادیمر پیوٹن کو ان کا کوئی ''برزنسکی'' مشورہ دے رہا ہو کہ ''کیوں نہ افغانستان کو امریکا کے لیے جہنم بنا دیا جائے۔''
امریکا کو اس بات کا پورا احساس ہے کہ اس نے پاکستان کی مدد سے افغانستان کو روس کے لیے ''ویت نام'' بنا دیا تھا۔ خطے کے نئے منظر نامے میں روس کو زخمی کرنے والے امریکی نیزے کی اَنی، یعنی پاکستان، اب امریکا کا دست و بازو نہیں اور خطے میںامریکا کا نیا اتحادی بھارت پہلے سے پاکستان کے ساتھ دشمنی کا طویل کھاتہ رکھتا ہے، ایسے میں امریکا کو بالکل نئے سرے سے اپنی حکمت عملی ترتیب دینی تھی جو دی جا چکی۔ گزشتہ دنوں امریکی صدر نے جس افغان پالیسی کا اعلان کیا تھا، اس کی ترجیحات اسی نئی حکمتِ عملی کی جانب اشارہ کرتی ہیں۔ میں تو کہوں گا اسے افغان کے بجائے پاکستان پالیسی کہنا زیادہ مناسب ہوگا کیونکہ افغانستان میں تو امریکا کو رہنا ہے، پاکستان کے لیے اس میں زیادہ سنگین خطرات اور اندیشے موجود ہیں۔
سفارتی سطح پر بات کرنے کے لیے جو زبان استعمال کی جاتی ہے اس کے رموز تب آشکار ہوتے ہیں جب ریاستی مشینری عملی اقدامات کرتی ہے۔ نئی امریکی حکمت عملی کے دو اہم ترین پہلو یہ نظر آتے ہیں۔ اول: جنوبی ایشیاء میں امریکی مفادات کی ناگہانی بلا شرکت غیرے، بھارت کے پاس ہوگی اور یہ کام بھارت مفت میں نہیںکرے گا۔ ظاہر ہے امریکا اس کی قیمت بھارتی مفادات کے حصول میں مدد فراہم کرکے چکائے گا۔ دوئم یہ کہ پاک افغان سرحدی علاقوں میں ایک غیر ریاستی قوت طالبان کا خاتمہ کرکے اس کی جگہ دوسری غیر ریاستی قوت داعش کو متعارف کرادیا جائے گا۔ قابل غور بات یہ ہے کہ امریکا یہاں سے غیر ریاستی عناصر کے خاتمے کا ہرگز خواہش مند نہیں۔
یہاں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ آخر امریکا طالبان کی جگہ داعش کو کیوں لانا چاہتا ہے۔ عموماً یہی کہا جاتا ہے کہ طالبان کو امریکا نے کھڑا کیا تھا۔ اس بارے میں مخمصہ دور کرلینا چاہیے۔ طالبان سوویت یونین (روس) کے خلاف مسلح مزاحمت ہی کی توسیع ہیں۔ امریکا انھیں بنانے والا نہیں بلکہ اسے پہلے سے موجود عسکریت پسندوں کی مجبوراً سرپرستی قبول کرنا پڑی، کیونکہ اس کے سوا کوئی اور راستہ نہ تھا۔ جہاں تک داعش کا تعلق ہے تو یہ تنظیم امریکا نے خالصتاً اپنے مفادات کے لیے بنائی ہے۔
سب سے پہلی بات یہ ہے کہ طالبان مقامی جب کہ داعش ایک باہر کی طاقت ہے۔ داعش میں مقامی افراد کی تعداد محض اتنی ہوتی ہے جو ناگزیر ہو۔ غالب اکثریت غیر افغانیوں کی ہوگی۔ جوکسی رو رعایت کے بغیر احکامات کی تعمیل کریں گے۔ افغانستان کے باسیوں کی سرشت میں یہ بات شامل ہے کہ وہ بیرونی قوتوں کا مقابلہ کرتے رہے ہیں۔ داعش کو غلبہ حاصل ہو جائے تو ایسے غیرت کے مظاہرے سے چھٹکارہ مل جائے گا۔افغانستان پر سوویت حملے کے بعد امریکا اور ساری دنیا یک سو ہوکر افغان جہاد کی پشت پر کھڑی ہوگئی تھی جس کے باعث روس کو افغانستان سے نکلنا پڑا۔
اب دہشتگردی کے حوالے سے عالمی امریکی پراپیگنڈہ نے ایسا ماحول بنا رکھا ہے کہ طالبان کو کسی بیرونی مدد کے بغیر قابض امریکی افواج کا مقابلہ کرنا پڑ رہا ہے۔ لیکن داعش کے پاس ٹینکوں، توپوں سمیت وہ سارا بھاری اسلحہ اور گولہ بارود ہوگا جو ایک جدید فوج کے پاس ہوتا ہے۔ افغان طالبان آزادی کی جنگ لڑرہے ہیں۔ امریکا کو ایک ایسی جنگجو قوت کی ضرورت ہے جو ریاست پر یقین نہ رکھتی ہو اور ملک کی آزادی اس کے لیے بے معنی تصور ہو۔
بظاہر داعش کا ایجنڈہ اسلامی خلافت کا قیام ہے۔ اسی مقصد کے نام پر کئی اسلامی ملکوں کو مکمل تباہی سے دوچار کرنیوالی یہ عسکری مشین اب ہمارے خطے میں استعمال کرنے کی تیاریاں مکمل ہیں۔ داعش کا فائدہ یہ ہوگا کہ یہ گوریلا اور روایتی جنگ لڑنے کے قابل ہوگی۔ جب ہم سنتے ہیں کہ داعش کسی علاقے سے غائب ہوگئی ہے تو اس کا مطلب شکست نہیں ہوتا بلکہ یہ کسی ریگولر آرمی کی طرح وہاں نمودار ہوتی ہے جہاں اس کی ضرورت ہو اور پھر اپنے حصے کا کام کرکے پیچھے ہٹ جاتی ہے۔
جب پاک افغان سرحدی معاملات داعش کی سرگرمیوں کے باعث دگرگوں ہوجائیں گے تو پھر پاکستان کے خلاف ایک کیس تیار کیا جائے گا۔ امریکا اقوام عالم کے سامنے ڈرامہ رچا کر دنیا کو دو حصوں میں تقسیم کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو پھر اس محاذ آرائی کے باعث سی پیک سمیت چین کے تمام علاقائی منصوبے خطرے میں پڑجائیں گے۔ اس اندیشے کے باعث افغان طالبان اور پاکستان میں ان کے ہم خیال گروپ غیر معمولی اہمیت اختیار کرجاتے ہیں۔
اب اگر داعش کے مقابل روس طالبان پر ہاتھ رکھ دے تو یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ پاکستان ہی کو اس معاملے میں کلیدی کردار ادا کرنا ہوگا۔ ہمارے لیے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ افغانستان میں امریکی فوج کی موجودگی تین دہائیاں قبل افغانستان میں سرخ فوج کی موجودگی سے کہیں زیادہ خطرناک مسئلہ ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن کے حالیہ دورے کے موقع پر حکومت کا رویہ معقولیت پر مبنی تھا۔ حالات مزید سنجیدگی کے متقاضی ہیں کیونکہ آنے والے دنوں میں ہمیں عظیم چیلنجز درپیش ہوں گے۔