بھارتی میڈیا اور انتہا پسند لابی…امن کی مخالف

بھارت میں انتہا پسند ہندو تنظیمیں انتہائی بااثر ہیں جو امن کی خواہش رکھنے والے طبقے کی پیش نہیں چلنے دیتیں۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان امن عمل کا پٹڑی سے اترنا انتہائی خطرناک ثابت ہو گا۔ فوٹو: فائل

ISLAMABAD:
پاکستان اور بھارت اپنے قیام کے اول دن ہی سے ایک دوسرے کے حریف چلے آ رہے ہیں۔ کشمیر کے خطے کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دینے کی کوشش سے جنم لینے والے تنازعے نے دونوں ممالک کو کئی بار جنگ کے میدان میں دھکیل دیا۔ چھیاسٹھ سال سے موجود یہ تنازعہ حل کے لیے متعدد بار حکومتی سطح پر ہونے والے مذاکرات کے باوجود ابھی تک جوں کا توں چلا آ رہا ہے۔

آج بھی یہ خطہ اپنی حساسیت کو برقرار رکھے ہوئے ہے کہ کسی بھی جانب سے بندوق سے نکلنے والی گولی کی تڑتڑاہٹ سے عسکری ہاتھ خوفناک ہتھیاروں کی جانب بڑھنے لگتے ہیں اور پورے خطے پر جنگ کا خوف چھا جاتا ہے۔ اس دوران نوبت یہاں تک آ پہنچتی ہے کہ حکومتی اعلیٰ عہدیدار بھی معاملے کو سنجیدگی اور متانت سے حل کرنے کے بجائے دھمکی آمیز رویہ پر اتر آتے اور ان کی زبانوں سے حریف کو سبق سکھانے کے بیاناتی شعلے اگلنے لگتے ہیں۔ گزشتہ دنوں کنٹرول لائن پر ہونے والے واقعے جس میں دو پاکستانی فوجی شہید ہو گئے تھے' نے سرحدوں پر حالات کو ایک بار پھر کشیدہ کر دیا تھا۔ بھارتی حکام نے روایتی چالبازی کا سہارا لیتے ہوئے پاکستان پر بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کا الزام لگا کر ماحول میں جنگی جنون پیدا کر دیا تھا۔

بھارتی وزیر دفاع اور دیگر حکام دھمکیوں پر اتر آئے۔ اس موقع پر پاکستانی حکومت نے دانشمندی اور صبروتحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے واقعے کی اقوام متحدہ سے تحقیقات کا مطالبہ کر کے بھارت کی جانب سے پیدا کردہ جنگی ماحول کی گرمی کو سرد کرنے کی کامیاب سعی کی۔ نفرت کی آگ بھڑکانے میں بھارتی میڈیا ہراول دستے کا کردار ادا کر رہا ہے۔ جب بھی پاک بھارت امن عمل کا سلسلہ شروع ہوتا ہے تو بھارتی میڈیا اور حکومتی اعلیٰ عہدوں پر فائز مخصوص گروپ اس امن عمل کو سبوتاژ کرنے کے لیے سرگرم ہوجاتا ہے۔ بھارتی حکومت میں شریک دانشور طبقہ اس مخصوص لابی کی سازشوں سے بخوبی آگاہ ہے۔ جس کی عکاسی بھارتی وزیر خارجہ سلمان خورشید کے اس برملا اعتراف سے ہو جاتی ہے جس میں انھوں نے بھارتی میڈیا کو احتیاط کا مظاہرہ کرنے کا کہا ہے۔


کنٹرول لائن پر دو انڈین فوجیوں کو ہلاک کرنے کے بھارتی الزامات کے تناظر میں ایک بھارتی جریدے کو انٹرویو دیتے ہوئے سلمان خورشید نے بھارتی میڈیا کو ذمے داری کا مظاہرہ کرنے کا کہا۔ پاکستان اور بھارت دونوں ایٹمی اور دیگر خوفناک ہتھیاروں سے لیس ہیں' ذرا سی غلطی اور دوسرے کو نیچا دکھانے کا جنون اس خطے کے عوام کو المناک سانحے سے دو چار کر سکتا ہے۔ کسی ایک کو کمزور سمجھنے یا کرنے کی کوشش طفلانہ حماقت کے سوا کچھ نہیں۔ امریکا جیسی سپر پاور کمزور افغانستان میں طویل عرصے تک بھاری جنگی نقصانات سہنے کے بعد بالآخر طالبان سے مذاکرات کرنے پر مجبور ہو چکی ہے۔ اگر پاک بھارت جنگ چھڑجاتی ہے تو بھاری نقصان اٹھانے کے بعد دونوں کو ایک بار پھر مذاکرات کی میز ہی پر بیٹھنا پڑے گا تو کیوں نا اتنی بڑی تباہی سے قبل ہی مذاکرات کا سلسلہ شروع کر کے کسی ممکنہ تباہی سے بچا جائے۔

بھارتی وزیر خارجہ سلمان خورشید نے پاکستان سے خوشگوار تعلقات کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ انھوں نے پاکستان سے دشمنی کی ہوا کو جنم دینے والے عناصر کو تنبیہہ کرتے ہوئے کہا کہ دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان امن عمل کا پٹڑی سے اترنا انتہائی خطرناک ثابت ہو گا' بھارتی میڈیا ذمے داری کا مظاہرہ کرے۔ انھوں نے واضح کیا کہ آگے بڑھنے کا راستہ صرف مذاکرات ہے۔ پاکستان سے امن کوشش ملکی پالیسی کے خلاف نہیں' اگر جنگ کے بعد پاکستان سے مذاکرات کر سکتے ہیں تو اس وقت بھی پڑوسی ملک سے بات چیت کر سکتے ہیں۔ بھارتی وزیر خارجہ نے میڈیا میں موجود شر پسند لابی کی نشاندہی کردی ہے۔ بھارتی حکام پارلیمنٹ میں اس امر کا اعتراف کر چکے ہیں کہ بھارت کے اندر مسلم کش فسادات کرانے میں انتہا پسند ہندو تنظیمیں ملوث ہیں۔

بدقسمتی سے بھارت کے اندر انتہا پسند ہندو تنظیمیں انتہائی بااثر ہیں جو بھارتی حکومت میں موجود اعتدال پسند اور امن کی خواہش رکھنے والے طبقے کی پیش نہیں چلنے دیتیں۔ بھارت اگر واقعی خطے میں امن اور پاکستان کے ساتھ تنازعات کے حل کے لیے مذاکرات کا خواہاں ہے تو اسے انتہا پسند ہندو لابی پر قابو پانا ہو گا ورنہ وہ امن عمل کے ہر راستے میں کانٹے بوتے رہیں گے اور اس سلسلے میں کسی بھی کوشش کو کبھی کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ گزشتہ دنوں پاک بھارت مذاکرات کے سلسلے میں تجارتی تعلقات بڑھانے پر اتفاق ہوا جس سے پورے خطے میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور یہ امید جنم لینے لگی کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات اسی انداز میں آگے بڑھتے رہے تو جلد ہی ان کے درمیان کشیدگی اور نفرت کی روایتی دیوار گر جائے گی اور پورے خطے میں امن اور خوشحالی کا نیا دور شروع ہو جائے گا۔

مگر یہ امید بر آنے سے قبل ہی شرپسند لابی متحرک ہو گئی اور سب سے حساس نوعیت کے معاملے یعنی سرحدی کشیدگی کو ہوا دے کر ماحول میں پھر سے آگ لگا دی ۔ بھارتی حکمرانوں کو بخوبی ادراک ہے کہ جنگ مسئلے کا حل نہیں بالآخر مذاکرات ہی سے اس خطے کی تقدیر کا فیصلہ کرنا پڑے گا۔ لہٰذا انھیں مذاکراتی عمل کو کامیاب بنانے کے لیے سب سے پہلے بھارتی میڈیا اور انتہا پسند ہندو لابی پر قابو پانے کے لیے لائحہ عمل طے کرنا ہو گا۔انھیں آزادانہ کام کرنے کا موقع ملتا رہا تو وہ امن کی کسی کوشش کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ ان کو ناکام بنانے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ بھارتی حکومت بلا تاخیر پاکستان کے ساتھ مذاکراتی عمل کا آغاز کرے اور کسی بھی ممکنہ ناخوشگوار واقعہ رونما ہونے کی صورت میں مذاکراتی عمل کا سلسلہ منقطع نہ ہونے دے اور اسے نتیجہ خیز بنانے کے لیے پرعزم رہے۔ تو امید ہے کہ اس خطے کے حساس مسائل جنگ کے بغیر مذاکراتی عمل سے حل ہو جائیں گے۔
Load Next Story