مون سون کی طوفانی بارش
بڑے شہروں میں انتظامیہ کی جانب سے ناقص انتظامات کے باعث یہ باران رحمت تب زحمت میں تبدیل ہو گئی
پنجاب' خیبر پختونخوا سمیت ملک کے بیشتر علاقوں میں مون سون کی طوفانی بارش سے آٹھ افرادجاں بحق جب کہ متعدد علاقے زیر آب آ گئے جس سے نظام زندگی مفلوج ہو گیا۔ بدین میں تیز ہوائوں کے باعث سمندر کا پانی ساحلی علاقوں میں داخل ہونے سے سیکڑوں ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ اور کئی کچے مکانات کی چھتیں اڑگئیں۔ پسرور کے نالہ ڈیک میں بھی طغیانی آنے سے دیہات زیر آب آ گئے جس سے سیکڑوں ایکڑ پر کھڑی دھان کی فصل تباہ ہو گئی۔
ہفتے کو ہونے والی یہ مون سون کی پہلی بارش تھی جس سے موسم خوشگوار ہو گیا اور گرمی کا زور ٹوٹ گیا مگر بڑے شہروں میں انتظامیہ کی جانب سے ناقص انتظامات کے باعث یہ باران رحمت تب زحمت میں تبدیل ہو گئی جب سڑکیں' گلیاں محلے اور نشیبی علاقے پانی میں ڈوبنے سے دریا کا منظر پیش کرنے لگے۔ اس سال مون سون میں ہونے والی بارشوں سے جنم لینے والے مسائل سے نمٹنے کے لیے وہ مناسب انتظامات نہیں کیے گئے جو گزشتہ سالوں کے دوران دیکھنے میں آئے۔
اس بار نالوں اور سڑکوں کے کنارے بنے نکاسی کے سسٹم کی بھی مناسب صفائی نہیں کی گئی جس کے باعث بارش کا پانی سڑکوں پر کئی کئی گھنٹے تک کھڑا رہا جس سے ٹریفک کا نظام درہم برہم ہو گیا، شہریوں کی گاڑیاں پانی میں پھنس گئیں۔ نشیبی علاقوں میں تو پانی اب تک کھڑا ہے جس سے شہری شدید پریشانی کا شکار ہیں۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ ملک میں بڑے شہروں میں دریائوں اور گندے نالوں کے کنارے اور نشیبی علا قوں میں انتظامیہ کی ملی بھگت سے بستیاں آباد ہو چکی ہیں۔
جب شدید بارشیں ہوتی ہیں تو ان بستیوں کے متاثر ہونے کے خدشات سب سے زیادہ ہوتے ہیں۔ یہ سب ناقص ٹائون پلاننگ اور کرپٹ انتظامیہ کا شاخسانہ ہے۔ پوری دنیا میں دریائوں اور گندے نالوں کے کناروں پر بستیاں آباد کرنا ممنوع ہے اور اس پر سختی سے عملدرآمد کیا جاتا ہے جس کے باعث کسی بھی ہنگامی صورت میں شہری ہلاکتوں اور تباہی کے امکانات کم ہو جاتے اور معاملات پر قابو پانا آسان ہو جاتا ہے۔ مگر ہمارے ہاں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔
راولپنڈی میں امسال بھی نالہ لئی میں پانی کی سطح بلند ہونے سے شہر میں ایمرجنسی کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ ہرسال برسات میں نالہ لئی شہریوں کے لیے زحمت بن جاتا ہے۔ گزشتہ کئی عشروں سے اس صورتحال پر قابو پانے کے لیے نالہ لئی کے ماسٹر پلان کا اعلان تو کر دیا جاتا ہے مگر بات دعوئوں اور نعروں سے آگے نہیں بڑھ پاتی۔ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کی حالت بھی سب کے سامنے ہے، یہاں بارش میں ٹریفک جام ہونا معمول ہے۔
ادھر سیلاب کے دنوں میں ہونے والی تباہی کے باعث ہر سال بیرون ملک سے اربوں روپے کی امداد آتی ہے مگر قابل افسوس امر یہ ہے کہ سیلاب کا باعث بننے والے عوامل پر قابو پانے اور متاثرین کی حقیقی معنوں میں امداد کے بجائے یہ امداد نہ جانے کہاں چلی جاتی ہے۔ چین اور دیگر ترقی یافتہ ممالک نے بارش اور سیلابی صورتحال سے نمٹنے کے لیے مناسب انتظامات کیے ہیں جس سے سیلابی پانی ان کے لیے زحمت کے بجائے رحمت بن جاتا ہے مگر ہمارے ہاں حکومتیں سیلابی مسائل پر مستقل قابو پانے کے بجائے ڈنگ ٹپائو پالیسی اختیار کرتی ہیں۔
اس وقت بارشوں کے باعث آبی ذخائر کی سطح بلند ہو گئی ہے مگر بدقسمتی سے اس پانی کو ذخیرہ کرنے کے مناسب انتظامات نہ ہونے سے یہ ضایع ہو جاتا ہے اور پھر گندم کی بوائی کے وقت پانی کی کمی کے باعث صوبوں میں اس کی تقسیم کے مناقشے جنم لیتے ہیں۔ اگر مناسب منصوبہ بندی کے ذریعے سیلابی پانی کو ذخیرہ کیا جائے تو یہ پانی ہمارے لیے تباہی کے بجائے ترقی اور خوشحالی کا باعث بن سکتا ہے۔ سائنس و ٹیکنالوجی میں ہونے والی ترقی کے باعث ایک خاص حد تک آنے والے سیلاب پر قابو پانا مشکل امر نہیں رہا۔ ضرورت خلوص نیت اور کرپشن سے پاک پرعزم انتظامیہ کی ہے جس کا بدقسمتی سے ہمارے ہاں شدید بحران ہے۔
ہفتے کو ہونے والی یہ مون سون کی پہلی بارش تھی جس سے موسم خوشگوار ہو گیا اور گرمی کا زور ٹوٹ گیا مگر بڑے شہروں میں انتظامیہ کی جانب سے ناقص انتظامات کے باعث یہ باران رحمت تب زحمت میں تبدیل ہو گئی جب سڑکیں' گلیاں محلے اور نشیبی علاقے پانی میں ڈوبنے سے دریا کا منظر پیش کرنے لگے۔ اس سال مون سون میں ہونے والی بارشوں سے جنم لینے والے مسائل سے نمٹنے کے لیے وہ مناسب انتظامات نہیں کیے گئے جو گزشتہ سالوں کے دوران دیکھنے میں آئے۔
اس بار نالوں اور سڑکوں کے کنارے بنے نکاسی کے سسٹم کی بھی مناسب صفائی نہیں کی گئی جس کے باعث بارش کا پانی سڑکوں پر کئی کئی گھنٹے تک کھڑا رہا جس سے ٹریفک کا نظام درہم برہم ہو گیا، شہریوں کی گاڑیاں پانی میں پھنس گئیں۔ نشیبی علاقوں میں تو پانی اب تک کھڑا ہے جس سے شہری شدید پریشانی کا شکار ہیں۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ ملک میں بڑے شہروں میں دریائوں اور گندے نالوں کے کنارے اور نشیبی علا قوں میں انتظامیہ کی ملی بھگت سے بستیاں آباد ہو چکی ہیں۔
جب شدید بارشیں ہوتی ہیں تو ان بستیوں کے متاثر ہونے کے خدشات سب سے زیادہ ہوتے ہیں۔ یہ سب ناقص ٹائون پلاننگ اور کرپٹ انتظامیہ کا شاخسانہ ہے۔ پوری دنیا میں دریائوں اور گندے نالوں کے کناروں پر بستیاں آباد کرنا ممنوع ہے اور اس پر سختی سے عملدرآمد کیا جاتا ہے جس کے باعث کسی بھی ہنگامی صورت میں شہری ہلاکتوں اور تباہی کے امکانات کم ہو جاتے اور معاملات پر قابو پانا آسان ہو جاتا ہے۔ مگر ہمارے ہاں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔
راولپنڈی میں امسال بھی نالہ لئی میں پانی کی سطح بلند ہونے سے شہر میں ایمرجنسی کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ ہرسال برسات میں نالہ لئی شہریوں کے لیے زحمت بن جاتا ہے۔ گزشتہ کئی عشروں سے اس صورتحال پر قابو پانے کے لیے نالہ لئی کے ماسٹر پلان کا اعلان تو کر دیا جاتا ہے مگر بات دعوئوں اور نعروں سے آگے نہیں بڑھ پاتی۔ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کی حالت بھی سب کے سامنے ہے، یہاں بارش میں ٹریفک جام ہونا معمول ہے۔
ادھر سیلاب کے دنوں میں ہونے والی تباہی کے باعث ہر سال بیرون ملک سے اربوں روپے کی امداد آتی ہے مگر قابل افسوس امر یہ ہے کہ سیلاب کا باعث بننے والے عوامل پر قابو پانے اور متاثرین کی حقیقی معنوں میں امداد کے بجائے یہ امداد نہ جانے کہاں چلی جاتی ہے۔ چین اور دیگر ترقی یافتہ ممالک نے بارش اور سیلابی صورتحال سے نمٹنے کے لیے مناسب انتظامات کیے ہیں جس سے سیلابی پانی ان کے لیے زحمت کے بجائے رحمت بن جاتا ہے مگر ہمارے ہاں حکومتیں سیلابی مسائل پر مستقل قابو پانے کے بجائے ڈنگ ٹپائو پالیسی اختیار کرتی ہیں۔
اس وقت بارشوں کے باعث آبی ذخائر کی سطح بلند ہو گئی ہے مگر بدقسمتی سے اس پانی کو ذخیرہ کرنے کے مناسب انتظامات نہ ہونے سے یہ ضایع ہو جاتا ہے اور پھر گندم کی بوائی کے وقت پانی کی کمی کے باعث صوبوں میں اس کی تقسیم کے مناقشے جنم لیتے ہیں۔ اگر مناسب منصوبہ بندی کے ذریعے سیلابی پانی کو ذخیرہ کیا جائے تو یہ پانی ہمارے لیے تباہی کے بجائے ترقی اور خوشحالی کا باعث بن سکتا ہے۔ سائنس و ٹیکنالوجی میں ہونے والی ترقی کے باعث ایک خاص حد تک آنے والے سیلاب پر قابو پانا مشکل امر نہیں رہا۔ ضرورت خلوص نیت اور کرپشن سے پاک پرعزم انتظامیہ کی ہے جس کا بدقسمتی سے ہمارے ہاں شدید بحران ہے۔