پاک بھارت تعلقات کا نیا دور
صرف پاکستان اوربھارت کی دوستی ہی چشم زدن میںمعجزاتی طورپرایک قلیل مدت میں پاکستان پران قوتوں کا قبضہ ختم کرا سکتی ہے
HYDERABAD:
صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ انتخابات مقررہ وقت پر ہی ہوں گے اورپنجاب سمیت چاروں صوبوں میں پیپلزپارٹی کی حکومت ہوگی۔ آیندہ پنجاب کا وزیراعلیٰ ایک جیالا ہوگا۔ لوڈشیڈنگ سے عوام کی پریشانیوں کا علم ہے، جلد ان کو اس سے نجات دلادیں گے۔ مخالفین نے مجھ سے میرا یوسف رضا گیلانی چھین لیا تو میں نے ایک نیا جوشیلا جیالا دے دیا جس نے شہید بی بی کی زیر قیادت سیاست سیکھی۔ پیپلزپارٹی عالمی حالات کو مدنظر رکھ کر پالیسیاں بناتی ہے۔
عوام ہی روشن مستقبل کا فیصلہ کریں گے۔ شریف برادران کان کھول کر سن لیں، اگر یوسف رضا گیلانی چاہتے تو پنجاب میں (ن) لیگ کی حکومت نہ بن سکتی۔ صدر زرداری کے دورے کے دوران کارکنوں نے شاندار استقبال کیا، فضا جئے بھٹو ،جئے بے نظیر کی نعروں سے گونجتی رہی۔ کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے صدر کا کہنا تھا کہ مخالفین بوکھلا گئے ہیں۔ ''عالمی سیاست بدل رہی ہے جس کو مدنظر رکھ کر نئے پلان بنائیں گے۔'' ہماری سیاسی جنگ جاری رہے گی۔
انتخابات میں کسی صورت دھاندلی نہیں ہونے دیں گے۔ صدر نے کہا کہ میں بھٹو شہید کا روحانی بیٹا ہوں۔ ہمیشہ جیل کی چابیاں جیب میں ہوتی ہیں لیکن دوسروں کی طرح جیالوں کو چھوڑ کر نہیں بھاگا۔ جیل کی گرمی دیکھی ہے اس کے سامنے سیاست کی گرمی کی کوئی حیثیت نہیں۔ انھوں نے کہا کہ نئے سیاست دان ٹی وی کی سیاست کررہے ہیں۔ اس طرح کوئی بھٹو نہیں بن سکتا۔ شہید بی بی کو بھی وطن واپسی سے منع کیا تھا لیکن وہ عوام کی لیڈر تھیں اور عوام کے درمیان انھوں نے اپنی جان دیدی۔
آج بھٹو کے مخالفین کا نام لینے والا کوئی نہیں۔ پوری دنیا بھٹو کو سلام کرتی ہے۔ ہم مفاہمت کی سیاست چاہتے ہیں۔ جانتا ہوں کہ میری جان خطرے میں ہے لیکن کبھی عوام کو چھوڑ کر نہیں جائوں گا۔ پنجاب میں حکومت بنانے کے بعد خود صوبے میں بیٹھوں گا۔ انھوں نے اﷲ سے دعا کی کہ خدایا ایمان دے اور قبر تک دے۔ ان کا کہنا تھا کہ بدترین عالمی معیشت کے باوجود پاکستان میں معاشی پلان دیا۔ خواتین کو اس لیے بااختیار بنایا کیونکہ جانتے ہیں کہ کل ان کو مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنا ہے۔ صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات ''اسٹرٹیجک شراکت داری'' میں تبدیل ہورے ہیں۔
مندرجہ بالا تقریر میں صدر زرداری کا غیر معمولی اعتماد حیران کن ہے۔ رکاوٹوں کے پہاڑ ہیں جن سے پیپلزپارٹی کو پہلے دن سے سامنا ہے۔ ایک طرف اپوزیشن ہے دوسری طرف مقدمات ہیں تو تیسری طرف نادیدہ قوتیں ہیں۔ سب لوگ حیرت زدہ ہیں صدر زرداری کے اس بیان پر کہ آیندہ چاروں صوبوں میں پنجاب سمیت پیپلزپارٹی کا وزیراعلیٰ ہو گا۔ یہ معجزہ کیسے ہو گا۔ (نادیدہ قوتوں کی موجودگی میں) اس پر بڑے بڑے شہ دماغ حیرت بدنداں ہیں۔ لیکن جب وہ یہ کہتے ہیں کہ عالمی سیاست بدل رہی ہے تو کچھ کچھ سمجھ آنے لگتی ہے کہ ان کا اشارہ کس طرف ہے۔
اس پس منظر میں جب بھارتی وزیر خارجہ ایس ایم کرشنا جب یہ کہتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کی دوستی ''عالمی حالات'' کا تقاضا ہے تو صورتحال اور واضح ہو جاتی ہے۔ ان کے مطابق پاکستان اور بھارت کی دوستی عالمی حالات کا تقاضا ہے۔ اس کے تحت جو فیصلے کیے جاتے ہیں ان پر اپوزیشن (بھارتی) کو قائل کرنا مشکل ہے۔ کچھ عرصے کے دوران پاکستان اور بھارت کے درمیان کئی ''حساس امور'' پر مفاہمت کے بعد دوستی ناگزیر ہو گئی ہے''۔
انھوں نے پاکستانی ہم منصب حنا ربانی کی تعریف کی اور کہا کہ انھوں نے حالیہ دورہ ہندوستان میں نہایت صاف گوئی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پیغام دیا کہ پاکستان' بھارت کے ساتھ رشتوں کے حوالے سے ''نئی سوچ'' لے کر آگے بڑھنا چاہتا ہے۔ بھارتی وزیرخارجہ نے کہا بھارت اور پاکستان کے عوام بھی دوستانہ تعلقات کی بحالی چاہتے ہیں۔ پاکستانی صدر آصف علی زرداری نے بھارتی وزیراعظم کو مدعو کیا ہے اور وہ کسی بھی وقت پاکستان جائیں گے۔ بھارتی وزیر خارجہ کے اس بیان کے اگلے دن ہی صدر مملکت آصف علی زرداری نے بھارتی وزیراعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ کو بذریعہ خط دورہ پاکستان کی دعوت دے دی جو بھارت میں پاکستانی ہائی کمیشن کے ذریعے بھیجا گیا۔
دعوت دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ وہ دورہ پاکستان میں اپنے آبائی گھر اور علاقے کا دورہ کریں۔ صدر زرداری نے خط میں تجویز دی ہے کہ من موہن سنگھ بابا گورو نانک جی کے یوم پیدائش پر اپنے آبائی گھر کا دورہ کریں جس سے مذہبی ہم آہنگی کے فروغ اور تعلقات کے درست سمت میں آگے بڑھنے میں مدد ملے گی اور پرامن اور خوش حال جنوبی ایشیا کے ''خواب'' کی تکمیل بھی ممکن ہو گی۔
اندازہ لگائیں کہ پاک بھارت تعلقات میں پیش رفت کس تیزی سے ہو رہی ہے کہ 27 جولائی کو بھارتی وزیر خارجہ نے بیان دیا تو 28 جولائی کو پاکستانی صدر کی طرف سے بھارتی وزیراعظم کو باضابطہ دعوت کے بعد بھارت نے 2 اگست کی خبر کے مطابق پاکستانی شہریوں اور کاروباری اداروں کو اپنے ملک میں سرمایہ کاری کی اجازت دے دی ہے جس کی رو سے پاکستانی شہری اور ادارے بھارت میں سرمایہ کاری کر سکیں گے۔ صوبہ سندھ میں سرمایہ کاری بورڈ کے چیئرمین نے کہا ہے کہ یہ صحیح وقت پر درست فیصلہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ جنوبی ایشیا کی معاشی ترقی کے لیے یہ ایک بہت بڑا قدم ہو گا۔
جب بھارتی وزیر خارجہ یہ کہتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کی دوستی ''عالمی حالات کا تقاضا ہے'' تو وہ غلط نہیں کہتے۔ اس وقت مشرق وسطیٰ سے برصغیر تک پورا خطہ تبدیلیوں کی زد میں ہے اور جب ان ''ریڈیکل'' تبدیلیوں کا عمل مکمل ہو گا تو ہمارا خطہ پہنچاننے میں ہی نہیں آئے گا۔ اس وقت ہمارے خطے کی ایک طویل مدت بعد ''دوبارہ پیدائش'' ہو رہی ہے۔ ان تبدیلیوں کے مکمل ہونے کے بعد یہ صورت حال ہو گی کہ ہمیں یقین ہی نہیں آئے گا کہ یہ تبدیلیاں وقوع پذیر ہو چکی ہیں۔
مشرق وسطیٰ میں امریکی سرپرستی میں مذہبی حکومتیں قائم ہو چکی ہیں تاکہ دہشت گردی کے خلاف عالمی محاذ بنا کر چوتھی عالمی جنگ کا آغاز کیا جا سکے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت ہمارا خطہ ''درد زہ'' میں ہے جو کہ نئی تخلیق کا ناگزیر عمل ہے۔ جب خطے نئے سرے سے تخلیق کیے جاتے ہیں تو قتل و غارت' خودکش دھماکے' خون کا بہنا'تباہی و بربادی اس کے لازمی اجزا ہیں۔ (Recipe) امریکی و مغربی نقطہ نظر سے دہشت گردی کی جنگ جیتنے کے لیے بہت ضروری ہے کہ پاکستان اور بھارت کی دوستی کرائی جائے جس کو خود امریکا نے ہی ماضی میں اپنے سامراجی مفادات کے حصول کے لیے نہیں ہونے دیا تھا اور پاکستان پر جمہوریت و عوام دشمن قوتوں کا قبضہ کرا دیا۔
پاکستانی عوام اگر ذرا غور کریں تو انھیں یاد آ جائے گا کہ پاکستانی عوام کے حق اقتدار کو چھیننے والوں میں کونسے کونسے ادارے (قوتیں) شامل تھے۔ پاکستان پر ان عوام دشمن شدت پسند قوتوں کا قبضہ ختم کرنا آسان نہیں کیونکہ وہ طویل مدت سے پاکستان کے تمام اداروں پر قبضہ کیے بیٹھے ہیں لیکن صرف پاکستان اور بھارت کی دوستی ہی چشم زدن میں معجزاتی طور پر ایک قلیل مدت میں پاکستان پر ان قوتوں کا قبضہ ختم کرا سکتی ہے جس کے نتیجے میں پاکستانی اور بھارتی عوام کو ہر حوالے سے بے پناہ فائدہ پہنچنے گا۔
یہ عالمی حالات کا تقاضا ہی ہے جس نے پاکستان اور بھارت کو دوستی پر مجبور کیا ہے جس کا آخری نتیجہ کنفیڈریشن کی شکل میں برآمد ہو سکتا ہے۔ خطے میں چین امریکا کے مفادات کی تکمیل کے بجائے کیا یہ بہتر نہ ہو گا کہ پاکستان اور بھارت کنفیڈریشن کی شکل میں خود ایک طاقت بنتے ہوئے خطے میں قائدانہ روال ادا کریں جس کو سامراج نے 1947ء میں ایک سازش کے تحت برصغیر کو تقسیم کرتے ہوئے دونوں ملکوں کی ''طاقت'' کو تقسیم کر دیا تھا۔ اگر ایسا ہو جاتا ہے تو خطے میں سنٹرل ایشیا سمیت پاکستان اور بھارت کو قائدانہ کنٹرول اور بالا دست حیثیت حاصل ہو جائے گی کیونکہ توانائی اور قدرتی وسائل کے تمام ذخائر اکیسویں صدی کے لیے اسی خطے میں پائے جاتے ہیں۔
پاکستان اور بھارت تعلقات 2013ء میں تاریخ کے ''نئے دور'' میں داخل ہو جائیں گے جس کا آغاز اس سال اگست کے آخر سے نومبر کے درمیان کے عرصے میں شروع ہو جائے گا۔ بھارتی وزیراعظم کا دورہ پاکستان بھی اسی عرصے میں متوقع ہے جس میں پہلا اہم وقت اس سال کا اکتوبر ہے۔ تاخیر سے شروع ہونے والے مون سون نے پاکستان کو اس خطرے سے مکمل طور پر نہیں تو کسی حد تک بارشوں سے ہونے والی اس تباہی بربادی سے بچا لیا ہے کیونکہ بارشوں کے سسٹم کا رخ چین کی طرف ہو گیا تھا۔ بارشوں کا سسٹم پورے ملک میں 9 سے 11 اگست کے درمیان دوبارہ فنکشنل ہو جائے گا۔
دنیا بھر سے قارئین کے تعاون کا ایک مرتبہ پھر شکریہ۔ اوقات رابطہ پیر تا جمعہ دوپہر 2 تا شام 6 بجے۔ سیل فون نمبر 0346-4527997
صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ انتخابات مقررہ وقت پر ہی ہوں گے اورپنجاب سمیت چاروں صوبوں میں پیپلزپارٹی کی حکومت ہوگی۔ آیندہ پنجاب کا وزیراعلیٰ ایک جیالا ہوگا۔ لوڈشیڈنگ سے عوام کی پریشانیوں کا علم ہے، جلد ان کو اس سے نجات دلادیں گے۔ مخالفین نے مجھ سے میرا یوسف رضا گیلانی چھین لیا تو میں نے ایک نیا جوشیلا جیالا دے دیا جس نے شہید بی بی کی زیر قیادت سیاست سیکھی۔ پیپلزپارٹی عالمی حالات کو مدنظر رکھ کر پالیسیاں بناتی ہے۔
عوام ہی روشن مستقبل کا فیصلہ کریں گے۔ شریف برادران کان کھول کر سن لیں، اگر یوسف رضا گیلانی چاہتے تو پنجاب میں (ن) لیگ کی حکومت نہ بن سکتی۔ صدر زرداری کے دورے کے دوران کارکنوں نے شاندار استقبال کیا، فضا جئے بھٹو ،جئے بے نظیر کی نعروں سے گونجتی رہی۔ کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے صدر کا کہنا تھا کہ مخالفین بوکھلا گئے ہیں۔ ''عالمی سیاست بدل رہی ہے جس کو مدنظر رکھ کر نئے پلان بنائیں گے۔'' ہماری سیاسی جنگ جاری رہے گی۔
انتخابات میں کسی صورت دھاندلی نہیں ہونے دیں گے۔ صدر نے کہا کہ میں بھٹو شہید کا روحانی بیٹا ہوں۔ ہمیشہ جیل کی چابیاں جیب میں ہوتی ہیں لیکن دوسروں کی طرح جیالوں کو چھوڑ کر نہیں بھاگا۔ جیل کی گرمی دیکھی ہے اس کے سامنے سیاست کی گرمی کی کوئی حیثیت نہیں۔ انھوں نے کہا کہ نئے سیاست دان ٹی وی کی سیاست کررہے ہیں۔ اس طرح کوئی بھٹو نہیں بن سکتا۔ شہید بی بی کو بھی وطن واپسی سے منع کیا تھا لیکن وہ عوام کی لیڈر تھیں اور عوام کے درمیان انھوں نے اپنی جان دیدی۔
آج بھٹو کے مخالفین کا نام لینے والا کوئی نہیں۔ پوری دنیا بھٹو کو سلام کرتی ہے۔ ہم مفاہمت کی سیاست چاہتے ہیں۔ جانتا ہوں کہ میری جان خطرے میں ہے لیکن کبھی عوام کو چھوڑ کر نہیں جائوں گا۔ پنجاب میں حکومت بنانے کے بعد خود صوبے میں بیٹھوں گا۔ انھوں نے اﷲ سے دعا کی کہ خدایا ایمان دے اور قبر تک دے۔ ان کا کہنا تھا کہ بدترین عالمی معیشت کے باوجود پاکستان میں معاشی پلان دیا۔ خواتین کو اس لیے بااختیار بنایا کیونکہ جانتے ہیں کہ کل ان کو مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنا ہے۔ صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات ''اسٹرٹیجک شراکت داری'' میں تبدیل ہورے ہیں۔
مندرجہ بالا تقریر میں صدر زرداری کا غیر معمولی اعتماد حیران کن ہے۔ رکاوٹوں کے پہاڑ ہیں جن سے پیپلزپارٹی کو پہلے دن سے سامنا ہے۔ ایک طرف اپوزیشن ہے دوسری طرف مقدمات ہیں تو تیسری طرف نادیدہ قوتیں ہیں۔ سب لوگ حیرت زدہ ہیں صدر زرداری کے اس بیان پر کہ آیندہ چاروں صوبوں میں پنجاب سمیت پیپلزپارٹی کا وزیراعلیٰ ہو گا۔ یہ معجزہ کیسے ہو گا۔ (نادیدہ قوتوں کی موجودگی میں) اس پر بڑے بڑے شہ دماغ حیرت بدنداں ہیں۔ لیکن جب وہ یہ کہتے ہیں کہ عالمی سیاست بدل رہی ہے تو کچھ کچھ سمجھ آنے لگتی ہے کہ ان کا اشارہ کس طرف ہے۔
اس پس منظر میں جب بھارتی وزیر خارجہ ایس ایم کرشنا جب یہ کہتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کی دوستی ''عالمی حالات'' کا تقاضا ہے تو صورتحال اور واضح ہو جاتی ہے۔ ان کے مطابق پاکستان اور بھارت کی دوستی عالمی حالات کا تقاضا ہے۔ اس کے تحت جو فیصلے کیے جاتے ہیں ان پر اپوزیشن (بھارتی) کو قائل کرنا مشکل ہے۔ کچھ عرصے کے دوران پاکستان اور بھارت کے درمیان کئی ''حساس امور'' پر مفاہمت کے بعد دوستی ناگزیر ہو گئی ہے''۔
انھوں نے پاکستانی ہم منصب حنا ربانی کی تعریف کی اور کہا کہ انھوں نے حالیہ دورہ ہندوستان میں نہایت صاف گوئی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پیغام دیا کہ پاکستان' بھارت کے ساتھ رشتوں کے حوالے سے ''نئی سوچ'' لے کر آگے بڑھنا چاہتا ہے۔ بھارتی وزیرخارجہ نے کہا بھارت اور پاکستان کے عوام بھی دوستانہ تعلقات کی بحالی چاہتے ہیں۔ پاکستانی صدر آصف علی زرداری نے بھارتی وزیراعظم کو مدعو کیا ہے اور وہ کسی بھی وقت پاکستان جائیں گے۔ بھارتی وزیر خارجہ کے اس بیان کے اگلے دن ہی صدر مملکت آصف علی زرداری نے بھارتی وزیراعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ کو بذریعہ خط دورہ پاکستان کی دعوت دے دی جو بھارت میں پاکستانی ہائی کمیشن کے ذریعے بھیجا گیا۔
دعوت دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ وہ دورہ پاکستان میں اپنے آبائی گھر اور علاقے کا دورہ کریں۔ صدر زرداری نے خط میں تجویز دی ہے کہ من موہن سنگھ بابا گورو نانک جی کے یوم پیدائش پر اپنے آبائی گھر کا دورہ کریں جس سے مذہبی ہم آہنگی کے فروغ اور تعلقات کے درست سمت میں آگے بڑھنے میں مدد ملے گی اور پرامن اور خوش حال جنوبی ایشیا کے ''خواب'' کی تکمیل بھی ممکن ہو گی۔
اندازہ لگائیں کہ پاک بھارت تعلقات میں پیش رفت کس تیزی سے ہو رہی ہے کہ 27 جولائی کو بھارتی وزیر خارجہ نے بیان دیا تو 28 جولائی کو پاکستانی صدر کی طرف سے بھارتی وزیراعظم کو باضابطہ دعوت کے بعد بھارت نے 2 اگست کی خبر کے مطابق پاکستانی شہریوں اور کاروباری اداروں کو اپنے ملک میں سرمایہ کاری کی اجازت دے دی ہے جس کی رو سے پاکستانی شہری اور ادارے بھارت میں سرمایہ کاری کر سکیں گے۔ صوبہ سندھ میں سرمایہ کاری بورڈ کے چیئرمین نے کہا ہے کہ یہ صحیح وقت پر درست فیصلہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ جنوبی ایشیا کی معاشی ترقی کے لیے یہ ایک بہت بڑا قدم ہو گا۔
جب بھارتی وزیر خارجہ یہ کہتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کی دوستی ''عالمی حالات کا تقاضا ہے'' تو وہ غلط نہیں کہتے۔ اس وقت مشرق وسطیٰ سے برصغیر تک پورا خطہ تبدیلیوں کی زد میں ہے اور جب ان ''ریڈیکل'' تبدیلیوں کا عمل مکمل ہو گا تو ہمارا خطہ پہنچاننے میں ہی نہیں آئے گا۔ اس وقت ہمارے خطے کی ایک طویل مدت بعد ''دوبارہ پیدائش'' ہو رہی ہے۔ ان تبدیلیوں کے مکمل ہونے کے بعد یہ صورت حال ہو گی کہ ہمیں یقین ہی نہیں آئے گا کہ یہ تبدیلیاں وقوع پذیر ہو چکی ہیں۔
مشرق وسطیٰ میں امریکی سرپرستی میں مذہبی حکومتیں قائم ہو چکی ہیں تاکہ دہشت گردی کے خلاف عالمی محاذ بنا کر چوتھی عالمی جنگ کا آغاز کیا جا سکے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت ہمارا خطہ ''درد زہ'' میں ہے جو کہ نئی تخلیق کا ناگزیر عمل ہے۔ جب خطے نئے سرے سے تخلیق کیے جاتے ہیں تو قتل و غارت' خودکش دھماکے' خون کا بہنا'تباہی و بربادی اس کے لازمی اجزا ہیں۔ (Recipe) امریکی و مغربی نقطہ نظر سے دہشت گردی کی جنگ جیتنے کے لیے بہت ضروری ہے کہ پاکستان اور بھارت کی دوستی کرائی جائے جس کو خود امریکا نے ہی ماضی میں اپنے سامراجی مفادات کے حصول کے لیے نہیں ہونے دیا تھا اور پاکستان پر جمہوریت و عوام دشمن قوتوں کا قبضہ کرا دیا۔
پاکستانی عوام اگر ذرا غور کریں تو انھیں یاد آ جائے گا کہ پاکستانی عوام کے حق اقتدار کو چھیننے والوں میں کونسے کونسے ادارے (قوتیں) شامل تھے۔ پاکستان پر ان عوام دشمن شدت پسند قوتوں کا قبضہ ختم کرنا آسان نہیں کیونکہ وہ طویل مدت سے پاکستان کے تمام اداروں پر قبضہ کیے بیٹھے ہیں لیکن صرف پاکستان اور بھارت کی دوستی ہی چشم زدن میں معجزاتی طور پر ایک قلیل مدت میں پاکستان پر ان قوتوں کا قبضہ ختم کرا سکتی ہے جس کے نتیجے میں پاکستانی اور بھارتی عوام کو ہر حوالے سے بے پناہ فائدہ پہنچنے گا۔
یہ عالمی حالات کا تقاضا ہی ہے جس نے پاکستان اور بھارت کو دوستی پر مجبور کیا ہے جس کا آخری نتیجہ کنفیڈریشن کی شکل میں برآمد ہو سکتا ہے۔ خطے میں چین امریکا کے مفادات کی تکمیل کے بجائے کیا یہ بہتر نہ ہو گا کہ پاکستان اور بھارت کنفیڈریشن کی شکل میں خود ایک طاقت بنتے ہوئے خطے میں قائدانہ روال ادا کریں جس کو سامراج نے 1947ء میں ایک سازش کے تحت برصغیر کو تقسیم کرتے ہوئے دونوں ملکوں کی ''طاقت'' کو تقسیم کر دیا تھا۔ اگر ایسا ہو جاتا ہے تو خطے میں سنٹرل ایشیا سمیت پاکستان اور بھارت کو قائدانہ کنٹرول اور بالا دست حیثیت حاصل ہو جائے گی کیونکہ توانائی اور قدرتی وسائل کے تمام ذخائر اکیسویں صدی کے لیے اسی خطے میں پائے جاتے ہیں۔
پاکستان اور بھارت تعلقات 2013ء میں تاریخ کے ''نئے دور'' میں داخل ہو جائیں گے جس کا آغاز اس سال اگست کے آخر سے نومبر کے درمیان کے عرصے میں شروع ہو جائے گا۔ بھارتی وزیراعظم کا دورہ پاکستان بھی اسی عرصے میں متوقع ہے جس میں پہلا اہم وقت اس سال کا اکتوبر ہے۔ تاخیر سے شروع ہونے والے مون سون نے پاکستان کو اس خطرے سے مکمل طور پر نہیں تو کسی حد تک بارشوں سے ہونے والی اس تباہی بربادی سے بچا لیا ہے کیونکہ بارشوں کے سسٹم کا رخ چین کی طرف ہو گیا تھا۔ بارشوں کا سسٹم پورے ملک میں 9 سے 11 اگست کے درمیان دوبارہ فنکشنل ہو جائے گا۔
دنیا بھر سے قارئین کے تعاون کا ایک مرتبہ پھر شکریہ۔ اوقات رابطہ پیر تا جمعہ دوپہر 2 تا شام 6 بجے۔ سیل فون نمبر 0346-4527997