عوامی رائے
سیاستدانوں نے سیاست کو اتنا بدنام کردیا ہے کہ یہ لوٹ مار، کرپشن، غنڈہ گردی کو سیاسی انتقام کہتے ہیں۔
معاشی حالات نے جس طرح کی کروٹیں لی ہیں، اس کی وجہ سے سیاسی مداریوں نے اس ملک میں اتنی افراتفری مچائی ہے کہ اب قوم کی ہمت جواب دے گئی ہے۔ کروڑوں افراد غربت کی دھول میں زندگی کے لاشے کو گھسیٹ رہے ہیں اور یہاں یہ عالم ہے کہ سیاست دانوں کے نخرے ہی پورے نہیں ہوتے۔
ملک میں موروثی سیاست نے اپنے پنجے ایسے گاڑے ہیں کہ اب تو خواتین بھی میدان عمل میں اتر آئی ہیں۔ نو عمر بچے جو سیاسی طور پر نابالغ ہیں، انھیں آنے والے وزیراعظم کا خوشنما ہار پہنانے کی باتیں کی جارہی ہیں، مگر ان مٹھی بھر سیاست دانوں کو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ جس طرح اپنی اولاد کو نوبل پرائز دینا چاہتے ہیں یہ اب ان کی بھول ہے، اب عوام باشعور اور تعلیم سے آراستہ ہیں۔ گھوڑے دوڑانے والے سیاست دانوں نے 30 سال میں جو انداز حکمرانی اپنایا اس کی گھٹیا مثال نہیں ملتی۔ اگلی باری کی امید پر جو عوام کے ذہنوں میں چراغ جلائے گئے اب ان میں برداشت کا تیل ختم ہوگیا ہے۔ 2 فیصد مراعات یافتہ طبقے نے اس معاشرے کو ملیا میٹ کردیا ، اس ملک کے وسائل کو جس بیدردی سے توہین و تذلیل کے ساتھ لوٹا گیا اس کی نظیر نہیں ملتی۔
مایوسی کی گرد عوامی دامن میں اتنی لپٹ چکی ہے کہ جب بھی صادق اور امین کا معاملہ منظر عام پر آتا ہے تو ہمارا ذہن بھٹک کر سیاسی نظام کے منصب پر فائز ہو جاتا ہے، اس سے بڑا اور المیہ کیا ہوگا۔ ویسے تو صادق اور امین اسلام سے وابستہ الفاظ ہیں، مگر افسوس کہ اس مملکت خداداد میں یہ لفظ ہمارے سیاستدانوں نے بدل کر رکھ دیا ہے۔ اپنے کرداروں کی وجہ سے کوئی کورٹ کے چکر لگا رہا ہے، کوئی نیب سے معافی تلافی میں لگا ہوا ہے۔ جو چند باقی رہ گئے ہیں، شاید وہی صادق اور امین ہیں۔
یہ بات دوسری ہے کہ 2018ء کے الیکشن کے بعد یہ چند بھی شاید صادق اور امین نہ رہیں۔ کیونکہ آنے والے تو اپنی باری میں چھلنی لے کر آئیںگے۔ جس جمہوریت کا راگ دے کر یہ چند سیاستدان اب ارب پتی ہیں، نہایت ڈھٹائی سے مسائل کے حل کا درس دیتے ہیں، ان کی ذہنیت پر ماتم کرنے کو دل چاہتا ہے۔ اب عوام ان کے سیاسی دلائل کو خوب سمجھ رہے ہیں اور لگتا ہے کہ عوام کا کسی بھی دن اکتاہٹ کا سفر ختم ہو جائے گا۔ بھلا بتائیے یہ کون سی جمہوریت ہے کہ مائیں اس ملک کے نونہالوں کو سڑکوں پر جنم دے کر ایک نئی تاریخ رقم کر رہی ہیں۔ کرپٹ لوگوں کو قانونی تحفظ دیا جا رہا ہے، سیاسی وکیل کرپشن کو ایمانداری کے پانی سے شفاف کرنے کی کوششوں میں سرگرداں رہتے ہیں۔
آج کے اس زمانے میں صرف چند لوگ اسمبلیوں میں ایسے بھی ہیں کہ وہ پارٹی کے اصولوں کے خلاف ہو کر صرف اس ملک کی محبت کے ناتے قانون سازی سے اہم امور کے مسائل حل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ وہ عوامی لوگ ہیں جو سیاسی درجہ حرارت سہتے سہتے نڈھال ہو گئے ہیں۔ جن کے بیرون ملک اکاؤنٹ ہیں انھیں شہری حقوق حاصل ہیں اور وہ جرائم بھی کریں تو پروٹوکول کے ساتھ پھرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ملک میں عدل و انصاف موجود نہیں۔ ان چند سیاستدانوں نے احترام آدمیت کو تباہی کے کنارے لگا دیا۔
معیشت کے حوالے سے جب کچھ باتیں حقیقت پر مبنی تھیں تو ایوان حکومت کے کرتا دھرتا نے معیشت کی بہتری پر جو قصیدے اور تبصرے کیے وہ دانشور سیاست دانوں کے کام نہیں۔ حکومت کے کرتا دھرتا کہتے ہیں کہ معیشت کی بہتری کے لیے سیاست دانوں نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ سیاسی گھونسلے میں جو معیشت کے انڈے ہیں وہ ان سیاست دانوں نے توڑنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس معیشت کو سہارا تو پاکستانی عوام نے دیا ہے اور دے رہے ہیں، آپ تو 30 گاڑیوں کے پروٹوکول میں نکلتے ہیں، نہ ختم ہونے والا میڈیکل استعمال کررہے ہیں، اربوں کے قرضے وصول کرکے معاف کروا رہے ہیں، وسائل کی دھجیاں اڑا دی ہیں، آپ کی بغل میں آئین ہے اور قوم کی بغلوں میں آپ نے جمہوریت سمادی ہے۔ 5 فیصد مراعات یافتہ طبقہ تاریخی ناانصافیاں کر رہا ہے۔
پروٹوکول کے نام پر عوام کو بازاروں میں رسوا کیا جاتا ہے، عدالتیں کرپشن کے بادشاہوں سے بھری پڑی ہیں، کوئی ادارہ ایسا نہیں جس میں کرپشن اور لوٹ مار کا بازار نہ لگا ہو۔ ٹریفک کا نظام تباہ ہو چکا، قانون کو لپیٹ کر پیروں کے نیچے روند دیا گیا ہے، عوام کی نہیں ان چند سیاستدانوں کی ناز برداریاں اتنی بڑھ گئی ہیں کہ ساری معیشت کو انھوں نے اسپیڈ بریکرز کی شکل دے دی ہے۔
سیاستدانوں نے سیاست کو اتنا بدنام کردیا ہے کہ یہ لوٹ مار، کرپشن، غنڈہ گردی کو سیاسی انتقام کہتے ہیں۔ فوج کہتی ہے کہ ہمارا سیاست سے کوئی تعلق نہیں، قوم فوج کے اس اقدام کو اچھی نگاہ سے دیکھ رہی ہے مگر عدالتوں سے یہ عوام بہت امیدیں لگائے بیٹھے ہیں، کیونکہ ہر ادارے میں ان چند سیاست دانوں نے اتنی کرپشن کی ہے کہ شہر مسائل کی وجہ سے ویران نظر آتے ہیں۔ اربوں کی کرپشن کی وجہ سے شہر اب کھنڈرات کی شکل اختیار کرگئے ہیں۔ اس وقت عوام کڑی آزمائشوں کے جال میں الجھ گئے ہیں۔ اب یہ عدالتوں کا کام ہے کہ وہ ایک ایک پائی کا حساب لے۔ نپے تلے لفظوں سے ان سیاست دانوں نے بہت سیاست کر لی، عوام دل شکستہ ہیں اور آبدیدہ ہیں کہ نہ پینے کا پانی ہے، نہ سفر کے لیے ٹرانسپورٹ ہے۔ عوام میں شدید اضطراب پایا جاتا ہے۔ اب لے دے کر عدالتیں رہ گئیں ہیں جو عوام کو غربت و افلاس، رنج و الم سے نکالیںگی۔
سوشل میڈیا پر ان سیاست دانوں کی عیاشیوں کی جو ویڈیوز منظر عام پر آتی ہیں، ان کو دیکھنے کے بعد عوام کا ایک ہی جملہ ہے کہ یہ عزت مآب عدالتیں ان کو وہ سبق دیں اور ان سے پائی پائی وصول کریں۔ اس ملک کی معیشت کو کس نے تباہ کیا؟ جن کے پاس روٹی نہیں ہے کھانے کو، تن پر کپڑا نہیں ہے، ہر چھٹا آدمی ہاتھ میں کشکول لیے پھر رہا ہے، پھر یہ سیاست دان کہتے ہیں کہ ملکی معیشت بہت بہتر ہے۔ ایک معمولی سی چیز ہے ٹماٹر، اس کے لیے ہمارے وزیر کہتے ہیں کچھ بھی ہوجائے بھارت سے ٹماٹر نہیں منگوائیں گے۔
انا کا یہ عالم ہے اور جب ایک وزیراعظم کے گھرانے کی شادی میں بھارتی وزیراعظم بغیر کسی اطلاع کے پاکستان آسکتا ہے، اس وقت کیوں نہیں واویلا مچایا گیا، سب خاموش تھے۔ مگر مسئلہ غریب کا ہے تو سب محب وطن ہوگئے، ٹماٹر انڈیا سے منگوانے پر وطن کی محبت اجاگر ہوگئی ہے اور یہاں ٹماٹر 160 روپے کلو بک رہا ہے۔ کیونکہ یہ مسئلہ غریب کا ہے آپ سیاسی لوگ تو اتنے صاحب حیثیت ہیں کہ آپ کو پتہ ہی نہیں ہوتا کہ رات کے کھانے میں کک نے کیا پکایا ہے۔ رہا معاملہ عوام کا تو وہ جون ایلیا کے اس شعر کے حسب حال ہے۔
جو گزاری نہ جاسکی ہم سے
وہ زندگی گزاری ہے ہم نے
ملک میں موروثی سیاست نے اپنے پنجے ایسے گاڑے ہیں کہ اب تو خواتین بھی میدان عمل میں اتر آئی ہیں۔ نو عمر بچے جو سیاسی طور پر نابالغ ہیں، انھیں آنے والے وزیراعظم کا خوشنما ہار پہنانے کی باتیں کی جارہی ہیں، مگر ان مٹھی بھر سیاست دانوں کو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ جس طرح اپنی اولاد کو نوبل پرائز دینا چاہتے ہیں یہ اب ان کی بھول ہے، اب عوام باشعور اور تعلیم سے آراستہ ہیں۔ گھوڑے دوڑانے والے سیاست دانوں نے 30 سال میں جو انداز حکمرانی اپنایا اس کی گھٹیا مثال نہیں ملتی۔ اگلی باری کی امید پر جو عوام کے ذہنوں میں چراغ جلائے گئے اب ان میں برداشت کا تیل ختم ہوگیا ہے۔ 2 فیصد مراعات یافتہ طبقے نے اس معاشرے کو ملیا میٹ کردیا ، اس ملک کے وسائل کو جس بیدردی سے توہین و تذلیل کے ساتھ لوٹا گیا اس کی نظیر نہیں ملتی۔
مایوسی کی گرد عوامی دامن میں اتنی لپٹ چکی ہے کہ جب بھی صادق اور امین کا معاملہ منظر عام پر آتا ہے تو ہمارا ذہن بھٹک کر سیاسی نظام کے منصب پر فائز ہو جاتا ہے، اس سے بڑا اور المیہ کیا ہوگا۔ ویسے تو صادق اور امین اسلام سے وابستہ الفاظ ہیں، مگر افسوس کہ اس مملکت خداداد میں یہ لفظ ہمارے سیاستدانوں نے بدل کر رکھ دیا ہے۔ اپنے کرداروں کی وجہ سے کوئی کورٹ کے چکر لگا رہا ہے، کوئی نیب سے معافی تلافی میں لگا ہوا ہے۔ جو چند باقی رہ گئے ہیں، شاید وہی صادق اور امین ہیں۔
یہ بات دوسری ہے کہ 2018ء کے الیکشن کے بعد یہ چند بھی شاید صادق اور امین نہ رہیں۔ کیونکہ آنے والے تو اپنی باری میں چھلنی لے کر آئیںگے۔ جس جمہوریت کا راگ دے کر یہ چند سیاستدان اب ارب پتی ہیں، نہایت ڈھٹائی سے مسائل کے حل کا درس دیتے ہیں، ان کی ذہنیت پر ماتم کرنے کو دل چاہتا ہے۔ اب عوام ان کے سیاسی دلائل کو خوب سمجھ رہے ہیں اور لگتا ہے کہ عوام کا کسی بھی دن اکتاہٹ کا سفر ختم ہو جائے گا۔ بھلا بتائیے یہ کون سی جمہوریت ہے کہ مائیں اس ملک کے نونہالوں کو سڑکوں پر جنم دے کر ایک نئی تاریخ رقم کر رہی ہیں۔ کرپٹ لوگوں کو قانونی تحفظ دیا جا رہا ہے، سیاسی وکیل کرپشن کو ایمانداری کے پانی سے شفاف کرنے کی کوششوں میں سرگرداں رہتے ہیں۔
آج کے اس زمانے میں صرف چند لوگ اسمبلیوں میں ایسے بھی ہیں کہ وہ پارٹی کے اصولوں کے خلاف ہو کر صرف اس ملک کی محبت کے ناتے قانون سازی سے اہم امور کے مسائل حل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ وہ عوامی لوگ ہیں جو سیاسی درجہ حرارت سہتے سہتے نڈھال ہو گئے ہیں۔ جن کے بیرون ملک اکاؤنٹ ہیں انھیں شہری حقوق حاصل ہیں اور وہ جرائم بھی کریں تو پروٹوکول کے ساتھ پھرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ملک میں عدل و انصاف موجود نہیں۔ ان چند سیاستدانوں نے احترام آدمیت کو تباہی کے کنارے لگا دیا۔
معیشت کے حوالے سے جب کچھ باتیں حقیقت پر مبنی تھیں تو ایوان حکومت کے کرتا دھرتا نے معیشت کی بہتری پر جو قصیدے اور تبصرے کیے وہ دانشور سیاست دانوں کے کام نہیں۔ حکومت کے کرتا دھرتا کہتے ہیں کہ معیشت کی بہتری کے لیے سیاست دانوں نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ سیاسی گھونسلے میں جو معیشت کے انڈے ہیں وہ ان سیاست دانوں نے توڑنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس معیشت کو سہارا تو پاکستانی عوام نے دیا ہے اور دے رہے ہیں، آپ تو 30 گاڑیوں کے پروٹوکول میں نکلتے ہیں، نہ ختم ہونے والا میڈیکل استعمال کررہے ہیں، اربوں کے قرضے وصول کرکے معاف کروا رہے ہیں، وسائل کی دھجیاں اڑا دی ہیں، آپ کی بغل میں آئین ہے اور قوم کی بغلوں میں آپ نے جمہوریت سمادی ہے۔ 5 فیصد مراعات یافتہ طبقہ تاریخی ناانصافیاں کر رہا ہے۔
پروٹوکول کے نام پر عوام کو بازاروں میں رسوا کیا جاتا ہے، عدالتیں کرپشن کے بادشاہوں سے بھری پڑی ہیں، کوئی ادارہ ایسا نہیں جس میں کرپشن اور لوٹ مار کا بازار نہ لگا ہو۔ ٹریفک کا نظام تباہ ہو چکا، قانون کو لپیٹ کر پیروں کے نیچے روند دیا گیا ہے، عوام کی نہیں ان چند سیاستدانوں کی ناز برداریاں اتنی بڑھ گئی ہیں کہ ساری معیشت کو انھوں نے اسپیڈ بریکرز کی شکل دے دی ہے۔
سیاستدانوں نے سیاست کو اتنا بدنام کردیا ہے کہ یہ لوٹ مار، کرپشن، غنڈہ گردی کو سیاسی انتقام کہتے ہیں۔ فوج کہتی ہے کہ ہمارا سیاست سے کوئی تعلق نہیں، قوم فوج کے اس اقدام کو اچھی نگاہ سے دیکھ رہی ہے مگر عدالتوں سے یہ عوام بہت امیدیں لگائے بیٹھے ہیں، کیونکہ ہر ادارے میں ان چند سیاست دانوں نے اتنی کرپشن کی ہے کہ شہر مسائل کی وجہ سے ویران نظر آتے ہیں۔ اربوں کی کرپشن کی وجہ سے شہر اب کھنڈرات کی شکل اختیار کرگئے ہیں۔ اس وقت عوام کڑی آزمائشوں کے جال میں الجھ گئے ہیں۔ اب یہ عدالتوں کا کام ہے کہ وہ ایک ایک پائی کا حساب لے۔ نپے تلے لفظوں سے ان سیاست دانوں نے بہت سیاست کر لی، عوام دل شکستہ ہیں اور آبدیدہ ہیں کہ نہ پینے کا پانی ہے، نہ سفر کے لیے ٹرانسپورٹ ہے۔ عوام میں شدید اضطراب پایا جاتا ہے۔ اب لے دے کر عدالتیں رہ گئیں ہیں جو عوام کو غربت و افلاس، رنج و الم سے نکالیںگی۔
سوشل میڈیا پر ان سیاست دانوں کی عیاشیوں کی جو ویڈیوز منظر عام پر آتی ہیں، ان کو دیکھنے کے بعد عوام کا ایک ہی جملہ ہے کہ یہ عزت مآب عدالتیں ان کو وہ سبق دیں اور ان سے پائی پائی وصول کریں۔ اس ملک کی معیشت کو کس نے تباہ کیا؟ جن کے پاس روٹی نہیں ہے کھانے کو، تن پر کپڑا نہیں ہے، ہر چھٹا آدمی ہاتھ میں کشکول لیے پھر رہا ہے، پھر یہ سیاست دان کہتے ہیں کہ ملکی معیشت بہت بہتر ہے۔ ایک معمولی سی چیز ہے ٹماٹر، اس کے لیے ہمارے وزیر کہتے ہیں کچھ بھی ہوجائے بھارت سے ٹماٹر نہیں منگوائیں گے۔
انا کا یہ عالم ہے اور جب ایک وزیراعظم کے گھرانے کی شادی میں بھارتی وزیراعظم بغیر کسی اطلاع کے پاکستان آسکتا ہے، اس وقت کیوں نہیں واویلا مچایا گیا، سب خاموش تھے۔ مگر مسئلہ غریب کا ہے تو سب محب وطن ہوگئے، ٹماٹر انڈیا سے منگوانے پر وطن کی محبت اجاگر ہوگئی ہے اور یہاں ٹماٹر 160 روپے کلو بک رہا ہے۔ کیونکہ یہ مسئلہ غریب کا ہے آپ سیاسی لوگ تو اتنے صاحب حیثیت ہیں کہ آپ کو پتہ ہی نہیں ہوتا کہ رات کے کھانے میں کک نے کیا پکایا ہے۔ رہا معاملہ عوام کا تو وہ جون ایلیا کے اس شعر کے حسب حال ہے۔
جو گزاری نہ جاسکی ہم سے
وہ زندگی گزاری ہے ہم نے