ایک نئی پیش رفت
دونوں ممالک نے معاشی استحکام اور بہتر مستقبل کی خاطراپنے اختلافات کو ایک طرف رکھ دیا ہے
گزشتہ دنوںبھارتی حکومت نے پاکستانیوں کو بھارت میں سرمایہ کاری کی باضابطہ اجازت دے کر باہمی تعلقات میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا ہے۔ بھارتی حکومت کے اس اقدام کے نتیجے میں صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ پورے جنوبی ایشیاء کے معاشی سرگرمیوں میں تیزی آنے کے نئے امکانات پیداہوئے ہیں۔
اس کے علاوہ یہ پیش رفت پاکستان اور بھارت کے درمیان نصف صدی سے زائد عرصے پرمحیط نفرتوں،کدورتوں اور بداعتمادیوں کوواضح طورپر کم کرنے کا سبب بن سکے گی۔لیکن یہ عمل اس وقت زیادہ وقیع اوربہترہوسکے گا جب بھارتی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی اجازت دی جائے اوروہ پاکستان کے مختلف شعبہ جات میں سرمایہ کاری کرکے پاکستان کی معیشت کی بہتربنانے میں اپنا کردار ادا کریں ۔
دنیا کی سیاست اور معیشت پر نظر رکھنے والے احباب اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ عالمی منظر نامہ تیزی کے ساتھ تبدیل ہورہاہے۔ معاشی سرگرمیوں کا محور یورپ سے ایشیاء کی جانب منتقل ہورہاہے۔ اس وقت چین، بھارت، جنوبی کوریا اور انڈونیشیاء تیزی کے ساتھ ابھرتی ایشیائی معیشتیں ہیں۔جب کہ فلپائن،تھائی لینڈ، ملائیشیاء اور سری لنکابھی طویل المدتی منصوبہ کرکے آگے نکلنے کی کوششوں میں لگی ہوئی ہیں۔اس تبدیل ہوتی صورتحال کاحیران کن پہلو یہ ہے کہ پاکستان تمامتر قدرتی اور انسانی وسائل رکھنے کے باوجود معاشی ترقی کی اس دوڑ میں بہت پیچھے ہے۔
چین اور بھارت کے بارے میں عالمی ماہرین کا کہنا ہے کہ 2020ء تک یہ دونوں ممالک بالترتیب عالمی اور ایشیائی معاشی سپر پاور بن جائیں گے۔ جب کہ جنوبی کوریا اور انڈونیشیاء ذراسے فرق سے ان کے پیچھے ہوں گے۔اس کا سبب یہ بیان کیا جارہاہے کہ ان دونوں ممالک نے تبدیل ہوتے عالمی منظر نامے کو سمجھتے ہوئے اپنی تمامتر توجہ معاشتی ترقی پر مرکوز کی ہے۔
ان دونوں ممالک نے اپنے دیرینہ اور روایتی اختلافات اور تنازعات،جن میں تبت اور سکم کے بعض علاقوں پردعوے بھی شامل ہیں،پس پشت ڈالتے ہوئے باہمی تجارت کے حجم میں اضافہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ایک اندازے کے مطابق 2015ء تک چین اور بھارت کے درمیان تجارت کا حجم 1000 ہزار بلین ڈالر سالانہ تک پہنچ جانے کی توقع ہے۔جو اس خطے میں تجارت کا سب سے بڑا حجم ہوگا ۔اس رویے سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ان دونوں ممالک نے معاشی استحکام اور بہتر مستقبل کی خاطراپنے اختلافات کو ایک طرف رکھ دیاہے۔
جنوبی ایشیائی ممالک کی تنظیم ''سارک'' گوکہ 1984ء میں وجود میں آگئی تھی،لیکن پاکستان اور بھارت کے درمیان موجود تنازعات کے باعث یہ تنظیم آسیان کی طرز پر زیادہ فعال نہیںہوسکی۔اس سلسلے میں معاشی ماہرین پاکستانی اسٹبلشمنٹ پر الزام عائد کرتے ہیں کہ اس نے سرد جنگ کے خاتمے کے بعد بھی اس دور کی خارجہ پالیسی کو جاری رکھتے ہوئے تجارتی تعلقات کوتنازعات کے حل سے مشروط کیے جانے پر اصر ارکیا۔جس کا نقصان صرف پاکستان کو اٹھانا پڑاہے،کیونکہ پاکستان اپنی اس پالیسی کی وجہ سے علاقائی تجارت میں کوئی خاطرکردار ادا نہیں کرسکا۔
دوسرے پاکستانی حکمرانوں نے 1960 کے بعد سے صنعتی انفرااسٹرکچر کو بہتر بنانے اور صنعتکاری کوجدید خطوط پر استوار کرنے کے بجائے اپنی توجہ بیرونی امداد پر مرکوز رکھی۔جس کی وجہ سے پاکستان میں صنعتی میدان میں کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہوسکی۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کا تجارتی توازن بگڑتا چلاگیا گیا اور اس کی درآمدات کی شرح برآمدات کے مقابلے میں کئی گنا بڑھ گئی۔
علاقائی تجارت میں بھی پاکستان کا کردار نہایت واجبی ہے۔جس کی مثال یہ ہے کہ اس وقت پاکستان کا درآمدی بل12بلین ڈالرسالانہ کے قریب ہے، جس میں سے صرف600ملین ڈالرکی برآمدات جنوبی ایشیائی ممالک کی جاتی ہیں۔گویا خطے کے ممالک سے درآمدات پرکل درآمدات کاصرف2فیصد خرچ کیاجاتا ہے۔ اس کے علاوہ سرکاری چینلوں کے ذریعے پاک بھارت تجارت کا حجم293.74ملین ڈالرکے لگ بھگ ہے، جس میں55.41ملین ڈالر کی برآمدات ہیں، جب کہ 238.33 ملین ڈالرکی درآمدات ہیں۔ یوں ایک تودونوں ممالک کے درمیان تجارتی حجم بہت کم ہے اور دوسرے اس کا توازن بھی پاکستان کے حق میں نہیں ہے۔
دراصل پاکستانی اسٹبلشمنٹ کاایک نمایاں حصہ ابتداء ہی سے بھارت کے ساتھ مخاصمانہ پالیسی کو پاکستان کی بقاء کے لیے ضروری سمجھتارہا ہے۔اس حلقے کا تصور تھا کہ بھارت کومختلف طریقوں سے زچ کرکے تنازعات کے حل پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔ یہ پالیسی سرد جنگ کے خاتمے کے بعد بری طرح ناکام ہوگئی، مگر یہ حلقہ اسی خوش فہمی میں رہا کہ بعض دوست ممالک کے تعاون سے اس پالیسی کو جاری رکھ سکے گا۔لیکن وہ چین جس پر پاکستان کو سب سے زیادہ تکیہ تھا خود اس نے بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات کو بحال کرکے پاکستان کے لیے خطے میں نئی مشکلات پیدا کردی۔
دوسری طرف 9/11کے بعد جب امریکی اہداف اور پالیسیوں میں تبدیلیاں آنا شروع ہوئیں تو پاکستان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوا۔اس صورتحال نے پاکستانی اسٹبلشمنٹ کو مختلف آپشنزپرغور کرنے پر مجبور کیا۔لیکن پالیسی سازی پر وہ حلقہ ہی حاوی رہا، جو بھارت کے ساتھ تعلقات میںکسی قسم کی بہتری کا حامی نہیں تھا۔مگر جب افغانستان کے مسئلے پر امریکا کے ساتھ تعلقات میں سرد مہری انتہائوں کو چھونے لگی اور نیٹو سپلائی پر بندش نے نزاعی صورت اختیارکی تو اسٹبلشمنٹ کے بعض اندرونی حلقوں نے بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات کی بحالی سمیت بعض دیگر آپشنز اختیار کرنے پر دبائو بڑھانا شروع کیا،تاکہ پاکستان کی ڈوبتی معیشت کو سہارا دیا جاسکے۔
یہاں ایک بار پھر عرض ہے کہ بھارت کی جانب سے پاکستانی سرمایہ کاروں کو بھارت میں سرمایہ کاری کی اجازت دینا،دو طرفہ تعلقات میں بہتری کی جانب ایک اچھی پیش رفت ضرور ہے۔لیکن پاکستان کو فوائداسی وقت حاصل ہوسکیں گے، جب سرمایہ کاری کا یہ عمل دوطرفہ ہوگا۔پاکستان میں سیاسی انتشار، امن وامان کی مخدوش صورتحال اورتوانائی کے بحران کی وجہ سے ملکی سرمایہ پہلے ہی دیگر ممالک کی طرف منتقل ہورہاہے۔جو اب بھارت میں بھی قانونی طورپر منتقل ہوسکے گا۔
جس کے نتیجے میں پاکستان کے مکمل طورپر ایک صارف ملک میں تبدیل ہوجانے کے امکانات کورد نہیں کیا جاسکتا۔ اس صورتحال سے نکلنے کے لیے ضروری ہے کہ پاکستانی منصوبہ ساز بھارت سمیت جنوبی ایشیاء کے سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے پرکشش ترغیبات دیں۔اس کے علاوہ پاکستان میں صنعتی انفرااسٹرکچر کو جدید خطوط پر استوار کرنے، امن وامان کی صورتحال کو بہتر بنانے اورٹیکسوں کے نظام میں اصلاحات لانے پر ترجیحی بنیادوںپرتوجہ دی جائے۔
یہ طے ہے کہ وقت اور حالات اپنی سمت کا خود تعین کرتے ہیں۔تاریخ کے دھارے کو غیر فطری طریقوں سے زیادہ عرصہ روکا نہیں جاسکتا۔تنائو ملکوں اور قوموں کودیمک کی طرح چاٹ جاتے ہیں۔ دلیل ومکالمہ تنازعات کوحل کرنے،افہام وتفہیم پیداکرنے اور اعتماد سازی میں کلیدی کردار ادا کرتاہے ۔ جنگیں غربت، افلاس اور بربادی کاپیش خیمہ ہوتی ہیں،جب کہ امن ترقی کا ضامن ہوتا ہے۔ رجعت جمود اور قنوطیت کوجنم دیتی ہے، رجائیت عزم وحوصلہ کو پروان چڑھاتی ہے اور ترقی کے نئے دریچے کھولتی ہے۔
آج کی دنیا ماضی کی دنیا سے بہت مختلف ہے ،اسی لیے اس کی ضروریات بھی مختلف ہیں۔جن لوگوںیاقوموں نے اس حقیقت کو سمجھ لیا ترقی نے ان کے قدم چومے ہیں۔آج معاشی ترقی کا محور یورپ سے ایشیاء کی طرف منتقل ہورہاہے۔ایشیاء کو آنے والی دہائیوں میں دنیا کی قیادت کرنے ہے ۔بالکل اسی طرح جس طرح چار صدیوں سے یورپ کرتا رہا ہے اور آج امریکا کررہاہے۔یہ اسی وقت ممکن ہے جب ایشیائی ممالک کی قیادتیں سیاسی عزم وبصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے چھوٹے موٹے اختلافات کونظرانداز کریں اور آگے بڑھنے کی جستجو کریں۔
اس میں شک نہیں کہ پاکستان فطری طورپر جنوبی ایشیاء کا حصہ ہے اورپاکستان کی ترقی اس خطے کی ترقی سے مشروط ہے۔مگراس ترقی کا حصہ بننے کے لیے پاکستان کوخود اپنے صنعتی ڈھانچہ کو فعال بنانے،اپنے وسائل کا صحیح استعمال کرنے اور نظام حکمرانی کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔تاکہ پاکستان بھی دیگر ممالک کے شانہ بشانہ ترقی کے ثمرات سے بہرہ مند ہوسکے۔اس لیے اس موقعے سے فائدہ اٹھانے کے لیے جب تک مناسب منصوبہ بندی کے ذریعے اپنے اندرونی ڈھانچے کو جدید خطورپر استوارنہیں کیا جاتا، بہتر نتائج کی توقع نہیں کی جاسکتی۔
اس کے علاوہ یہ پیش رفت پاکستان اور بھارت کے درمیان نصف صدی سے زائد عرصے پرمحیط نفرتوں،کدورتوں اور بداعتمادیوں کوواضح طورپر کم کرنے کا سبب بن سکے گی۔لیکن یہ عمل اس وقت زیادہ وقیع اوربہترہوسکے گا جب بھارتی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی اجازت دی جائے اوروہ پاکستان کے مختلف شعبہ جات میں سرمایہ کاری کرکے پاکستان کی معیشت کی بہتربنانے میں اپنا کردار ادا کریں ۔
دنیا کی سیاست اور معیشت پر نظر رکھنے والے احباب اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ عالمی منظر نامہ تیزی کے ساتھ تبدیل ہورہاہے۔ معاشی سرگرمیوں کا محور یورپ سے ایشیاء کی جانب منتقل ہورہاہے۔ اس وقت چین، بھارت، جنوبی کوریا اور انڈونیشیاء تیزی کے ساتھ ابھرتی ایشیائی معیشتیں ہیں۔جب کہ فلپائن،تھائی لینڈ، ملائیشیاء اور سری لنکابھی طویل المدتی منصوبہ کرکے آگے نکلنے کی کوششوں میں لگی ہوئی ہیں۔اس تبدیل ہوتی صورتحال کاحیران کن پہلو یہ ہے کہ پاکستان تمامتر قدرتی اور انسانی وسائل رکھنے کے باوجود معاشی ترقی کی اس دوڑ میں بہت پیچھے ہے۔
چین اور بھارت کے بارے میں عالمی ماہرین کا کہنا ہے کہ 2020ء تک یہ دونوں ممالک بالترتیب عالمی اور ایشیائی معاشی سپر پاور بن جائیں گے۔ جب کہ جنوبی کوریا اور انڈونیشیاء ذراسے فرق سے ان کے پیچھے ہوں گے۔اس کا سبب یہ بیان کیا جارہاہے کہ ان دونوں ممالک نے تبدیل ہوتے عالمی منظر نامے کو سمجھتے ہوئے اپنی تمامتر توجہ معاشتی ترقی پر مرکوز کی ہے۔
ان دونوں ممالک نے اپنے دیرینہ اور روایتی اختلافات اور تنازعات،جن میں تبت اور سکم کے بعض علاقوں پردعوے بھی شامل ہیں،پس پشت ڈالتے ہوئے باہمی تجارت کے حجم میں اضافہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ایک اندازے کے مطابق 2015ء تک چین اور بھارت کے درمیان تجارت کا حجم 1000 ہزار بلین ڈالر سالانہ تک پہنچ جانے کی توقع ہے۔جو اس خطے میں تجارت کا سب سے بڑا حجم ہوگا ۔اس رویے سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ان دونوں ممالک نے معاشی استحکام اور بہتر مستقبل کی خاطراپنے اختلافات کو ایک طرف رکھ دیاہے۔
جنوبی ایشیائی ممالک کی تنظیم ''سارک'' گوکہ 1984ء میں وجود میں آگئی تھی،لیکن پاکستان اور بھارت کے درمیان موجود تنازعات کے باعث یہ تنظیم آسیان کی طرز پر زیادہ فعال نہیںہوسکی۔اس سلسلے میں معاشی ماہرین پاکستانی اسٹبلشمنٹ پر الزام عائد کرتے ہیں کہ اس نے سرد جنگ کے خاتمے کے بعد بھی اس دور کی خارجہ پالیسی کو جاری رکھتے ہوئے تجارتی تعلقات کوتنازعات کے حل سے مشروط کیے جانے پر اصر ارکیا۔جس کا نقصان صرف پاکستان کو اٹھانا پڑاہے،کیونکہ پاکستان اپنی اس پالیسی کی وجہ سے علاقائی تجارت میں کوئی خاطرکردار ادا نہیں کرسکا۔
دوسرے پاکستانی حکمرانوں نے 1960 کے بعد سے صنعتی انفرااسٹرکچر کو بہتر بنانے اور صنعتکاری کوجدید خطوط پر استوار کرنے کے بجائے اپنی توجہ بیرونی امداد پر مرکوز رکھی۔جس کی وجہ سے پاکستان میں صنعتی میدان میں کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہوسکی۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کا تجارتی توازن بگڑتا چلاگیا گیا اور اس کی درآمدات کی شرح برآمدات کے مقابلے میں کئی گنا بڑھ گئی۔
علاقائی تجارت میں بھی پاکستان کا کردار نہایت واجبی ہے۔جس کی مثال یہ ہے کہ اس وقت پاکستان کا درآمدی بل12بلین ڈالرسالانہ کے قریب ہے، جس میں سے صرف600ملین ڈالرکی برآمدات جنوبی ایشیائی ممالک کی جاتی ہیں۔گویا خطے کے ممالک سے درآمدات پرکل درآمدات کاصرف2فیصد خرچ کیاجاتا ہے۔ اس کے علاوہ سرکاری چینلوں کے ذریعے پاک بھارت تجارت کا حجم293.74ملین ڈالرکے لگ بھگ ہے، جس میں55.41ملین ڈالر کی برآمدات ہیں، جب کہ 238.33 ملین ڈالرکی درآمدات ہیں۔ یوں ایک تودونوں ممالک کے درمیان تجارتی حجم بہت کم ہے اور دوسرے اس کا توازن بھی پاکستان کے حق میں نہیں ہے۔
دراصل پاکستانی اسٹبلشمنٹ کاایک نمایاں حصہ ابتداء ہی سے بھارت کے ساتھ مخاصمانہ پالیسی کو پاکستان کی بقاء کے لیے ضروری سمجھتارہا ہے۔اس حلقے کا تصور تھا کہ بھارت کومختلف طریقوں سے زچ کرکے تنازعات کے حل پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔ یہ پالیسی سرد جنگ کے خاتمے کے بعد بری طرح ناکام ہوگئی، مگر یہ حلقہ اسی خوش فہمی میں رہا کہ بعض دوست ممالک کے تعاون سے اس پالیسی کو جاری رکھ سکے گا۔لیکن وہ چین جس پر پاکستان کو سب سے زیادہ تکیہ تھا خود اس نے بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات کو بحال کرکے پاکستان کے لیے خطے میں نئی مشکلات پیدا کردی۔
دوسری طرف 9/11کے بعد جب امریکی اہداف اور پالیسیوں میں تبدیلیاں آنا شروع ہوئیں تو پاکستان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوا۔اس صورتحال نے پاکستانی اسٹبلشمنٹ کو مختلف آپشنزپرغور کرنے پر مجبور کیا۔لیکن پالیسی سازی پر وہ حلقہ ہی حاوی رہا، جو بھارت کے ساتھ تعلقات میںکسی قسم کی بہتری کا حامی نہیں تھا۔مگر جب افغانستان کے مسئلے پر امریکا کے ساتھ تعلقات میں سرد مہری انتہائوں کو چھونے لگی اور نیٹو سپلائی پر بندش نے نزاعی صورت اختیارکی تو اسٹبلشمنٹ کے بعض اندرونی حلقوں نے بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات کی بحالی سمیت بعض دیگر آپشنز اختیار کرنے پر دبائو بڑھانا شروع کیا،تاکہ پاکستان کی ڈوبتی معیشت کو سہارا دیا جاسکے۔
یہاں ایک بار پھر عرض ہے کہ بھارت کی جانب سے پاکستانی سرمایہ کاروں کو بھارت میں سرمایہ کاری کی اجازت دینا،دو طرفہ تعلقات میں بہتری کی جانب ایک اچھی پیش رفت ضرور ہے۔لیکن پاکستان کو فوائداسی وقت حاصل ہوسکیں گے، جب سرمایہ کاری کا یہ عمل دوطرفہ ہوگا۔پاکستان میں سیاسی انتشار، امن وامان کی مخدوش صورتحال اورتوانائی کے بحران کی وجہ سے ملکی سرمایہ پہلے ہی دیگر ممالک کی طرف منتقل ہورہاہے۔جو اب بھارت میں بھی قانونی طورپر منتقل ہوسکے گا۔
جس کے نتیجے میں پاکستان کے مکمل طورپر ایک صارف ملک میں تبدیل ہوجانے کے امکانات کورد نہیں کیا جاسکتا۔ اس صورتحال سے نکلنے کے لیے ضروری ہے کہ پاکستانی منصوبہ ساز بھارت سمیت جنوبی ایشیاء کے سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے پرکشش ترغیبات دیں۔اس کے علاوہ پاکستان میں صنعتی انفرااسٹرکچر کو جدید خطوط پر استوار کرنے، امن وامان کی صورتحال کو بہتر بنانے اورٹیکسوں کے نظام میں اصلاحات لانے پر ترجیحی بنیادوںپرتوجہ دی جائے۔
یہ طے ہے کہ وقت اور حالات اپنی سمت کا خود تعین کرتے ہیں۔تاریخ کے دھارے کو غیر فطری طریقوں سے زیادہ عرصہ روکا نہیں جاسکتا۔تنائو ملکوں اور قوموں کودیمک کی طرح چاٹ جاتے ہیں۔ دلیل ومکالمہ تنازعات کوحل کرنے،افہام وتفہیم پیداکرنے اور اعتماد سازی میں کلیدی کردار ادا کرتاہے ۔ جنگیں غربت، افلاس اور بربادی کاپیش خیمہ ہوتی ہیں،جب کہ امن ترقی کا ضامن ہوتا ہے۔ رجعت جمود اور قنوطیت کوجنم دیتی ہے، رجائیت عزم وحوصلہ کو پروان چڑھاتی ہے اور ترقی کے نئے دریچے کھولتی ہے۔
آج کی دنیا ماضی کی دنیا سے بہت مختلف ہے ،اسی لیے اس کی ضروریات بھی مختلف ہیں۔جن لوگوںیاقوموں نے اس حقیقت کو سمجھ لیا ترقی نے ان کے قدم چومے ہیں۔آج معاشی ترقی کا محور یورپ سے ایشیاء کی طرف منتقل ہورہاہے۔ایشیاء کو آنے والی دہائیوں میں دنیا کی قیادت کرنے ہے ۔بالکل اسی طرح جس طرح چار صدیوں سے یورپ کرتا رہا ہے اور آج امریکا کررہاہے۔یہ اسی وقت ممکن ہے جب ایشیائی ممالک کی قیادتیں سیاسی عزم وبصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے چھوٹے موٹے اختلافات کونظرانداز کریں اور آگے بڑھنے کی جستجو کریں۔
اس میں شک نہیں کہ پاکستان فطری طورپر جنوبی ایشیاء کا حصہ ہے اورپاکستان کی ترقی اس خطے کی ترقی سے مشروط ہے۔مگراس ترقی کا حصہ بننے کے لیے پاکستان کوخود اپنے صنعتی ڈھانچہ کو فعال بنانے،اپنے وسائل کا صحیح استعمال کرنے اور نظام حکمرانی کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔تاکہ پاکستان بھی دیگر ممالک کے شانہ بشانہ ترقی کے ثمرات سے بہرہ مند ہوسکے۔اس لیے اس موقعے سے فائدہ اٹھانے کے لیے جب تک مناسب منصوبہ بندی کے ذریعے اپنے اندرونی ڈھانچے کو جدید خطورپر استوارنہیں کیا جاتا، بہتر نتائج کی توقع نہیں کی جاسکتی۔