سندھ کی سیاست میں فیئر پلے کی ضرورت
متحدہ پاکستان اور متحدہ لندن کے مابین لاتعلقی پر ہونے والی کشمکش کا اب منطقی نتیجہ نکلنا چاہیے
اتوار کو پاک سرزمین پارٹی کے صدر انیس قائم خانی و دیگر رہنمائوں کے ہمراہ پاکستان ہائوس میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر ارشد وہرہ نے ایم کیوایم کو خیرباد اور پی ایس پی جوائن کرنے کا اعلان کیا۔ انھوں نے ڈپٹی میئر کے عہدے سے بھی مستعفی ہونے کا اعلان کیا۔ایم کیوایم کو درپیش بحران بلاشبہ اپنی سنگینی کے اعتبار سے قابل غور ہے اور سیاسی پولیرائزیشن کی موجودہ صورتحال کے تناظر میں نہ صرف ملک کے لیے بلکہ سندھ کی داخلی اربن اور دیہی صورتحال کے حوالہ سے سوالیہ نشان ہے، متحدہ کا فشار یا پی ایس پی کی مقبولیت اگر شفاف جمہوری تسلسل سے جڑا ہوا ہے تو سیاسی وفاداریوں میں تبدیلی شجر ممنوعہ نہیں تاہم شہر قائد کی آیندہ سیاسی صورت گری اور اس کی پر امن جمہوری سمت کے تعین کے لیے لازم ہے کہ سندھ حکومت ، دیگر سیاسی جماعتیں اس عمل میں ایک صائب کردار ادا کریں۔
صوبہ میں فیئر پلے کو یقینی بنانے کے لیے سیاسی شراکت دار مناسب ماحول پیدا کریں جس میں سیاسی اختلاف کو جمہوریت کے حسن سے تعبیر کرتے ہوئے اسے عملی طور پر ثابت بھی کیا جاسکے۔اس میں شک نہیں کہ سندھ کثیرالمشرب اور مختلف قومیتوں کا ایک خوبصورت امتزاج پیش کرتا ہے،ایم کیو ایم نے اپنی آفرینیش سے لے کر مہاجر فیکٹر کے پلیٹ فارم تک ملکی سیاست میں اہم رول ادا کیا ہے، مگر متحدہ قومی موومنٹ جس بڑے پیمانہ پر شکست وریخت سے دوچار ہوئی ہے وہ بھی کسی المیہ سے کم نہیں، ارشد وہرہ کے مطابق پارٹی کی غلط پالیسیوں نے پارٹی میں گھٹن پیدا کی، ہر کوئی مایوس ہے، بہرحال سندھ کی سیاست میں اردو بولنے والوں کو مائنس نہیں کیا جا سکتا، ایم کیو ایم ماضی میں سندھ کی دوسری بڑی سیاسی قوت تسلیم کی گئی ، لیکن متحدہ کی اعلیٰ قیادت کی غلط پالیسیوں اور پاکستان مخالف انداز فکر سے شہر قائد کی سیاست میں غیر معمولی ارتعاش پیدا ہوا جس کا تسلسل جاری ہے۔
متحدہ پاکستان اور متحدہ لندن کے مابین لاتعلقی پر ہونے والی کشمکش کا اب منطقی نتیجہ نکلنا چاہیے، ارباب سیاست ایم کیو ایم فیکٹر کو پوائنٹ اسکورنگ کا ذریعہ بنانے سے گریز کریں ۔ وزیراعلیٰ سندھ جمہوری اسپرٹ کے ساتھ سب کو ساتھ لے کر چلیں۔ اب ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ کراچی پھر سے بد امنی کا شکار نہ ہو، سیاست دان تدبر، سنجیدگی اور بردباری سے کام لیں، ایم کیوایم پاکستان ، پی ایس پی اور ایم کیو ایم حقیقی کی قیادت سمیت اردو بولنے والی کمیونٹی کے مین اسٹریم کو بلاتاخیر اعتماد میں لیتے ہوئے سیاسی رواداری سے مسائل کا حل نکالا جائے۔
صوبہ میں فیئر پلے کو یقینی بنانے کے لیے سیاسی شراکت دار مناسب ماحول پیدا کریں جس میں سیاسی اختلاف کو جمہوریت کے حسن سے تعبیر کرتے ہوئے اسے عملی طور پر ثابت بھی کیا جاسکے۔اس میں شک نہیں کہ سندھ کثیرالمشرب اور مختلف قومیتوں کا ایک خوبصورت امتزاج پیش کرتا ہے،ایم کیو ایم نے اپنی آفرینیش سے لے کر مہاجر فیکٹر کے پلیٹ فارم تک ملکی سیاست میں اہم رول ادا کیا ہے، مگر متحدہ قومی موومنٹ جس بڑے پیمانہ پر شکست وریخت سے دوچار ہوئی ہے وہ بھی کسی المیہ سے کم نہیں، ارشد وہرہ کے مطابق پارٹی کی غلط پالیسیوں نے پارٹی میں گھٹن پیدا کی، ہر کوئی مایوس ہے، بہرحال سندھ کی سیاست میں اردو بولنے والوں کو مائنس نہیں کیا جا سکتا، ایم کیو ایم ماضی میں سندھ کی دوسری بڑی سیاسی قوت تسلیم کی گئی ، لیکن متحدہ کی اعلیٰ قیادت کی غلط پالیسیوں اور پاکستان مخالف انداز فکر سے شہر قائد کی سیاست میں غیر معمولی ارتعاش پیدا ہوا جس کا تسلسل جاری ہے۔
متحدہ پاکستان اور متحدہ لندن کے مابین لاتعلقی پر ہونے والی کشمکش کا اب منطقی نتیجہ نکلنا چاہیے، ارباب سیاست ایم کیو ایم فیکٹر کو پوائنٹ اسکورنگ کا ذریعہ بنانے سے گریز کریں ۔ وزیراعلیٰ سندھ جمہوری اسپرٹ کے ساتھ سب کو ساتھ لے کر چلیں۔ اب ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ کراچی پھر سے بد امنی کا شکار نہ ہو، سیاست دان تدبر، سنجیدگی اور بردباری سے کام لیں، ایم کیوایم پاکستان ، پی ایس پی اور ایم کیو ایم حقیقی کی قیادت سمیت اردو بولنے والی کمیونٹی کے مین اسٹریم کو بلاتاخیر اعتماد میں لیتے ہوئے سیاسی رواداری سے مسائل کا حل نکالا جائے۔