ان کا درد ہم بھی محسوس کریں
اگست کے بعد سے اب میانمار سے ہجرت کرنے والے روہنگیا مسلمانوں کی تعداد چھ لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے
خدا نہ کرے کسی کے ساتھ بھی ایسا ہو، لیکن پھر بھی آنکھیں بند کر کے چند منٹ کے لیے سوچیں تو سہی! شاید ان کا کچھ درد ہم بھی محسوس کرسکیں، اگر ہم ایک ایسے علاقے میں رہتے ہوں، جہاں ہماری آنکھوں کے سامنے انسانیت سوز مظالم کی ایک نئی تاریخ رقم کی جائے۔ اس علاقے کے لوگوں سے زندگی کی ہر سہولت چھین لی گئی ہو۔
حکومت اس علاقے میں بسنے والوں کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک کرے۔ حکومت نہ صرف اس علاقے کے لوگوں سے حق شہریت چھین لے، بلکہ فوراً ملک سے نکل جانے کے احکامات جاری کردے۔ اس علاقے میں رہنے والوں کو بے دریغ قتل کیا جائے۔ خواتین کی عصمت دری کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا جائے۔ پکے گھر بنانے کی اجازت تو پہلے سے ہی نہ ہو اور اب اس علاقے میں جھونپڑی نما گھروں کو بھی جلادیا جائے۔ چند روز میں ہی سیکڑوں بستیوں کو خاکستر کردیا جائے۔ عبادت گاہوں اور مذہبی کتابوں کو بھی آگ لگادی جائے۔
حکومت کی جانب سے ان پر ہر قسم کا ظلم کیا جائے۔ 70، 80سال سے ہمارے علاقے کے لوگ اس کرب میں زندگی گزارنے پر مجبور ہوں ۔ ساری دنیا کو ہماری بے بسی اور ظالموں کی درندگی کا علم ہو، لیکن کوئی بھی ظالم کا ہاتھ روکنے کی کوشش نہ کرے۔ انسانی حقوق کے علمبردار ادارے اور تنظیمیں بھی بلوں میں جا گھسیں ۔ اقوام متحدہ ہم پر ہونے والے مظالم کو نسل کشی تو قرار دے، لیکن اس نسل کشی کو روکنے کی کوئی سبیل نہ نکالے۔ دنیا میں درجنوں ممالک میں بستے ہم مظلوموں کے کروڑوں اہل مذہب بھی ستو پی کر سو جائیں،حالانکہ ان کی تھوڑی سی توجہ اور سنجیدگی سے یہ مظالم رک سکتے ہوں، لیکن وہ توجہ دینے کو بھی تیار نہ ہوں۔
خدا نہ کرے کسی کے ساتھ بھی ایسا ہو، لیکن پھر بھی آنکھیں بند کر کے چند منٹ کے لیے سوچیں تو سہی! شاید ان کا کچھ درد ہم بھی محسوس کرسکیں۔ایک دن فوج اور پولیس کی سرپرستی میں اسلحہ سے لیس غنڈے پٹرول کی بوتلوں کے ساتھ اس علاقے کی بستیوں میں گھس کر گھروں کو آگ لگانا شروع کردیں۔درندہ صفت فوجی گھروں میں موجود خواتین کو ساتھ لے جائیں۔ مردوں کو ایک لائن میں کھڑا کر کے گولیوں سے بھون دیں۔ زندہ بچ جانے والے لوگ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر صرف اپنی جان بچانے کے لیے بھاگ کھڑے ہوں۔
تمام بستیوں سے اسی طرح لوگ بھاگ کر جان بچائیں۔ کسی بھی گھر کے تمام افراد سلامت نہ رہیں۔ کسی گھر سے والد زندہ بچا تو بیٹا قتل کردیا گیا ہو۔ کہیں بیٹا بچا تو والد قتل کردیا گیا ہو۔ کہیں ماں انسان نما درندوں کے نیزوں کا نشانہ بن گئی ہو تو کہیں بہنیں درندوں کی ہوس کا نشانہ بننے کے بعد موت کے گھاٹ اتار دی گئی ہوں۔ کہیں والدین کے سامنے بلکتے بچوں کو آگ میں پھینک دیا گیا ہو تو کہیں بچوں کے سامنے والدین کو ذبح کردیا گیا ہو۔ بہت سے کوشش کے باوجود موت سے نہ بچ پائے ہوں اور کئیوں کے مقدر میں بچنے کے باوجود بھی مرتے دم تک روز مرنا لکھا ہو۔
چھ لاکھ سے زیادہ لوگ دو اڑھائی ماہ میں سمندر عبور کر کے اپنی جان بچا کر اس علاقے سے اس امید پر نکلیں کہ شاید انسانوں کی دنیا میں کوئی تو ان کی مدد کرے، ان کے زخموں پر مرحم لگائے، کوئی تو انھیں انسان سمجھے، لیکن بعد میں انھیں معلوم ہو کہ دنیا انھیں انسان سمجھنے کے لیے بھی تیار نہیں ہے، کیونکہ اگر انسان سمجھتی تو ان پر ہونے والے مظالم تو رکوانے کی کوشش کرتی، مگر سیکڑوں ممالک کی اس دنیا میں کوئی ملک بھی ظالم کا ہاتھ نہیں پکڑتا۔
خدا نہ کرے کسی کے ساتھ بھی ایسا ہو، لیکن پھر بھی آنکھیں بند کر کے چند منٹ کے لیے سوچیں تو سہی! شاید ان کا کچھ درد ہم بھی محسوس کرسکیں۔ جب یہ لوگ کسی دوسرے ملک میں پناہ لینا چاہیں تو کوئی ان کو پناہ دینے کے لیے تیار نہ ہو۔ پناہ لینے کے لیے یہ لوگ دردر کی ٹھوکریں کھاتے پھریں۔ ان کو جینے کی آزادی ہو، نہ ہی مرنے کی۔ ہر ملک ان کو بوجھ سمجھ کر اپنے ملک میں داخلے کے دروازے ان پر بند کردے۔ یہ لوگ اپنے مذہب والوں کے ایک ملک کی سرحد پر ہاتھ جوڑ کر پناہ کی بھیک مانگیں، لیکن جواب میں ان پر گولیاں چلادی جائیں۔
کئی دن یہ لوگ اسی طرح بے یارومددگار کھلے آسمان تلے سرحد پر پڑے رہیں۔ پھر یہ ملک پناہ دینے پر راضی تو ہوجائے، لیکن اپنے ملک کی آبادی سے بہت دور، جہاں سہولیات زندگی تو کیا، زندگی کے آثار بھی کم ہی ہوں۔ یہ لوگ بے یارومددگار کھلے آسمان تلے بسیرا کر لیں۔ ان کے پاس کھانے کے لیے کھانا ہو، نہ پینے کے لیے صاف پانی۔ تن ڈھانپنے کے لیے کپڑا اور نہ سر چھپانے کے لیے چھت ہو، لیکن یہ لوگ اسی میں خوش ہوں کہ جان تو بچ گئی، لیکن سمندر کنارے کیمپوں میں جہاں ٹہرایا گیا ہو، وہاں انھیں زندہ رہنے کے لیے روز مرنا پڑتا ہو، بلکہ انھیں یہ بھی معلوم نہ ہو کہ انھیں بقیہ زندگی انھیں جیل نما کیمپوں میں گزارنی ہے یا انھیں واپس بھیج دیا جائے گا، جہاں انھیں گاجر مولی کی طرح کاٹا گیا تھا۔
انھیں کچھ معلوم نہ ہو کہ ان کی آیندہ نسلیں ضروریات زندگی سے محروم اور تعلیم سے کوسوں دور نارمل زندگی کیسے گزاریں گی، کیونکہ جو بچے اپنے والدین کو مرتا اور اپنے گھروں کو جلتا دیکھتے، اپنے ماؤں کی عصمت دری ہوتے اور خود دربدرہوتے جوان ہوئے ہوں گے، وہ ایک نارمل زندگی گزارنے کا حوصلہ کس طرح پیدا کرسکتے ہیں؟
خدا نہ کرے کسی کے ساتھ بھی ایسا ہو، لیکن پھر بھی آنکھیں بند کر کے چند منٹ کے لیے سوچیں تو سہی! شاید ان کا کچھ درد ہم بھی محسوس کرسکیں۔ یہ سب کچھ جو آنکھیں بند کر کے چند منٹ کے لیے صرف سوچنے سے ہی ہمارے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں، وہ سب میانمار کے باسی روہنگیا مسلمان اپنی جانوں پر برسوں سے بیت رہے ہیں۔ اگست کے بعد سے میانمار میںہزاروں روہنگیا مسلمان قتل کردیے گئے۔ سیکڑوں بستیاں جلادی گئیں۔ ہزاروں خواتین کو بدترین جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ بچوں، بوڑھوں اور خواتین کو آگ لگائی گئی۔ روہنگیا مسلمانوں پر ہر وہ ظلم کیا، جو ہوسکتا تھا، جس کے صرف تصور سے ہی پورے جسم پر کپکپی طاری ہوجاتی ہے اور کلیجہ منہ کو آتا ہے۔
شروع میں کئی ممالک میں ان مظلوموں کے لیے آواز بلند کی گئی، لیکن چند روز میں ہی سب کچھ بھلا دیا گیا۔ اگست سے لے کر اب تک میانمار میں کچھ دن کے لیے بھی روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی نہیں رکی۔ اب بھی مظالم بالکل اسی طرح جاری ہیں، جس طرح پہلے تھے، لیکن ساری دنیا اندھی، گونگی، بہری ہوچکی ہے۔ دنیا نے مظلوم و بے بس روہنگیا مسلمانوں کو مرنے کے لیے چھوڑ دیا ہے۔ یہ انسانی بحران دن بدن سنگین سے سنگین تر ہوتا جا رہا ہے۔ نہ تو عالم اسلام کو ہوش آرہا ہے اور نہ ہی عالمی برادری کی مفافقت ختم ہوتی ہے۔
اگست کے بعد سے اب میانمار سے ہجرت کرنے والے روہنگیا مسلمانوں کی تعداد چھ لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے اور بنگلادیش کیمپوں میں جو روہنگیا مہاجرین بہت تکلیف میں ہے، کیونکہ وہاں کھانے، پینے، طبی سہولیات سمیت کوئی بھی سہولت نہیں ہے، بیماریاں بڑھ رہی ہیں، جن کی وجہ سے آئے دن روہنگیا بچوں اور بڑوں کی اموات ہورہی ہیں۔
ایسے میں ایک طرف مسلم ممالک گہری نیند سوئے پڑے ہیں تو دوسری جانب عالمی برادری نے انتہائی غفلت کا شرمناک کردار ادا کیا ہے کہ خود اقوام متحدہ کے دو خصوصی مشیربھی بول پڑے ہیں کہ روہنگیا برادری پر مظالم کی روک تھام کے سلسلے میں بین الاقوامی برادری بھی اتنی ہی بری طرح ناکام ہو گئی، جتنا کہ میانمار کی حکومت اس معاملہ میں ناکام رہی۔حقیقت یہ ہے کہ اقوام متحدہ نے ہمیشہ کی طرح روہنگیا مسلمانوں کے معاملے میں بھی منافقانہ کردار ادا کیا ہے۔
حکومت اس علاقے میں بسنے والوں کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک کرے۔ حکومت نہ صرف اس علاقے کے لوگوں سے حق شہریت چھین لے، بلکہ فوراً ملک سے نکل جانے کے احکامات جاری کردے۔ اس علاقے میں رہنے والوں کو بے دریغ قتل کیا جائے۔ خواتین کی عصمت دری کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا جائے۔ پکے گھر بنانے کی اجازت تو پہلے سے ہی نہ ہو اور اب اس علاقے میں جھونپڑی نما گھروں کو بھی جلادیا جائے۔ چند روز میں ہی سیکڑوں بستیوں کو خاکستر کردیا جائے۔ عبادت گاہوں اور مذہبی کتابوں کو بھی آگ لگادی جائے۔
حکومت کی جانب سے ان پر ہر قسم کا ظلم کیا جائے۔ 70، 80سال سے ہمارے علاقے کے لوگ اس کرب میں زندگی گزارنے پر مجبور ہوں ۔ ساری دنیا کو ہماری بے بسی اور ظالموں کی درندگی کا علم ہو، لیکن کوئی بھی ظالم کا ہاتھ روکنے کی کوشش نہ کرے۔ انسانی حقوق کے علمبردار ادارے اور تنظیمیں بھی بلوں میں جا گھسیں ۔ اقوام متحدہ ہم پر ہونے والے مظالم کو نسل کشی تو قرار دے، لیکن اس نسل کشی کو روکنے کی کوئی سبیل نہ نکالے۔ دنیا میں درجنوں ممالک میں بستے ہم مظلوموں کے کروڑوں اہل مذہب بھی ستو پی کر سو جائیں،حالانکہ ان کی تھوڑی سی توجہ اور سنجیدگی سے یہ مظالم رک سکتے ہوں، لیکن وہ توجہ دینے کو بھی تیار نہ ہوں۔
خدا نہ کرے کسی کے ساتھ بھی ایسا ہو، لیکن پھر بھی آنکھیں بند کر کے چند منٹ کے لیے سوچیں تو سہی! شاید ان کا کچھ درد ہم بھی محسوس کرسکیں۔ایک دن فوج اور پولیس کی سرپرستی میں اسلحہ سے لیس غنڈے پٹرول کی بوتلوں کے ساتھ اس علاقے کی بستیوں میں گھس کر گھروں کو آگ لگانا شروع کردیں۔درندہ صفت فوجی گھروں میں موجود خواتین کو ساتھ لے جائیں۔ مردوں کو ایک لائن میں کھڑا کر کے گولیوں سے بھون دیں۔ زندہ بچ جانے والے لوگ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر صرف اپنی جان بچانے کے لیے بھاگ کھڑے ہوں۔
تمام بستیوں سے اسی طرح لوگ بھاگ کر جان بچائیں۔ کسی بھی گھر کے تمام افراد سلامت نہ رہیں۔ کسی گھر سے والد زندہ بچا تو بیٹا قتل کردیا گیا ہو۔ کہیں بیٹا بچا تو والد قتل کردیا گیا ہو۔ کہیں ماں انسان نما درندوں کے نیزوں کا نشانہ بن گئی ہو تو کہیں بہنیں درندوں کی ہوس کا نشانہ بننے کے بعد موت کے گھاٹ اتار دی گئی ہوں۔ کہیں والدین کے سامنے بلکتے بچوں کو آگ میں پھینک دیا گیا ہو تو کہیں بچوں کے سامنے والدین کو ذبح کردیا گیا ہو۔ بہت سے کوشش کے باوجود موت سے نہ بچ پائے ہوں اور کئیوں کے مقدر میں بچنے کے باوجود بھی مرتے دم تک روز مرنا لکھا ہو۔
چھ لاکھ سے زیادہ لوگ دو اڑھائی ماہ میں سمندر عبور کر کے اپنی جان بچا کر اس علاقے سے اس امید پر نکلیں کہ شاید انسانوں کی دنیا میں کوئی تو ان کی مدد کرے، ان کے زخموں پر مرحم لگائے، کوئی تو انھیں انسان سمجھے، لیکن بعد میں انھیں معلوم ہو کہ دنیا انھیں انسان سمجھنے کے لیے بھی تیار نہیں ہے، کیونکہ اگر انسان سمجھتی تو ان پر ہونے والے مظالم تو رکوانے کی کوشش کرتی، مگر سیکڑوں ممالک کی اس دنیا میں کوئی ملک بھی ظالم کا ہاتھ نہیں پکڑتا۔
خدا نہ کرے کسی کے ساتھ بھی ایسا ہو، لیکن پھر بھی آنکھیں بند کر کے چند منٹ کے لیے سوچیں تو سہی! شاید ان کا کچھ درد ہم بھی محسوس کرسکیں۔ جب یہ لوگ کسی دوسرے ملک میں پناہ لینا چاہیں تو کوئی ان کو پناہ دینے کے لیے تیار نہ ہو۔ پناہ لینے کے لیے یہ لوگ دردر کی ٹھوکریں کھاتے پھریں۔ ان کو جینے کی آزادی ہو، نہ ہی مرنے کی۔ ہر ملک ان کو بوجھ سمجھ کر اپنے ملک میں داخلے کے دروازے ان پر بند کردے۔ یہ لوگ اپنے مذہب والوں کے ایک ملک کی سرحد پر ہاتھ جوڑ کر پناہ کی بھیک مانگیں، لیکن جواب میں ان پر گولیاں چلادی جائیں۔
کئی دن یہ لوگ اسی طرح بے یارومددگار کھلے آسمان تلے سرحد پر پڑے رہیں۔ پھر یہ ملک پناہ دینے پر راضی تو ہوجائے، لیکن اپنے ملک کی آبادی سے بہت دور، جہاں سہولیات زندگی تو کیا، زندگی کے آثار بھی کم ہی ہوں۔ یہ لوگ بے یارومددگار کھلے آسمان تلے بسیرا کر لیں۔ ان کے پاس کھانے کے لیے کھانا ہو، نہ پینے کے لیے صاف پانی۔ تن ڈھانپنے کے لیے کپڑا اور نہ سر چھپانے کے لیے چھت ہو، لیکن یہ لوگ اسی میں خوش ہوں کہ جان تو بچ گئی، لیکن سمندر کنارے کیمپوں میں جہاں ٹہرایا گیا ہو، وہاں انھیں زندہ رہنے کے لیے روز مرنا پڑتا ہو، بلکہ انھیں یہ بھی معلوم نہ ہو کہ انھیں بقیہ زندگی انھیں جیل نما کیمپوں میں گزارنی ہے یا انھیں واپس بھیج دیا جائے گا، جہاں انھیں گاجر مولی کی طرح کاٹا گیا تھا۔
انھیں کچھ معلوم نہ ہو کہ ان کی آیندہ نسلیں ضروریات زندگی سے محروم اور تعلیم سے کوسوں دور نارمل زندگی کیسے گزاریں گی، کیونکہ جو بچے اپنے والدین کو مرتا اور اپنے گھروں کو جلتا دیکھتے، اپنے ماؤں کی عصمت دری ہوتے اور خود دربدرہوتے جوان ہوئے ہوں گے، وہ ایک نارمل زندگی گزارنے کا حوصلہ کس طرح پیدا کرسکتے ہیں؟
خدا نہ کرے کسی کے ساتھ بھی ایسا ہو، لیکن پھر بھی آنکھیں بند کر کے چند منٹ کے لیے سوچیں تو سہی! شاید ان کا کچھ درد ہم بھی محسوس کرسکیں۔ یہ سب کچھ جو آنکھیں بند کر کے چند منٹ کے لیے صرف سوچنے سے ہی ہمارے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں، وہ سب میانمار کے باسی روہنگیا مسلمان اپنی جانوں پر برسوں سے بیت رہے ہیں۔ اگست کے بعد سے میانمار میںہزاروں روہنگیا مسلمان قتل کردیے گئے۔ سیکڑوں بستیاں جلادی گئیں۔ ہزاروں خواتین کو بدترین جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ بچوں، بوڑھوں اور خواتین کو آگ لگائی گئی۔ روہنگیا مسلمانوں پر ہر وہ ظلم کیا، جو ہوسکتا تھا، جس کے صرف تصور سے ہی پورے جسم پر کپکپی طاری ہوجاتی ہے اور کلیجہ منہ کو آتا ہے۔
شروع میں کئی ممالک میں ان مظلوموں کے لیے آواز بلند کی گئی، لیکن چند روز میں ہی سب کچھ بھلا دیا گیا۔ اگست سے لے کر اب تک میانمار میں کچھ دن کے لیے بھی روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی نہیں رکی۔ اب بھی مظالم بالکل اسی طرح جاری ہیں، جس طرح پہلے تھے، لیکن ساری دنیا اندھی، گونگی، بہری ہوچکی ہے۔ دنیا نے مظلوم و بے بس روہنگیا مسلمانوں کو مرنے کے لیے چھوڑ دیا ہے۔ یہ انسانی بحران دن بدن سنگین سے سنگین تر ہوتا جا رہا ہے۔ نہ تو عالم اسلام کو ہوش آرہا ہے اور نہ ہی عالمی برادری کی مفافقت ختم ہوتی ہے۔
اگست کے بعد سے اب میانمار سے ہجرت کرنے والے روہنگیا مسلمانوں کی تعداد چھ لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے اور بنگلادیش کیمپوں میں جو روہنگیا مہاجرین بہت تکلیف میں ہے، کیونکہ وہاں کھانے، پینے، طبی سہولیات سمیت کوئی بھی سہولت نہیں ہے، بیماریاں بڑھ رہی ہیں، جن کی وجہ سے آئے دن روہنگیا بچوں اور بڑوں کی اموات ہورہی ہیں۔
ایسے میں ایک طرف مسلم ممالک گہری نیند سوئے پڑے ہیں تو دوسری جانب عالمی برادری نے انتہائی غفلت کا شرمناک کردار ادا کیا ہے کہ خود اقوام متحدہ کے دو خصوصی مشیربھی بول پڑے ہیں کہ روہنگیا برادری پر مظالم کی روک تھام کے سلسلے میں بین الاقوامی برادری بھی اتنی ہی بری طرح ناکام ہو گئی، جتنا کہ میانمار کی حکومت اس معاملہ میں ناکام رہی۔حقیقت یہ ہے کہ اقوام متحدہ نے ہمیشہ کی طرح روہنگیا مسلمانوں کے معاملے میں بھی منافقانہ کردار ادا کیا ہے۔