عمران خان کے نام
میں نے یہ تحریر عمران خان کے کسی الزام کا جواب دینے کے لیے نہیں لکھی ہے۔
عمران خان ایک بار پھر سندھ تشریف لائے اور ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر وہی زبان استعمال کی جو ان کی وجہ شہرت ہے۔ جس کی شکایت کرنا عبث ہے، بزرگوں کا کہنا ہے'' آدمی عادت چھوڑسکتا ہے لیکن اس کی جبلت تبدیل نہیں ہوسکتی'' اور یہی کچھ الزام خان کے ساتھ بھی ہے، لیکن ہم عمران خان کے ساتھیوں سے تو شکایت کرسکتے ہیں۔ ان ساتھیوں سے جو سندھ کی روایات سے واقف ہیں۔ جو جانتے ہیں کہ سندھ کی دیرینہ روایات میں سے ایک روایت یہ بھی ہے کہ ہم اپنے دشمنوں کی بہن اور بیٹیوں کو اوطاق تک میں نہیں لاتے، ہوسکتا ہے ، بزرگوں کی اس بات کا اطلاق ہوتا ہو کہ بری صحبت انسان کو برا بنا دیتی ہے۔
میں نے یہ تحریر عمران خان کے کسی الزام کا جواب دینے کے لیے نہیں لکھی ہے۔ میں ان چند سطروں میں کہیں یہ نہیں لکھوںگی کہ پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرین کے صدرکے والد نے واپڈا میں اپنی ملازمت کے دوران کرپشن کے دوران اتنی دولت نہیں کمائی کہ 1973 میں راشی ہونے کے الزام میں برطرف ہونے کے بعد بقیہ زندگی نہ کوئی کاروبار کیا نہ کہیں نوکری کی بلکہ اس رشوت کی کمائی پر نہ صرف خود عیش سے زندگی گزاری بلکہ اپنے بچوں کی اسی طرح کی کمائی سے پرورش کی۔ عمران نیازی کے جواب میں یہ تحریر بھی نہیں کروںگی کہ ان کا یہ طرز عمل دراصل ان کی تربیت کی کمی کا مظہر ہے۔
صرف سیاسی تربیت کا بلکہ ذاتی تربیت کا بھی جبھی تو ان کی ذاتی زندگی اور سیاسی زندگی میں اتنے زیادہ مد وجزر ہیں کہ انھیں ہر سوال کے جواب میں بھی ایک نیا جھوٹ تراشنا پڑتا ہے اورکبھی ایک نیا یوٹرن لینا پڑتا ہے۔ کبھی نوے دن میں ملک کے ہر شعبے سے کرپشن ختم کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں اور چار برس بعد یہ کہنا پڑتا ہے کہ ''اچھا ہوا 2013 کے الیکشن میں ہم کامیاب نہیں ہوئے ورنہ اپنی ناتجربہ کاری سے ہم کے پی کے کی طرح وفاقی حکومت میں بھی ناکام ہوتے۔'' میں یہ نہیں کہنا چاہتی کہ آخر کیسے یہ موقف تبدیل ہوا کہ طالبان ہمارے بچھڑے بھائی ہیں اور ہم طالبان کو اپنے دفتر دے رہے ہیں۔
میرے لیے یہ بات بھی اہمیت نہیں رکھتی کہ زکوٰۃ خیرات اور چندے کی رقم سے ادارے میں آپ کے خاندان کا ایک ایک فرد لاکھوں روپے ماہانہ وصول کررہا ہے۔ میں نہیں کہنا چاہتی کہ الزام لگاکر معافی مانگنا آپ کی عادت ہے۔ کبھی سپریم کورٹ میں معافی تو الیکشن کمیشن کے آگے سرجھکا کر معافی مانگنا مجھے اس سے بھی غرض نہیں کہ کن اداروں کے کون سے افراد آپ کی در پردہ مدد کررہے ہیں یا کرتے رہے ہیں اور یہ بھی کہ وہ کون سی طاقتیں ہیں جن کی یقین دہانی پر آپ امپائر کی انگلی اٹھنے کی باتیں کرتے رہے ہیں۔
عمران نیازی میرا مسئلہ یہ بھی نہیں کہ آپ نے کبھی نوجوانوں سے کہا تھا کہ انتخابات میں آپ میرے امیدوار ہوںگے اور چلے ہوئے کارتوسوں کو مسترد کرکے ایک نئے سیاسی کلچر جنم دوںگا، لیکن پھر آپ نے اسٹیٹس کو کے نمایندوں کو اپنی جماعت کی پہلی صف میں نہ صرف جگہ دی بلکہ آج آپ کے دائیں بائیں وہی لوگ ہیں جنھیں کل تک آپ اسٹیٹس کو کے نمایندے قرار دیتے رہے ہیں۔
لاتعداد پارٹیاں بدلنے والے کو آپ وزیراعلیٰ نامزد کرتے ہیں اور جس شخص کو آپ چند برس پہلے تک چپراسی بھی نہیں رکھنا چاہتے تھے ، اسے آج آپ وزیراعظم کا امیدوار بناتے ہیں۔ میں یہ سوال بھی نہیں کرنا چاہتی کہ وہ شخص تبدیل ہوگیا یا آپ کی سوچ بدل دی گئی ہے۔ آخر ایسا کیوں ہے کہ آپ جب دوسروں پرگھٹیا زبان استعمال کرکے الزامات عاید کررہے ہوتے ہیں تو آپ کی اپنی جماعت کے لوگ آپ پر الزامات لگا کر پارٹی چھوڑ جاتے ہیں ۔ جسٹس (ر) وجہیہ اور ان کے ساتھی ہوں یا آپ کی پارٹی کے سابق صدر جاوید ہاشمی اور آپ کی رکن قومی اسمبلی عائشہ گلالئی سمیت بہت سے لوگ کہنے کو تو اور بھی بہت سی باتیں ہیں لیکن آج یہ تحریر لکھنے پر اس لیے مجبور ہوئی ہوں۔
عمران خان صاحب آپ کی زبان درازیاں اور آپ کے الزامات آپ کے جھوٹ کے ساتھ ساتھ آپ کی جہالت کا ثبوت بھی بن رہے ہیں۔کچھ عرصہ قبل آپ نے سندھ کے لوگوں کو زندہ لاشیں کہہ کر اپنی دریدہ دہنی کا ثبوت دیا تھا تو اب آپ نے سندھ کے عوام کو بیدار کردینے کا تاج پہن کر سندھ کی تاریخ سے ناواقفیت اور اپنی جہالت کا ثبوت دیا ہے۔
عمران نیازی! سندھ کے عوام ہمیشہ سے بیدار اور باشعور رہے ہیں۔ سندھ صرف صوفیا کی زمین نہیں بلکہ جواں مردوں اور بہادروں کی سرزمین ہے۔ آپ کے علم میں اضافہ کرتے ہوئے میں عرض کرنا چاہتی ہوں کہ ہم ایسے امن پسند ہیں اس جہاں میں جو موئن جو داڑو کے وارث ہیں جہاں سے کوئی ہتھیار برآمد نہیں ہوا جہاں ہم شاہ لطیف اور سچل سرمست کے امن پسند پیغام کے وارث ہیں وہیں ہم شاہ عنایت جیسے مجاہد کے بھی وارث ہیں جنھوں نے سندھ کی سرزمین پر بڑھتے ہوئے قدم روکنے کے لیے اپنی جان قربان کی تھی، ہم تالپوروں کے وارث ہیں۔
دودو اور سوٹھو جیسے عظیم مجاہدوں کے وارث ہیں۔ ہماری مائیں ہمیں دودھ پلاتی ہیں تو ساتھ ہوش محمد شیدی کا قول بھی ہمارے کانوں میں انڈیلتی ہیں کہ ''مرسوں مرسوں سندھ نہ ڈیسوں'' اور یہ ہوتا ہے کہ سندھ کی ہر آنے والی نسل کی بیداری کے پہلے سبق پر ہم فخر کرتے ہیں۔ عبداﷲ شاہ غازی سے لے کر ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹوکی شہادت پر ہمیں فخر ہے اپنے اجداد پرکیونکہ ان میں سے کسی نے ہتھیار ڈال کر اپنی جان نہیں بچائی ، انھیں تاریخ کا ادراک تھا۔
ایک آخری بات کہتے ہوئے اپنی تحریرکا اختتام کروںگی کہ کرپشن صرف معاشی نہیں ہوتی اخلاقی بھی ہوتی ہے اور اخلاقی کرپشن کی آخری حد کیا ہوتی ہے یہ آپ سے بہتر کون جانتا ہے تو گریزکریں شیشے کے گھر میں بیٹھ کر پتھر پھینکنے سے ورنہ ایک کنکر دوسری جانب سے آیا تو...!
(مضمون نگار سندھ اسمبلی کی ڈپٹی اسپیکر ہیں)
میں نے یہ تحریر عمران خان کے کسی الزام کا جواب دینے کے لیے نہیں لکھی ہے۔ میں ان چند سطروں میں کہیں یہ نہیں لکھوںگی کہ پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرین کے صدرکے والد نے واپڈا میں اپنی ملازمت کے دوران کرپشن کے دوران اتنی دولت نہیں کمائی کہ 1973 میں راشی ہونے کے الزام میں برطرف ہونے کے بعد بقیہ زندگی نہ کوئی کاروبار کیا نہ کہیں نوکری کی بلکہ اس رشوت کی کمائی پر نہ صرف خود عیش سے زندگی گزاری بلکہ اپنے بچوں کی اسی طرح کی کمائی سے پرورش کی۔ عمران نیازی کے جواب میں یہ تحریر بھی نہیں کروںگی کہ ان کا یہ طرز عمل دراصل ان کی تربیت کی کمی کا مظہر ہے۔
صرف سیاسی تربیت کا بلکہ ذاتی تربیت کا بھی جبھی تو ان کی ذاتی زندگی اور سیاسی زندگی میں اتنے زیادہ مد وجزر ہیں کہ انھیں ہر سوال کے جواب میں بھی ایک نیا جھوٹ تراشنا پڑتا ہے اورکبھی ایک نیا یوٹرن لینا پڑتا ہے۔ کبھی نوے دن میں ملک کے ہر شعبے سے کرپشن ختم کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں اور چار برس بعد یہ کہنا پڑتا ہے کہ ''اچھا ہوا 2013 کے الیکشن میں ہم کامیاب نہیں ہوئے ورنہ اپنی ناتجربہ کاری سے ہم کے پی کے کی طرح وفاقی حکومت میں بھی ناکام ہوتے۔'' میں یہ نہیں کہنا چاہتی کہ آخر کیسے یہ موقف تبدیل ہوا کہ طالبان ہمارے بچھڑے بھائی ہیں اور ہم طالبان کو اپنے دفتر دے رہے ہیں۔
میرے لیے یہ بات بھی اہمیت نہیں رکھتی کہ زکوٰۃ خیرات اور چندے کی رقم سے ادارے میں آپ کے خاندان کا ایک ایک فرد لاکھوں روپے ماہانہ وصول کررہا ہے۔ میں نہیں کہنا چاہتی کہ الزام لگاکر معافی مانگنا آپ کی عادت ہے۔ کبھی سپریم کورٹ میں معافی تو الیکشن کمیشن کے آگے سرجھکا کر معافی مانگنا مجھے اس سے بھی غرض نہیں کہ کن اداروں کے کون سے افراد آپ کی در پردہ مدد کررہے ہیں یا کرتے رہے ہیں اور یہ بھی کہ وہ کون سی طاقتیں ہیں جن کی یقین دہانی پر آپ امپائر کی انگلی اٹھنے کی باتیں کرتے رہے ہیں۔
عمران نیازی میرا مسئلہ یہ بھی نہیں کہ آپ نے کبھی نوجوانوں سے کہا تھا کہ انتخابات میں آپ میرے امیدوار ہوںگے اور چلے ہوئے کارتوسوں کو مسترد کرکے ایک نئے سیاسی کلچر جنم دوںگا، لیکن پھر آپ نے اسٹیٹس کو کے نمایندوں کو اپنی جماعت کی پہلی صف میں نہ صرف جگہ دی بلکہ آج آپ کے دائیں بائیں وہی لوگ ہیں جنھیں کل تک آپ اسٹیٹس کو کے نمایندے قرار دیتے رہے ہیں۔
لاتعداد پارٹیاں بدلنے والے کو آپ وزیراعلیٰ نامزد کرتے ہیں اور جس شخص کو آپ چند برس پہلے تک چپراسی بھی نہیں رکھنا چاہتے تھے ، اسے آج آپ وزیراعظم کا امیدوار بناتے ہیں۔ میں یہ سوال بھی نہیں کرنا چاہتی کہ وہ شخص تبدیل ہوگیا یا آپ کی سوچ بدل دی گئی ہے۔ آخر ایسا کیوں ہے کہ آپ جب دوسروں پرگھٹیا زبان استعمال کرکے الزامات عاید کررہے ہوتے ہیں تو آپ کی اپنی جماعت کے لوگ آپ پر الزامات لگا کر پارٹی چھوڑ جاتے ہیں ۔ جسٹس (ر) وجہیہ اور ان کے ساتھی ہوں یا آپ کی پارٹی کے سابق صدر جاوید ہاشمی اور آپ کی رکن قومی اسمبلی عائشہ گلالئی سمیت بہت سے لوگ کہنے کو تو اور بھی بہت سی باتیں ہیں لیکن آج یہ تحریر لکھنے پر اس لیے مجبور ہوئی ہوں۔
عمران خان صاحب آپ کی زبان درازیاں اور آپ کے الزامات آپ کے جھوٹ کے ساتھ ساتھ آپ کی جہالت کا ثبوت بھی بن رہے ہیں۔کچھ عرصہ قبل آپ نے سندھ کے لوگوں کو زندہ لاشیں کہہ کر اپنی دریدہ دہنی کا ثبوت دیا تھا تو اب آپ نے سندھ کے عوام کو بیدار کردینے کا تاج پہن کر سندھ کی تاریخ سے ناواقفیت اور اپنی جہالت کا ثبوت دیا ہے۔
عمران نیازی! سندھ کے عوام ہمیشہ سے بیدار اور باشعور رہے ہیں۔ سندھ صرف صوفیا کی زمین نہیں بلکہ جواں مردوں اور بہادروں کی سرزمین ہے۔ آپ کے علم میں اضافہ کرتے ہوئے میں عرض کرنا چاہتی ہوں کہ ہم ایسے امن پسند ہیں اس جہاں میں جو موئن جو داڑو کے وارث ہیں جہاں سے کوئی ہتھیار برآمد نہیں ہوا جہاں ہم شاہ لطیف اور سچل سرمست کے امن پسند پیغام کے وارث ہیں وہیں ہم شاہ عنایت جیسے مجاہد کے بھی وارث ہیں جنھوں نے سندھ کی سرزمین پر بڑھتے ہوئے قدم روکنے کے لیے اپنی جان قربان کی تھی، ہم تالپوروں کے وارث ہیں۔
دودو اور سوٹھو جیسے عظیم مجاہدوں کے وارث ہیں۔ ہماری مائیں ہمیں دودھ پلاتی ہیں تو ساتھ ہوش محمد شیدی کا قول بھی ہمارے کانوں میں انڈیلتی ہیں کہ ''مرسوں مرسوں سندھ نہ ڈیسوں'' اور یہ ہوتا ہے کہ سندھ کی ہر آنے والی نسل کی بیداری کے پہلے سبق پر ہم فخر کرتے ہیں۔ عبداﷲ شاہ غازی سے لے کر ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹوکی شہادت پر ہمیں فخر ہے اپنے اجداد پرکیونکہ ان میں سے کسی نے ہتھیار ڈال کر اپنی جان نہیں بچائی ، انھیں تاریخ کا ادراک تھا۔
ایک آخری بات کہتے ہوئے اپنی تحریرکا اختتام کروںگی کہ کرپشن صرف معاشی نہیں ہوتی اخلاقی بھی ہوتی ہے اور اخلاقی کرپشن کی آخری حد کیا ہوتی ہے یہ آپ سے بہتر کون جانتا ہے تو گریزکریں شیشے کے گھر میں بیٹھ کر پتھر پھینکنے سے ورنہ ایک کنکر دوسری جانب سے آیا تو...!
(مضمون نگار سندھ اسمبلی کی ڈپٹی اسپیکر ہیں)