’’لطیفہ کہانی‘‘

عمران خان کو پیپلزپارٹی اورمسلم لیگ (ن) پراگر کوئی برتری ہے تو صرف یہ کہ وہ اوران کی جماعت کبھی اقتدار میں نہیں آئے

latifch910@yahoo.com

عمران خان کے ساتھ جو کچھ ہوا' اس کی تفصیلات پڑھ کر مجھے ایک لطیفہ نما کہانی یاد آ گئی۔ پنجاب کے کسی چوہدری کے مقابلے میں ایک غیرسیاسی بابو ٹائپ نوجوان نے الیکشن لڑنے کا اعلان کر دیا۔ چوہدری صاحب نے اپنے حواریوں سے پوچھا کہ اس نوجوان کا کام دھندہ کیا ہے اور کس سیاسی گھرانے سے تعلق رکھتا ہے؟ حواریوں نے خاصی بھاگ دوڑ کے بعد بتایا کہ یہ نوجوان کسی روایتی سیاسی گھرانے سے تعلق رکھتا ہے نہ کوئی کاروبار کرتا ہے البتہ کمیٹیاں اکٹھی کرتا ہے۔

چوہدری صاحب نے اس نوجوان کے پاس کمیٹی ڈالنے والے ان حضرات کو طلب کیا جو کمیٹی لے چکے تھے۔ چوہدری صاحب نے انھیں کہا،''جو کچھ لے چکے ہو وہ تمہارا' جو ہر مہینے اس نوجوان کو دیتے ہو وہ بند کر دو۔ اگر وہ تمہیں کچھ کہے گا تو میں نمٹ لوں گا''۔ پھر کیا تھا' اس نوجوان کو اپنی پڑ گئی اور الیکشن ہار گیا۔

اقتدار کا کھیل بے رحمی اور بے ایمانی کے جذبے سے کھیلا جاتا ہے۔ اس کے قواعد وضوابط میں اگر کسی چیز کا فقدان ہے تو وہ یہ کہ اس میں کوئی اصول نہیں ہوتا۔ یہ پاکستان ہی نہیں دنیا بھر میں اسی طرح کھیلا جاتا ہے۔ مونیکا لیونسکی کے معاملے میں کلنٹن کے ساتھ کیا ہوا۔ بش کے مقابلے میں الگور جیتا ہوا تھا لیکن اسے ہرا دیا گیا۔ وہ کچھ نہیں کرسکا ۔ پرانی بات ہے، لاہور پریس کلب کا الیکشن لڑنے والا ایک امیدوار ووٹ مانگتے ہوئے طنزاً کہتا تھا، ''میں اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کرتا لیکن یاد رکھنا میرا کوئی اصول نہیں''۔

پاکستانی سیاست کو سمجھنے کے لیے یہ بہترین ضرب المثل بن سکتی ہے۔ اس وقت عمران خان کو پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) پر اگر کوئی برتری ہے تو صرف یہ کہ وہ اور ان کی جماعت کبھی اقتدار میں نہیں آئے۔ جو اقتدار میں نہ آیا ہو، وہ بڑی آسانی سے دوسروں پر تبرا کرسکتا ہے۔ اگر عمران خان اقتدار میں آ کر اٹھاون ٹو بی کی تلوار سے زخمی کیے گئے ہوتے اور اسٹیبلشمنٹ ان کے مقابلے میں ہوتی تو ان کا بھی وہی حشر ہونا تھا، جو محترمہ بے نظیر اور میاں نوازشریف کا ہوا، ممکن ہے کہ پاکستان کے کرپٹ ترین سیاستدان کا اعزاز ان کے حصہ میں آجاتا۔

پنجاب کے دیہات میں ڈیرے دار لوگ کہتے ہیں کہ مسجد کے امام کے لیے دوسروں کی کمائی کو حرام قرار دینا آسان ہوتا ہے کیونکہ وہ خود کوئی کاروبار نہیں کرتا، اسے کسی کو رشوت دینی پڑتی ہے نہ ٹیکس چوری کا کوئی خوف ہوتا ہے۔ اسے چندے اور خیرات کی صورت میں جو کچھ ملتا ہے، وہ احتساب کے دائرے سے باہر ہوتاہے، اس لیے وہ بے دھڑک سب کو رگیدتا رہتا ہے۔ اس وقت تحریک انصاف میں جو رہنمایان کرام موجود ہیں، وہ نسلی اور روایتی اقتداریئے ہیں۔

ابھی کل کی بات ہے، شاہ محمود قریشی پیپلزپارٹی کی حکومت میں وزیر خارجہ رہے' وہ پنجاب پیپلزپارٹی کے صدر رہے۔ اس سے قبل (ن) لیگ میں رہے' ان کے والد محترم ضیاء الحق کے دور میں گورنر پنجاب رہے۔ یوں وہ اقتدار کے کھیل کے خاندانی کھلاڑی ہیں۔ ابھی حال ہی میں انصاف کی تحریک میں شامل ہونے والے افضل سندھو کے بارے میں کون نہیں جانتا کہ انھوں نے کتنی بار پیپلزپارٹی چھوڑی اور کتنی بار واپس آئے۔ اس وقت راستہ بدلنے کی وجہ صرف یہ ہے کہ انھیں عام انتخابات میں پارٹی ٹکٹ ملنے کی امید تھی' نہ پارٹی کا الیکشن جیت کر دوبارہ اقتدارمیں آنا ممکن تھا۔


2008ء کے انتخابات کے بعد شفقت محمود وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کے ایڈوائزر تھے اور اخبارات میں پارٹی کے لیے تجزیہ کاری کے فرائض بھی انجام دیتے تھے۔ ایک دن پتہ چلا کہ وہ تحریک انصاف میں گھس کر مرکزی سیکریٹری اطلاعات بن گئے ہیں۔ گزشتہ دنوں عمران خان پر چوہدری نثار علی اور سینیٹر پرویز رشید نے بڑے ''خونریز'' حملے کیے۔

اپنے پارٹی عہدے کے تقاضوں کے تحت شفقت محمود سے امید کی جاتی ہے کہ وہ ن لیگ کی زبان میں ہی میاں نواز شریف پر جوابی حملے کرینگے لیکن یہ توقع اس لیے پوری نہیں ہو گی کہ شفقت صاحب مہذب اور سچ مچ شریف آدمی ہیں اور نواز شریف کے خلاف کچھ بولنے سے اجتناب کرتے رہے ہیں تاہم تحریک انصاف میں آنے کے بعد انھیں وہ زبان لگ گئی جو میاں شہباز شریف نے سیاست میں صدر آصف علی زرداری کے خلاف متعارف کرائی ہے اور تحت اللفظ میں سنانے کے علاوہ گائی بھی جا سکتی ہے۔

شفقت محمود محترمہ بینظیر کی حکومت میں بڑے معتبر اور مقتدر تھے۔ محترمہ کی برطرفی پر فاروق لغاری کے ساتھی بنے اور وزیر خوراک بن گئے۔ پنجابی کی ایک کہاوت ہے '' کھدو پھولو گے تے لیراں ای نکلن گیاں'' (کپڑے کی ٹاکیوں سے بنی ہوئی گیند کو پھاڑ کر چیک کرو گے تو ٹاکیوں کے سوا کچھ نہیں ملے گا) کیا تحریک انصاف والوں کو حیرانی نہیں ہوئی کہ ن لیگ نے عمران خان کے خلاف جو محاذ کھولا ہے، اس کے جواب میں تحریک انصاف میں شامل ہونے والے لارڈز نے زبان نہیں کھولی۔ شاہ محمود قریشی پیپلز پارٹی حکومت میں وزیر خارجہ ہونے کے باوجود نواز شریف کے عقیدت مند رہے ہیں۔

عمران خان اور ان کے جاں نثاروں کو یہ حقیقت تسلیم کر لینی چاہیے کہ اقتدار کا کھیل گلیڈی ایٹرز کی طرح کھیلا جاتا ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ آپ مدمقابل پر وار کریں اور وہ کچھ نہ کرے۔ اس میںفائول ہوتا ہے نہ امپائر۔ اس کھیل میں جیت ہوتی یا ہار۔ اقتدار اس کے قدموں میں ہوتا ہے جو جیتتا ہے، ابھی تو (ن) لیگ نے ان پر پہلا وار کیا ہے' پیپلزپارٹی تو ایک پالیسی کے تحت چپ ہے کہ پرائی جنگ میں اسے بولنے کی کیا ضرورت ہے ورنہ جیسے آصف علی زرداری کو بھرے جلسوں میں ڈاکو اور لٹیرا کے خطابات سے نوازا جا رہا ہے' کیا وہ زبان نہیں کھول سکتے۔ خان صاحب نے ایم کیو ایم پر بھی وار کیا تھا لیکن ادھر سے ایسی خوفناک جوابی فائرنگ ہوئی کہ اب بھولے سے بھی وہ ایم کیو ایم کے بارے میں کچھ نہیں کہتے۔ قوم کو خوش ہونا چاہیے کہ خان صاحب آہستہ آہستہ سیاسی طور پر مہذب ہوتے جا رہے ہیں۔

نئے نئے باغی ہونے والے ایک پارٹی کارکن نے شکایت کی ہے کہ جب وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ خان صاحب سے ملنے ان کے گھر جایا کرتا تھا تو وہ کارکنوں کی باتوں پر توجہ دینے کے بجائے اپنے کتے کو گود میں بٹھا کر پیار کرنے لگتے تھے۔ جس پر ملنے والوں کو بڑی ذلت محسوس ہوتی تھی۔ اس کارکن کو خان صاحب کے کتے کے شجرہ نسب کا علم ہوتا تو وہ ایسی احمقانہ شکایت نہ کرتا۔

میں تحریک انصاف کے کارکنوں کو یہ راز بتانا ضروری اور پارٹی کے بہترین مفاد میں سمجھتا ہوں کہ عمران خان کا کتا لیلیٰ کے کتے کی نسل میں سے ہے اور پارٹی کا بنیادی کارکن ہے۔
Load Next Story