غیرت ہے بڑی چیز …
ڈاکٹرعافیہ پر جو مظالم ڈھائے گئے ہیں وہ ناقابلِ بیان ہیں۔
مشرف دور کے وزیر خارجہ، خورشید محمود قصوری کا بیان مورخہ 23 جنوری 2012ء جو ریکارڈ پر موجود ہے، اس اندوہناک واقعے کی یاد دلاتا ہے جب پاکستان کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو 2003ء میں کراچی شہر سے بچوں سمیت اغوا کرکے پہلے افغانستان میں بگرام کے امریکی فوجی اڈے پر پہنچایا گیا اور پھر امریکا منتقل کرکے 6 امریکی فوجیوں کی موجودگی میں ایک امریکی فوجی سے ایم 4 رائفل چھین کر ان پر فائر کرنے (جس میں کوئی امریکی فوجی زخمی بھی نہیں ہوا) کے الزام میں مقدمہ چلانے کا ڈراما رچا کر 86 سال قید کی سزا سنا دی گئی۔ 23 ستمبر 2017ء کو انھیں یہ وحشیانہ سزا کاٹتے ہوئے 7 سال پورے ہوگئے جب کہ ان کے اغوا سے لے کر اب تک ساڑھے 14 سال کا عرصہ گزرچکا ہے۔
20 ستمبر 2017ء کو ایکسپریس میں میرے کالم بعنوان ''قیدی بیٹی کی یاد'' کی اشاعت کے بعد مجھے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کی ایک اور ای میل موصول ہوئی جس میں انھوں نے بتایا کہ اہل خانہ کا ان سے ٹیلی فون پر رابطہ ہوئے بھی 2 سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے اور وہ نہیں جانتے کہ ان پر امریکی جیل میں کیا گزر رہی ہے اور وہ کس حال میں ہیں۔
2010ء میں اس نام نہاد مقدمے کی کارروائی کے دوران ڈاکٹر عافیہ کو زخمی حالت میں امریکی عدالت میں پیش کیا جاتا تھا۔ ایسی ہی ایک پیشی کے موقعے پر انھوں نے بھری عدالت میں جج کو مخاطب کرکے کہا تھا ''میں پاگل نہیں ہوں، میں ایک مسلمان عورت ہوں، مجھے مرد فوجی زبردستی برہنہ کرکے تشدد کا نشانہ بناتے ہیں اور میرے قدموں میں قرآن ڈالا جاتا ہے۔'' ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کے بقول امریکی جیلوں میں خواتین قیدیوں کے ساتھ انسانیت سوزسلوک کیا جاتا ہے، ''اسٹرپ سرچنگ'' کے نام پر خواتین کی تذلیل اور ان پر تشدد عام سی بات ہے۔ ٹیکساس کی جس جیل میں ڈاکٹر عافیہ کو رکھا گیا ہے اس کو ''ہاؤس آف ہارر'' کہا جاتا ہے۔ امسال مارچ کے شروع میں ہیوسٹن، ٹیکساس کی امریکی جیل میں ڈاکٹر عافیہ کی حالتِ زار دیکھ کر پاکستانی قونصلیٹ کی خاتون قونصلر، عائشہ فاروقی کی آنکھ بھر آئی تھی۔
ڈاکٹرعافیہ پر جو مظالم ڈھائے گئے ہیں وہ ناقابلِ بیان ہیں۔ بگرام جیل میں ڈاکٹر عافیہ اور ان کے معصوم بچوں پر جو مظالم ڈھائے گئے وہ انسانیت کے نام پر دھبہ ہیں۔ ڈاکٹر عافیہ کو اذیت دینے کے لیے ان کے بچوں پر بھی تشدد کیا جاتا تھا۔ ایک معصوم بچہ سلیمان جو اغوا کیے جانے کے وقت ماں کے ساتھ تھا، اب تک لاپتہ ہے۔ ڈاکٹر عافیہ کی گرفتاری سے پہلے کی تصاویر اور پانچ سال بعد منظر عام پر آنے والی تصاویر دیکھ کر اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ انھیں کس قدر وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔
پاکستانی سینیٹرز کے ایک وفد سے ملاقات میں انھوں نے خود پر ڈھائے جانے والے تمام مظالم تفصیل سے بیان کیے تھے۔ وفد میں شامل سینیٹر مشاہد حسین سید نے میڈیا سے گفتگو میں تصدیق کی کہ ڈاکٹر عافیہ پر تشدد کے بھیانک اور غیر روایتی طریقے آزمائے جاتے تھے۔ ڈاکٹر عافیہ نے وفد کو بتایا کہ ان پر تشدد کرنے والے قومیت کے لحاظ سے امریکی اور بھارتی ہوتے تھے۔
پھر اس وقت تو بے غیرتی کی انتہا ہوگئی جب نیویارک ڈٹینشن سینٹر میں 6 مرد امریکی فوجیوں نے ان کو جبراً بے لباس کیا اور بالوں سے پکڑ کرگھسیٹتے ہوئے باہر لائے جہاں ان کی ویڈیو فلم بنائی گئی۔ یوں ان کو ذہنی طور پر اذیت دے کر پاگل کرنے کی کوشش کی گئی، ہمارے حکمرانوں نے اس ظلم پر خاموشی اختیارکیے رکھی بلکہ امریکی عہدے داروں کو ''نشانِ قائد اعظم'' کے ایوارڈ سے نوازا۔
تماشا یہ ہے کہ گزشتہ 14 سالوں سے یورپی اور امریکی میڈیا میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی پر لگائے گئے جن الزامات کی تشہیر کی جا رہی ہے اس پر کوئی احمق ہی یقین کرے گا۔کہا گیا کہ ڈاکٹر عافیہ نے 6 امریکی فوجیوں کی موجودگی میں ان کے ایک ساتھی سے ایم فور رائفل چھین کر ان پر فائر کردیا جس سے کوئی ایک امریکی فوجی بھی مرا توکیا زخمی بھی نہیں ہوا۔ جواب میں ایک امریکی فوجی نے بالکل قریب سے ڈاکٹر عافیہ پر فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں ایک گولی ان کے دل کے صرف ایک سینٹی میٹر نیچے سے گزر گئی جب کہ دوسری گولی سے ان کا ایک گردہ ناکارہ ہوگیا۔
دریں اثنا امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی، ڈاکٹر عافیہ پر مسلسل دباؤ ڈالتے رہے کہ وہ معافی نامے پر دستخط کردیں مگر ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے کسی فوجی پر حملہ نہیں کیا۔ اس کے برعکس انھیں 2003ء میں کراچی سے بچوں سمیت اغوا کیا گیا تھا۔ 27 جون 2009ء کو سفیر حسین حقانی کی ایماء پر انھیں دوبارہ ٹیکساس کی نفسیاتی جیل سے نیویارک کے میٹروپولیٹن ڈٹینشن سینٹر (ایم ڈی سی) میں منتقل کردیا گیا جہاں انھیں 8 بائی 6 سائز کے ایک پنجرے میں قید رکھا جاتا تھا۔ ٹوائلٹ اور واش بیسن بھی اسی پنجرے میں تھے۔
2 مرد گارڈ ہروقت اس کے سامنے موجود رہتے تھے اور ہر 20 منٹ کے بعد دروازہ کھول کر اندر آتے تھے۔ تب ڈاکٹر عافیہ نے اپنے بھائی اور والدہ کو فون پر بتایا تھا کہ جیل انتظامیہ پاکستانی حکومت کے ایماء پر ان کو تشدد اور اذیت کا نشانہ بنا رہی ہے تاکہ ان سے ان کے ناکردہ گناہ کا اقرارکروایا جا سکے۔ دراصل ڈاکٹر عافیہ کی بے گناہی ہمارے حکمرانوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کردار پر ایک سوالیہ نشان ہے۔
23 ستمبر 2010ء کو امریکی تاریخ کے ایک سیاہ دن کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا جب متعصب جج رچرڈ برمن نے سازش کے تحت ڈاکٹر عافیہ کو 86 برس قید کی سزا سنائی۔ فیصلے میں ان کا پاکستانی شہری ہونا اور کسی تنظیم سے وابستہ نہ ہونا تسلیم کیا گیا اور یہ بھی مانا گیا کہ عافیہ کے خلاف کوئی ثبوت موجود نہیں۔ فیصلہ سن کر ڈاکٹر عافیہ نے کہا کہ انھوں نے اپنا معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا ہے۔
کمرہ عدالت میں موجود ہر مذہب کے پیروکاروں نے فیصلے کو امریکی انصاف کا قتل قرار دیا اور جج کے خلاف شیم شیم کے نعرے لگائے۔ جہاں تک ہمارے حکمرانوں کا تعلق ہے انھوں نے اس معاملے میں شروع ہی سے مجرمانہ غفلت برتی ہے اور ڈاکٹر عافیہ کی باعزت رہائی اور وطن واپسی کے کئی مواقعے ضایع کر دیے۔ قدرت نے انھیں امریکی پٹھو ڈاکٹر شکیل آفریدی کے بدلے (جس کے لیے امریکا سے معاملات طے کیے جا رہے ہیں) عافیہ کو رہا کرانے کا ایک اور موقع دیا ہے، اگر اس کا فائدہ نہ اٹھایا گیا تو تاریخ انھیں کبھی معاف نہیں کرے گی اور ان کو امریکا کے غلام و نالائق ترین حکمرانوں میں شمارکیا جائے گا۔
20 ستمبر 2017ء کو ایکسپریس میں میرے کالم بعنوان ''قیدی بیٹی کی یاد'' کی اشاعت کے بعد مجھے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کی ایک اور ای میل موصول ہوئی جس میں انھوں نے بتایا کہ اہل خانہ کا ان سے ٹیلی فون پر رابطہ ہوئے بھی 2 سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے اور وہ نہیں جانتے کہ ان پر امریکی جیل میں کیا گزر رہی ہے اور وہ کس حال میں ہیں۔
2010ء میں اس نام نہاد مقدمے کی کارروائی کے دوران ڈاکٹر عافیہ کو زخمی حالت میں امریکی عدالت میں پیش کیا جاتا تھا۔ ایسی ہی ایک پیشی کے موقعے پر انھوں نے بھری عدالت میں جج کو مخاطب کرکے کہا تھا ''میں پاگل نہیں ہوں، میں ایک مسلمان عورت ہوں، مجھے مرد فوجی زبردستی برہنہ کرکے تشدد کا نشانہ بناتے ہیں اور میرے قدموں میں قرآن ڈالا جاتا ہے۔'' ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کے بقول امریکی جیلوں میں خواتین قیدیوں کے ساتھ انسانیت سوزسلوک کیا جاتا ہے، ''اسٹرپ سرچنگ'' کے نام پر خواتین کی تذلیل اور ان پر تشدد عام سی بات ہے۔ ٹیکساس کی جس جیل میں ڈاکٹر عافیہ کو رکھا گیا ہے اس کو ''ہاؤس آف ہارر'' کہا جاتا ہے۔ امسال مارچ کے شروع میں ہیوسٹن، ٹیکساس کی امریکی جیل میں ڈاکٹر عافیہ کی حالتِ زار دیکھ کر پاکستانی قونصلیٹ کی خاتون قونصلر، عائشہ فاروقی کی آنکھ بھر آئی تھی۔
ڈاکٹرعافیہ پر جو مظالم ڈھائے گئے ہیں وہ ناقابلِ بیان ہیں۔ بگرام جیل میں ڈاکٹر عافیہ اور ان کے معصوم بچوں پر جو مظالم ڈھائے گئے وہ انسانیت کے نام پر دھبہ ہیں۔ ڈاکٹر عافیہ کو اذیت دینے کے لیے ان کے بچوں پر بھی تشدد کیا جاتا تھا۔ ایک معصوم بچہ سلیمان جو اغوا کیے جانے کے وقت ماں کے ساتھ تھا، اب تک لاپتہ ہے۔ ڈاکٹر عافیہ کی گرفتاری سے پہلے کی تصاویر اور پانچ سال بعد منظر عام پر آنے والی تصاویر دیکھ کر اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ انھیں کس قدر وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔
پاکستانی سینیٹرز کے ایک وفد سے ملاقات میں انھوں نے خود پر ڈھائے جانے والے تمام مظالم تفصیل سے بیان کیے تھے۔ وفد میں شامل سینیٹر مشاہد حسین سید نے میڈیا سے گفتگو میں تصدیق کی کہ ڈاکٹر عافیہ پر تشدد کے بھیانک اور غیر روایتی طریقے آزمائے جاتے تھے۔ ڈاکٹر عافیہ نے وفد کو بتایا کہ ان پر تشدد کرنے والے قومیت کے لحاظ سے امریکی اور بھارتی ہوتے تھے۔
پھر اس وقت تو بے غیرتی کی انتہا ہوگئی جب نیویارک ڈٹینشن سینٹر میں 6 مرد امریکی فوجیوں نے ان کو جبراً بے لباس کیا اور بالوں سے پکڑ کرگھسیٹتے ہوئے باہر لائے جہاں ان کی ویڈیو فلم بنائی گئی۔ یوں ان کو ذہنی طور پر اذیت دے کر پاگل کرنے کی کوشش کی گئی، ہمارے حکمرانوں نے اس ظلم پر خاموشی اختیارکیے رکھی بلکہ امریکی عہدے داروں کو ''نشانِ قائد اعظم'' کے ایوارڈ سے نوازا۔
تماشا یہ ہے کہ گزشتہ 14 سالوں سے یورپی اور امریکی میڈیا میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی پر لگائے گئے جن الزامات کی تشہیر کی جا رہی ہے اس پر کوئی احمق ہی یقین کرے گا۔کہا گیا کہ ڈاکٹر عافیہ نے 6 امریکی فوجیوں کی موجودگی میں ان کے ایک ساتھی سے ایم فور رائفل چھین کر ان پر فائر کردیا جس سے کوئی ایک امریکی فوجی بھی مرا توکیا زخمی بھی نہیں ہوا۔ جواب میں ایک امریکی فوجی نے بالکل قریب سے ڈاکٹر عافیہ پر فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں ایک گولی ان کے دل کے صرف ایک سینٹی میٹر نیچے سے گزر گئی جب کہ دوسری گولی سے ان کا ایک گردہ ناکارہ ہوگیا۔
دریں اثنا امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی، ڈاکٹر عافیہ پر مسلسل دباؤ ڈالتے رہے کہ وہ معافی نامے پر دستخط کردیں مگر ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے کسی فوجی پر حملہ نہیں کیا۔ اس کے برعکس انھیں 2003ء میں کراچی سے بچوں سمیت اغوا کیا گیا تھا۔ 27 جون 2009ء کو سفیر حسین حقانی کی ایماء پر انھیں دوبارہ ٹیکساس کی نفسیاتی جیل سے نیویارک کے میٹروپولیٹن ڈٹینشن سینٹر (ایم ڈی سی) میں منتقل کردیا گیا جہاں انھیں 8 بائی 6 سائز کے ایک پنجرے میں قید رکھا جاتا تھا۔ ٹوائلٹ اور واش بیسن بھی اسی پنجرے میں تھے۔
2 مرد گارڈ ہروقت اس کے سامنے موجود رہتے تھے اور ہر 20 منٹ کے بعد دروازہ کھول کر اندر آتے تھے۔ تب ڈاکٹر عافیہ نے اپنے بھائی اور والدہ کو فون پر بتایا تھا کہ جیل انتظامیہ پاکستانی حکومت کے ایماء پر ان کو تشدد اور اذیت کا نشانہ بنا رہی ہے تاکہ ان سے ان کے ناکردہ گناہ کا اقرارکروایا جا سکے۔ دراصل ڈاکٹر عافیہ کی بے گناہی ہمارے حکمرانوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کردار پر ایک سوالیہ نشان ہے۔
23 ستمبر 2010ء کو امریکی تاریخ کے ایک سیاہ دن کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا جب متعصب جج رچرڈ برمن نے سازش کے تحت ڈاکٹر عافیہ کو 86 برس قید کی سزا سنائی۔ فیصلے میں ان کا پاکستانی شہری ہونا اور کسی تنظیم سے وابستہ نہ ہونا تسلیم کیا گیا اور یہ بھی مانا گیا کہ عافیہ کے خلاف کوئی ثبوت موجود نہیں۔ فیصلہ سن کر ڈاکٹر عافیہ نے کہا کہ انھوں نے اپنا معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا ہے۔
کمرہ عدالت میں موجود ہر مذہب کے پیروکاروں نے فیصلے کو امریکی انصاف کا قتل قرار دیا اور جج کے خلاف شیم شیم کے نعرے لگائے۔ جہاں تک ہمارے حکمرانوں کا تعلق ہے انھوں نے اس معاملے میں شروع ہی سے مجرمانہ غفلت برتی ہے اور ڈاکٹر عافیہ کی باعزت رہائی اور وطن واپسی کے کئی مواقعے ضایع کر دیے۔ قدرت نے انھیں امریکی پٹھو ڈاکٹر شکیل آفریدی کے بدلے (جس کے لیے امریکا سے معاملات طے کیے جا رہے ہیں) عافیہ کو رہا کرانے کا ایک اور موقع دیا ہے، اگر اس کا فائدہ نہ اٹھایا گیا تو تاریخ انھیں کبھی معاف نہیں کرے گی اور ان کو امریکا کے غلام و نالائق ترین حکمرانوں میں شمارکیا جائے گا۔