آزادانہ انتخابات امکانات و توقعات
قومی اسمبلی سے حلقہ بندیوں سے متعلق بل منظور کرایا جائے گا
بادی النظر میں ملکی سیاسی افق پر 2018ء کے آزادانہ ، منصفانہ اورغیر جانبدارانہ انتخابات کے امکانات و آثار روشن نظر آرہے ہیں بشرطیکہ کوئی ناگہانی آفت یا مہم جوئی نہ ہو۔ اس ضمن میں حکومت اور حزب اختلاف کی جماعتوں میں جو سنجیدہ مشاورت اور مکالمہ ہورہا ہے اسے خوش آیند جمہوری روایت کے فروغ کی جانب اہم اقدام کہا جاسکتا ہے، اطلاعات کے مطابق منگل کو پارلیمانی جماعتوں کے رہنماؤں نے قومی اسمبلی کی نشستیں برقرار رکھنے اور نئی حلقہ بندیوں پر اتفاق کیا ہے، آیندہ چند روز میں قومی اسمبلی سے حلقہ بندیوں سے متعلق بل منظور کرایا جائے گا۔
جس کے بعد بل سینیٹ میں پیش ہوگا۔ میڈیا رپورٹ میں بتایا گیا کہ 2017 ء کی مردم شماری کے نتائج کی روشنی میں نئی حلقہ بندیوں کا جائزہ لینے کے لیے پارلیمانی رہنماؤں کا اہم اجلاس اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کی زیر صدارت ہوا۔ اجلاس میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ، شاہ محمود، نوید قمر، صاحبزادہ طارق اللہ، غوث بخش مہر، غلام بلور، محمود اچکزئی، فاروق ستار اور دیگر جماعتوںکے پارلیمانی رہنماؤں کے علاوہ چیئرمین نادرا، سیکریٹری الیکشن کمیشن اور محکمہ شماریات کے حکام شریک ہوئے۔ وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے پارلیمانی رہنماؤں کو حلقہ بندیوں کے معاملے پر حکومتی موقف کے بارے میں تفصیلی بریفنگ دی ،اس موقع پر پارلیمانی رہنماؤں سے تجاویز بھی مانگی گئیں۔
حقیقت یہ ہے کہ جتنا وقت انتخابی اصلاحات کی تیاری اور منظوری میں سیاسی جماعتوں نے ضایع کیا، قانون سازی کی جگہ محاذ آرائی ، لا حاصل پوائنٹ اسکورنگ اور الزام تراشیوں میں گنوایا ۔ عدالتی اصرار پر ملک بھر میں مردم شماری کرائی گئی جب کہ انھی قومی تقاضوں کی تکمیل پر میڈیا میں آزادانہ و شفاف انتخابات کی ضرورت پر زور دیا گیا ، آج سیاسی رہنما مل بیٹھ کر انتخابی ایشوز اور نئی حلقہ بندیوں پر غور وفکر کررہے ہیں، اس سے جمہوریت کے استحکام، رواداری کے احیا اور حکومتی عمل میں عوام کی شمولیت کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اسپیکرایاز صادق نے کہا کہ اجلاس میں نئی حلقہ بندیوں کے معاملہ پر بڑی سیر حاصل بحث ہوئی ہے اور پارلیمانی رہنماؤں میں نئی حلقہ بندیوں پر اتفاق رائے ہوا ہے اور یہ سب جماعتوں کا متفقہ فیصلہ ہے کہ جمعرات یا جمعہ کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں حلقہ بندیوں سے متعلق بل منظور کرایا جائے گا جس کے بعد بل سینیٹ میں پیش کیا جائے گا۔ انھوں نے کہا تمام جماعتوں نے قومی اسمبلی کی موجودہ 342 نشستوں کو برقرار رکھنے پر اتفاق کیا۔ تاہم ان نشستوں کو نئی آبادی کی بنیاد پر تقسیم کیا جائے گا۔ حلقہ بندیوں میں ردوبدل ہو گا،اس ضمن میں تحصیل سطح تک کا ڈیٹا مانگ لیا گیا، توقع ہے کہ پارلیمنٹ میں متفقہ طور پر ترمیم منظور ہو جائے گی۔
تاہم الیکشن کمیشن کے زیراہتمام عام انتخابات2018ء کی تیاریوں سے متعلق میڈیا ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا جس میں سیکریٹری الیکشن کمیشن بابر یعقوب فتح محمد کے علاوہ ایڈیشنل سیکریٹری ایڈمن ڈاکٹر اختر نذیر، ایڈیشنل سیکریٹری (ٹی آر ای) اور ڈائریکٹر جنرل لاء ظفر اقبال، ڈائریکٹر جنرل(انتخابات)یوسف خٹک اور ڈی جی انفارمیشن ٹیکنالوجی خضر عزیز نے آیندہ عام انتخابات کی تیاریوں سے متعلق آگاہ کیا۔ سیکریٹری الیکشن کمیشن نے البتہ حلقہ بندیوں سے متعلق تاخیر پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے انتباہ کیا کہ ملک میں ہونے والی حالیہ مردم شماری کے بعدآیندہ عام انتخابات نئی حلقہ بندیوں کے بغیر ممکن نہیں، ان کا کہنا تھا کہ عام انتخابات میں اضافی بیلٹ پیپر نہیں چھاپے جائیں گے۔
حکومت 10نومبر تک بھی حلقہ بندیوں سے متعلق آئینی تقاضے پورے کردے تو بروقت انتخابات کا انعقاد ہوسکتا ہے ،ان کی اس دلیل پر بھی سیاسی اکابرین کو سنجیدگی سے رائے عامہ ہموار کرنی چاہیے جوآبادی میں بے پناہ اضافہ کے بعد عوام میں قومی و صوبائی حلقوں میں اسی تناسب سے اضافہ کی توقعات و دیگر تحفظات سے متعلق ہیں، ملکی انتخابات کے تاریخی تناظر میں اب تک ہونے والے عام انتخابات کے نتائج پر عدم اطمینان سے پیدا ہونے والے سوالات کے جواب بھی سیاسی گفتگو اور مشاورت میں کسی نتیجہ تک پہنچنے چاہئیں، عوام آبادی میں اضافہ اور پھیلاؤ کی روشنی میں قومی و صوبائی نشستوں اور حلقوں کی ساخت اور از سر نو تعین کے لیے زمینی انتخابی حقائق کو پیش نظر رکھنے کا مطالبہ کرتے ہیں، تاکہ ان کے اپنے منتخب نمایندوں کے درمیان قریبی رابطہ اور رسائی کا مضبوط میکنزم قائم ہو۔
اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ملکی سیاست آیندہ انتخابات کی شفافیت پر فوکس کرے، سیاسی جماعتیں منشور بر مبنی اجتماعات میں عوام کے دکھوں کا ازالہ کرنے کے ٹھوس اور سچے اعلانات و وعدے کریں،تاکہ ایک روادارانہ اور عوامی امنگوں کی تکمیل کے لیے کردار کشی اور الزام تراشیوں سے پاک انتخابی مہم کا قابل دید کلچر سر اٹھائے جس میں قوم ایک نئے سیاسی شعور کی نشاۃ ثانیہ کا عکس دیکھے، قوم سیاسی دنگل اور بے منزل بہتان طرازی اور کردارکشی پر استوار سیاسی سرکس اور جھوٹے وعدوں سے عاجز آچکے ہیں ، اشرافیائی سیاست زمیں بوس ہونے کو ہے، سیاسی اسٹیک ہولڈرز انتخابی معاملات طے کرنے کے لیے جس سیاسی بلوغت اور اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے الیکشن کی باریکیوں کو دیکھ رہے ہیں اسے ادارہ جاتی حیثیت ملنی چاہیے، اسی روادارانہ پارلیمانی روایت کے تحت آزادانہ انتخابات کو یقینی بنایا جاسکتا ہے اور الیکشن کمیشن کی بااختیاریت بھی نتیجہ خیز ثابت ہوسکتی ہے۔
جس کے بعد بل سینیٹ میں پیش ہوگا۔ میڈیا رپورٹ میں بتایا گیا کہ 2017 ء کی مردم شماری کے نتائج کی روشنی میں نئی حلقہ بندیوں کا جائزہ لینے کے لیے پارلیمانی رہنماؤں کا اہم اجلاس اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کی زیر صدارت ہوا۔ اجلاس میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ، شاہ محمود، نوید قمر، صاحبزادہ طارق اللہ، غوث بخش مہر، غلام بلور، محمود اچکزئی، فاروق ستار اور دیگر جماعتوںکے پارلیمانی رہنماؤں کے علاوہ چیئرمین نادرا، سیکریٹری الیکشن کمیشن اور محکمہ شماریات کے حکام شریک ہوئے۔ وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے پارلیمانی رہنماؤں کو حلقہ بندیوں کے معاملے پر حکومتی موقف کے بارے میں تفصیلی بریفنگ دی ،اس موقع پر پارلیمانی رہنماؤں سے تجاویز بھی مانگی گئیں۔
حقیقت یہ ہے کہ جتنا وقت انتخابی اصلاحات کی تیاری اور منظوری میں سیاسی جماعتوں نے ضایع کیا، قانون سازی کی جگہ محاذ آرائی ، لا حاصل پوائنٹ اسکورنگ اور الزام تراشیوں میں گنوایا ۔ عدالتی اصرار پر ملک بھر میں مردم شماری کرائی گئی جب کہ انھی قومی تقاضوں کی تکمیل پر میڈیا میں آزادانہ و شفاف انتخابات کی ضرورت پر زور دیا گیا ، آج سیاسی رہنما مل بیٹھ کر انتخابی ایشوز اور نئی حلقہ بندیوں پر غور وفکر کررہے ہیں، اس سے جمہوریت کے استحکام، رواداری کے احیا اور حکومتی عمل میں عوام کی شمولیت کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اسپیکرایاز صادق نے کہا کہ اجلاس میں نئی حلقہ بندیوں کے معاملہ پر بڑی سیر حاصل بحث ہوئی ہے اور پارلیمانی رہنماؤں میں نئی حلقہ بندیوں پر اتفاق رائے ہوا ہے اور یہ سب جماعتوں کا متفقہ فیصلہ ہے کہ جمعرات یا جمعہ کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں حلقہ بندیوں سے متعلق بل منظور کرایا جائے گا جس کے بعد بل سینیٹ میں پیش کیا جائے گا۔ انھوں نے کہا تمام جماعتوں نے قومی اسمبلی کی موجودہ 342 نشستوں کو برقرار رکھنے پر اتفاق کیا۔ تاہم ان نشستوں کو نئی آبادی کی بنیاد پر تقسیم کیا جائے گا۔ حلقہ بندیوں میں ردوبدل ہو گا،اس ضمن میں تحصیل سطح تک کا ڈیٹا مانگ لیا گیا، توقع ہے کہ پارلیمنٹ میں متفقہ طور پر ترمیم منظور ہو جائے گی۔
تاہم الیکشن کمیشن کے زیراہتمام عام انتخابات2018ء کی تیاریوں سے متعلق میڈیا ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا جس میں سیکریٹری الیکشن کمیشن بابر یعقوب فتح محمد کے علاوہ ایڈیشنل سیکریٹری ایڈمن ڈاکٹر اختر نذیر، ایڈیشنل سیکریٹری (ٹی آر ای) اور ڈائریکٹر جنرل لاء ظفر اقبال، ڈائریکٹر جنرل(انتخابات)یوسف خٹک اور ڈی جی انفارمیشن ٹیکنالوجی خضر عزیز نے آیندہ عام انتخابات کی تیاریوں سے متعلق آگاہ کیا۔ سیکریٹری الیکشن کمیشن نے البتہ حلقہ بندیوں سے متعلق تاخیر پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے انتباہ کیا کہ ملک میں ہونے والی حالیہ مردم شماری کے بعدآیندہ عام انتخابات نئی حلقہ بندیوں کے بغیر ممکن نہیں، ان کا کہنا تھا کہ عام انتخابات میں اضافی بیلٹ پیپر نہیں چھاپے جائیں گے۔
حکومت 10نومبر تک بھی حلقہ بندیوں سے متعلق آئینی تقاضے پورے کردے تو بروقت انتخابات کا انعقاد ہوسکتا ہے ،ان کی اس دلیل پر بھی سیاسی اکابرین کو سنجیدگی سے رائے عامہ ہموار کرنی چاہیے جوآبادی میں بے پناہ اضافہ کے بعد عوام میں قومی و صوبائی حلقوں میں اسی تناسب سے اضافہ کی توقعات و دیگر تحفظات سے متعلق ہیں، ملکی انتخابات کے تاریخی تناظر میں اب تک ہونے والے عام انتخابات کے نتائج پر عدم اطمینان سے پیدا ہونے والے سوالات کے جواب بھی سیاسی گفتگو اور مشاورت میں کسی نتیجہ تک پہنچنے چاہئیں، عوام آبادی میں اضافہ اور پھیلاؤ کی روشنی میں قومی و صوبائی نشستوں اور حلقوں کی ساخت اور از سر نو تعین کے لیے زمینی انتخابی حقائق کو پیش نظر رکھنے کا مطالبہ کرتے ہیں، تاکہ ان کے اپنے منتخب نمایندوں کے درمیان قریبی رابطہ اور رسائی کا مضبوط میکنزم قائم ہو۔
اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ملکی سیاست آیندہ انتخابات کی شفافیت پر فوکس کرے، سیاسی جماعتیں منشور بر مبنی اجتماعات میں عوام کے دکھوں کا ازالہ کرنے کے ٹھوس اور سچے اعلانات و وعدے کریں،تاکہ ایک روادارانہ اور عوامی امنگوں کی تکمیل کے لیے کردار کشی اور الزام تراشیوں سے پاک انتخابی مہم کا قابل دید کلچر سر اٹھائے جس میں قوم ایک نئے سیاسی شعور کی نشاۃ ثانیہ کا عکس دیکھے، قوم سیاسی دنگل اور بے منزل بہتان طرازی اور کردارکشی پر استوار سیاسی سرکس اور جھوٹے وعدوں سے عاجز آچکے ہیں ، اشرافیائی سیاست زمیں بوس ہونے کو ہے، سیاسی اسٹیک ہولڈرز انتخابی معاملات طے کرنے کے لیے جس سیاسی بلوغت اور اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے الیکشن کی باریکیوں کو دیکھ رہے ہیں اسے ادارہ جاتی حیثیت ملنی چاہیے، اسی روادارانہ پارلیمانی روایت کے تحت آزادانہ انتخابات کو یقینی بنایا جاسکتا ہے اور الیکشن کمیشن کی بااختیاریت بھی نتیجہ خیز ثابت ہوسکتی ہے۔