تعلیم اساتذہ کی فوج
2010ء میں پاکستان کا تعلیمی بجٹ 3.5 ارب ڈالر تھا۔ وہ اب بڑھ کر 8.6 ارب ڈالر ہوچکا ہے
کبھی کبھی سوچتا ہوں، پاکستانی ہونا بڑے دل گردے کا کام ہے۔ ایک ایسا پاکستانی جو اپنے ہم وطن ہونے کے ناتے کچھ ایسی ترتیب بنائے جس سے سب کو انصاف میسر ہو۔ انصاف صرف وہ نہیں جو عدالتیں مہیا کرتی ہیں یا نہیں کرتیں۔ انصاف سماجی بھی ہوتا ہے۔ بہرحال جو بھی انصاف کے معنیٰ ہیں چاہے وہ عدالتی انصاف ہو، سماجی ہو یا پھرگھر پریوار کا ہو۔ وہ سب کو میسر ہونا چاہیے۔ انصاف میسر ہونے کا سب سے اہم اور بنیادی نکتہ تعلیم اورصحت ہے اور ریاست ہونے کے ناتے ریاست کا اہم مقصد اور بنیادی نکتہ یہ ہونا چاہیے کہ ریاست کے ہر عام و خاص کو اچھی تعلیم وصحت میسر ہو۔ خاص کو تو خیر ضرورت ہی نہیں بات ہے عام کی، اور عوام کی۔
صحت عامہ کے بحث کوکسی اورمضمون میں چھیڑیں گے مگر آج بات کرتے ہیں تعلیم کی۔ کچھ دن پہلے نیویارک ٹائمز میں نادیہ نویوالا کا ایک کالم شایع ہوا۔ محترمہ نے چونکا دینے والے کچھ انکشافات کیے۔ وہ جو حقیقتیں ادھر ادھر یہیں کہیں بکھری ہوئی تھیں ان کو سمیٹا۔
2010ء میں پاکستان کا تعلیمی بجٹ 3.5 ارب ڈالر تھا۔ وہ اب بڑھ کر 8.6 ارب ڈالر ہوچکا ہے۔ اب اٹھارویں ترمیم کے بعد تعلیم وفاقی شعبہ نہیں رہا بلکہ صوبائی ہوچکا ہے۔ بیان کا مقصد یہ ہے کہ وفاق اور صوبے مل کر اوپر بتایا ہوا بجٹ تعلیم پرصرف کرتے ہیں۔ نادیہ اس نتیجے پر پہنچتی ہیں کہ پاکستان میں فوج کے بعد (اس وقت فوج کا سالانہ بجٹ 8.7 ارب ڈالر ہے) تعلیم کا شعبہ ہے جس پر سب سے زیادہ بجٹ خرچ ہوتا ہے۔ وہ کہتی ہیں پاکستان میں اساتذہ کی تعداد اس قدر زیادہ ہے جس طرح پاکستاں میں افواج کی تعداد ہے، مگر پھر بھی پاکستان کے ایجوکیشن سسٹم میں بحران بجائے ختم ہونے کے بتدریج بڑھ رہا ہے۔ نادیہ کہتی ہیں کہ اس بحران کی بنیادی وجہ Supply Side ہے۔
یعنیٰ محکمہ تعلیم اور پاکستان کا تعلیمی نظام مثال کی طور پر وہ بچوں کے اسکول میں اندراج یعنی (Enrollment) کی شرح کو پیمانہ بناکر اپنی کامیابی سمجھتے ہیں۔ یہ بات سچ ہے کہ پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جن میں Out of School بچے دنیا میں دوسرے نمبر پر ہیں اور آج بھی 7 سے 9 سال کی عمر کے بچوں کی تعداد اسکولوں میں اتنی ہی ہے جتنی 2010ء میں تھی یعنی 57% ۔مگر غائب اساتذہ کی تعداد میں اس قدر اضافہ ہوا ہے جس کا اندازہ شاید 20 سے 30 فیصد تک لگایا جا سکتا ہے۔ اگر تنخواہوں کی بات کی جائے تو سرکاری اسکول میں پڑھانے والے اساتذہ کی تنخواہ پرائیویٹ اسکولوں کے اساتذہ سے کہیں زیادہ ہے۔ اس طرح وہ یہ بھی لکھتی ہیں کہ پاکستان میں تعلیم کا بحران، تعلیمی اخراجات میں اضافے سے حل نہیں ہوگا۔
وہ ایبٹ آباد کے اسکول میں گئیں دیکھا کہ تیسری جماعت کی کلاس میں تیس بچے تھے، جو پانچویں جماعت تک پہنچتے پہنچتے دو رہ گئے۔ جو بچے تیسری جماعت میں تھے وہ پاکستان کی صحیح Spelling بھی نہیں لکھ سکتے تھے۔ 40% بچے کچھ خواندہ (Literate ) تھے۔ ان میں سے ایک بچہ نجی اسکول کا تھا جس کو لکھنا اور پڑھنا قدرے بہتر انداز میں آتا تھا۔ مگر اسے بھی ایک بھرپور جملہ لکھنے میں دقت ہوئی ۔ آدھے بچے تیسری جماعت میں ایسے تھے جو کہ اردو یا اپنی مقامی زبان میں لکھا ہوا جملہ پڑھ سکتے تھے۔ ان میں سے 31% بچے ایسے تھے جو کہ اردو میں اسکول کے لفظ کو جملے میں استعمال کرسکتے تھے اور صرف 11%فیصد بچے یہی کام انگریزی میں کرسکتے تھے۔ نادیہ کو سرکاری اسکول میں پڑھنے والے بچوں نے بتایا کہ ان کے اساتذہ ان سے کھانا پکوانا، پاؤں دبوانا اور مالش کرنا جیسے کام کرواتے ہیں اس کی بدلے میں ان کو کوئی میٹھی چیز دلواتے ہیں۔
اساتذہ نے بچوں کو دوگروپس میں divide کیا ہوا ہے ایک جاہل اور ایک گروپ ہوشیار۔ ان پر جسمانی تشدد بھی کیا جاتا ہے۔ مجبور والدین اپنی مالی تنگی کی وجہ سے بچوں کو ان سرکاری اسکولوں میں پڑھانے پر مجبور ہیں ان کا یہ کہنا ہے کہ ورنہ یہ سرکاری اسکول کسی کام کے نہیں... وہ کہتی ہیں کہ تعلیم کا مطالبہ پہلے ہی بہت ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ چھوٹی دیہی آبادیوں میں چھوٹے چھوٹے پرائیویٹ اسکولوں کی تعداد بڑھ گئی ہے جہاں آبادی کا 40% بچہ داخل ہے جو مہینے میں کم سے کم فیس یعنی دو ڈالر ادا کرتا ہے۔
پاکستاں میں بہت سے ایسے خاندان ہیں جو اپنی آمدنی کا زیادہ حصہ ان پرائیویٹ اسکولوں پر خرچ کرتے ہیں اس امید پرکہ شاید ان کے بچوں کی انگریزی بہتر ہوجائے جب کہ وہ خود گھروں میں بچوں کے ساتھ انگریزی نہیں بولتے۔ انگریزی شرفاؤں کی زبان ہونے کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی منڈی کی زبان بھی ہے نتیجہ پھر یہ ہوتا ہے جس زبان کو بچے آسانی سے سمجھ اور بول سکتے ہیں، اس زبان میں بچوں کو تعلیم نہیں مل رہی ہوتی ہے۔ اور اس طرح جب اسکول لائف سے نکل کر یونیورسٹی تک پہنچتے ہیں اور وہاں انگریزی میں پڑھنا پڑتا ہے تو ان کا رجحان نقل کی طرف ہوجاتا ہے۔ جو ان کو سمجھ نہیں ہوتی کہ ان کے لیے نقل کا عمل کس قدر نقصان دہ ہے۔ PLAGIARISM ( دوسروں کی تحقیق اپنے نام سے شایع کروانا) پاکستان میں نہ صرف ایک رواج ہے بلکہ ضرورت بھی ہے۔
نادیہ کہتی ہیں انگریزی میڈیم اسکول ہوں پاکستان کے تعلیمی نظام میں انگریزی زبان کو دوسرا درجہ دے کر ایک مضمون کی حیثیت میں پڑھایا جائے۔ اسکولوں میں اندراج یعنی (Enrollment) کا پیمانہ ترک کرکے، خواندگی اور ہندسوں کی پہچان کو پیمانہ بنا کر اسکولوں کی کارکردگی اور تعلیمی نظام کے معیار کو پرکھا جاسکے۔ جو نکتہ نظر اس پورے مضمون میں نادیہ نہ سمجھ سکیں وہ یہ ہے کہ اس سے حقیقت اور واضح ہوجائے گی کہ پاکستان دنیا میں Out of school بچوں میں دوسرے نمبر پر تو ہے لیکن ہمارے جو بچے اسکول جاتے ہیں ان میں سے آدھے بچے ایسے ہیں جو اسکول نہ جانے والے بچوں کے ہی برابر ہیں۔
اس لیے میں اپنے قارئین سے یہ گزارش کروں گا کہ ہم سب اس لمحہ فکر یا میں کچھ بہتر کردار ادا کریں وہ اسطرح کہ اپنی ذاتی زندگی کی ترجیحات کو کم کر کے وقت نکالیں اور اپنی اس بنیادی کمزوری کو دورکرنے کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کریں کیونکہ پاکستان کو ترقی یافتہ ملک بنانے کے لیے ہمارے پاس دو ہی راستے ہیں ایک بہتر صحت اور دوسرا معیاری تعلیم۔ اس وقت ہمارا تعلیمی نظام بدترین حدود تک پہیچ چکا ہے جب کہ ہمارا ملک ہمارے تعلیمی نظام پر اتنا ہی خرچ کرتا ہے جتنا کہ Defence System پر لیکن معیار پھر بھی بہتر نہیں ہو پارہا۔
جس کو نادیہ اپنی زبان میں اس طرح لکھتی ہیں کہ "The country spends as much on education as on its powerful Military, but the quality doesn't compares" یہاں پر میں اتنا کہتا چلوں کہ تعلیمی نظام کی تباہی کی ذمے داری چاہے ملک میں آمریت ہو یا جمہوری نظام دونوں پر عائد ہوتی ہے ۔ پاکستان کو بری حکمرانی دونوں ادوار سے ملی ہے ۔ اس بحران کو کم کرنے کا ایک تدارک یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہم ایک Minimum Agenda تشکیل دیں کہ جس میں تعلیم اور صحت کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے ان افسر شاہی ، اساتذہ اور ڈاکٹرز سے کوئی رعایت نہ برتی جائے جو ان محکموں میں کام کرتے ہیں۔
صحت عامہ کے بحث کوکسی اورمضمون میں چھیڑیں گے مگر آج بات کرتے ہیں تعلیم کی۔ کچھ دن پہلے نیویارک ٹائمز میں نادیہ نویوالا کا ایک کالم شایع ہوا۔ محترمہ نے چونکا دینے والے کچھ انکشافات کیے۔ وہ جو حقیقتیں ادھر ادھر یہیں کہیں بکھری ہوئی تھیں ان کو سمیٹا۔
2010ء میں پاکستان کا تعلیمی بجٹ 3.5 ارب ڈالر تھا۔ وہ اب بڑھ کر 8.6 ارب ڈالر ہوچکا ہے۔ اب اٹھارویں ترمیم کے بعد تعلیم وفاقی شعبہ نہیں رہا بلکہ صوبائی ہوچکا ہے۔ بیان کا مقصد یہ ہے کہ وفاق اور صوبے مل کر اوپر بتایا ہوا بجٹ تعلیم پرصرف کرتے ہیں۔ نادیہ اس نتیجے پر پہنچتی ہیں کہ پاکستان میں فوج کے بعد (اس وقت فوج کا سالانہ بجٹ 8.7 ارب ڈالر ہے) تعلیم کا شعبہ ہے جس پر سب سے زیادہ بجٹ خرچ ہوتا ہے۔ وہ کہتی ہیں پاکستان میں اساتذہ کی تعداد اس قدر زیادہ ہے جس طرح پاکستاں میں افواج کی تعداد ہے، مگر پھر بھی پاکستان کے ایجوکیشن سسٹم میں بحران بجائے ختم ہونے کے بتدریج بڑھ رہا ہے۔ نادیہ کہتی ہیں کہ اس بحران کی بنیادی وجہ Supply Side ہے۔
یعنیٰ محکمہ تعلیم اور پاکستان کا تعلیمی نظام مثال کی طور پر وہ بچوں کے اسکول میں اندراج یعنی (Enrollment) کی شرح کو پیمانہ بناکر اپنی کامیابی سمجھتے ہیں۔ یہ بات سچ ہے کہ پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جن میں Out of School بچے دنیا میں دوسرے نمبر پر ہیں اور آج بھی 7 سے 9 سال کی عمر کے بچوں کی تعداد اسکولوں میں اتنی ہی ہے جتنی 2010ء میں تھی یعنی 57% ۔مگر غائب اساتذہ کی تعداد میں اس قدر اضافہ ہوا ہے جس کا اندازہ شاید 20 سے 30 فیصد تک لگایا جا سکتا ہے۔ اگر تنخواہوں کی بات کی جائے تو سرکاری اسکول میں پڑھانے والے اساتذہ کی تنخواہ پرائیویٹ اسکولوں کے اساتذہ سے کہیں زیادہ ہے۔ اس طرح وہ یہ بھی لکھتی ہیں کہ پاکستان میں تعلیم کا بحران، تعلیمی اخراجات میں اضافے سے حل نہیں ہوگا۔
وہ ایبٹ آباد کے اسکول میں گئیں دیکھا کہ تیسری جماعت کی کلاس میں تیس بچے تھے، جو پانچویں جماعت تک پہنچتے پہنچتے دو رہ گئے۔ جو بچے تیسری جماعت میں تھے وہ پاکستان کی صحیح Spelling بھی نہیں لکھ سکتے تھے۔ 40% بچے کچھ خواندہ (Literate ) تھے۔ ان میں سے ایک بچہ نجی اسکول کا تھا جس کو لکھنا اور پڑھنا قدرے بہتر انداز میں آتا تھا۔ مگر اسے بھی ایک بھرپور جملہ لکھنے میں دقت ہوئی ۔ آدھے بچے تیسری جماعت میں ایسے تھے جو کہ اردو یا اپنی مقامی زبان میں لکھا ہوا جملہ پڑھ سکتے تھے۔ ان میں سے 31% بچے ایسے تھے جو کہ اردو میں اسکول کے لفظ کو جملے میں استعمال کرسکتے تھے اور صرف 11%فیصد بچے یہی کام انگریزی میں کرسکتے تھے۔ نادیہ کو سرکاری اسکول میں پڑھنے والے بچوں نے بتایا کہ ان کے اساتذہ ان سے کھانا پکوانا، پاؤں دبوانا اور مالش کرنا جیسے کام کرواتے ہیں اس کی بدلے میں ان کو کوئی میٹھی چیز دلواتے ہیں۔
اساتذہ نے بچوں کو دوگروپس میں divide کیا ہوا ہے ایک جاہل اور ایک گروپ ہوشیار۔ ان پر جسمانی تشدد بھی کیا جاتا ہے۔ مجبور والدین اپنی مالی تنگی کی وجہ سے بچوں کو ان سرکاری اسکولوں میں پڑھانے پر مجبور ہیں ان کا یہ کہنا ہے کہ ورنہ یہ سرکاری اسکول کسی کام کے نہیں... وہ کہتی ہیں کہ تعلیم کا مطالبہ پہلے ہی بہت ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ چھوٹی دیہی آبادیوں میں چھوٹے چھوٹے پرائیویٹ اسکولوں کی تعداد بڑھ گئی ہے جہاں آبادی کا 40% بچہ داخل ہے جو مہینے میں کم سے کم فیس یعنی دو ڈالر ادا کرتا ہے۔
پاکستاں میں بہت سے ایسے خاندان ہیں جو اپنی آمدنی کا زیادہ حصہ ان پرائیویٹ اسکولوں پر خرچ کرتے ہیں اس امید پرکہ شاید ان کے بچوں کی انگریزی بہتر ہوجائے جب کہ وہ خود گھروں میں بچوں کے ساتھ انگریزی نہیں بولتے۔ انگریزی شرفاؤں کی زبان ہونے کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی منڈی کی زبان بھی ہے نتیجہ پھر یہ ہوتا ہے جس زبان کو بچے آسانی سے سمجھ اور بول سکتے ہیں، اس زبان میں بچوں کو تعلیم نہیں مل رہی ہوتی ہے۔ اور اس طرح جب اسکول لائف سے نکل کر یونیورسٹی تک پہنچتے ہیں اور وہاں انگریزی میں پڑھنا پڑتا ہے تو ان کا رجحان نقل کی طرف ہوجاتا ہے۔ جو ان کو سمجھ نہیں ہوتی کہ ان کے لیے نقل کا عمل کس قدر نقصان دہ ہے۔ PLAGIARISM ( دوسروں کی تحقیق اپنے نام سے شایع کروانا) پاکستان میں نہ صرف ایک رواج ہے بلکہ ضرورت بھی ہے۔
نادیہ کہتی ہیں انگریزی میڈیم اسکول ہوں پاکستان کے تعلیمی نظام میں انگریزی زبان کو دوسرا درجہ دے کر ایک مضمون کی حیثیت میں پڑھایا جائے۔ اسکولوں میں اندراج یعنی (Enrollment) کا پیمانہ ترک کرکے، خواندگی اور ہندسوں کی پہچان کو پیمانہ بنا کر اسکولوں کی کارکردگی اور تعلیمی نظام کے معیار کو پرکھا جاسکے۔ جو نکتہ نظر اس پورے مضمون میں نادیہ نہ سمجھ سکیں وہ یہ ہے کہ اس سے حقیقت اور واضح ہوجائے گی کہ پاکستان دنیا میں Out of school بچوں میں دوسرے نمبر پر تو ہے لیکن ہمارے جو بچے اسکول جاتے ہیں ان میں سے آدھے بچے ایسے ہیں جو اسکول نہ جانے والے بچوں کے ہی برابر ہیں۔
اس لیے میں اپنے قارئین سے یہ گزارش کروں گا کہ ہم سب اس لمحہ فکر یا میں کچھ بہتر کردار ادا کریں وہ اسطرح کہ اپنی ذاتی زندگی کی ترجیحات کو کم کر کے وقت نکالیں اور اپنی اس بنیادی کمزوری کو دورکرنے کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کریں کیونکہ پاکستان کو ترقی یافتہ ملک بنانے کے لیے ہمارے پاس دو ہی راستے ہیں ایک بہتر صحت اور دوسرا معیاری تعلیم۔ اس وقت ہمارا تعلیمی نظام بدترین حدود تک پہیچ چکا ہے جب کہ ہمارا ملک ہمارے تعلیمی نظام پر اتنا ہی خرچ کرتا ہے جتنا کہ Defence System پر لیکن معیار پھر بھی بہتر نہیں ہو پارہا۔
جس کو نادیہ اپنی زبان میں اس طرح لکھتی ہیں کہ "The country spends as much on education as on its powerful Military, but the quality doesn't compares" یہاں پر میں اتنا کہتا چلوں کہ تعلیمی نظام کی تباہی کی ذمے داری چاہے ملک میں آمریت ہو یا جمہوری نظام دونوں پر عائد ہوتی ہے ۔ پاکستان کو بری حکمرانی دونوں ادوار سے ملی ہے ۔ اس بحران کو کم کرنے کا ایک تدارک یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہم ایک Minimum Agenda تشکیل دیں کہ جس میں تعلیم اور صحت کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے ان افسر شاہی ، اساتذہ اور ڈاکٹرز سے کوئی رعایت نہ برتی جائے جو ان محکموں میں کام کرتے ہیں۔