خواندگی میں اضافہ ترقی کا پہلا زینہ

صرف لکھنا پڑھنا سکھا کر بھی شعور کی راہ ہم وار کی جا سکتی ہے۔

صرف لکھنا پڑھنا سکھا کر بھی شعور کی راہ ہم وار کی جا سکتی ہے۔ فوٹو : فائل

ناخواندگی یا لکھنے پڑھنے سے عدم واقفیت ہمارے معاشرے کا ایک بہت بڑا مسئلہ رہا ہے جو براہ راست جہالت کے معاملے پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔

بدقسمتی سے ہماری تقریباً نصف آبادی بھی اس معیار کو نہیں پہنچ پاتی جو صرف اپنا نام لکھنے اور دست خط کرنے کو خواندہ تصور کرتا ہے۔عمومی ناخواندگی میں اگر خواتین کی خواندگی دیکھی جائے تو صورت حال اور بھی ابتر ہے، ہمارے دیہاتوں میں آج بھی خواتین کو تعلیم تو درکنار معمولی لکھنا پڑھنا سکھانے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی جاتی، مستقبل کی ان مائوں کی تعلیم سے دوری براہ راست ہماری تعلیم پر اثر انداز ہوتی ہے اور یوں شرح خواندگی بڑھانے کی ساری کاوشیں بھی رائیگاں جانے لگتی ہیں۔

دیگر ممالک میں اگر ہم صرف اپنے قریب ترین بھارت اور بنگلادیش کا جائزہ لیں تو ان کی شرح خواندگی بھی ہم سے زیادہ ہے، یہی نہیں معیار تعلیم اور خواتین کی تعلیم کی صورت حال بھی خاصی بہتر ہے، جب کہ ہمارے یہاں تعلیم کے حوالے سے کبھی سنجیدہ کوششیں نہیں کی گئیں،جس کی ایک مثال ہمارا بجٹ ہے، جس میں تعلیم کے لیے مختص رقم کا ذکر کرتے ہوئے بھی شرم آتی ہے، پھر اس معمولی رقم میں بھی بدعنوانیوں کی شکایات عام ہیں۔

ہمارے یہاں تعلیم عام کرنے کے دعوے اور باتیں بہت کی جاتی ہیں لیکن کسی سے بھی اتنا نہیں ہوتا کہ تعلیم عام کرنا تو بہت بڑا دعوا ہے، کم سے کم اپنی مکمل آبادی کو خواندہ تو بنادیں ۔ وہ کم سے کم لکھنا پڑھنا تو سیکھ لے۔ ضروری نہیں کہ تعلیم کی اتنی بری صورت حال میں اتنے بڑے دعوے کرلیے جائیں جن کے انتظار میں ہی کئی نسلیں گزر جائیں۔


پہلے مرحلے میں اگر صرف ایک ہی زبان میں صحیح طرح لکھنا پڑھنا سکھا دیا جائے تو یہ امر بھی پاکستان جیسے ملک کے لیے بہت بڑی کام یابی ہوگا۔ جب افراد لکھنے پڑھنے میں عبور حاصل کرلیں گے تو پھر یقیناً ان کی جہالت بھی دور ہوگی اور پھر ان کی آنے والی نسلیں اس سے بھی ایک قدم اور آگے کی سوچیں گی۔ ہمارا مسئلہ یہی شعور اور آگہی کا ہے جو لکھنا پڑھنا آنے سے کافی حد تک حل ہوسکتا ہے۔

لوگوں کو لکھنا پڑھنا سکھانے کے لیے ہر وہ شخص اپنا کردار ادا کرسکتا ہے جو لکھنا پڑھنا جانتا ہے۔ اس کے لیے کسی سند اور ڈگری کی بھی ضرورت نہیں۔ صرف خلوص نیت سے اگر ایک عام خواندہ شخص بھی یہ کام کرے تو یہ کوئی مشکل امر نہیں۔

جب ہمارے دیہات اور دیگر پس ماندہ علاقوں کے رہنے والے اس امر پر راضی ہوجائیں گے کہ اپنی بیٹیوں کو کم سے کم لکھنا پڑھنا تو سکھا دیں تو یقیناً یہ امر ہماری آنے والی نسلوں کی تعلیم کے لیے خاطر خواہ پیش رفت کاباعث ہوگا، کیوں کہ ایک عورت کی تعلیم ایک خاندان کی تعلیم کے مترادف ہوتی ہے۔

ہماری تعلیمی پس ماندگی کا ایک سبب غربت بھی ہے لہٰذا ایسے ادارے بنائے جاسکتے ہیں جو طالب علموں کو تعلیم کے ساتھ ساتھ ہنر بھی سکھائیں،کیوں کہ تعلیم اور شعور و آگہی کا کوئی متبادل نہیں ہوسکتا۔ آج اس ہی عدم شعور کی وجہ سے ہماری نوجوان نسل ایک بے منزل مسافر کی مانند نظر آتی ہے۔ اس میں ہماری ناخواندگی کو بڑا دخل ہے، کیوں کہ آج کی نسل کے والدین کی بھی بڑی تعداد ناخواندہ ہے، جس کا بڑا گہرا اثر ان کے بچوں پر بھی پڑ اہے، اس لیے جب تک ہم اپنے معاشرے میں خواندگی عام نہیں کریں گے ہمارے مسائل یوں ہی ہم پر حاوی رہیں گے اور اس کے ساتھ ''تعلیم سب کے لیے'' کا خواب بھی تعبیر نہ پاسکے گا۔
Load Next Story