ہیروز کے لیے زندگی آسان ہوتی ہے بپاشا باسو
بپاشا اب قدرے پس منظر میں چلی گئی ہے، شاید اس کا ایک سبب اس کی بڑھتی عمر اور فلم انڈسٹری میں نئی اداکاراؤں کی آمد ہے۔
سانولی سلونی اداکارہ کا کیریئر نشیب و فراز سے دوچار ہے۔ کئی برس تک فلمی منظر نامے پر چھائی رہنے والی اداکارہ اب قدرے پس منظر میں چلی گئی ہے۔
شاید اس کا ایک سبب اس کی بڑھتی عمر اور فلم انڈسٹری میں نئی اداکاراؤں کی آمد ہے۔ تاہم بپاشا کی صلاحیتوں سے انکار ممکن نہیں جن کا مظاہرہ اس نے متعدد فلموں میں کیا ہے۔ جان ابراہام کے ساتھ اس کی آٹھ سالہ دوستی ختم ہوچکی ہے اور اب وہ زیادہ آزادی اور بے فکری کے ساتھ زندگی کا لطف اٹھارہی ہے تاہم اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ فلمی دنیا میں اس کی مصروفیت محدود ہوگئی ہے۔
وہ بدستور اداکاری کرنے میں مصروف ہے۔ '' آتما'' بپاشا کی آنے والی فلم ہے۔ اس فلم میں بپاشا کی جوڑی ابھرتے ہوئے اداکار نوازالدین صدیقی کے ساتھ ہے۔ جیسے کہ نام ہی سے ظاہر ہے '' آتما '' ایک ہارر فلم ہے۔ اس سے قبل بپاشا کی ریلیز ہونے والی فلم '' راز تھری'' بھی ایک ہارر فلم تھی۔ باصلاحیت اور خوب رو اداکارہ سے کی گئی تازہ بات چیت قارئین کی نذر ہے۔
٭ ''راز تھری'' کی کام یابی کے بعد آپ ایک اور ہارر فلم میں جلوہ گر ہورہی ہیں۔ فلمی حلقوں میں آپ کو ''ہارر فلموں کی اسپیشلسٹ '' کہا جانے لگا ہے۔ اس پر آپ کیا کہیں گی۔
کچھ ایسی باتیں میرے کانوں میں بھی پڑی ہیں۔ درحقیقت میں ایک پروڈکشن کمپنی قائم کرنے پر غور کررہی ہوں جو صرف ہارر فلمیں بنائے گی، پھر میں حقیقی معنوں میں ''ہارر فلموں کی اسپیشلسٹ'' بن جاؤں گی (مسکراہٹ)۔ ''راز تھری'' کے بعد''آتما'' میں رول کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ہارر فلموں پر اب تک بولی وڈ میں صحیح طور سے توجہ نہیں دی گئی۔ ڈر اور خوف کا عنصر اب تک دوسرے اور تیسرے درجے کی فلموں تک محدود رہا ہے، مگر میں ثابت کرنا چاہتی ہوں کہ معیاری ہارر فلمیں بھی بنائی جاسکتی ہیں۔
٭ '' آتما'' کے بارے میں کچھ بتائیں گی، مثال کے طور پر اس فلم کی کہانی کیا ہے۔۔۔ آپ اس میں کس طرح کا کردار ادا کررہی ہیں؟
دراصل یہ ایک سائیکلوجیکل تھرلر فلم ہے۔ میں نے اس فلم میں مایا کا رول کیا ہے۔ مایا ایک بچی کی ماں اور ایک مظلوم عورت ہے جو اپنے شوہر ( نواز الدین صدیقی ) کے تشدد کا نشانہ بنتی رہتی ہے۔ شوہر کی موت کے بعد اس پر انکشاف ہوتا ہے کہ اس کا بھوت ان کی بیٹی کی جان لینا چاہتا ہے۔ وہ اپنی بیٹی کی زندگی بچانے کی تگ و دو میں لگ جاتی ہے۔
٭بولی وڈ میں آئٹم نمبر کرنے کا رحجان بہت بڑھ گیا ہے۔ آپ کا اس بارے میں کیا کہنا ہے؟
آئٹم نمبر کرنے میں کوئی حرج نہیں اور یہ عوام میں بہت پسند بھی کیے جاتے ہیں۔ شادی اور سال گرہ وغیرہ کی تقاریب میں بچوں اور نوجوانوں کے علاوہ بزرگ بھی ان گیتوں پر جھوم رہے ہوتے ہیں۔ دراصل بولی وڈ کوئی ہالی وڈ تو ہے نہیں جہاں فلموں میں گیت اور رقص کی ضرورت نہیں سمجھی جاتی جب کہ ہماری فلمیں ان کے بغیر ادھوری ہوتی ہیں۔ میں نے بھی آئٹم نمبر اور گلیمرس رول کیے ہیں لیکن اب میں کچھ مختلف کرنا چاہتی ہوں۔
٭ بولی وڈ میں '' 100 کروڑ کلب'' کی اصطلاح چل نکلی ہے، تو کیا اب اسی کو اداکار تسلیم کیا جائے گا جو اس کلب میں شامل فلموں کا حصہ ہوگا؟
''100 کروڑ کلب'' بولی وڈ میں روایت بنتا جارہا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ جو فلمیں 100 کروڑ کا بزنس کرلیتی ہیں ان کے اداکاروں پر مستند کی چھاپ لگ جاتی ہے چاہے وہ اتنے باصلاحیت نہ بھی ہوں۔ مگر یہ بھی درست ہے کہ ٹیلنٹ خود کو منوالیتا ہے۔
٭آپ نے اب تک جو کردار ادا کیے ہیں اور جن کرداروں کی آپ کو پیش کش ہورہی ہے کیا ان سے آپ مطمئن ہیں؟
بولی وڈ میں اداکاراؤں کو وہ اہمیت نہیں دی جاتی جس کی وہ مستحق ہیں۔ انھیں اچھے کردار بہت کم مل پاتے ہیں۔ اور جنھیں اچھے رول مل جائیں وہ اداکارائیں خوش قسمت ہوتی ہیں۔ یہاں ہیروز کے لیے خاص طور پر کردار لکھے جاتے ہیں مگر اداکارائیں اس توجہ سے محروم رہتی ہیں۔ میں ان چند اداکاراؤں میں سے ایک ہوں جنھوں نے اب تک کسی ''خان'' کے ساتھ کام نہیں کیا لیکن اگر مجھے موقع ملے تو میں سلمان اور شاہ رخ کی فلم میں رول کرنا چاہوں گی۔
٭ کیا خوب رو، تنہا اور کام یاب عورت کے لیے زندگی مشکل ہوتی ہے؟
جی ہاں! کیریئر کی ابتدا میں مجھ پر بہت تنقید ہوئی لوگوں نے آوازیں بھی کسیں لیکن میں نے صورت حال کو مثبت انداز میں لیا۔ میں یہ کہوں گی کہ ایک اداکارہ کے لیے زندگی مشکل ہوتی ہے، اس کے برعکس اگر آپ ہیرو ہیں تو آپ کو کسی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔
شاید اس کا ایک سبب اس کی بڑھتی عمر اور فلم انڈسٹری میں نئی اداکاراؤں کی آمد ہے۔ تاہم بپاشا کی صلاحیتوں سے انکار ممکن نہیں جن کا مظاہرہ اس نے متعدد فلموں میں کیا ہے۔ جان ابراہام کے ساتھ اس کی آٹھ سالہ دوستی ختم ہوچکی ہے اور اب وہ زیادہ آزادی اور بے فکری کے ساتھ زندگی کا لطف اٹھارہی ہے تاہم اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ فلمی دنیا میں اس کی مصروفیت محدود ہوگئی ہے۔
وہ بدستور اداکاری کرنے میں مصروف ہے۔ '' آتما'' بپاشا کی آنے والی فلم ہے۔ اس فلم میں بپاشا کی جوڑی ابھرتے ہوئے اداکار نوازالدین صدیقی کے ساتھ ہے۔ جیسے کہ نام ہی سے ظاہر ہے '' آتما '' ایک ہارر فلم ہے۔ اس سے قبل بپاشا کی ریلیز ہونے والی فلم '' راز تھری'' بھی ایک ہارر فلم تھی۔ باصلاحیت اور خوب رو اداکارہ سے کی گئی تازہ بات چیت قارئین کی نذر ہے۔
٭ ''راز تھری'' کی کام یابی کے بعد آپ ایک اور ہارر فلم میں جلوہ گر ہورہی ہیں۔ فلمی حلقوں میں آپ کو ''ہارر فلموں کی اسپیشلسٹ '' کہا جانے لگا ہے۔ اس پر آپ کیا کہیں گی۔
کچھ ایسی باتیں میرے کانوں میں بھی پڑی ہیں۔ درحقیقت میں ایک پروڈکشن کمپنی قائم کرنے پر غور کررہی ہوں جو صرف ہارر فلمیں بنائے گی، پھر میں حقیقی معنوں میں ''ہارر فلموں کی اسپیشلسٹ'' بن جاؤں گی (مسکراہٹ)۔ ''راز تھری'' کے بعد''آتما'' میں رول کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ہارر فلموں پر اب تک بولی وڈ میں صحیح طور سے توجہ نہیں دی گئی۔ ڈر اور خوف کا عنصر اب تک دوسرے اور تیسرے درجے کی فلموں تک محدود رہا ہے، مگر میں ثابت کرنا چاہتی ہوں کہ معیاری ہارر فلمیں بھی بنائی جاسکتی ہیں۔
٭ '' آتما'' کے بارے میں کچھ بتائیں گی، مثال کے طور پر اس فلم کی کہانی کیا ہے۔۔۔ آپ اس میں کس طرح کا کردار ادا کررہی ہیں؟
دراصل یہ ایک سائیکلوجیکل تھرلر فلم ہے۔ میں نے اس فلم میں مایا کا رول کیا ہے۔ مایا ایک بچی کی ماں اور ایک مظلوم عورت ہے جو اپنے شوہر ( نواز الدین صدیقی ) کے تشدد کا نشانہ بنتی رہتی ہے۔ شوہر کی موت کے بعد اس پر انکشاف ہوتا ہے کہ اس کا بھوت ان کی بیٹی کی جان لینا چاہتا ہے۔ وہ اپنی بیٹی کی زندگی بچانے کی تگ و دو میں لگ جاتی ہے۔
٭بولی وڈ میں آئٹم نمبر کرنے کا رحجان بہت بڑھ گیا ہے۔ آپ کا اس بارے میں کیا کہنا ہے؟
آئٹم نمبر کرنے میں کوئی حرج نہیں اور یہ عوام میں بہت پسند بھی کیے جاتے ہیں۔ شادی اور سال گرہ وغیرہ کی تقاریب میں بچوں اور نوجوانوں کے علاوہ بزرگ بھی ان گیتوں پر جھوم رہے ہوتے ہیں۔ دراصل بولی وڈ کوئی ہالی وڈ تو ہے نہیں جہاں فلموں میں گیت اور رقص کی ضرورت نہیں سمجھی جاتی جب کہ ہماری فلمیں ان کے بغیر ادھوری ہوتی ہیں۔ میں نے بھی آئٹم نمبر اور گلیمرس رول کیے ہیں لیکن اب میں کچھ مختلف کرنا چاہتی ہوں۔
٭ بولی وڈ میں '' 100 کروڑ کلب'' کی اصطلاح چل نکلی ہے، تو کیا اب اسی کو اداکار تسلیم کیا جائے گا جو اس کلب میں شامل فلموں کا حصہ ہوگا؟
''100 کروڑ کلب'' بولی وڈ میں روایت بنتا جارہا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ جو فلمیں 100 کروڑ کا بزنس کرلیتی ہیں ان کے اداکاروں پر مستند کی چھاپ لگ جاتی ہے چاہے وہ اتنے باصلاحیت نہ بھی ہوں۔ مگر یہ بھی درست ہے کہ ٹیلنٹ خود کو منوالیتا ہے۔
٭آپ نے اب تک جو کردار ادا کیے ہیں اور جن کرداروں کی آپ کو پیش کش ہورہی ہے کیا ان سے آپ مطمئن ہیں؟
بولی وڈ میں اداکاراؤں کو وہ اہمیت نہیں دی جاتی جس کی وہ مستحق ہیں۔ انھیں اچھے کردار بہت کم مل پاتے ہیں۔ اور جنھیں اچھے رول مل جائیں وہ اداکارائیں خوش قسمت ہوتی ہیں۔ یہاں ہیروز کے لیے خاص طور پر کردار لکھے جاتے ہیں مگر اداکارائیں اس توجہ سے محروم رہتی ہیں۔ میں ان چند اداکاراؤں میں سے ایک ہوں جنھوں نے اب تک کسی ''خان'' کے ساتھ کام نہیں کیا لیکن اگر مجھے موقع ملے تو میں سلمان اور شاہ رخ کی فلم میں رول کرنا چاہوں گی۔
٭ کیا خوب رو، تنہا اور کام یاب عورت کے لیے زندگی مشکل ہوتی ہے؟
جی ہاں! کیریئر کی ابتدا میں مجھ پر بہت تنقید ہوئی لوگوں نے آوازیں بھی کسیں لیکن میں نے صورت حال کو مثبت انداز میں لیا۔ میں یہ کہوں گی کہ ایک اداکارہ کے لیے زندگی مشکل ہوتی ہے، اس کے برعکس اگر آپ ہیرو ہیں تو آپ کو کسی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔