کرد قوم کے نئے فیصلے اور انجام

اب دیکھنا یہ ہے کہ موضوع گفتگو جمہوریہ کردستان اور عراق کس طرح اپنے مسائل کو حل کرتے ہیں۔

anisbaqar@hotmail.com

لاہور:
کردوں کو دکھ سہتے اوردھکے کھاتے ہوئے ایک صدی سے زیادہ بیت گئی۔ پہلی جنگ عظیم ختم ہوئی، ان کی کوئی تنظیم نہ تھی عراقیوں کے ہمراہ چلتے رہے دوسری جنگ عظیم ختم ہوئی تب بھی عراقی لیڈروں کی ہمنوائی میں گزری۔ صدام حسین کی صدارت میں ایک دہائی تک چلے، پھر زبردست اذیت اور ہولناکیوں سے گزرنا پڑا۔ کراچی یونیورسٹی سے 1970ء میں کرد عراقی طلبا کے ایک گروپ نے سیاسی عمل کے ذریعے کردستان کی شاہراہوں اور گلی کوچوں، پہاڑی علاقوں میں پیغام سیاست کو پھیلایا اور پھرکرد پارٹیاں تشکیل پاتی گئیں۔

بالآخر 2017ء کی وہ گھڑی آن پہنچی جب داعش نے عراق کے بڑے شہروں کو حملہ کرکے اپنے آئین کا حصہ بنالیا تو ایسے موقعے پر انتہائی مشرقی شامی اور عراقی علاقے پر داعش کے لیڈر ابوبکر بغدادی کا بھرپور قبضہ ہوگیا، اس رہنما کی سفاکی اور بربریت کے خوف سے لوگ مدمقابل ہوتے ڈرتے تھے۔ مگر ایسے موقعے پرکرد مرد و زن میدان جنگ میں سینہ سپر ہوئے اور داعش کی فوجوں کے چھکے چھڑا دیے۔ کیونکہ ان کو معلوم تھا کہ وہ ان علاقوں کی طرف ضرور بڑھیں گے جہاں تیل کی تنصیبات ہیں، یہ شکست ان کو موصل سے پسپائی سے قبل ہوئی۔ اس طرح ناقابل تسخیر داعش کو ایک بڑا صدمہ برداشت کرنا پڑا، جب کہ دوسری جانب عراقی جانبازوں اور پاپولر فورسز نے داعش سے موصل خالی کروالیا۔ اس جنگ میں داعش کا ہولناک جانی نقصان ہوا اور پوری فوج کو عراقیوں نے ملبے کا ڈھیر بنادیا جس نے داعش کی کمر توڑ کے رکھ دی۔

اس جیت نے عراقیوں کے حوصلے بڑھا دیے اور اب عراقی کمانڈر یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ جو امریکی فوجی داعش کے خلاف لڑنے آئے تھے وہ فوری طور پر عراق چھوڑ دیں کیونکہ وہ دبے الفاظ میں یہ بتا رہے ہیں کہ انھوں نے داعش کی حمایت میں اقدامات کیے تھے۔ بہر حال یہ بھولنا نہیں چاہیے کہ ایک وقت عراقیوں پر ایسا گزرا جب کرد ان کے اتحادی تھے اور تازہ دم داعش کے جنونی پاسداروں کے خلاف وہ صف آرا ہوئے اور زبردست جنگ کے بعد عراق اور شام کے علاقے کو انھوں نے موصل سے قبل آزاد کرا لیا تھا۔ یہ بات عراقی لیڈروں کے ذہن میں سرائیت کرچکی ہے۔ اس طرح کردوں میں بھی عراقیوں کے لیے نیک جذبات ہیں۔ اسی لیے ایک کرد کمانڈر نے میدان جنگ کرکوک سے رپورٹ کرتے ہوئے کہا تھا کہ کردوں کا ایک گروپ میدان جنگ سے آدھے گھنٹے میں میدان چھوڑ گیا تھا۔

اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ تیل کی تنصیبات پر حملہ روکنے کے لیے کردوں کی جماعتوں میں اتفاق رائے کی زبردست کمی تھی۔ ویسے بھی ایک غیر منظم آبادی میں 20 جماعتوں کا جمہوری اتحاد ایک پلیٹ فارم پر مشکل سے ہی متحد ہوسکتا ہے۔ چند پارٹیاں جو بظاہر نمایاں ہیں ان میں KPK، پیش مرگہہ، SSP، KDR وغیرہ وغیرہ شامل ہیں۔ زیادہ تر سوشلسٹ پارٹیاں ہیں اور بعض مارکسی نظریات والی، مگر جیسے ہی ستمبر میں کردوں نے مرکزی شہر اربیل میں ریفرنڈم کرایا تو سب سے پہلے اسرائیل اور امریکا نے کردوں کے صدر مسعود بارزانی کو عجلت میں مبارکباد کا پیغام بھیجا اور اسرائیل نے فوری طور پر کردستان کے صدر مقام اربیل میں اپنا سفیر تعینات کرنے کے لیے تیاریاں شروع کر دیں، لیکن اسرائیل کا یہ عمل قبل از وقت تھا۔ کیونکہ ایک تو اسرائیل کی سفارتکاری مسلم دنیا میں بدنام زمانہ ہے اور کردوں کی تنظیم عمومی طور پر سوشلزم سے مرصع ہے۔ لہٰذا فکری طور پر دونوں میں خاصا فاصلہ ہے۔

مانا کہ ریفرنڈم کا مرحلہ گزرا اور کردوں کی علاقائی گورنمنٹ اور عراقی افواج میں جنگ بھی ہوئی مگر یہ جنگ مختصر تھی اور کردوں نے جنگ کو پورے جذبے سے نہ لڑا۔ لہٰذا گفتگوکی تیاریاں شروع ہوگئیں اور ریفرنڈم کے نتائج کو کردستان ریجنل گورنمنٹ (KRG) نے منجمد کردیا اور اب بات چیت کی تیاریاں شروع ہونے کو ہیں۔ اربیل اور بغداد میں اس کی تیاریاں نمایاں ہیں۔


اسرائیل اور امریکا نے پرزور طریقے سے رابطے کیے مگر پھر بھی تل ابیب اور واشنگٹن میں کوئی خاص پیشرفت نہ ہوسکی بلکہ یہ خبر عام طور پر کردوں میں گشت کرنے لگی کہ کرکوک میں 9 ارب بیرل تیل کے محفوظ ذخائر موجود ہیں اس پر امریکا اور اسرائیل کی نگاہیں گڑی ہوئی ہیں ورنہ ان کا کردوں سے کیا لینا دینا ہے۔ ابھی زیادہ عرصہ نہ ہوا تھا کہ داعش کو عرب دنیا پر مسلط کر رہے تھے اور انسانوں کی بڑی ہلاکت پر کوئی دریغ نہ کیا اور ہر نسل و مذہب کے لوگوں کو تہہ تیغ کرتے چلے گئے ۔ حالات کے پیش نظر ابھی امریکی اور اسرائیلی دام میں کردوں کا اسیر ہونا مشکل امر معلوم ہوتا ہے مگر امکانات کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ مقتدا الصدر کے زیر اثر پاپولر موبلائزیشن فورسز میں اور ایران میں بظاہر کوئی اختلاف نہیں۔ لیکن پس پردہ سیاسی اختلاف موجود ہے۔

اسی لیے داعش کے زوال کے بعد مقتدا الصدر کئی بار سعودی عرب کے ولی عہد شہزادے کی دعوت پر ریاض کا دورہ کرچکے ہیں اور عراقی حجاج کے لیے سہولتیں دینے کا ایک بڑا معاہدہ کرچکے ہیں۔ جس سے عراق اور سعودی عرب کے مابین رنجشوں میں خاصی کمی واقع ہوئی ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ موضوع گفتگو جمہوریہ کردستان اور عراق کس طرح اپنے مسائل کو حل کرتے ہیں۔ گوکہ مقتدا کا پاپولر فورس پر خاصا اثر ہے۔ اسی لیے سعودی عرب عراق سے تعلقات میں نرمی پیدا کر رہا ہے۔ لیکن جو توقع تھی کہ جنگ بندی کے بعد کردستان اور عراق کے تعلقات میں نرمی پیدا ہوگی ویسا نہ ہوا بلکہ کردوں کے نرم رویے کو عراقی وزیر اعظم نے کمزوری خیال کیا اورکرد ستان کے صدر مقام اربیل سے جو لبنانی پروازیں آتی تھیں ان پر پابندی لگادی اور ہوائی رابطے مسدود کردیے البتہ اندرون ملک پروازوں پر فی الحال کوئی پابندی نہیں لگائی، رفتہ رفتہ عراق کا طرز گفتگو کردوں سے ترکی جیسا ہوتا جا رہا ہے اور جلد ہی ترکی اور عراق ایک فوجی ڈرل (Drill) کا اہتمام کرنے والے ہیں۔ عراق اور ترکی کے مابین شمالی علاقوں میں یہ پہلی ڈرل ہوگی۔ جس میں دونوں ملکوں کی فوجیں اپنی جنگی مشقوں کو نمایاں کریں گی۔

دراصل جنگی مشقیں دونوں ملکوں کے مفادات کی سیاست کی نمایش پیش کریں گی۔ دریں اثنا عراقی وزیر اعظم نے چند دن ہوئے کہ انھوں نے کردستان کے ہوائی اڈے اربیل ایئرپورٹ کا انتظام بغداد کی حکومت کے سپرد کرنے کی دھمکی دی ہے جو بالآخر تنازع کا پیش خیمہ بنے گا اور اس طرح خطے میں ایک نئی جنگ کا آغاز ہوگا۔ جس میں امریکا کو داخل ہونے کا بہترین موقعہ ملے گا اور ایک صدی سے زائد محروم قوم کو مزید کشت و خون سے گزرنا پڑے گا اور اسرائیل کو اپنے سیاسی جوہر دکھانے کا سنہری موقعہ ملے گا۔

مگر یہ تو بعد کی بات ہے گزشتہ اتوار کردوں کی ایک مضبوط ملیشیا کے لوگ فائر کرتے ہوئے اربیل کے اسمبلی ہال میں داخل ہوئے یہ پیش مرگہہ کے ہتھیار بند لوگ تھے نتیجہ یہ ہوا کہ کردوں کی مقامی حکومت کے صدر مسعود بارزانی نے احتجاجاً استعفیٰ دے دیا۔ اس غیر ذمے دارانہ تنظیمی حرکت سے کردوں کی منزل مزید دور ہوگئی۔
Load Next Story