معیشت کو کوئی خطرہ لاحق نہیں گورنر اسٹیٹ بینک

معاشی اشاریے مضبوط،قرض اقساط مقررہ وقت پردے رہے ہیں،چیلنجزکے باوجود 5 سال میں کوئی بینک ناکام نہیں ہوا،ترسیلات زر۔۔۔

پاکستان کو آئی ایم ایف کے پاس جانے کی ضرورت نہیں، مناسب وقت پر رجوع کیا جاسکتا ہے،غیر بینکاری مالی چینلز متنوع بنانا ہونگے، سیمینار سے خطاب، میڈیا سے گفتگو۔ فوٹو: اے پی پی

گورنراسٹیٹ بینک یاسین انور نے کہا ہے کہ پاکستانی معیشت کو کوئی خطرہ نہیں، معاشی اشاریے مضبوط ہیں، چیلنجزضروردرپیش ہیں لیکن ان پر قابو پایا جاسکتا ہے، پاکستان کو فی الوقت آئی ایم ایف کے پاس جانے کی ضرورت نہیں ہے، آئی ایم ایف سے روابط ہیں، صرف درست وقت پر ہی آئی ایم ایف سے رجوع کیا جاسکتا ہے۔

یہ بات انہوں نے پیر کو سیکیورٹیز اینڈ ایکس چینج کمیشن آف پاکستان کی جانب سے غیربینکاری مالیاتی شعبے کی ترقی کے لیے مجوزہ اصلاحاتی رپورٹ کے اجرا اورپاکستان کے غیربینکاری مالیاتی شعبے کے مستقبل کے موضوع پر منعقدہ سیمینار کے بعد صحافیوں سے بات چیت کے دوران کہی۔ گورنراسٹیٹ بینک نے کہا کہ آئی ایم ایف کی اقساط مقررہ وقت پر ادا کی جارہی ہیں، مضبوط اشاریوں کے باعث اسٹاک ایکس چینج میں تیزی کا رحجان غالب ہے اور امن وامان کی خراب صورتحال سمیت دیگر چیلنجزکے باوجودگزشتہ 5 سال میں مقامی بینکنگ انڈسٹری کا کوئی بینک بھی ناکام نہیں ہوا۔

انہوں نے کہا کہ رواں سال سمندرپار پاکستانیوں کی جانب سے متوقع ترسیلات زر کی آمد14.2 ارب ڈالر ہوگی۔ قبل ازیں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ پاکستان کے مالیاتی نظام کو اب اپنی پوری استعداد کے مطابق وسعت دے کرملکی معاشی ترقی میں زیادہ بامقصد کردار ادا کرنا ہے۔ انہوں نے''شیڈو بینکنگ'' کے خطرات سے نمٹتے ہوئے نان بینک فنانشل ماڈلز وضع کرنا'' کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اسے مزید متنوع اور گہرائی کا حامل بنانے کی ضرورت ہے، این بی ایف آئیزاس سلسلے میں ایک بامقصد کردار ادا کر سکتے ہیں۔


عالمی مالیاتی بحرانوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں این بی ایف آئیز/ شیڈو بینکنگ کو درپیش خطرات کے متعلق بہتر آگہی حاصل ہے، بحیثیت ریگولیٹر ہمیں چوکنا رہنے کی ضرورت ہے تا کہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ یہ خطرات مضبوط نان بینکنگ فنانشل ماڈلز کو متاثر کیے بغیر زائل ہو جائیں۔ یاسین انور نے کہا کہ پاکستان میں سال 2005 کے دوران مالیاتی شعبے کے مجموعی اثاثوں کی مالیت 5.202 ٹریلین روپے تھی جوسال2011 میں بڑھ کر 11.107 ٹریلین تک پہنچ گئی تاہم جی ڈی پی کے تناسب سے مالیاتی شعبے کا حصہ 57.4 فیصد کی بے حد پست سطح پر ہے۔



انہوں نے کہا کہ 2011 میں مالیاتی اثاثوں میں بینکوں کا حصہ 74 فیصد جبکہ این بی ایف آئیز کا حصہ پورے مالیاتی شعبے کے اثاثوں کا صرف 4.7 فیصد تھا جبکہ سال 2005 میں یہ شرح تقریباً 7.6 فیصد تھی، مالیاتی شعبے اور جی ڈی پی کا کم تناسب اور مالی شعبے میں این بی ایف آئیز کے کم ہوتے ہوئے حصے سے ظاہر ہوتا ہے کہ مالی شعبے کو ترقی دینے اور مختلف شرح منافع کی توقعات اور مختلف قسم کے خطرات مول لینے والے سرمایہ کاروں کو متوجہ کرنے کیلیے مالی شعبے کے اثاثوں کو متنوع بنانے اور ملک کی معاشی ترقی کے لیے مالی وسائل کو استعمال میں لانے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے پاکستان میں این بی ایف آئیز کے شعبے کودرپیش 4 اہم رکاوٹوں کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ اگرچہ این بی ایف آئیز کی جانب سے اپنی کاروباری سرگرمیوں کی رینج اور مصنوعات کی بنیاد کو توسیع دینے کی زیادہ کوششیں کی جا رہی ہیں جس سے ان کی آمدنی کے ذرائع کو متنوع بنایا گیا ہے تاہم اس شعبے کو اب بھی بریک تھرو کی ضرورت ہے،شعبے کو فنڈز مختص کرنے کے بے پناہ مواقع سے فائدہ اٹھانا ہے جنہیں ماضی میں نظر انداز کیا گیا، شیڈو بینکنگ سے درپیش خطرات کوکم کرنے کیلیے این بی ایف آئیز کی نگرانی اورریگولیشن کو مزید تقویت دینے کی ضرورت ہے۔
Load Next Story