سانحہ عباس ٹاؤن ریسکیو سمیت1122متعدد ادارے غیر فعال ہے
محکمہ صحت کے افسران میں رابطے کا فقدان، سرکاری سطح پر زخمیوں کا ڈیٹا غلط فراہم کیا جاتارہا.
کراچی میں ناگہانی آفت یا دہشت گردی کے واقعات میں زندگی کی بازی ہارنے اور زخمیوں کے بارے میں عوام کو بروقت اور درست اطلاعات دینے والاکوئی ادارہ موجود نہیں۔
ریسکیو1122 سمیت متعدد ادارے غیر فعال رہے ،سرکاری اسپتالوں کے شعبہ حادثات میں بستروںکی تعداد بہت کم ہے ،اسپتالوں کے شعبہ حادثات میں مقررہ کردہ بستروںکی تعداد 20 سال قبل مختص کی گئی تھی، ریسکیو1122 کی ایمبولینس سروسز مکمل غیر فعال رہی ،کراچی میںکوئی بھی ناخوشگوارواقعے میں ہونے والے زخمیوں کو فوری اور بروقت علاج کے لیے کسی بھی سرکاری اسپتال میںکوئی موثر اقدامات نہیں کیے گئے،سرکاری اسپتالوں میں بستروں کی تعداد بھی محدود ہے،یہی وجہ ہے کہ کسی بھی نا خوش گوار واقعے میں زخمی ہوجانیوالے افرادکو نجی اسپتالوں میں منتقل کیا جاتا ہے۔
تفصیلات کے مطابق کراچی میںدہشت گردی یا ناگہانی آفت میں زخمی افراد کو فوری اسپتالوں میں پہنچا نے کیلیے سرکاری ریسکیو ادارے موجود نہیں جو ایمبولینسوں کے ذریعے زخمیوںکو اسپتال منتقل کریں، کراچی کے 20سے زائد سرکاری اسپتالوں میں سے صرف3 اسپتالوں میں پوسٹ مارٹم کی سہولت موجود ہے جبکہ ان 20اسپتالوں میں میڈیکو لیگل شعبے تو موجود ہیں لیکن ان اسپتالوں میں میڈ یکولیگل کی کوئی سہولت میسر نہیں، جناح، سول اور عباسی شہید اسپتال میں پوسٹ مارٹم اورمیڈیکو لیگل کی سہولت فراہم کی جاتی ہے ۔
کراچی میں نا خوش گوار واقعہ ہوجانے کی صورت میں زخمیوں اور لاشوں کے پوسٹ مارٹم کیلیے ان تینوں اسپتالوں میں لایا جاتا ہے جہاں میڈیکو لیگل افسران کی بھی شدید کمی کا سامنا ہے، قواعد کے مطابق دہشت گردی کے واقعات میں ہونے والے زخمیوں اور لاشوں کا پوسٹ مارٹم ہونا لازمی ہوتا ہے تاکہ زخمیوںکا تعین اورجاں بحق ہونے والوں کی تصدیق اور وجہ اموات درج کی جاسکے ، میڈیکولیگل کے بعد ہی حکومت جان بحق ہونے والوں کے ورثا اور زخمیوں کوعلاج کی مد میں معاوضہ بھی فراہم کرتی ہے،کراچی میں گزشتہ روزسانحہ عباس ٹاؤن میں دہشت گردی کے نتیجے میں ہونے والے زخمیوں اور جاں بحق ہونے والوں کی تعداد متنازع جاری کی جاتی رہی، صوبا ئی محکمہ صحت کے افسران میں رابطے کا فقدان بھی دیکھنے میں آیا ۔
کوئی ایسا سیل نہیں جو اسپتالوں میں لائے جانے والے زخمیوں کے ناموں کی فہرست جاری کرے،محکمہ صحت کے سیکریٹری ڈاکٹر سریش کمارکی جانب سے ایس ایم ایس پر زخمیوں کی تعدادکے پیغامات جاری کیے جاتے رہے جبکہ جناح ،عباسی اوردیگر نجی اسپتالوں میں زخمیوں اورلاشوں کے اعدادوشماربالکل مختلف تھے اس طرح متنازعہ اعداد وشمار اخبارات کوفراہم کیے جاتے رہے، سانحہ عباس ٹاؤن کے زخمیوں کونجی ایمبولینسوں کے ذریعے مختلف اسپتالوں میں پہنچا یا گیا تھا ۔
تاہم سا بق ای ڈی او ہیلتھ اور ڈائریکٹر بلدیہ ڈاکٹراترداس سجنانی نے کراچی کے عوام کیلیے سا بقہ سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ میں ریسکیو1122کی ایمبولینس خریدی تھیں،اتنے بڑے واقعے کے باوجود ایمبولینس سروسز مکمل غیر فعال رہی ، معلوم ہوا ہے کہ 15 ایمبولینس غیر فعال کھڑی ہیں ، سرکاری اسپتالوں میں محکمے کی جانب سے کوئی موثر اقدامات نہ کیے جانے سے شہریوں کوشدید تکالیف کا سامنا کرنا پڑا ، مردہ خا نے میں رکھی جانے والی لاشوں سے متعلق تفصیلات بتانے والا کوئی سرکاری افسر موجود نہیں تھا ، محکمہ صحت کے افسران میں را بطے کا شدید فقدان نظر میں آیا ،سرکاری اسپتالوں میں ایمرجنسی کے باوجود رات گئے زخمیوں کوعلاج ومعالجے کے حصول میں دشواریوں کا سامنا بھی کرنا پڑاتھا۔
ریسکیو1122 سمیت متعدد ادارے غیر فعال رہے ،سرکاری اسپتالوں کے شعبہ حادثات میں بستروںکی تعداد بہت کم ہے ،اسپتالوں کے شعبہ حادثات میں مقررہ کردہ بستروںکی تعداد 20 سال قبل مختص کی گئی تھی، ریسکیو1122 کی ایمبولینس سروسز مکمل غیر فعال رہی ،کراچی میںکوئی بھی ناخوشگوارواقعے میں ہونے والے زخمیوں کو فوری اور بروقت علاج کے لیے کسی بھی سرکاری اسپتال میںکوئی موثر اقدامات نہیں کیے گئے،سرکاری اسپتالوں میں بستروں کی تعداد بھی محدود ہے،یہی وجہ ہے کہ کسی بھی نا خوش گوار واقعے میں زخمی ہوجانیوالے افرادکو نجی اسپتالوں میں منتقل کیا جاتا ہے۔
تفصیلات کے مطابق کراچی میںدہشت گردی یا ناگہانی آفت میں زخمی افراد کو فوری اسپتالوں میں پہنچا نے کیلیے سرکاری ریسکیو ادارے موجود نہیں جو ایمبولینسوں کے ذریعے زخمیوںکو اسپتال منتقل کریں، کراچی کے 20سے زائد سرکاری اسپتالوں میں سے صرف3 اسپتالوں میں پوسٹ مارٹم کی سہولت موجود ہے جبکہ ان 20اسپتالوں میں میڈیکو لیگل شعبے تو موجود ہیں لیکن ان اسپتالوں میں میڈ یکولیگل کی کوئی سہولت میسر نہیں، جناح، سول اور عباسی شہید اسپتال میں پوسٹ مارٹم اورمیڈیکو لیگل کی سہولت فراہم کی جاتی ہے ۔
کراچی میں نا خوش گوار واقعہ ہوجانے کی صورت میں زخمیوں اور لاشوں کے پوسٹ مارٹم کیلیے ان تینوں اسپتالوں میں لایا جاتا ہے جہاں میڈیکو لیگل افسران کی بھی شدید کمی کا سامنا ہے، قواعد کے مطابق دہشت گردی کے واقعات میں ہونے والے زخمیوں اور لاشوں کا پوسٹ مارٹم ہونا لازمی ہوتا ہے تاکہ زخمیوںکا تعین اورجاں بحق ہونے والوں کی تصدیق اور وجہ اموات درج کی جاسکے ، میڈیکولیگل کے بعد ہی حکومت جان بحق ہونے والوں کے ورثا اور زخمیوں کوعلاج کی مد میں معاوضہ بھی فراہم کرتی ہے،کراچی میں گزشتہ روزسانحہ عباس ٹاؤن میں دہشت گردی کے نتیجے میں ہونے والے زخمیوں اور جاں بحق ہونے والوں کی تعداد متنازع جاری کی جاتی رہی، صوبا ئی محکمہ صحت کے افسران میں رابطے کا فقدان بھی دیکھنے میں آیا ۔
کوئی ایسا سیل نہیں جو اسپتالوں میں لائے جانے والے زخمیوں کے ناموں کی فہرست جاری کرے،محکمہ صحت کے سیکریٹری ڈاکٹر سریش کمارکی جانب سے ایس ایم ایس پر زخمیوں کی تعدادکے پیغامات جاری کیے جاتے رہے جبکہ جناح ،عباسی اوردیگر نجی اسپتالوں میں زخمیوں اورلاشوں کے اعدادوشماربالکل مختلف تھے اس طرح متنازعہ اعداد وشمار اخبارات کوفراہم کیے جاتے رہے، سانحہ عباس ٹاؤن کے زخمیوں کونجی ایمبولینسوں کے ذریعے مختلف اسپتالوں میں پہنچا یا گیا تھا ۔
تاہم سا بق ای ڈی او ہیلتھ اور ڈائریکٹر بلدیہ ڈاکٹراترداس سجنانی نے کراچی کے عوام کیلیے سا بقہ سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ میں ریسکیو1122کی ایمبولینس خریدی تھیں،اتنے بڑے واقعے کے باوجود ایمبولینس سروسز مکمل غیر فعال رہی ، معلوم ہوا ہے کہ 15 ایمبولینس غیر فعال کھڑی ہیں ، سرکاری اسپتالوں میں محکمے کی جانب سے کوئی موثر اقدامات نہ کیے جانے سے شہریوں کوشدید تکالیف کا سامنا کرنا پڑا ، مردہ خا نے میں رکھی جانے والی لاشوں سے متعلق تفصیلات بتانے والا کوئی سرکاری افسر موجود نہیں تھا ، محکمہ صحت کے افسران میں را بطے کا شدید فقدان نظر میں آیا ،سرکاری اسپتالوں میں ایمرجنسی کے باوجود رات گئے زخمیوں کوعلاج ومعالجے کے حصول میں دشواریوں کا سامنا بھی کرنا پڑاتھا۔