نئی حلقہ بندیاں اور آئینی تقاضے
مختلف شہروں میں آبادیاں کم ظاہر کرنے کی کوئی منظم منصوبہ بندی تھی
قومی اسمبلی میں حکومت نے نئی حلقہ بندیوں کے لیے آئینی ترمیمی بل پیش کردیا تاہم نمبر گیم پورے نہ ہونے پر منظوری حاصل کرنے میں ناکام رہی، اسپیکر کی زیر صدارت پارلیمانی لیڈرز کانفرنس میں مسودے کی حمایت کرنیوالی اپوزیشن جماعتوں نے بھی ایوان میں بل کی مخالفت کردی اور واک آؤٹ کردیا جس سے کورم ٹوٹنے پر اجلاس ملتوی کرنا پڑا۔
یہ افسوسناک حقیقت ہے کہ ملکی سیاست میں قومی ایشوز پر سنجیدگی سے غور و فکر کرنے، مسائل کا باریک بینی سے منطقی اور غیر جذباتی انداز میں جائزہ لینے اور اتفاق رائے کے جمہوری آدرش پر اپنے پختہ یقین کو ثابت کرنے میں سیاسی جماعتوں نے قوم کو خوشیوں سے کم ہی نوازا ہے، اسی مردم شماری اور حلقہ بندیوں کے ایشوزکو لے لیں، ملک میں دس سال تک مردم شماری نہیں ہوئی، ماضی میں منتخب جمہوری حکومتوں نے مقررہ میعاد میں بلدیاتی الیکشن کرانے سے بوجوہ گریز پائی کو اپنا شعار بنائے رکھا۔
لہٰذا حالیہ ملک گیر مردم شماری کی تکمیل، آیندہ انتخابی حلقوں کی از سر نو تشکیل اور شفاف و منصفانہ الیکشن کے انعقاد کی واضح جمہوری کمٹمنٹ تو یہ ہونی چاہیے کہ مردم شماری نتائج پر اتفاق رائے کا پارلیمنٹ کی طرف سے اپنی غیر مشروط بالادستی کا مثبت پیغام قوم تک جاتا، سیاسی قائدین شفاف الیکشن کے مشترکہ ایجنڈے پر یکسوئی سے سوچ بچار کرکے الیکشن کمیشن حکام کی اس تشویش کا ازالہ کرتے جو انھوں نے نومبر تک حلقہ بندیوں کی منظوری نہ ہونے سے نئی مردم شماری کے تحت الیکشن کی تیاری سے معذرت کا انتباہ کیا تھا۔تاہم جمعرات کو وزیر قانون زاہد حامد نے آئینی بل ایوان میں متعارف کرایا تو اپوزیشن نے بل پر اعتراضات اٹھائے جب کہ بل کی منظوری کے لیے دو تہائی اکثریت یعنی 228 ارکان بھی موجود نہیں تھے۔ پیپلزپارٹی کے پارلیمانی لیڈر سید نوید قمر کا کہنا تھا کہ بل کے لیے قانونی تقاضے پورے نہیں کیے گئے، اسے عجلت میں نہ لایا جائے بلکہ پہلے مشترکہ مفادات کونسل سے منظور کرایا جائے، اس بل کو لانا غیر آئینی ہوگا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ تمام جماعتوں نے اسپیکر کی موجودگی میں بل پر اتفاق کیا، تحریک انصاف کی رکن شیریں مزاری نے کہا کہ ان کی جماعت نے پارلیمانی رہنماؤں کے اجلاس میں آئینی ترمیم کی حمایت کی لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ حکومت دیگر سیاسی جماعتوں کے تحفظات نظرانداز کرے۔ جب کہ ایم کیوایم پاکستان کے ڈاکٹر فاروق ستار کا موقف تھا کہ مردم شماری کے ملک میں نتائج کو تسلیم نہیں کیا گیا، کراچی کی آبادی کو کم ظاہر کیا گیا ہے اس لیے ایم کیو ایم پاکستان مردم شماری میں دھاندلی کسی صورت قبول نہیں کرے گی۔
پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود اچکزئی نے کہا یہ ایجنڈا سب کی مشاورت سے آیا ہے، اگر ان کو ''اوپر'' سے ہدایات آئی ہیں، کوئی مجبوری ہے تو بتا دیں، وعدے سے پیچھے ہٹنے کا یہ طریقہ نہیں ہے، جماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈر صاحبزادہ طارق اللہ نے کہا کل تک سب کا آئینی ترمیم پر اتفاق تھا، اب اچانک ایک پارٹی کو اعتراض ہوگیا۔ اراکین کی مجموعی آرا کو پیش نظر رکھا جائے تو اس سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ پنجاب کو چھوڑ کر باقی تینوں صوبوں میں مردم شماری پر نہ صرف تحفظات ہیں بلکہ لفظ استرداد بھی استعمال ہوا، گویا ملک گیر پیمانہ پر منعقدہ مردم شماری جعل سازی، ڈھونگ اور مختلف شہروں میں آبادیاں کم ظاہر کرنے کی کوئی منظم منصوبہ بندی تھی، اس انداز فکر میں خیر کا ساماں بھی نہیں، اس طرز فغاں کا کیا علاج کیا جائے۔ آخر ہماری جمہوریت پسند سیاسی جماعتیں قومی امور پر کب سنجیدہ اتفاق رائے کی قومی روایت ڈالیں گی، یا مسائل ہمیشہ بات کا بتنگڑ بناکر جمہوری ڈھول تماشے میڈیا کی زینت بنتے رہیں گے۔
جب کہ وقت کا تقاضہ ہے کہ بہتان و الزام تراشی، بلاجواز محاذ آرائی، رعونت آمیز سیاسی طرز عمل، لاؤڈازم یا دانستہ آئینی، قانونی اور تکنیکی معاملات کو متنازعہ بنانے سے بہتر ہے کہ قانونی طریقوں اور جمہوری اسپرٹ کے ساتھ مردم شماری اور حلقہ بندیوں کا معاملہ طے کیا جائے۔ اس مسئلہ کا تناظر سندھ اسمبلی میں اپوزیشن کے احتجاج میں دیکھا جائے تو صورتحال اور بھی پیچیدہ نظر آتی ہے، سندھ اسمبلی اپوزیشن نے مردم شماری کے نتائج یکسر مسترد کردیے جب کہ پیپلزپارٹی نے تحفظات ظاہر کیے ہیں۔ تحریک التواء پر اظہار خیال کرتے ہوئے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے کہا کہ مردم شماری پر ہماری تجاویز پر عمل نہیں کیا گیا اور تحفظات دور نہیں کیے گئے۔ تاہم وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ ہم چھٹی مردم و خانہ شماری کو اس لیے یکسر مسترد نہیں کرتے کہ ہم پھر 1998ء میں واپس چلے جائیں گے۔
اس لیے نہیں چاہتے کہ مردم شماری کا سارا عمل اسکریپ ہوجائے، لیکن ادارہ شماریات کو چاہیے کہ وہ لوگوںکومطمئن کرے۔ اس لیے اب گیند اپوزیشن، حکومت، محکمہ شماریات اور الیکشن کمیشن کے کورٹ میں ہے کہ مردم شماری کے حتمی نتائج آنے تک ہمہ جہتی اعتراضات، خدشات اور تحفظات دور ہوں۔ وفاقی حکومت الیکشن کمیشن کے اس مطالبہ پر بھی توجہ دے کہ مردم شماری کے بعد آیندہ انتخابات نئی حلقہ بندیوں کے بغیر ممکن نہیں۔ الیکشن کمیشن کا استدلال صائب ہے کہ 10 نومبر تک ترمیم منظور ہوجانی چاہیے اور اس ضمن میں حکومت آئینی تقاضے جلد پورے کرے۔
یہ افسوسناک حقیقت ہے کہ ملکی سیاست میں قومی ایشوز پر سنجیدگی سے غور و فکر کرنے، مسائل کا باریک بینی سے منطقی اور غیر جذباتی انداز میں جائزہ لینے اور اتفاق رائے کے جمہوری آدرش پر اپنے پختہ یقین کو ثابت کرنے میں سیاسی جماعتوں نے قوم کو خوشیوں سے کم ہی نوازا ہے، اسی مردم شماری اور حلقہ بندیوں کے ایشوزکو لے لیں، ملک میں دس سال تک مردم شماری نہیں ہوئی، ماضی میں منتخب جمہوری حکومتوں نے مقررہ میعاد میں بلدیاتی الیکشن کرانے سے بوجوہ گریز پائی کو اپنا شعار بنائے رکھا۔
لہٰذا حالیہ ملک گیر مردم شماری کی تکمیل، آیندہ انتخابی حلقوں کی از سر نو تشکیل اور شفاف و منصفانہ الیکشن کے انعقاد کی واضح جمہوری کمٹمنٹ تو یہ ہونی چاہیے کہ مردم شماری نتائج پر اتفاق رائے کا پارلیمنٹ کی طرف سے اپنی غیر مشروط بالادستی کا مثبت پیغام قوم تک جاتا، سیاسی قائدین شفاف الیکشن کے مشترکہ ایجنڈے پر یکسوئی سے سوچ بچار کرکے الیکشن کمیشن حکام کی اس تشویش کا ازالہ کرتے جو انھوں نے نومبر تک حلقہ بندیوں کی منظوری نہ ہونے سے نئی مردم شماری کے تحت الیکشن کی تیاری سے معذرت کا انتباہ کیا تھا۔تاہم جمعرات کو وزیر قانون زاہد حامد نے آئینی بل ایوان میں متعارف کرایا تو اپوزیشن نے بل پر اعتراضات اٹھائے جب کہ بل کی منظوری کے لیے دو تہائی اکثریت یعنی 228 ارکان بھی موجود نہیں تھے۔ پیپلزپارٹی کے پارلیمانی لیڈر سید نوید قمر کا کہنا تھا کہ بل کے لیے قانونی تقاضے پورے نہیں کیے گئے، اسے عجلت میں نہ لایا جائے بلکہ پہلے مشترکہ مفادات کونسل سے منظور کرایا جائے، اس بل کو لانا غیر آئینی ہوگا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ تمام جماعتوں نے اسپیکر کی موجودگی میں بل پر اتفاق کیا، تحریک انصاف کی رکن شیریں مزاری نے کہا کہ ان کی جماعت نے پارلیمانی رہنماؤں کے اجلاس میں آئینی ترمیم کی حمایت کی لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ حکومت دیگر سیاسی جماعتوں کے تحفظات نظرانداز کرے۔ جب کہ ایم کیوایم پاکستان کے ڈاکٹر فاروق ستار کا موقف تھا کہ مردم شماری کے ملک میں نتائج کو تسلیم نہیں کیا گیا، کراچی کی آبادی کو کم ظاہر کیا گیا ہے اس لیے ایم کیو ایم پاکستان مردم شماری میں دھاندلی کسی صورت قبول نہیں کرے گی۔
پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود اچکزئی نے کہا یہ ایجنڈا سب کی مشاورت سے آیا ہے، اگر ان کو ''اوپر'' سے ہدایات آئی ہیں، کوئی مجبوری ہے تو بتا دیں، وعدے سے پیچھے ہٹنے کا یہ طریقہ نہیں ہے، جماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈر صاحبزادہ طارق اللہ نے کہا کل تک سب کا آئینی ترمیم پر اتفاق تھا، اب اچانک ایک پارٹی کو اعتراض ہوگیا۔ اراکین کی مجموعی آرا کو پیش نظر رکھا جائے تو اس سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ پنجاب کو چھوڑ کر باقی تینوں صوبوں میں مردم شماری پر نہ صرف تحفظات ہیں بلکہ لفظ استرداد بھی استعمال ہوا، گویا ملک گیر پیمانہ پر منعقدہ مردم شماری جعل سازی، ڈھونگ اور مختلف شہروں میں آبادیاں کم ظاہر کرنے کی کوئی منظم منصوبہ بندی تھی، اس انداز فکر میں خیر کا ساماں بھی نہیں، اس طرز فغاں کا کیا علاج کیا جائے۔ آخر ہماری جمہوریت پسند سیاسی جماعتیں قومی امور پر کب سنجیدہ اتفاق رائے کی قومی روایت ڈالیں گی، یا مسائل ہمیشہ بات کا بتنگڑ بناکر جمہوری ڈھول تماشے میڈیا کی زینت بنتے رہیں گے۔
جب کہ وقت کا تقاضہ ہے کہ بہتان و الزام تراشی، بلاجواز محاذ آرائی، رعونت آمیز سیاسی طرز عمل، لاؤڈازم یا دانستہ آئینی، قانونی اور تکنیکی معاملات کو متنازعہ بنانے سے بہتر ہے کہ قانونی طریقوں اور جمہوری اسپرٹ کے ساتھ مردم شماری اور حلقہ بندیوں کا معاملہ طے کیا جائے۔ اس مسئلہ کا تناظر سندھ اسمبلی میں اپوزیشن کے احتجاج میں دیکھا جائے تو صورتحال اور بھی پیچیدہ نظر آتی ہے، سندھ اسمبلی اپوزیشن نے مردم شماری کے نتائج یکسر مسترد کردیے جب کہ پیپلزپارٹی نے تحفظات ظاہر کیے ہیں۔ تحریک التواء پر اظہار خیال کرتے ہوئے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے کہا کہ مردم شماری پر ہماری تجاویز پر عمل نہیں کیا گیا اور تحفظات دور نہیں کیے گئے۔ تاہم وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ ہم چھٹی مردم و خانہ شماری کو اس لیے یکسر مسترد نہیں کرتے کہ ہم پھر 1998ء میں واپس چلے جائیں گے۔
اس لیے نہیں چاہتے کہ مردم شماری کا سارا عمل اسکریپ ہوجائے، لیکن ادارہ شماریات کو چاہیے کہ وہ لوگوںکومطمئن کرے۔ اس لیے اب گیند اپوزیشن، حکومت، محکمہ شماریات اور الیکشن کمیشن کے کورٹ میں ہے کہ مردم شماری کے حتمی نتائج آنے تک ہمہ جہتی اعتراضات، خدشات اور تحفظات دور ہوں۔ وفاقی حکومت الیکشن کمیشن کے اس مطالبہ پر بھی توجہ دے کہ مردم شماری کے بعد آیندہ انتخابات نئی حلقہ بندیوں کے بغیر ممکن نہیں۔ الیکشن کمیشن کا استدلال صائب ہے کہ 10 نومبر تک ترمیم منظور ہوجانی چاہیے اور اس ضمن میں حکومت آئینی تقاضے جلد پورے کرے۔