نہ اپنائیں دہرے معیار
سابق صدر جنرل مشرف کے دور میں NRO ہوتا ہے اور سیاستدان واپس وطن عزیز تشریف لاتے ہیں
نیب کی کارکردگی میں نسبتا بہتری کے آثار نظر آرہے ہیں ۔ سپریم کورٹ نیب کے بارے میں اپنے ریمارکس دے چکی ہے اور اس کی کارکردگی بھی عوام الناس کے سامنے ہے، سیاستدانوں کے خلاف جاری کیسز میں کیا فیصلہ آتا ہے،اس کا قوم کو یقیناً انتظار ہے اوروہ کتنی ریکوری کر پاتے ہیں یہ آنے والے دنوں میں پتہ چلے گا۔
پولیس کی کسٹڈی میں جب یہ لوگ عدالتوں میں حاضر ہوتے ہیں تو باہرکھڑے ہوئے لوگوں کو مسکرا مسکرا کر ہاتھ ہلاہلا کر اپنی موجودگی بتاتے ہیں، واہ بھئی گویا عدالتیں ان کو میڈل دیں گی ۔ عوامی فلاح کے کام کرنے کا مزہ ہی کچھ اور ہے اور اللہ اگر یہ موقعہ دے تو وہ بدنصیب ہی ہوگا جو اس موقعے سے فائدہ نہ اٹھاسکے، مگر ہماری روایات الگ رہی ہیں یہاں یہ سمجھا جاتا ہے کہ بے وقوف ہی ہوگا جو حکومت میں ہو اور ذاتی فائدہ نہ اٹھا سکے۔ بہرحال دیکھیے کہ معاملہ کس کروٹ بیٹھتا ہے اور کیا لوٹی گئی دولت پاکستان جیسے غریب ملک واپس آسکتی ہے یا نہیں؟
دکھ کی بات ہے کہ جو بھی وزیر اعظم بنا جو بھی اس کی کیبنٹ بنی شدید کرپشن کے الزامات کے بعد ہٹائے گئے، گیت تو تمام وقت ملکی ترقی کے گاتے رہے اور باتیں عوام کے ساتھ جینے مرنے کی کرتے رہے مگر آج بھی ہم اپنی آنکھوں سے دیکھیں تو بیچ سڑک پر عورت اپنے بچے کی پیدائش کے عمل سے گزرتی ہے کہ اسپتال میں بیڈ اور سہولتیں میسر نہیں، گاؤں میں 16 سالہ جوان لڑکی کو برہنہ کرکے بے عزت کیا جاتا ہے، گاؤں کا وڈیرہ اجتماعی زیادتی کو پروان چڑھاتا ہے۔ خاندان غربت کے باعث خودکشیاں کرتا ہے، پروٹوکول کے باعث ٹریفک جام میں مریض جان سے گزر جاتا ہے، یہ ہے موجودہ پاکستان اور میرے موجودہ پاکستان کے حکمران کرپشن کی پیشیاں بھگتاتے ہیں۔
سابق صدر جنرل مشرف کے دور میں NRO ہوتا ہے اور سیاستدان واپس وطن عزیز تشریف لاتے ہیں، ملک سے جانے کے لیے بھی یہ عظیم سیاستدان معاہدے کرتے ہیں اور سزاؤں سے بچنے کے لیے ملک عزیزکو خدا حافظ کہتے ہیں۔ NRO کے ذریعے واپس آنے والے سیاستدان پھر سے اپنی سیاست کو چمکاتے ہیں اور کرپشن میں ہی ملوث ہوتے ہیں اور پھر سے عدالتوں میں جاتے ہیں آخر کب تک کب تک؟ یہ سلسلہ جاری رہے گا اورکب تک تجربات کیے جائیں گے، وفاداری، خلوص، دیانت داری کوئی جوس کا گلاس نہیں کہ وہ کوئی بھی پی لے اور سارا مقصد حیات اس میں آجائے، سوچنے والی بات ہے کہ 22، 23 کروڑ کی آبادی میں جہاں بہت اعلیٰ ذہن، بہت اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ بھی رہتے ہیں کیا وہ پاکستان کے لیے موزوں نہیں؟ کیا NRO کے ذریعے ہی کرپٹ زیادہ لوگوں کو بار بار لایا جائے گا اور بار بار ان کو آزمایا جائے گا؟
چین ہمارا دوست ملک، سی پیک کے ذریعے چین اربوں کھربوں کے فوائد پاکستان سے حاصل کرے گا، اس ملک نے اپنے آپ کوکرپشن سے صاف کرنے کے لیے تقریباً 3000 افراد کو پھانسی دی ۔ اس میں طاقتور ان کے وزیر بھی تھے پاکستان کس فارمولے پر عمل کرے گا، کس طرح پاکستان اپنے آپ کوکرپشن سے پاک کرے گا،کڑوی ترین گولیاں پاکستان کیسے نگلے گا؟ خالی کہنے سے تو پاکستان کرپشن سے پاک نہیں ہوگا ۔ عملی اقدامات کیسے اٹھائے جائیں گے، لوٹی ہوئی دولت کیسے واپس لائی جائے گی کس طرح غریب عوام کا معیار زندگی بلند کیا جائے گا ، یہ وہ سوال ہے جو ہر ذہن پر دستک دیتے ہیں۔ پاکستان کی ستر سالہ تاریخ میں کئی سیاہ باب ہیں، سنہرے دور کا آغاز کب ہوگا، اور سنہری باب کب لکھا جائے گا ۔ جو تیزی آرہی ہے وہ خالی دکھانے والی نہ ہو بلکہ عملی طور پر ان اداروں کو پریشر سے پاک ہونا چاہیے بہرحال ہم اور آپ دیکھ رہے ہیں۔
اورکب تک دیکھتے رہیں گے؟ وقت کے ساتھ ساتھ ہم سب کو اور ہمارے رویے کو بدلنا ہوگا، ہمیں اپنے اداروں کو عوام کے حق میں مضبوط کرنا ہوگا، لڑائی جھگڑے کی سیاست نہ ماضی میں کامیاب رہی اور نہ حال میں ہوگی، حکومتوں کو اپنے آپ کو اپنی خواہشات کو قابو میں رکھ کر عوام کے لیے ڈلیورکرنا ہوگا، پوری دنیا کے سامنے تماشا بننے سے کہیں زیادہ بہترین ہے کہ مثال بنا جائے۔
پیپلز پارٹی بار بار واضح کرچکی ہے کہ وہ اب نواز شریف سے مفاہمت نہیں کرے گی اور اب مسلم لیگ (ن) کو اپنے اعمال کا کیا بھرنا ہوگا، دوسری طرف مسلم لیگ(ن) حکومت بھی کرتی ہے اور اپنے اوپر ظلم کا رونا بھی روتی ہے، اپنی ہی حکومت میں اپوزیشن بھی بنی ہوئی ہے مگر خاص بات یہ ہے کہ مسلم لیگ خفیہ ہاتھوں کا تو ذکر کرتی ہے مگر اپنے خلاف سازش کرنے والے لوگوں کا نام لینے سے ڈرتی ہے۔ یہ دوغلی پالیسی کیا مسلم لیگ (ن) کو بھنور سے نکال پائے گی؟
سندھ اور پنجاب میں کرپشن کے خلاف مہم میں ایک جیسی پالیسی نظر نہیں آتی، ماضی ہمیں بتاتا ہے کہ بے نظیر بھٹو کیسے عدالتوں کا سامنا کرتی تھی، شرمیلا فاروقی بہت Young Age میں جیلوں میں رہی، سندھ کی ڈپٹی اسپیکر شہلا رضا ایف آئی اے سینٹر میں رہیں یہ بھی قوم کی بیٹیاں ہیں اور مسلمان گھرانوں سے تعلق رکھتی ہیں، سندھ حکومت اگر دہرے رویوں کے خلاف آواز اٹھاتی ہے تو برا کیا ہے؟ قانون تو پورے ملک میں ہر شہری کے لیے برابر ہونا لازمی ہے اور اس میں حکومت اور اداروں کے تمام ملازمین اور عہدیدار بھی شامل ہیں۔
آصف زرداری نے جب سے پیپلز پارٹی کی لیڈرشپ سنبھالی ہے وہ مفاہمت کی سیاست کو بہتر سمجھتے ہیں، اور مل جل کر انڈر اسٹینڈنگ کے ساتھ کام کرنے کو ترجیح دیتے ہیں، اب وہ بھی واضح طور پر نواز شریف کا ساتھ نہ دینے پر یقین رکھتے ہیں ۔
سندھ میں پیپلز پارٹی کی عوام کے لیے خدمات کیا رہی ہیں یہ بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔ بڑے بڑے زیرک سیاستدان پیپلز پارٹی میں موجود ہیں، جو بھٹو کو سمجھتے ہیں جو بے نظیر کو سمجھتے ہیں اور اب آصف زرداری کے ساتھ کھڑے ہیں اتنے زیرک سیاستدانوں کی موجودگی میں پیپلز پارٹی کا یوں کوزے میں بند ہوجانا بہت عجیب بات لگتی ہے اگر صرف موروثی سیاست ہونی ہے تو معذرت کے ساتھ اس لیے پاکستان نہیں بنا تھا اور اس موروثی سیاست کے اثرات بہت ہی نقصان دہ نظر آتے ہیں۔ بھٹو، بے نظیر بھٹو کے ناموں کا کثرت سے استعمال لیکن ان کا نظریہ نامعلوم ۔ پیپلز پارٹی روٹی کپڑا اور مکان کے نام پر بنی اور ابھی تک یہ ضروریات فراہم نہ کرسکی۔
بالکل اسی طرح عمران خان نے تحریک انصاف، عدل و انصاف کے لیے بنائی ہے اور اپنے ہی انصاف کے فلسفے کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیتی ہے تو کامیابی پھر صرف تحریک انصاف کا خواب ہی ہوگی۔
جنرل پرویز مشرف کا دور حکومت اور پھر پیپلز پارٹی کا دور حکومت کیا ہم نے کچھ حاصل کیا، پیپلز پارٹی اپنے دور حکومت کے بعد سندھ تک محدود نظر آتی ہے، این اے 120 کا الیکشن ہو یا پھر N-4 پشاور کا الیکشن نتیجہ 0/0 ۔
نواز شریف ہو یا آصف زرداری یا پھر عمران خان ان تمام جماعتوں کے سربراہان کو بہت احتیاط کے ساتھ آگے قدم بڑھانے ہوں گے، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی بجائے اپنے کردار سے پاکستان کا امیج بہتر بنانا ہوگا کہ پاکستان موجود ہے تو ہم سب ہیں اور یہ تمام سیاست کی رنگینیاں ہیں۔
جمہوریت کس حد تک پاکستان کے لیے ضروری اور فائدہ مند ہے تمام سیاستدانوں کو اپنے کردار سے اپنے اعمال سے ثابت کرنا ہوگا اداروں کی مضبوطی، میرٹ کا عمل اور انصاف یہ سب ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں اور انھیں مضبوط کرنا حکومتوں کا کام ہے۔
پولیس کی کسٹڈی میں جب یہ لوگ عدالتوں میں حاضر ہوتے ہیں تو باہرکھڑے ہوئے لوگوں کو مسکرا مسکرا کر ہاتھ ہلاہلا کر اپنی موجودگی بتاتے ہیں، واہ بھئی گویا عدالتیں ان کو میڈل دیں گی ۔ عوامی فلاح کے کام کرنے کا مزہ ہی کچھ اور ہے اور اللہ اگر یہ موقعہ دے تو وہ بدنصیب ہی ہوگا جو اس موقعے سے فائدہ نہ اٹھاسکے، مگر ہماری روایات الگ رہی ہیں یہاں یہ سمجھا جاتا ہے کہ بے وقوف ہی ہوگا جو حکومت میں ہو اور ذاتی فائدہ نہ اٹھا سکے۔ بہرحال دیکھیے کہ معاملہ کس کروٹ بیٹھتا ہے اور کیا لوٹی گئی دولت پاکستان جیسے غریب ملک واپس آسکتی ہے یا نہیں؟
دکھ کی بات ہے کہ جو بھی وزیر اعظم بنا جو بھی اس کی کیبنٹ بنی شدید کرپشن کے الزامات کے بعد ہٹائے گئے، گیت تو تمام وقت ملکی ترقی کے گاتے رہے اور باتیں عوام کے ساتھ جینے مرنے کی کرتے رہے مگر آج بھی ہم اپنی آنکھوں سے دیکھیں تو بیچ سڑک پر عورت اپنے بچے کی پیدائش کے عمل سے گزرتی ہے کہ اسپتال میں بیڈ اور سہولتیں میسر نہیں، گاؤں میں 16 سالہ جوان لڑکی کو برہنہ کرکے بے عزت کیا جاتا ہے، گاؤں کا وڈیرہ اجتماعی زیادتی کو پروان چڑھاتا ہے۔ خاندان غربت کے باعث خودکشیاں کرتا ہے، پروٹوکول کے باعث ٹریفک جام میں مریض جان سے گزر جاتا ہے، یہ ہے موجودہ پاکستان اور میرے موجودہ پاکستان کے حکمران کرپشن کی پیشیاں بھگتاتے ہیں۔
سابق صدر جنرل مشرف کے دور میں NRO ہوتا ہے اور سیاستدان واپس وطن عزیز تشریف لاتے ہیں، ملک سے جانے کے لیے بھی یہ عظیم سیاستدان معاہدے کرتے ہیں اور سزاؤں سے بچنے کے لیے ملک عزیزکو خدا حافظ کہتے ہیں۔ NRO کے ذریعے واپس آنے والے سیاستدان پھر سے اپنی سیاست کو چمکاتے ہیں اور کرپشن میں ہی ملوث ہوتے ہیں اور پھر سے عدالتوں میں جاتے ہیں آخر کب تک کب تک؟ یہ سلسلہ جاری رہے گا اورکب تک تجربات کیے جائیں گے، وفاداری، خلوص، دیانت داری کوئی جوس کا گلاس نہیں کہ وہ کوئی بھی پی لے اور سارا مقصد حیات اس میں آجائے، سوچنے والی بات ہے کہ 22، 23 کروڑ کی آبادی میں جہاں بہت اعلیٰ ذہن، بہت اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ بھی رہتے ہیں کیا وہ پاکستان کے لیے موزوں نہیں؟ کیا NRO کے ذریعے ہی کرپٹ زیادہ لوگوں کو بار بار لایا جائے گا اور بار بار ان کو آزمایا جائے گا؟
چین ہمارا دوست ملک، سی پیک کے ذریعے چین اربوں کھربوں کے فوائد پاکستان سے حاصل کرے گا، اس ملک نے اپنے آپ کوکرپشن سے صاف کرنے کے لیے تقریباً 3000 افراد کو پھانسی دی ۔ اس میں طاقتور ان کے وزیر بھی تھے پاکستان کس فارمولے پر عمل کرے گا، کس طرح پاکستان اپنے آپ کوکرپشن سے پاک کرے گا،کڑوی ترین گولیاں پاکستان کیسے نگلے گا؟ خالی کہنے سے تو پاکستان کرپشن سے پاک نہیں ہوگا ۔ عملی اقدامات کیسے اٹھائے جائیں گے، لوٹی ہوئی دولت کیسے واپس لائی جائے گی کس طرح غریب عوام کا معیار زندگی بلند کیا جائے گا ، یہ وہ سوال ہے جو ہر ذہن پر دستک دیتے ہیں۔ پاکستان کی ستر سالہ تاریخ میں کئی سیاہ باب ہیں، سنہرے دور کا آغاز کب ہوگا، اور سنہری باب کب لکھا جائے گا ۔ جو تیزی آرہی ہے وہ خالی دکھانے والی نہ ہو بلکہ عملی طور پر ان اداروں کو پریشر سے پاک ہونا چاہیے بہرحال ہم اور آپ دیکھ رہے ہیں۔
اورکب تک دیکھتے رہیں گے؟ وقت کے ساتھ ساتھ ہم سب کو اور ہمارے رویے کو بدلنا ہوگا، ہمیں اپنے اداروں کو عوام کے حق میں مضبوط کرنا ہوگا، لڑائی جھگڑے کی سیاست نہ ماضی میں کامیاب رہی اور نہ حال میں ہوگی، حکومتوں کو اپنے آپ کو اپنی خواہشات کو قابو میں رکھ کر عوام کے لیے ڈلیورکرنا ہوگا، پوری دنیا کے سامنے تماشا بننے سے کہیں زیادہ بہترین ہے کہ مثال بنا جائے۔
پیپلز پارٹی بار بار واضح کرچکی ہے کہ وہ اب نواز شریف سے مفاہمت نہیں کرے گی اور اب مسلم لیگ (ن) کو اپنے اعمال کا کیا بھرنا ہوگا، دوسری طرف مسلم لیگ(ن) حکومت بھی کرتی ہے اور اپنے اوپر ظلم کا رونا بھی روتی ہے، اپنی ہی حکومت میں اپوزیشن بھی بنی ہوئی ہے مگر خاص بات یہ ہے کہ مسلم لیگ خفیہ ہاتھوں کا تو ذکر کرتی ہے مگر اپنے خلاف سازش کرنے والے لوگوں کا نام لینے سے ڈرتی ہے۔ یہ دوغلی پالیسی کیا مسلم لیگ (ن) کو بھنور سے نکال پائے گی؟
سندھ اور پنجاب میں کرپشن کے خلاف مہم میں ایک جیسی پالیسی نظر نہیں آتی، ماضی ہمیں بتاتا ہے کہ بے نظیر بھٹو کیسے عدالتوں کا سامنا کرتی تھی، شرمیلا فاروقی بہت Young Age میں جیلوں میں رہی، سندھ کی ڈپٹی اسپیکر شہلا رضا ایف آئی اے سینٹر میں رہیں یہ بھی قوم کی بیٹیاں ہیں اور مسلمان گھرانوں سے تعلق رکھتی ہیں، سندھ حکومت اگر دہرے رویوں کے خلاف آواز اٹھاتی ہے تو برا کیا ہے؟ قانون تو پورے ملک میں ہر شہری کے لیے برابر ہونا لازمی ہے اور اس میں حکومت اور اداروں کے تمام ملازمین اور عہدیدار بھی شامل ہیں۔
آصف زرداری نے جب سے پیپلز پارٹی کی لیڈرشپ سنبھالی ہے وہ مفاہمت کی سیاست کو بہتر سمجھتے ہیں، اور مل جل کر انڈر اسٹینڈنگ کے ساتھ کام کرنے کو ترجیح دیتے ہیں، اب وہ بھی واضح طور پر نواز شریف کا ساتھ نہ دینے پر یقین رکھتے ہیں ۔
سندھ میں پیپلز پارٹی کی عوام کے لیے خدمات کیا رہی ہیں یہ بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔ بڑے بڑے زیرک سیاستدان پیپلز پارٹی میں موجود ہیں، جو بھٹو کو سمجھتے ہیں جو بے نظیر کو سمجھتے ہیں اور اب آصف زرداری کے ساتھ کھڑے ہیں اتنے زیرک سیاستدانوں کی موجودگی میں پیپلز پارٹی کا یوں کوزے میں بند ہوجانا بہت عجیب بات لگتی ہے اگر صرف موروثی سیاست ہونی ہے تو معذرت کے ساتھ اس لیے پاکستان نہیں بنا تھا اور اس موروثی سیاست کے اثرات بہت ہی نقصان دہ نظر آتے ہیں۔ بھٹو، بے نظیر بھٹو کے ناموں کا کثرت سے استعمال لیکن ان کا نظریہ نامعلوم ۔ پیپلز پارٹی روٹی کپڑا اور مکان کے نام پر بنی اور ابھی تک یہ ضروریات فراہم نہ کرسکی۔
بالکل اسی طرح عمران خان نے تحریک انصاف، عدل و انصاف کے لیے بنائی ہے اور اپنے ہی انصاف کے فلسفے کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیتی ہے تو کامیابی پھر صرف تحریک انصاف کا خواب ہی ہوگی۔
جنرل پرویز مشرف کا دور حکومت اور پھر پیپلز پارٹی کا دور حکومت کیا ہم نے کچھ حاصل کیا، پیپلز پارٹی اپنے دور حکومت کے بعد سندھ تک محدود نظر آتی ہے، این اے 120 کا الیکشن ہو یا پھر N-4 پشاور کا الیکشن نتیجہ 0/0 ۔
نواز شریف ہو یا آصف زرداری یا پھر عمران خان ان تمام جماعتوں کے سربراہان کو بہت احتیاط کے ساتھ آگے قدم بڑھانے ہوں گے، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی بجائے اپنے کردار سے پاکستان کا امیج بہتر بنانا ہوگا کہ پاکستان موجود ہے تو ہم سب ہیں اور یہ تمام سیاست کی رنگینیاں ہیں۔
جمہوریت کس حد تک پاکستان کے لیے ضروری اور فائدہ مند ہے تمام سیاستدانوں کو اپنے کردار سے اپنے اعمال سے ثابت کرنا ہوگا اداروں کی مضبوطی، میرٹ کا عمل اور انصاف یہ سب ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں اور انھیں مضبوط کرنا حکومتوں کا کام ہے۔