اقبال ناز آج بھی زندہ ہے
پاکستان وجود میں آیا تو وہ نوکری کے سلسلے میں جے پور میں تھے
KARACHI:
کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں جنہیں انسانی عقل احاطہ نہیں کرپاتی ہے آپ ان کے متعلق جتنا سوچتے ہیں یا کھوج لگاتے ہیں سوائے مایوسی کے کچھ نہیں پاتے ہیں۔ ان کا بھید صرف وہ ہی جانتا ہے جو اوپر بیٹھا ہوا ہے، ان شخصیات میں اقبال ناز بھی شامل ہیں وہ ہم بہن بھائیوں میں تیسرے نمبر پر تھیں ان سے پہلے رضیہ ، خالدہ اور ان کے بعد فردوس اور تسنیم اور سب سے آخر میں دنیا میں آیا ۔ہمارے بزرگ تقسیم ہند سے پہلے ریاست الورکے ایک چھوٹے سے گاؤں کوٹ قاسم میں آباد تھے۔
پیشے کے لحاظ سے سب کے سب زمیندار تھے میرے دادا عظیم خان سنسکر ت زبان کے ماہرتھے اور ان کی لکھنے پڑھنے میں بہت دلچسپی تھی وہ اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھے میرے والد سلیم احمد خان بھی اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھے اس لیے وہ بہت لاڈلے تھے ان کاقد 6 فٹ سے بھی زیادہ تھا دیکھنے میں بہت خوبصورت تھے ہونٹوں پر ہر وقت مسکراہٹ ان کا خزانہ تھی اور یہ خزانہ آخری وقت تک ان کے ساتھ ساتھ رہا جب وہ جوان ہوئے تو برٹش آرمی میں بھرتی ہوگئے اور انھوں نے دوسری جنگ عظیم میں حصہ لیا، زندگی کا تھوڑا عرصہ اٹلی ، ایران میں گزارا ۔
دوسری جنگ عظیم ختم ہونے کے بعد انڈین کسٹم کاحصہ بن گئے 1947 میں جب پاکستان وجود میں آیا تو وہ نوکری کے سلسلے میں جے پور میں تھے میری والدہ اس وقت اپنے والد کے گھر تیجارہ میں تھیں میری والدہ تیجارہ سے لے کر پاکستان تک کا سفر جب جب سناتی تھیں سننے والوں کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے تھے۔ میری والدہ کمال کی خاتون تھیں ، وہ بالکل پڑھی لکھی نہیں تھیں لیکن ان میں کمال کی حد تک ذہانت ، سمجھداری ، انکساری ، خلوص و محبت پائی جاتی تھیں میرے والد اپنے بچوں میں سب سے زیادہ محبت اقبال ناز سے کرتے تھے وہ انھیں پیار سے بالوکہہ کر پکارتے تھے۔
اقبال ناز کی شادی غالباً1970 یا1971 میں بینک آفیسر سید شوکت علی رضوی سے ہوئی جو کراچی میں رہتے تھے شوکت رضوی انتہائی محنتی ، بااصول ، باکر دار اور اپنے کا م میں ماہر تھے جو ترقی کرتے کرتے سینئر ایگزیکٹیو وائس پریزیڈنٹ کے عہدے تک پہنچے خدا نے ان دونوں کو تین اولادوں سے نوازا ، پہلی ثمینہ دوسرا محسن رضوی اورتیسری ہما کفیل ،ثمینہ کی شادی امریکا میں مقیم ڈاکٹر اظہر خانزادہ سے ہوئی اور وہ امریکا منتقل ہوگئیں۔ شادی کے چند سالوں بعد میاں بیوی میں اختلافات کے باعث نوبت طلا ق تک جاپہنچی جس کا صدمہ اقبال کو حد سے زیادہ پہنچا اور ہر وقت ہنستی اقبال پھر ہر وقت روتی اقبال میں تبدیل ہوگئی ۔
پھرکچھ عرصے بعد ان کی دوسر ی بیٹی کی شادی کینیڈا میں مقیم کفیل سے ہوگئی اور پھر ان کے بیٹے کی شادی بھی کینیڈا میں ایک ڈاکٹر سے ہوگئی اس لیے ان کے تینوں بچے امریکا اورکینیڈا میں شفٹ ہوگئے اور شو کت رضوی اور اقبال ناز ڈیفنس کے اپنے گھر میں تنہا رہنے لگے ۔ پھر ایسی دوران ان کی دوسری بیٹی ہما کفیل نے اپنے والدین کی کینیڈین نیشنلٹی کے پیپرز submitکردیے کچھ عرصے بعد ان کی کینیڈین نیشنلٹی ہوگئی ۔ پاکستان میں موجود کینیڈا کی ایمبسی سے انھیں لیٹر موصول ہوا کہ آپ اپنا میڈیکل چیک کروالیں جب انھوں نے اپنا میڈیکل چیک اپ کروالیا اور ڈاکٹر نے انھیں رپورٹ دینے کے لیے بلوایا تو ڈاکٹر نے یہ کہہ کر اقبال ناز کے پیٹ میں کینسر ہونے کا شک ہے غم اور مصیبت کا پہاڑ ان کے سروں پر گرا دیا ۔ پھر جب مزید میڈیکل Investigation کروائی گئی تو تیسر ے درجے کا کینسر نکلا اور ڈاکٹرز نے بتایا کہ وہ زیادہ سے زیادہ تین سال اور جی سکیں گی۔
پھر کیموتھراپی کا آغاز ہوا کچھ عرصے تکCA نارمل ہوجاتا پھر وہ اپنی Limit سے باہر ہونے لگتا اس کا مطلب یہ ہوتا کہ جسم میں کہیں نہ کہیں کینسرکی دوبارہ Growth ہورہی ہے پھر آپریشن ہوتا اور اس کے بعد کیمو تھراپی کا نیاسلسلہ شروع ہوجاتا اور یہ عمل اور سلسلہ پورے 15سال اسی طرح چلتا رہا ہم میں سے ہر شخص میں برداشت کرنے کی ایک حد ہوتی ہے اس کے بعد وہ تکلیف انسان کے لیے ناقابل برداشت ہوجاتی ہے لیکن اقبال ناز نے اس طرح 15سال مسلسل تکلیفیں برداشت کیں کہ وہ تمام تکلیفیں پھر بھی ان سے مسکراہٹ نہ چھین سکیں وہ ہمیشہ اسپتال تیار ہوکر جاتی تھیں وہیل چیئر پر ہمیشہ مسکراہٹ کے ساتھ بیٹھتی تھیں۔
اسپتال انھیں آج بھی یاد کرتا ہے حالانکہ انھیں اوپر گئے دوسال بیت چکے ہیں ان میں تکلیفیں برداشت کرنے کی خوبی کے ساتھ ساتھ انھیں مہمان نوازی ، فیصلے کرنے اور کھانے پکانے کی مہارت بھی حاصل تھی وہ ہر وقت ہر کسی کی مدد کے لیے تیار رہتی تھیں اور ہر طرح مدد کرتی رہتی تھیں ۔ نجانے ان کے پاس کہاں سے پیسے آجاتے تھے مجھے یقین ہے وہ اوپر بھی پیسے بانٹ رہی ہونگی جتنے ہاتھ ان کے لیے دعاؤں لیے اٹھتے تھے وہ گننے نہیں جاسکتے تھے ہر شخص انھیں ہر وقت دعائیں دیتا رہتا تھا وہ دنیامیںصرف لوگوں کی مدد کرنے اور دعائیں لینے آئی تھیں اور دعاؤں کا وہ سلسلہ آج تک اسی طرح جاری ہے ان کے شوہر سید شوکت علی رضوی امریکہ شفٹ ہوچکے ہیں جس طرح شوکت رضوی نے اپنی بیوی کی مسلسل 15سال تک خدمت کی اس کا الفاظ احاطہ نہیں کرسکتے ۔
میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا جو آج بھی میرے پاس موجود ہے اور میرے ہر وقت کام آرہا ہے۔ انسان اپنی ہمت اور حوصلے سے ہمیشہ ناممکن کو ممکن بنادیتا ہے انسان کی باتیں اور خوبیاں اور اس کا ذکر ایک نسل سے دوسری نسل تک خود بخود منتقل ہوتا رہتا ہے انسان چلا جاتا ہے لیکن پھر بھی وہ اپنوں میں زندہ رہتا ہے ہم کبھی بھی نیک لوگوں کو مرنے نہیں دیتے ہیں ۔اس لیے اقبال ناز آج بھی ہم سب میں زندہ ہے۔
کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں جنہیں انسانی عقل احاطہ نہیں کرپاتی ہے آپ ان کے متعلق جتنا سوچتے ہیں یا کھوج لگاتے ہیں سوائے مایوسی کے کچھ نہیں پاتے ہیں۔ ان کا بھید صرف وہ ہی جانتا ہے جو اوپر بیٹھا ہوا ہے، ان شخصیات میں اقبال ناز بھی شامل ہیں وہ ہم بہن بھائیوں میں تیسرے نمبر پر تھیں ان سے پہلے رضیہ ، خالدہ اور ان کے بعد فردوس اور تسنیم اور سب سے آخر میں دنیا میں آیا ۔ہمارے بزرگ تقسیم ہند سے پہلے ریاست الورکے ایک چھوٹے سے گاؤں کوٹ قاسم میں آباد تھے۔
پیشے کے لحاظ سے سب کے سب زمیندار تھے میرے دادا عظیم خان سنسکر ت زبان کے ماہرتھے اور ان کی لکھنے پڑھنے میں بہت دلچسپی تھی وہ اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھے میرے والد سلیم احمد خان بھی اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھے اس لیے وہ بہت لاڈلے تھے ان کاقد 6 فٹ سے بھی زیادہ تھا دیکھنے میں بہت خوبصورت تھے ہونٹوں پر ہر وقت مسکراہٹ ان کا خزانہ تھی اور یہ خزانہ آخری وقت تک ان کے ساتھ ساتھ رہا جب وہ جوان ہوئے تو برٹش آرمی میں بھرتی ہوگئے اور انھوں نے دوسری جنگ عظیم میں حصہ لیا، زندگی کا تھوڑا عرصہ اٹلی ، ایران میں گزارا ۔
دوسری جنگ عظیم ختم ہونے کے بعد انڈین کسٹم کاحصہ بن گئے 1947 میں جب پاکستان وجود میں آیا تو وہ نوکری کے سلسلے میں جے پور میں تھے میری والدہ اس وقت اپنے والد کے گھر تیجارہ میں تھیں میری والدہ تیجارہ سے لے کر پاکستان تک کا سفر جب جب سناتی تھیں سننے والوں کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے تھے۔ میری والدہ کمال کی خاتون تھیں ، وہ بالکل پڑھی لکھی نہیں تھیں لیکن ان میں کمال کی حد تک ذہانت ، سمجھداری ، انکساری ، خلوص و محبت پائی جاتی تھیں میرے والد اپنے بچوں میں سب سے زیادہ محبت اقبال ناز سے کرتے تھے وہ انھیں پیار سے بالوکہہ کر پکارتے تھے۔
اقبال ناز کی شادی غالباً1970 یا1971 میں بینک آفیسر سید شوکت علی رضوی سے ہوئی جو کراچی میں رہتے تھے شوکت رضوی انتہائی محنتی ، بااصول ، باکر دار اور اپنے کا م میں ماہر تھے جو ترقی کرتے کرتے سینئر ایگزیکٹیو وائس پریزیڈنٹ کے عہدے تک پہنچے خدا نے ان دونوں کو تین اولادوں سے نوازا ، پہلی ثمینہ دوسرا محسن رضوی اورتیسری ہما کفیل ،ثمینہ کی شادی امریکا میں مقیم ڈاکٹر اظہر خانزادہ سے ہوئی اور وہ امریکا منتقل ہوگئیں۔ شادی کے چند سالوں بعد میاں بیوی میں اختلافات کے باعث نوبت طلا ق تک جاپہنچی جس کا صدمہ اقبال کو حد سے زیادہ پہنچا اور ہر وقت ہنستی اقبال پھر ہر وقت روتی اقبال میں تبدیل ہوگئی ۔
پھرکچھ عرصے بعد ان کی دوسر ی بیٹی کی شادی کینیڈا میں مقیم کفیل سے ہوگئی اور پھر ان کے بیٹے کی شادی بھی کینیڈا میں ایک ڈاکٹر سے ہوگئی اس لیے ان کے تینوں بچے امریکا اورکینیڈا میں شفٹ ہوگئے اور شو کت رضوی اور اقبال ناز ڈیفنس کے اپنے گھر میں تنہا رہنے لگے ۔ پھر ایسی دوران ان کی دوسری بیٹی ہما کفیل نے اپنے والدین کی کینیڈین نیشنلٹی کے پیپرز submitکردیے کچھ عرصے بعد ان کی کینیڈین نیشنلٹی ہوگئی ۔ پاکستان میں موجود کینیڈا کی ایمبسی سے انھیں لیٹر موصول ہوا کہ آپ اپنا میڈیکل چیک کروالیں جب انھوں نے اپنا میڈیکل چیک اپ کروالیا اور ڈاکٹر نے انھیں رپورٹ دینے کے لیے بلوایا تو ڈاکٹر نے یہ کہہ کر اقبال ناز کے پیٹ میں کینسر ہونے کا شک ہے غم اور مصیبت کا پہاڑ ان کے سروں پر گرا دیا ۔ پھر جب مزید میڈیکل Investigation کروائی گئی تو تیسر ے درجے کا کینسر نکلا اور ڈاکٹرز نے بتایا کہ وہ زیادہ سے زیادہ تین سال اور جی سکیں گی۔
پھر کیموتھراپی کا آغاز ہوا کچھ عرصے تکCA نارمل ہوجاتا پھر وہ اپنی Limit سے باہر ہونے لگتا اس کا مطلب یہ ہوتا کہ جسم میں کہیں نہ کہیں کینسرکی دوبارہ Growth ہورہی ہے پھر آپریشن ہوتا اور اس کے بعد کیمو تھراپی کا نیاسلسلہ شروع ہوجاتا اور یہ عمل اور سلسلہ پورے 15سال اسی طرح چلتا رہا ہم میں سے ہر شخص میں برداشت کرنے کی ایک حد ہوتی ہے اس کے بعد وہ تکلیف انسان کے لیے ناقابل برداشت ہوجاتی ہے لیکن اقبال ناز نے اس طرح 15سال مسلسل تکلیفیں برداشت کیں کہ وہ تمام تکلیفیں پھر بھی ان سے مسکراہٹ نہ چھین سکیں وہ ہمیشہ اسپتال تیار ہوکر جاتی تھیں وہیل چیئر پر ہمیشہ مسکراہٹ کے ساتھ بیٹھتی تھیں۔
اسپتال انھیں آج بھی یاد کرتا ہے حالانکہ انھیں اوپر گئے دوسال بیت چکے ہیں ان میں تکلیفیں برداشت کرنے کی خوبی کے ساتھ ساتھ انھیں مہمان نوازی ، فیصلے کرنے اور کھانے پکانے کی مہارت بھی حاصل تھی وہ ہر وقت ہر کسی کی مدد کے لیے تیار رہتی تھیں اور ہر طرح مدد کرتی رہتی تھیں ۔ نجانے ان کے پاس کہاں سے پیسے آجاتے تھے مجھے یقین ہے وہ اوپر بھی پیسے بانٹ رہی ہونگی جتنے ہاتھ ان کے لیے دعاؤں لیے اٹھتے تھے وہ گننے نہیں جاسکتے تھے ہر شخص انھیں ہر وقت دعائیں دیتا رہتا تھا وہ دنیامیںصرف لوگوں کی مدد کرنے اور دعائیں لینے آئی تھیں اور دعاؤں کا وہ سلسلہ آج تک اسی طرح جاری ہے ان کے شوہر سید شوکت علی رضوی امریکہ شفٹ ہوچکے ہیں جس طرح شوکت رضوی نے اپنی بیوی کی مسلسل 15سال تک خدمت کی اس کا الفاظ احاطہ نہیں کرسکتے ۔
میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا جو آج بھی میرے پاس موجود ہے اور میرے ہر وقت کام آرہا ہے۔ انسان اپنی ہمت اور حوصلے سے ہمیشہ ناممکن کو ممکن بنادیتا ہے انسان کی باتیں اور خوبیاں اور اس کا ذکر ایک نسل سے دوسری نسل تک خود بخود منتقل ہوتا رہتا ہے انسان چلا جاتا ہے لیکن پھر بھی وہ اپنوں میں زندہ رہتا ہے ہم کبھی بھی نیک لوگوں کو مرنے نہیں دیتے ہیں ۔اس لیے اقبال ناز آج بھی ہم سب میں زندہ ہے۔