قرض کا شیطانی چکر
مقامی خریدارکی قوت خرید، بیرونی مارکیٹ تک رسائی جیسے عوامل معنی رکھتے ہیں
ورلڈ بینک نے رواں سال پاکستان کی غیرملکی مالیاتی ضروریات کی مبالغہ آمیزرپورٹ دی، پہلے کہا 31 ارب ڈالر چاہیے ہوںگے، رپورٹ چیلنج ہوئی تو 18 ارب ڈالر کا نسبتاً درست اندازہ سامنے آیا مگر یہ بھی موجود ہوتے تو بات معمولی ہوتی، بین الاقوامی مالی ذمے داریاں پوری کرنے کے لیے 18ارب ڈالر کی ضرورت کا مطلب 18ارب ڈالر کے مزید قرضے ہیں، اگرچہ قرضے لینا ایک معمول کی کارگزاری ہے مگر اس وقت جب معیشت نہایت مضبوط ہو اور زرمبادلہ ذخائر کا ڈھیر نہ سہی کچھ کہنے جیسا اماؤنٹ تو ہو، مگر ہمارے پاس تو 3 ماہ کی درآمدی ضروریات کا بھی زرمبادلہ نہیں کیونکہ ماہانہ بل اب 5ارب ڈالر کو چھونے والا ہے جب کہ حکومت کے پاس بمشکل 14 ارب ڈالر ہوں گے پھر آئی ایم ایف سمیت دیگر اداروں سے جو ماضی میں قرضے لیے وہ بھی سود سمیت واپس کرنے ہیں ویسے تو مجموعی بیرونی قرضے 83ارب ڈالر تک پہنچ چکے ہیں مگر اصل مسئلہ فوری میچور ہونے والے قرضے ہیں بلکہ ہر ہفتے 30 سے 35 کروڑ ڈالر کی ادائیگیاں ہو رہی ہیں اور پچھلے سال ہی ساڑھے 4ارب ڈالر ادا کیے ہیں۔
قصہ مختصر کہ ہمارے پاس بیرونی مالی ذمے داریوں کا فوری انتظام کوئی نہیں، نیا قرضہ لینا ہی پڑے گا چاہے بانڈ جاری کریں، سکوک یا پھر آئی ایم ایف کا درکھٹکھٹائیں، چین جیسے کسی دوست ملک کے پاس جانے کا آپشن بھی ہے مگر لگتا ایسا ہے بلکہ یقیناً ہمارا ملک کسی شیطانی چکر میں پھنس گیا ہے، قرضے لینے اور انھیں چکانے کا چکر۔ اس چکر سے نکلنے کا واحد حل مالی پوزیشن بہتر بنانا ہے، مالی پوزیشن بہتربنانے کے لیے ضرورت ہے معیشت کو مضبوط بنانے کی اور معیشت کھڑی ہوتی ہے صنعت، زراعت، خدمات کے مضبوط ستونوں پر اور ان ستونوں کی مضبوطی امن سے مشروط ہے، امن سڑکوں گلی محلوں میں قانون نافذکرنے والے اداروں کے اہلکاروں کی تعیناتی سے قائم نہیں ہوتا، اس سے تو خوف وہراس پیدا ہوتا ہے۔
امن اس وقت قائم ہوتا ہے جب عمومی طور پر احساس تحفظ پیدا ہو، چند برسوں سے پے درپے سیکیورٹی آپریشنز کے نتیجے میں شرپسند شہروں سے بھاگ کر چھپ گئے ہیں، وہ اب دندناتے نہیں پھرتے، چھپ کر وار کرتے ہیں یعنی صورتحال بہتر ہو رہی ہے مگر احساس تحفظ پیدا نہیں ہو سکا، اس کے لیے سیاسی ومفاہمتی عمل کے ساتھ ذہنی ترقی اور سماجی انصاف کے طویل سفرکی ضرورت ہے، یہ ایک سفر مسلسل ہے جو کبھی ختم نہیں ہونا چاہیے مگر یہ ایک مختلف موضوع ہے جس پر پھرکبھی بات ہوگی۔
اصل موضوع معیشت کا ہے جس کے ستون کمزور ہیں، ملکی مٹی زرخیز اور وطن کا موسم سازگارہے اس لیے اگر زرعی شعبہ کمزور ہے تو پھر پالیسی،طورطریقے،مقامی خریدارکی قوت خرید، بیرونی مارکیٹ تک رسائی جیسے عوامل معنی رکھتے ہیں، ان کی بہتری زرعی ترقی کی رفتار بہت تیز کر سکتی ہے لیکن صنعتی شعبے میں خرابیاں بہت گہری ہیں، پیداواری اشیا، ٹیکنالوجی، مشینری، پالیسیاں سب روایتی ہیں زمانہ بدلا مگر شاید پاکستان میں نہیں، ہم اب بھی وہیں ہیں جہاں تھے، جدت تو دور کی بات ہے، پرانی پوزیشن ہی برقرار نہیں رہی، صنعتی تنزلی جاری ہے، اگر صنعتیں مارکیٹ کی ضرورت کے مطابق نئی بہتر اور معیاری اشیا اچھی اور بھرپور مارکیٹنگ کے ساتھ پرکشش پیکنگ میں پیش نہیں کریں گی تو خریدار متوجہ نہیں ہو گا۔
قیمت بھی مسابقتی ہونی چاہیے، صنعتی شعبہ اس وقت صرف پیداواری لاگت کو ایشو بنائے بیٹھا ہے مگر معیار، حقوق دانش، برانڈ، مارکیٹنگ، بین الاقوامی سرٹیفکیشن پرتوجہ نہیں ہے، یہ بات ٹھیک ہے کہ ملکی اشیا اس وقت تک مسابقتی قیمت پر تیار نہیں ہو سکتیں جب تک خام مال اور توانائی قابل برداشت قیمتوں پر فراہم نہ کی جائے، ٹیکسز اور ڈیوٹیاں بھی معقول ہونے چاہئیں، غیرپیداواری عناصر یعنی ترسیل و رسد کے ذرایع (ٹرانسپورٹ) بھی بہتر اور برق رفتار ہونے چاہئیں، اس کے علاوہ ملک میں بالخصوص سڑکیں اچھی حالت میں ہونی چائیں تاکہ رسدکے اخراجات قابو میں رہیں، کاروبار میں حائل سرکاری کاغذی عمل بھی سہل ہونا چاہیے، مالیاتی منڈیاں بھی متنوع ہونی چاہئیں جو صنعتی پیداواری عمل کے لیے آسان شرائط پرسستے قرضے فراہم کریں، مصنوعات کی قیمتوں کو حریف ملکوں کے مساوی بنانے کے لیے محض توانائی کو سستی کرنے سے بات نہیں بنے گی بلکہ بہت سے عوامل مل کراس کا تعین کرتے ہیں، اس حوالے سے تحقیق ہونی چاہیے اور تحقیق کے نتائج کی بنیاد پر پالیسی بنائی جانی چاہیے ورنہ صنعتی پیداواری عمل کے صرف ایک جز پر توجہ دینے سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔
ہماری بیشتر صنعتوں کی بنیاد زراعت ہے جو انھیں بنیادی خام مال فراہم کرتی ہے، وافر زرعی پیداوار کے باوجود صنعتیںسستی اشیا پیدا نہیں کر پاتیں جس کی ایک بڑی وجہ حکومت کی زرعی اشیا کی امدادی قیمت مقرر کرنے کی پالیسی بھی ہے جو وقتی طور پر کاشت کار کو فائدہ دیتی ہے مگر طویل مدت میں اس کے نقصانات کاشت کار سمیت پوری معیشت کو ہوتے ہیں، اس وقت گندم، گنے اور دیگر فصلوں کے معاملے میں یہی مسئلہ درپیش ہے، حکومتی پالیسی کی وجہ سے ملک میں گندم کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں مگر اس کو ایکسپورٹ نہیں کیا جا سکتا، چینی کا بھی یہی معاملہ ہے، گندم و چینی کی اضافی پیداوار کو ملک میں کھپانے کے لیے بھی کوئی حکمت عملی سامنے نہیںآئی، نتیجہ کاشت کار کا استحصال، جسے اچھی قیمت نہیں مل رہی، حکومت کے پاس گندم گوداموں میں پڑی خراب ہو رہی ہے، اس کا حل کیا ہے، اس کا حل طلب و رسدکا میکنزم ہے۔
کاشت کاراپنی محنت سے پیداوار حاصل کرے اسے منڈی میں لے جا کر بیچ دے، قیمت کا تعین مارکیٹ میں شے کی دستیاب مقدار اور اس کی طلب سے ہو گا، یہ عمل مسلسل جاری رہے تو اشیا اپنی حقیقی قدر حاصل کرتی ہیں جو خریدار اور بیچنے والے دونوں کے لیے مناسب رہتی ہیں، اس معاملے سے حکومت کو نکال کر صرف طریقہ کار کی نگرانی، فراڈ و دیگر خلاف عوامل کی روک تھام اور منڈی کے حقیقی پلیئرز کو سہولتوں کی فراہمی تک محدود کرنا ہو گا، اگر حکومت مستقبل میں برے وقت سے عوام کو بچانا چاہتی ہے تو اس کے لیے مناسب بفر اسٹاک برقرار رکھنا کافی ہو گا مگر مارکیٹ میں حکومت کی مداخلت اس سطح پر نہیں جانی چاہیے جس سے اشیا کے تعین کا فطری عمل متاثر ہو اور قیمتیں مصنوعی لگیں۔
یہ حکمت عملی صرف اس صورت میں کامیاب ہوگی جب فیصلہ ساز اتھارٹی اقتصادی امور خصوصاً مارکیٹ سے سیاست کو نکال کر پھینک دے اور اسے ریگولیٹر کے رحم وکرم پر چھوڑ دے، عمومی سطح پر اشیا کا تعین کائناتی عمل کے ذریعے ہوگا تو اثرات پیدا کرنے والے تمام عناصر کو خارج کردیا جائے توصنعت ہو یا عام صارف مارکیٹ کے تمام فریقوں کو ایک سا فائدہ ہو گا، اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی چیز بڑے پیمانے پر تیار کرنی ہے تو مصنوعی طور پراس کی تیاری کے لیے درکار جزئیات سستی یا کنٹرول ریٹ پر فراہم کرنے کے بجائے عمومی سطح پر مہنگائی کو روکا جائے۔
جس سے زرعی شعبے سے لے کر صنعت تک پیداواری لاگت میں کمی آئے گی اور اس سے عالمی مارکیٹ میں ملکی برآمدات کی مسابقتی صلاحیت بحال ہو جائے گی تب جا کر ملک کو جو زرمبادلہ ملے گا وہ پائیدار اور مفید ہو گا جو معیشت کو مضبوط کرے گا، یہ مضبوط معیشت سرمایہ کار کو وہ منافع دے گی جو اس کے کاروبار کو قابل عمل بنائے گا، اس طریقے سے پاکستان شیطانی چکر سے نکل پائے گا اور مالی ضروریات کے لیے بار بار بین الاقوامی اداروں سے رجوع کرنا پڑے گا نہ ان کی شرائط ماننا ہوںگی، یہ خودمختاری اور خودانحصاری کی جانب دیرپا قدم ہے جس سے معیشت کے ہر شراکت دار بشمول عمومی صارف سب کو فائدہ ہوگا۔
قصہ مختصر کہ ہمارے پاس بیرونی مالی ذمے داریوں کا فوری انتظام کوئی نہیں، نیا قرضہ لینا ہی پڑے گا چاہے بانڈ جاری کریں، سکوک یا پھر آئی ایم ایف کا درکھٹکھٹائیں، چین جیسے کسی دوست ملک کے پاس جانے کا آپشن بھی ہے مگر لگتا ایسا ہے بلکہ یقیناً ہمارا ملک کسی شیطانی چکر میں پھنس گیا ہے، قرضے لینے اور انھیں چکانے کا چکر۔ اس چکر سے نکلنے کا واحد حل مالی پوزیشن بہتر بنانا ہے، مالی پوزیشن بہتربنانے کے لیے ضرورت ہے معیشت کو مضبوط بنانے کی اور معیشت کھڑی ہوتی ہے صنعت، زراعت، خدمات کے مضبوط ستونوں پر اور ان ستونوں کی مضبوطی امن سے مشروط ہے، امن سڑکوں گلی محلوں میں قانون نافذکرنے والے اداروں کے اہلکاروں کی تعیناتی سے قائم نہیں ہوتا، اس سے تو خوف وہراس پیدا ہوتا ہے۔
امن اس وقت قائم ہوتا ہے جب عمومی طور پر احساس تحفظ پیدا ہو، چند برسوں سے پے درپے سیکیورٹی آپریشنز کے نتیجے میں شرپسند شہروں سے بھاگ کر چھپ گئے ہیں، وہ اب دندناتے نہیں پھرتے، چھپ کر وار کرتے ہیں یعنی صورتحال بہتر ہو رہی ہے مگر احساس تحفظ پیدا نہیں ہو سکا، اس کے لیے سیاسی ومفاہمتی عمل کے ساتھ ذہنی ترقی اور سماجی انصاف کے طویل سفرکی ضرورت ہے، یہ ایک سفر مسلسل ہے جو کبھی ختم نہیں ہونا چاہیے مگر یہ ایک مختلف موضوع ہے جس پر پھرکبھی بات ہوگی۔
اصل موضوع معیشت کا ہے جس کے ستون کمزور ہیں، ملکی مٹی زرخیز اور وطن کا موسم سازگارہے اس لیے اگر زرعی شعبہ کمزور ہے تو پھر پالیسی،طورطریقے،مقامی خریدارکی قوت خرید، بیرونی مارکیٹ تک رسائی جیسے عوامل معنی رکھتے ہیں، ان کی بہتری زرعی ترقی کی رفتار بہت تیز کر سکتی ہے لیکن صنعتی شعبے میں خرابیاں بہت گہری ہیں، پیداواری اشیا، ٹیکنالوجی، مشینری، پالیسیاں سب روایتی ہیں زمانہ بدلا مگر شاید پاکستان میں نہیں، ہم اب بھی وہیں ہیں جہاں تھے، جدت تو دور کی بات ہے، پرانی پوزیشن ہی برقرار نہیں رہی، صنعتی تنزلی جاری ہے، اگر صنعتیں مارکیٹ کی ضرورت کے مطابق نئی بہتر اور معیاری اشیا اچھی اور بھرپور مارکیٹنگ کے ساتھ پرکشش پیکنگ میں پیش نہیں کریں گی تو خریدار متوجہ نہیں ہو گا۔
قیمت بھی مسابقتی ہونی چاہیے، صنعتی شعبہ اس وقت صرف پیداواری لاگت کو ایشو بنائے بیٹھا ہے مگر معیار، حقوق دانش، برانڈ، مارکیٹنگ، بین الاقوامی سرٹیفکیشن پرتوجہ نہیں ہے، یہ بات ٹھیک ہے کہ ملکی اشیا اس وقت تک مسابقتی قیمت پر تیار نہیں ہو سکتیں جب تک خام مال اور توانائی قابل برداشت قیمتوں پر فراہم نہ کی جائے، ٹیکسز اور ڈیوٹیاں بھی معقول ہونے چاہئیں، غیرپیداواری عناصر یعنی ترسیل و رسد کے ذرایع (ٹرانسپورٹ) بھی بہتر اور برق رفتار ہونے چاہئیں، اس کے علاوہ ملک میں بالخصوص سڑکیں اچھی حالت میں ہونی چائیں تاکہ رسدکے اخراجات قابو میں رہیں، کاروبار میں حائل سرکاری کاغذی عمل بھی سہل ہونا چاہیے، مالیاتی منڈیاں بھی متنوع ہونی چاہئیں جو صنعتی پیداواری عمل کے لیے آسان شرائط پرسستے قرضے فراہم کریں، مصنوعات کی قیمتوں کو حریف ملکوں کے مساوی بنانے کے لیے محض توانائی کو سستی کرنے سے بات نہیں بنے گی بلکہ بہت سے عوامل مل کراس کا تعین کرتے ہیں، اس حوالے سے تحقیق ہونی چاہیے اور تحقیق کے نتائج کی بنیاد پر پالیسی بنائی جانی چاہیے ورنہ صنعتی پیداواری عمل کے صرف ایک جز پر توجہ دینے سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔
ہماری بیشتر صنعتوں کی بنیاد زراعت ہے جو انھیں بنیادی خام مال فراہم کرتی ہے، وافر زرعی پیداوار کے باوجود صنعتیںسستی اشیا پیدا نہیں کر پاتیں جس کی ایک بڑی وجہ حکومت کی زرعی اشیا کی امدادی قیمت مقرر کرنے کی پالیسی بھی ہے جو وقتی طور پر کاشت کار کو فائدہ دیتی ہے مگر طویل مدت میں اس کے نقصانات کاشت کار سمیت پوری معیشت کو ہوتے ہیں، اس وقت گندم، گنے اور دیگر فصلوں کے معاملے میں یہی مسئلہ درپیش ہے، حکومتی پالیسی کی وجہ سے ملک میں گندم کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں مگر اس کو ایکسپورٹ نہیں کیا جا سکتا، چینی کا بھی یہی معاملہ ہے، گندم و چینی کی اضافی پیداوار کو ملک میں کھپانے کے لیے بھی کوئی حکمت عملی سامنے نہیںآئی، نتیجہ کاشت کار کا استحصال، جسے اچھی قیمت نہیں مل رہی، حکومت کے پاس گندم گوداموں میں پڑی خراب ہو رہی ہے، اس کا حل کیا ہے، اس کا حل طلب و رسدکا میکنزم ہے۔
کاشت کاراپنی محنت سے پیداوار حاصل کرے اسے منڈی میں لے جا کر بیچ دے، قیمت کا تعین مارکیٹ میں شے کی دستیاب مقدار اور اس کی طلب سے ہو گا، یہ عمل مسلسل جاری رہے تو اشیا اپنی حقیقی قدر حاصل کرتی ہیں جو خریدار اور بیچنے والے دونوں کے لیے مناسب رہتی ہیں، اس معاملے سے حکومت کو نکال کر صرف طریقہ کار کی نگرانی، فراڈ و دیگر خلاف عوامل کی روک تھام اور منڈی کے حقیقی پلیئرز کو سہولتوں کی فراہمی تک محدود کرنا ہو گا، اگر حکومت مستقبل میں برے وقت سے عوام کو بچانا چاہتی ہے تو اس کے لیے مناسب بفر اسٹاک برقرار رکھنا کافی ہو گا مگر مارکیٹ میں حکومت کی مداخلت اس سطح پر نہیں جانی چاہیے جس سے اشیا کے تعین کا فطری عمل متاثر ہو اور قیمتیں مصنوعی لگیں۔
یہ حکمت عملی صرف اس صورت میں کامیاب ہوگی جب فیصلہ ساز اتھارٹی اقتصادی امور خصوصاً مارکیٹ سے سیاست کو نکال کر پھینک دے اور اسے ریگولیٹر کے رحم وکرم پر چھوڑ دے، عمومی سطح پر اشیا کا تعین کائناتی عمل کے ذریعے ہوگا تو اثرات پیدا کرنے والے تمام عناصر کو خارج کردیا جائے توصنعت ہو یا عام صارف مارکیٹ کے تمام فریقوں کو ایک سا فائدہ ہو گا، اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی چیز بڑے پیمانے پر تیار کرنی ہے تو مصنوعی طور پراس کی تیاری کے لیے درکار جزئیات سستی یا کنٹرول ریٹ پر فراہم کرنے کے بجائے عمومی سطح پر مہنگائی کو روکا جائے۔
جس سے زرعی شعبے سے لے کر صنعت تک پیداواری لاگت میں کمی آئے گی اور اس سے عالمی مارکیٹ میں ملکی برآمدات کی مسابقتی صلاحیت بحال ہو جائے گی تب جا کر ملک کو جو زرمبادلہ ملے گا وہ پائیدار اور مفید ہو گا جو معیشت کو مضبوط کرے گا، یہ مضبوط معیشت سرمایہ کار کو وہ منافع دے گی جو اس کے کاروبار کو قابل عمل بنائے گا، اس طریقے سے پاکستان شیطانی چکر سے نکل پائے گا اور مالی ضروریات کے لیے بار بار بین الاقوامی اداروں سے رجوع کرنا پڑے گا نہ ان کی شرائط ماننا ہوںگی، یہ خودمختاری اور خودانحصاری کی جانب دیرپا قدم ہے جس سے معیشت کے ہر شراکت دار بشمول عمومی صارف سب کو فائدہ ہوگا۔