ہمارے لیے فرشتوں کا لشکر کیوں اُترے

کیا ہمارے اِیمان کی وہ حالت ہے جس کےلیے فرشتوں کا لشکر اُترے اور قوت، طاقت اور وسائل کے بغیر ہم کامیاب ہوجائیں؟

کیا ہمارے اِیمان کی وہ حالت ہے جس کےلیے فرشتوں کا لشکر اُترے اور قوت، طاقت اور وسائل کے بغیر ہم کامیاب ہوجائیں؟ (فوٹو: فائل)

HONG KONG:
پچھلے کچھ دنوں سے برما میں ہو نے والے مظالم کی خبریں تیزی سے گردش کر رہی ہیں۔ ہم اس بات سے انکار بھی نہیں کرتے کہ دنیا کا امن اس وقت متاثر ہوتا ہے جب کسی معاشرے کے افراد اپنی جانوں کو دوسروں کے ہاتھوں خطرے میں محسوس کرتے ہیں۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ برما میں مسلمانوں کو بے دردی سے شہید کیا جارہا ہے۔ روہنگیا مسلمانوں کو موت دینے کا کوئی طریقہ ان ظالموں نے نہیں چھوڑا اور اس سب میں برما کی حکومت اور شدت پسند بدھ کو ملوث قرار دیا جارہا ہے۔

ان حالات میں یہ جاننا نہایت ضروری ہوگیا ہے کہ کیا بدھ مت، جس کے ماننے والے پچیس کروڑ سے زائد ہیں، ایسی تعلیمات رکھتا ہے کہ اس کے ماننے والے آج انسانیت کا قتلِ عام کررہے ہیں۔

بدھ مت کا مطالعہ کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ بدھ مت کی ابتداء ہی انسانی مصائب کے خاتمے کےلیے ہوئی جو ہر ذات پات سے پاک رہی۔ جو بھی ان تعلیمات کو اپناتا، وہ بھکشو کہلاتا اور اس کےلیے لازم ہوتا کہ وہ بدھ مت کے احکامِ عشرہ کی سختی سے پابندی کرے گا۔ اِن احکامِ عشرہ میں سب سے پہلا یہ ہے کہ کسی جاندار کو قتل نہ کیا جائے، چوری نہ کی جائے، اور زنا نہ کیا جائے۔

بدھ مت کی تاریخ پر سرسری نظر ڈالنے سے پتا چلتا ہے کہ یہ ایک امن پسند مذہب ہے۔ تو اگر آج اِس کے ماننے والے شرپسند عناصر بن گئے ہیں اور قتل و غارت گری کررہے ہیں تو یہ سفاک درندگی پر مبنی عمل ان کی نیک نامی پر دھبہ ہے۔ اگر اس سلسلے کی تمام خبریں دیکھ لی جائیں تو کسی نے بدھ مت کی تعلیمات پر انگلی نہیں اُٹھائی۔ ہر طرف سے ان دہشت گردوں ہی کو اس قتل غارت گری کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے جو بدقسمتی سے بدھ مت کے ماننے والے ہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان میں مسلمان کے نام کا لیبل لگانے والا کوئی شخص اگر دہشت گردی کی واردات میں ملوث پایا جاتا ہے تو دنیا بھر کا میڈیا، سیاسی لیڈر، عوام کا ایک خاص طبقہ اور غیر ممالک اسلام پر کیوں نکتہ چینی شروع کردیتے ہیں؟ دنیا بھر سے مدارس کو بند کرنے کا مطالبہ کیوں کیا جاتا ہے جبکہ دنیا کے تمام مذاہب میں ایسے انتہا پسند عناصر پائے جاتے ہیں جو امن و آشتی کے خلاف کارفرما ہیں۔

تب کوئی کیوں یہ آواز بلند نہیں کرتا کہ مسلمانوں میں پائے جانے والے دہشت گردوں کا عمل انفرادی ہوتا ہے، اسلام کی تعلیمات کے تحت نہیں ہوتا۔ اسلام ایک امن پسند مذہب ہے، اسے کسی کےغلط عمل سے کیوں جوڑا جاتا ہے؟ مگر اسلام کو یہی نقطہ نگاہ اختیار کرتے ہوئے نشانہ بنایا جاتا ہے۔ دہشت گردی کے خاتمے کی آڑ میں بے گناہ مسلمانوں کو بے دردی سے شہید کر دیا جاتا ہے۔ جگہ جگہ آپریشن شروع کردیئے جاتے ہیں۔ دہشت گردی کے اس انفرادی عمل کا قرض ہزاروں مسلمانوں کو چکانا پڑتا ہے۔ لیکن اگر ہم مجموعی جائزہ لیں تو ہزاروں لوگ نہیں بلکہ ہزاروں خاندان تباہ ہوتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ تب کوئی کیوں نہں اُٹھتا؟ تب کوئی کیوں نہں بولتا؟ یہ آوازیں جو آج ہواؤں میں گونج رہی ہیں، تب یہ آوازیں کیوں خاموش ہوتی ہیں؟ دردِ مومن تو دردِ مومن ہوتا ہے۔ وہ درد تو پھر پاکستانی مسلمانوں کےلیے بھی ہونا چاہیے، وہ درد اسلام کےلیے بھی ہونا چاہیے۔


اقوامِ عالم اسلام کا نام دہشت گرد اور دہشت گردی سے منسوب کردیتی ہیں مگر ہم کیوں نہیں چیختے؟ کیوں آواز بلند نہیں کرتے؟ ذراغور تو کیجیے کہ آج ایک غیرمسلم کے ذہن میں اسلام کا نام سنتے ہی پہلا خیال کیا آتا ہے؟

روہنگیا مسلمانوں کےلیے آواز اُٹھانا اُن کا حق بنتا ہے، وہ ہمیں کرنا چاہیے۔ وہ ہمارے جسم کا حصہ ہیں، آج وہ تکلیف میں ہیں تو ہماری بے سکونی بجا ہے۔ ہم وہ درد محسوس کرسکتے ہیں جب 1947 میں مسلمانانِ برصغیر نے ہجرت کی۔ ہم نے اپنے بزرگوں سے اس بارے میں سنا ہے کہ انہوں نے کیا کچھ سہا تھا۔ آج روہنگیا مسلمانوں کےلیے ہم وہی درد محسوس کرتے ہیں۔ مگر یہ درد ہمیں اسلام کےلیے بھی محسوس کرنا چاہیے۔ ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ آج کیوں انسانیت درندگی کا روپ دھار چکی ہے اور کیوں مسلمان اِتنی بے رحمی سے پِس رہے ہیں؟

ہم مینجمنٹ میں پڑھتے ہیں کہ ہر مسئلے کی جڑ تک پہنچ کر اسے حل کیا جائے۔ تو اس حیوانیت کا حل صرف روہنگیا مسلمانوں کےلیے آواز بلند کرنا تو نہیں ہوا۔ آج ہم اِنہیں بچائیں گے تو کل اسلام دشمن کسی اور پر حملہ آور ہوجائیں گے۔ اِس مسئلے کا اصل حل اسلام کا تصورِ امن پیش کرنا ہے۔ ہمیں ضرورت ہے کہ اپنی شناخت ایک بار پھر یاد کریں۔ یہ اس لیے ضروری ہے کیونکہ آج دنیا بھر میں مسلمانوں کے دشمن ہم مسلمانوں کی ایمانی طاقت کو جان چکے ہیں۔

مگر دوسری جانب ہم خود یہ بھلا بیٹھے ہیں کہ ہم اس دائرہِ اسلام میں ہیں جس کی محبت کی وجہ سے لوگوں نے اپنا دین اور اپنی زندگیاں بدل لیں، دشمنوں نے میدان جنگ چھوڑ دیا۔ ہم نے یہ سب بھلا دیا اور غیر مسلموں نے اِسے ازبر کرلیا۔ تبھی وہ نسلوں کو تباہ کررہے ہیں، دنیا بھر کی زمین مسلمانوں پر تنگ کررہے ہیں۔ مسلمانوں کو یہ سوچ کر خوف آنا چاہیے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ مسلمانوں کو دنیا کے ہر خطے سے نکال کر ایک جگہ محدود کردیا جائے اور تمام غیر مسلم عناصر مل کراس تنگ جگہ میں مسلمانوں کو ختم کردیں۔

شعب ابی طالب گھاٹی کی تاریخ اگر دہرائی گئی تو کیا ہمارے اِیمان کی وہ حالت ہے جس کےلیے فرشتوں کا لشکر اُترے اور قوت، طاقت اور وسائل کے بغیر ہم کامیاب ہوجائیں؟ ایمانی فکر کے ساتھ اس بارے میں سوچنے کی ضرورت ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story