برطانیہ میں پاکستان کے خلاف مہم

پاکستان کے بارے میں مغربی ممالک میں منفی مہم ایک منصوبے کے تحت چلائی جا رہی ہے

پاکستان کے بارے میں مغربی ممالک میں منفی مہم ایک منصوبے کے تحت چلائی جا رہی ہے . فوٹو : فائل

KARACHI:
جیسا کہ سامراجی ممالک بلوچستان میں بدامنی پھیلانے کے لیے وہاں اور بیرون ملک میں مقیم شرپسندوں اور بھارت کی کھلم کھلا مدد کر رہے ہیں اور اب اس مہم میں مزید شدت پیدا کرنے کی خاطر لندن میں چلنے والی ٹیکسی کاروں کو اس سازش میں استعمال کرنا شروع کر دیا ہے جن پر بڑے بڑے جلی لفظوں میں پاکستان دشمن نعرے لکھے گئے ہیں۔

ظاہر سی بات ہے کہ لندن میں جو مہم چلائی جارہی ہے، اس کی کوئی نہ کوئی فنڈنگ کررہا ہے کیونکہ فنڈنگ کے بغیر ایسی مہم نہیں چلائی جاسکتی ۔ ویسے تو پاکستان کے بارے میں عرصے سے مغرب میں منفی مہم جاری ہے لیکن اب اصل مہم بلوچستان کے حوالے سے چلائی جا رہی ہے اور لندن کی پبلک ٹرانسپورٹ پر لکھوائے جانے والے نعروں میں سب سے زیادہ نمایاں نعرہ ہے کہ بلوچستان کو آزاد کرو۔ اس مہم کو چلانے والی تحریک ''ایف بی ایم'' کہلاتی ہے یعنی آزاد بلوچستان تحریک۔

پاکستان نے اس بات پر شدید احتجاج کیا ہے اوربرطانوی ہائی کمشنر تھامس ڈریو کو دفتر خارجہ میں طلب کر کے پاکستان کی سیکریٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ نے پاکستان کی طرف سے شدید تشویش سے آگاہ کیا اور کہا کہ ایک دوست ملک کی طرف سے پاکستان کے خلاف مہم کا ساتھ دینا ناقابل قبول ہے۔ موصولہ خبروں کے مطابق لندن کی مختلف شاہراہوں اور گاڑیوں پر آزاد بلوچستان کے نعرے اور اسٹیکرز لگانے کی خبروں پر پاکستان نے گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔

سیکریٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ نے برطانوی ہائی کمشنر کو طلب کر کے کہا کہ لندن میں ٹیکسیوں پر پاکستان مخالف نعرے آویزاں کرنا ہماری سالمیت اور خودمختاری پر حملہ ہے۔ بتایا گیا ہے کہ نام نہاد بلوچ علیحدگی پسند تنظیم کو بھارت کی طرف سے اس مذموم پراپیگنڈے کے لیے بھاری رقوم فراہم کی جا رہی ہیں۔ اس معاملے کو لندن میں پاکستان ہائی کمشنر کے ذریعے برطانیہ کے فارن اینڈ کامن ویلتھ آفس کے ساتھ بھی اٹھایا جا رہا ہے۔ پاکستانی سیکریٹری خارجہ نے کہا ہے کہ پاکستان بدنیتی پر مبنی اس مہم کے پیچھے کارفرما سوچ سے مکمل طور پر آگاہ ہے جس کے لیے ایک دوست ملک کو اپنی سرزمین استعمال نہیں کرنی چاہیے تھی۔


پاکستان کے بارے میں مغربی ممالک میں منفی مہم ایک منصوبے کے تحت چلائی جا رہی ہے اور اس کا مقصد وطن عزیز کو بدنام کرنا اور یورپی عوام کے ذہنوں میں یہ بات ڈالنا ہے کہ پاکستان میں حالات ٹھیک نہیں ہیں۔ پچھلے دنوں سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں جو کچھ ہوا ، ابھی اس کی بازگشت ختم ہوئی تھی کہ اب لندن میں بھی ویسی ہی مہم شروع کر دی گئی ہے۔

اس حوالے سے برطانوی سفیر کو طلب کرنا اور احتجاج ریکارڈ کرانا درست ہے کیونکہ برطانیہ بہرحال پاکستان کا ایک دوست ملک ہے اور اس کے بارے میں یہ تاثر ہے کہ وہ کسی سازش کا حصہ نہیں بنتا۔ اس کے ساتھ ساتھ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان میں سیاسی استحکام پیدا کیا جائے۔پاکستان جن حالات سے گزررہا ہے، اس کا تقاضا بھی یہی ہے کہ پاکستان کے اندر اختلافات کم سے کم ہوں۔ سی پیک کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے پاکستان میں اقتدار کے تمام اسٹیک ہولڈرز کو اپنے اختلافات کو کم کرنا چاہیے۔

سی پیک کے تناظر میں بلوچستان کی جو اہمیت ہے، اس سے سب آگاہ ہیں۔پاکستان کے دشمنوں کی کوشش ہے کہ سی پیک کو ناکام بنادیا جائے اور اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے انھوں نے بلوچستان کو ٹارگٹ کیا ہے کیونکہ یہاں ہی گوادر ڈیپ سی پورٹ ہے اور بلوچستان میں معدنیات بھی موجود ہیں، بلوچستان درحقیقت پاکستان کا مستقبل ہے، اس کے ذریعے ہی پورے ملک نے ترقی کرنی ہے۔سی پیک کے مخالفوں میں بھارت تو ہے ہی لیکن امریکا بھی اس کے مخالفین میں ہے جب کہ بعض مسلم ملک بھی شاید اس منصوبے حق میں نہیں ہیں۔

بدقسمتی سے پاکستان میں سیاسی عدم استحکام بھی موجود ہے۔اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی حکومت ایک پیج پر نظر نہیں آ رہی۔ ملکی معیشت کی حالت پتلی ہے، بے روزگاری اور مہنگائی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان اور امریکا کے درمیان بھی اختلافات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔بڑھتے ہوئے یہ اختلافات بھی پاکستان کے لیے نیک شگون نہیں ہیں۔

ادھر پاکستان کے قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں دہشت گرد گروہ اور شرپسند عناصر ایسی کارروائیوں میں مصروف ہیں جن کا فائدہ پاکستان کے دشمنوں کو ہو رہا ہے۔پاکستان کو ان خطرات کا مقابلہ کرنا ہے اور اس کے لیے اقتدار کے تمام اسٹیک ہولڈرز کو اپنے اپنے مفادات کا ایسا ارینجمنٹ کرنا ہوگا کہ کسی کو کسی سے شکایت پیدا نہ ہو اور نہ کوئی ایک دوسرے سے خوف زدہ ہو۔دشمن کی چالیں اور عزائم سب کے سامنے ہیں جب کہ ہمارے اندر جو تضادات ہیں ان کا ہمیں بھی علم اور ہمارے دشمنوں کو بھی۔اس لیے اس پر توجہ دیں۔
Load Next Story