انتخابات میں تاخیر الیکشن کمیشن کا انتباہ
ملک میں بروقت الیکشن کا انعقاد ممکن نہیں رہے گا اور آئینی بحران پیدا ہو سکتا ہے
ترجمان الیکشن کمیشن نے خبردار کیا ہے کہ اگر نئی حلقہ بندیوں کے سلسلے میں آئینی ترمیم میں 10نومبر کے بعد ایک دن کی تاخیر بھی ہوئی تو بروقت انتخابات کے انعقاد میں تاخیر ہو سکتی ہے' نئی حلقہ بندیوں کے لیے آئینی ترمیم ضروری ہے۔
ترجمان نے کہا کہ نئی حلقہ بندیوں کا کام رکا ہوا ہے، الیکشن کمیشن کو انتخابات سے چار ماہ پہلے اپنی تیاریوں سے آگاہ کرنا ہوتا ہے، سیکریٹری الیکشن کمیشن بھی حکام کو اس بارے میں آگاہ کر چکے ہیں، الیکشن کمیشن بڑے عرصے سے شماریات ڈویژن اور قانون ڈیپارٹمنٹ کو آئینی ترمیم کے سلسلے میں بار بار اپنا موقف دیتا رہا ہے کہ ہمیں اس کی جلدی ضرورت ہے کیونکہ ہماری تمام تیاریاں اسی سے منسلک ہیں۔
28اکتوبر کو چیف الیکشن کمشنر کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں سیکریٹری شماریات ڈویژن اور سیکریٹری لاء اینڈ جسٹس نے ہمیں یقین دہانی کرائی تھی جب کہ الیکشن کمیشن نے ان کو 7دن کا وقت دیا تھا، ہمیں حلقہ بندیوں کے لیے مطلوبہ آئینی ترمیم اور شماریات سے مطلوبہ نقشہ جات اور ڈیٹا چاہیے۔ ہم نے ان کو 10نومبر تک کا وقت دیا تھا تاکہ پھر ہم اپنا کام شروع کرا لیں۔ ترجمان نے کہا کہ ہماری مطلوبہ تیاریاں مکمل ہیں مگر ان دونوں کاموں کی وجہ سے کام رکا ہوا ہے۔
وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی زیرصدارت 25اکتوبر کو ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں نئی مردم شماری کے تحت حلقہ بندیاں کرانے کا فیصلہ کیا گیا تھا' اجلاس میں قومی اسمبلی کی نشستیں بڑھانے سے متعلق تجاویز کی منظوری دی گئی اور اس حوالے سے نیا بل بحث اور منظوری کے لیے قومی اسمبلی کو بھجوانے کی ہدایت کی گئی' وفاقی کابینہ نے یہ بھی ہدایت کی کہ قومی اسمبلی کی نشستیں بڑھانے سے متعلق آئینی ترمیم کا مسودہ تیار کرنے کے لیے تمام سیاسی جماعتوں سے مشاورت کی جائے' وزیراعظم نے وزارت قانون کو ہدایت کی کہ قومی اسمبلیوں کی نشستوں میں اضافہ مردم شماری کے نتائج کے تناظر میں کیا جائے۔ بل کی منظوری کی صورت میں اسمبلیوں کی نشستوں میں دس فیصد اضافہ ہو جائے گا۔
مردم شماری کے نتائج کے تناظر میں نئی حلقہ بندیوں کا فیصلہ بالکل صائب ہے کیونکہ آبادی بڑھنے کے باعث اسمبلی کی نشستوں میں اضافہ ضروری ہو چکا ہے لیکن نئی حلقہ بندیوں کے معاملے پر بعض سیاسی جماعتوں اور اسٹیک ہولڈرز کے تحفظات کا دور کیا جانا ناگزیر ہے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو نئی حلقہ بندیوں کا معاملہ تاخیر کا شکار ہو سکتا ہے۔ مختلف اوقات میں بعض سیاسی جماعتوں کی جانب سے غیرمنصفانہ حلقہ بندیوں اور اپنے ووٹ بینک کی تقسیم کی سازش کے الزامات بھی منظرعام پر آتے رہے ہیں۔
الیکشن کمیشن قومی مردم شماری کے نتائج شایع نہ ہونے اور اس سے متعلقہ تفصیلات کی عدم فراہمی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہہ چکا ہے کہ اگر بروقت ضروری آئینی ترامیم نہ کی گئیں اور الیکشن کمیشن کو مردم شماری کی شایع شدہ رپورٹ' نقشہ جات مع شماریاتی چارجز' سرکلز اور بلاکس اور ان کی حدود کی تفصیلات بروقت فراہم نہ کی گئیں تو الیکشن کمیشن کے لیے انتخابی فہرستوں کی نظرثانی اور نئی حلقہ بندیوں کے کام کی تکمیل تاخیر کی نذر ہو جائے گی۔
22اکتوبر کو سیکریٹری الیکشن کمیشن کی زیرصدارت ہونے والے اجلاس میں حکام کو یہ بتایا گیا کہ الیکشن کمیشن کی تیاریاں مکمل ہیں صرف ووٹر لسٹوں میں نئے ناموں کے اندراج اور نئی حلقہ بندیوں کے حوالے سے آئینی ترمیم منظور نہ ہونے کے باعث کام رکا ہوا ہے۔ ایسی اطلاعات بھی سامنے آ رہی ہیں کہ حکومت نے نئی حلقہ بندیوں پر قانون سازی کے لیے اپوزیشن سے رابطہ کر لیا ہے۔ وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کا کہنا ہے کہ حلقہ بندیوں میں تاخیر کی ذمے دار حکومت نہیں پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف ہے۔
حلقہ بندیوں میں آئینی ترمیم کے حوالے سے چند روز قبل قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا گیا جو کورم پورا نہ ہونے کے باعث ختم ہو گیا۔ یوں آئینی ترمیم نہ ہوسکی، اگر حکومت اور اپوزیشن جماعتوں نے بروقت آئینی ترمیم نہ کی اور انتخابات میں تاخیر ہو گئی تو اس سے ملک میں آئینی بحران پیدا ہونے کے خدشات کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ کچھ حلقے ٹیکنوکریٹ سیٹ اپ کی آوازیں بلند کر رہے ہیں۔ قومی حکومت کی افواہیں بھی گردش میں ہیں،اگر نئی حلقہ بندیوں اور اسمبلیوں کی نشستوں میں اضافے کے لیے ناگزیر آئینی ترمیم نہیں ہوتی یا اس میں تاخیر ہوتی رہی تو پھر ملک میں بروقت الیکشن کا انعقاد ممکن نہیں رہے گا اور آئینی بحران پیدا ہو سکتا ہے۔
اگر ایسا ہو جاتا ہے تو اس سے جمہوری تسلسل ایک بار پھر ٹوٹ سکتا ہے جس کے ذمے دار حکمران اور اپوزیشن جماعتیں ہوں گی۔حکمران جماعت اور اپوزیشن جماعتوں کو قومی مفادات کو اپنے گروہی سیاسی مفادات پر ترجیح دیتے ہوئے جلد از جلد نئی حلقہ بندیوں کے لیے آئینی ترمیم کا کام مکمل کر لینا چاہیے۔ معمولی معمولی اعتراضات اور تحفظات کی آڑ میں رکاوٹیں پیدا کرنے کا مقصد آئین کی سربلندی اور جمہوری حکمرانی کی راہ مسدود کرنے کے مترادف ہے۔
سیاسی جماعتوں کی معاملہ فہمی ہی دراصل جمہوریت کے تسلسل کو برقرار رکھتی ہے۔ سیاسی جماعتوں کے مابین اختلافات کا مطلب ایک دوسرے کو نیچا دکھانا نہیں ہوتا بلکہ اسے آئینی راستے پر چلانا ہوتا ہے۔ موجودہ حکومت کی آئینی مدت پورے ہونے میں چند ماہ رہ گئے ہیں۔سیاسی جماعتوں نے نئے الیکشن میں جانا ہے، لہذا عام انتخابات کے بروقت انعقاد کے لیے سب کو مل کر اپنی اپنی ذمے داری ادا کرنی چاہیے اور ملک کو آئینی بحران سے بچانا چاہیے، امید ہے کہ سیاسی قیادت ذمے داری کا ثبوت دے گی۔
ترجمان نے کہا کہ نئی حلقہ بندیوں کا کام رکا ہوا ہے، الیکشن کمیشن کو انتخابات سے چار ماہ پہلے اپنی تیاریوں سے آگاہ کرنا ہوتا ہے، سیکریٹری الیکشن کمیشن بھی حکام کو اس بارے میں آگاہ کر چکے ہیں، الیکشن کمیشن بڑے عرصے سے شماریات ڈویژن اور قانون ڈیپارٹمنٹ کو آئینی ترمیم کے سلسلے میں بار بار اپنا موقف دیتا رہا ہے کہ ہمیں اس کی جلدی ضرورت ہے کیونکہ ہماری تمام تیاریاں اسی سے منسلک ہیں۔
28اکتوبر کو چیف الیکشن کمشنر کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں سیکریٹری شماریات ڈویژن اور سیکریٹری لاء اینڈ جسٹس نے ہمیں یقین دہانی کرائی تھی جب کہ الیکشن کمیشن نے ان کو 7دن کا وقت دیا تھا، ہمیں حلقہ بندیوں کے لیے مطلوبہ آئینی ترمیم اور شماریات سے مطلوبہ نقشہ جات اور ڈیٹا چاہیے۔ ہم نے ان کو 10نومبر تک کا وقت دیا تھا تاکہ پھر ہم اپنا کام شروع کرا لیں۔ ترجمان نے کہا کہ ہماری مطلوبہ تیاریاں مکمل ہیں مگر ان دونوں کاموں کی وجہ سے کام رکا ہوا ہے۔
وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی زیرصدارت 25اکتوبر کو ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں نئی مردم شماری کے تحت حلقہ بندیاں کرانے کا فیصلہ کیا گیا تھا' اجلاس میں قومی اسمبلی کی نشستیں بڑھانے سے متعلق تجاویز کی منظوری دی گئی اور اس حوالے سے نیا بل بحث اور منظوری کے لیے قومی اسمبلی کو بھجوانے کی ہدایت کی گئی' وفاقی کابینہ نے یہ بھی ہدایت کی کہ قومی اسمبلی کی نشستیں بڑھانے سے متعلق آئینی ترمیم کا مسودہ تیار کرنے کے لیے تمام سیاسی جماعتوں سے مشاورت کی جائے' وزیراعظم نے وزارت قانون کو ہدایت کی کہ قومی اسمبلیوں کی نشستوں میں اضافہ مردم شماری کے نتائج کے تناظر میں کیا جائے۔ بل کی منظوری کی صورت میں اسمبلیوں کی نشستوں میں دس فیصد اضافہ ہو جائے گا۔
مردم شماری کے نتائج کے تناظر میں نئی حلقہ بندیوں کا فیصلہ بالکل صائب ہے کیونکہ آبادی بڑھنے کے باعث اسمبلی کی نشستوں میں اضافہ ضروری ہو چکا ہے لیکن نئی حلقہ بندیوں کے معاملے پر بعض سیاسی جماعتوں اور اسٹیک ہولڈرز کے تحفظات کا دور کیا جانا ناگزیر ہے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو نئی حلقہ بندیوں کا معاملہ تاخیر کا شکار ہو سکتا ہے۔ مختلف اوقات میں بعض سیاسی جماعتوں کی جانب سے غیرمنصفانہ حلقہ بندیوں اور اپنے ووٹ بینک کی تقسیم کی سازش کے الزامات بھی منظرعام پر آتے رہے ہیں۔
الیکشن کمیشن قومی مردم شماری کے نتائج شایع نہ ہونے اور اس سے متعلقہ تفصیلات کی عدم فراہمی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہہ چکا ہے کہ اگر بروقت ضروری آئینی ترامیم نہ کی گئیں اور الیکشن کمیشن کو مردم شماری کی شایع شدہ رپورٹ' نقشہ جات مع شماریاتی چارجز' سرکلز اور بلاکس اور ان کی حدود کی تفصیلات بروقت فراہم نہ کی گئیں تو الیکشن کمیشن کے لیے انتخابی فہرستوں کی نظرثانی اور نئی حلقہ بندیوں کے کام کی تکمیل تاخیر کی نذر ہو جائے گی۔
22اکتوبر کو سیکریٹری الیکشن کمیشن کی زیرصدارت ہونے والے اجلاس میں حکام کو یہ بتایا گیا کہ الیکشن کمیشن کی تیاریاں مکمل ہیں صرف ووٹر لسٹوں میں نئے ناموں کے اندراج اور نئی حلقہ بندیوں کے حوالے سے آئینی ترمیم منظور نہ ہونے کے باعث کام رکا ہوا ہے۔ ایسی اطلاعات بھی سامنے آ رہی ہیں کہ حکومت نے نئی حلقہ بندیوں پر قانون سازی کے لیے اپوزیشن سے رابطہ کر لیا ہے۔ وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کا کہنا ہے کہ حلقہ بندیوں میں تاخیر کی ذمے دار حکومت نہیں پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف ہے۔
حلقہ بندیوں میں آئینی ترمیم کے حوالے سے چند روز قبل قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا گیا جو کورم پورا نہ ہونے کے باعث ختم ہو گیا۔ یوں آئینی ترمیم نہ ہوسکی، اگر حکومت اور اپوزیشن جماعتوں نے بروقت آئینی ترمیم نہ کی اور انتخابات میں تاخیر ہو گئی تو اس سے ملک میں آئینی بحران پیدا ہونے کے خدشات کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ کچھ حلقے ٹیکنوکریٹ سیٹ اپ کی آوازیں بلند کر رہے ہیں۔ قومی حکومت کی افواہیں بھی گردش میں ہیں،اگر نئی حلقہ بندیوں اور اسمبلیوں کی نشستوں میں اضافے کے لیے ناگزیر آئینی ترمیم نہیں ہوتی یا اس میں تاخیر ہوتی رہی تو پھر ملک میں بروقت الیکشن کا انعقاد ممکن نہیں رہے گا اور آئینی بحران پیدا ہو سکتا ہے۔
اگر ایسا ہو جاتا ہے تو اس سے جمہوری تسلسل ایک بار پھر ٹوٹ سکتا ہے جس کے ذمے دار حکمران اور اپوزیشن جماعتیں ہوں گی۔حکمران جماعت اور اپوزیشن جماعتوں کو قومی مفادات کو اپنے گروہی سیاسی مفادات پر ترجیح دیتے ہوئے جلد از جلد نئی حلقہ بندیوں کے لیے آئینی ترمیم کا کام مکمل کر لینا چاہیے۔ معمولی معمولی اعتراضات اور تحفظات کی آڑ میں رکاوٹیں پیدا کرنے کا مقصد آئین کی سربلندی اور جمہوری حکمرانی کی راہ مسدود کرنے کے مترادف ہے۔
سیاسی جماعتوں کی معاملہ فہمی ہی دراصل جمہوریت کے تسلسل کو برقرار رکھتی ہے۔ سیاسی جماعتوں کے مابین اختلافات کا مطلب ایک دوسرے کو نیچا دکھانا نہیں ہوتا بلکہ اسے آئینی راستے پر چلانا ہوتا ہے۔ موجودہ حکومت کی آئینی مدت پورے ہونے میں چند ماہ رہ گئے ہیں۔سیاسی جماعتوں نے نئے الیکشن میں جانا ہے، لہذا عام انتخابات کے بروقت انعقاد کے لیے سب کو مل کر اپنی اپنی ذمے داری ادا کرنی چاہیے اور ملک کو آئینی بحران سے بچانا چاہیے، امید ہے کہ سیاسی قیادت ذمے داری کا ثبوت دے گی۔