جینے کا حق
عوام سوچتے رہیں اور سوچتے سوچتے رہنماؤں کو ووٹ ڈالتے رہیں، رہا رہنماؤں کا معاملہ تو وہ ڈیل کرتے رہیں گے
دبئی، سعودی عرب، لندن میں پاکستان کا سوچا جا رہا ہے، کبھی ایران میں ایسا ہوا کرتا تھا۔ شہنشاہ ایران رضا شاہ پہلوی امریکی SHO ہوا کرتا تھا۔ وہی سعودی ریاستیں، ہندوستان، پاکستان، افغانستان، چین، انڈونیشیا و دیگر ممالک پر امریکی نظر رکھتا تھا۔ جب سے ایران میں انقلاب آیا ہے۔ امام خمینی نے شہنشاہ کی جگہ سنبھالی ہے تب سے امریکا کے معاملات سعودی عرب دیکھنے لگا ہے۔ سابق وزیراعظم لندن میں ہیں، پچھلے دنوں پاکستان آتے ہوئے سعودی عرب میں رکے اور پھر واپس لندن چلے گئے۔ پاکستان میں ان کا انتظار انتظار ہی رہا۔
نواز شریف نیب میں پیش ہونے کے لیے 3 نومبر کو تشریف لائے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا سنا ہے کہ وہ لندن میں پناہ گزیں رہیں گے۔ حسن نواز و حسین نواز بھی وہیں پناہ گزیں رہیں گے ، بس نواز شریف پاکستان آئے ہیں۔ لندن میں الطاف حسین بھی 1992 سے پناہ گزیں ہیں اور ابھی ان کی پناہ گزینی جاری ہے دیکھیں کب تک! متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے رہنما ارشد وہرہ جو کراچی شہر کے ڈپٹی میئر بھی ہیں، پاک سرزمین پارٹی میں پناہ گزین ہوگئے ہیں۔ سنا ہے ان کے ہاتھ صاف نہیں ہیں۔ تبھی ہاتھ کو صابن سے دھوتے رہنا چاہیے۔ کاش ان کے ہاتھ صاف ہوتے تو وہ پناہ گزینی اختیار نہ کرتے۔ صابر ظفر کا شعر یاد آگیا:
عوام سوچ رہے ہیں کہ ہم کدھر جائیں
یہ رہنما تو حکومت سے ڈیل کرچکے ہیں
عوام سوچتے رہیں اور سوچتے سوچتے رہنماؤں کو ووٹ ڈالتے رہیں، رہا رہنماؤں کا معاملہ تو وہ ڈیل کرتے رہیں گے، اور ڈیل کرتے کرتے ہی ان کا وقت آن پہنچے گا، اور یہ عوام کو اپنے جیسوں کے حوالے کرکے چلے جائینگے اور عوام سوچتے رہ جائینگے۔ کراچی کے علاقے گلستان جوہر کا چھری مار پندرہ بیس عورتوں اور لڑکیوں کو چھری مار کر جہاں سے آیا تھا، وہیں پناہ گزین ہوگیا ہے۔ پولیس والے بس دیکھتے ہی رہ گئے، سوچتے ہی رہ گئے، چھری مار کو نہ پکڑے جانا تھا، نہ وہ پکڑا گیا۔
صحافی احمد نورانی کو قتل نہیں کرنا تھا، بس اس کی اتنی ہی مار لگانی تھی، سو وہ زندہ ہے۔ رہنما عیادت کو آرہے ہیں، تصویریں بنوا رہے ہیں، اخباروں میں چھپوا رہے ۔ ٹی وی والے بھی فلمیں بنا رہے ہیں اور چلا رہے ہیں، کتنے ہی صحافی مارے گئے، یا مار لگا کر چھوڑے گئے، مگر مارنے اور مار لگانے والے پکڑے نہیں گئے۔ اس بار بھی ایسا ہی ہوگا۔
شیخ رشید بڑھکیں مارتے مارتے کینیڈا جا پہنچے، وہاں مولانا طاہر القادری پناہ گزین ہیں۔ پاکستان کے بارے میں شیخ رشید اور طاہر القادری کینیڈا میں سوچ بچار کر رہے ہیں، اور مسائل سے دوچار عوام اپنے وطن میں رل کھل رہے ہیں، دکھی عوام کے غم میں گھل گھل کر رہنما ٹھنڈی معطر ہواؤں اور فضاؤں میں مر رہے ہیں۔ اور پھر نئے منصوبے، نئے داؤ پیچ آزمانے پاکستان آجائیں گے۔ غصے میں دھواں دھار تقریریں کریں گے، تقریروں سے پہلے سڑکیں بند کریں گے تاکہ مریض اسپتالوں تک نہ پہنچ سکیں، عوام اپنی منزلوں تک نہ پہنچ سکیں، سارے کام رک جائیں، اسکولوں کے بچے بچیاں گھروں کو نہ پہنچ سکیں۔
احتجاج ہو رہا ہے، دھرنا ہو رہا ہے۔ ''جینا ہوگا مرنا ہوگا، دھرنا ہوگا دھرنا ہوگا'' اور جنھیں جینا ہوتا ہے وہ جیتے رہتے ہیں، اور جنھیں مرنا ہوتا ہے وہ مرتے رہتے ہیں۔ اور جینا، مرنا، دھرنا جاری رہتا ہے۔
جنھیں جینا چاہیے وہ نہیں جیتے اور جنھیں مرجانا چاہیے وہ نہیں مرتے۔ یہ کام کم ازکم ہمارے پاکستان اور تیسری دنیا میں ہوئے چلا جا رہا ہے۔ تیسری دنیا میں غربت نے مسلسل ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں، بچے بھوک سے بلک رہے ہیں، ماؤں کی چھاتیاں خشک پڑی ہیں، مائیں زندہ ہیں، ڈھانچوں کی صورت، مردوں کا بھی یہی حال ہے۔
ہمارے دیہاتوں میں رہنے والے غریب، مہلک ترین بیماریوں میں مبتلا ہیں، ہیپاٹائٹس اے بی سی سب لاحق ہیں۔ گندا پانی پینے پر مجبور، غریب گندا پانی پیے جا رہے ہیں۔ انسان اور جانور ایک ہی پانی پی رہے ہیں۔
ان حالات میں ہمارا مستقبل کب سنور سکتا ہے؟
یہ کیسا قدرت کا نظام ہے کہ ایک طرف دولت کے انبار لگے ہوئے ہیں، آسائشوں کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں، آسودگیاں ہی آسودگیاں ہیں، عیاشیاں ہی عیاشیاں ہیں، اور یہ وہ لوگ ہیں جن کا پیمانہ اتنا بڑا ہے کہ بھرتا ہی نہیں! ان کی لوٹ مار جاری ہی جاری رہتی ہے اور دوسری طرف جیب میں ایک ٹکا نہیں، آسائشوں کا پرچھاواں بھی نہیں، آسودگیاں کسے کہتے ہیں، یہ دوسری طرف کے لوگ جانتے ہی نہیں۔ اور رہ گیا ان کا پیمانہ! ارے بھائی ان غربت کے ماروں کا کون سا پیمانہ! کیسا پیمانہ!
ذرا سا پاناما لیکس ہوا ہے اور دنیا بھر میں شور مچ گیا ہے، ارے دوڑو! ارے بھاگو! ارے پکڑو! ارے مدد کو آؤ! ارے ہمیں بچاؤ! مگر انھیں کون بچائے؟ جنھوں نے بچانا ہے وہی پکڑے ہوئے ہیں تو بچائے کون؟ چھڑائے کون؟
یہ تو سانڈوں کی لڑائی ہے، اس لڑائی میں کون کودے، اس لڑائی میں جن سانڈوں کو ہارنا ہے، وہ ہار کے رہیں گے اور جن سانڈوں کو جیتنا ہے وہ جیت کے رہیں گے۔
غریب کا حال وہی رہے گا اس پر سانڈ مسلط رہیں گے۔ ہم نے دیکھا اپنے ملک پاکستان میں بھی دیکھا، جب جب ''علامہ'' کی دنیا کے غریب جاتے ہیں ملک بھر کے سانڈ مل کر کھڑے ہوگئے اور دنیا بھر کے سانڈ ان کی پشت پر کھڑے ہوگئے اور ''علامہ'' کے غریب پسپا ہوگئے۔ ''اپنا ایک ہی دشمن ہے، اس کے ہاتھ ہزاروں ہیں ان ہزاروں ہاتھوں کے مقابلے کے لیے لاکھوں ہاتھ درکار ہیں''پھر کہیں یہ اسلحہ بردار ہزاروں ہاتھ ٹوٹیں گے۔ ریزہ ریزہ ہوں گے۔ اور یہ جو آیندہ اقتدار میں آنے کے لیے پَر تول رہے ہیں کیا یہ مسائل کا خاتمہ کرینگے، کیا یہ غریبوں کو جینے کا حق دینگے؟
نواز شریف نیب میں پیش ہونے کے لیے 3 نومبر کو تشریف لائے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا سنا ہے کہ وہ لندن میں پناہ گزیں رہیں گے۔ حسن نواز و حسین نواز بھی وہیں پناہ گزیں رہیں گے ، بس نواز شریف پاکستان آئے ہیں۔ لندن میں الطاف حسین بھی 1992 سے پناہ گزیں ہیں اور ابھی ان کی پناہ گزینی جاری ہے دیکھیں کب تک! متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے رہنما ارشد وہرہ جو کراچی شہر کے ڈپٹی میئر بھی ہیں، پاک سرزمین پارٹی میں پناہ گزین ہوگئے ہیں۔ سنا ہے ان کے ہاتھ صاف نہیں ہیں۔ تبھی ہاتھ کو صابن سے دھوتے رہنا چاہیے۔ کاش ان کے ہاتھ صاف ہوتے تو وہ پناہ گزینی اختیار نہ کرتے۔ صابر ظفر کا شعر یاد آگیا:
عوام سوچ رہے ہیں کہ ہم کدھر جائیں
یہ رہنما تو حکومت سے ڈیل کرچکے ہیں
عوام سوچتے رہیں اور سوچتے سوچتے رہنماؤں کو ووٹ ڈالتے رہیں، رہا رہنماؤں کا معاملہ تو وہ ڈیل کرتے رہیں گے، اور ڈیل کرتے کرتے ہی ان کا وقت آن پہنچے گا، اور یہ عوام کو اپنے جیسوں کے حوالے کرکے چلے جائینگے اور عوام سوچتے رہ جائینگے۔ کراچی کے علاقے گلستان جوہر کا چھری مار پندرہ بیس عورتوں اور لڑکیوں کو چھری مار کر جہاں سے آیا تھا، وہیں پناہ گزین ہوگیا ہے۔ پولیس والے بس دیکھتے ہی رہ گئے، سوچتے ہی رہ گئے، چھری مار کو نہ پکڑے جانا تھا، نہ وہ پکڑا گیا۔
صحافی احمد نورانی کو قتل نہیں کرنا تھا، بس اس کی اتنی ہی مار لگانی تھی، سو وہ زندہ ہے۔ رہنما عیادت کو آرہے ہیں، تصویریں بنوا رہے ہیں، اخباروں میں چھپوا رہے ۔ ٹی وی والے بھی فلمیں بنا رہے ہیں اور چلا رہے ہیں، کتنے ہی صحافی مارے گئے، یا مار لگا کر چھوڑے گئے، مگر مارنے اور مار لگانے والے پکڑے نہیں گئے۔ اس بار بھی ایسا ہی ہوگا۔
شیخ رشید بڑھکیں مارتے مارتے کینیڈا جا پہنچے، وہاں مولانا طاہر القادری پناہ گزین ہیں۔ پاکستان کے بارے میں شیخ رشید اور طاہر القادری کینیڈا میں سوچ بچار کر رہے ہیں، اور مسائل سے دوچار عوام اپنے وطن میں رل کھل رہے ہیں، دکھی عوام کے غم میں گھل گھل کر رہنما ٹھنڈی معطر ہواؤں اور فضاؤں میں مر رہے ہیں۔ اور پھر نئے منصوبے، نئے داؤ پیچ آزمانے پاکستان آجائیں گے۔ غصے میں دھواں دھار تقریریں کریں گے، تقریروں سے پہلے سڑکیں بند کریں گے تاکہ مریض اسپتالوں تک نہ پہنچ سکیں، عوام اپنی منزلوں تک نہ پہنچ سکیں، سارے کام رک جائیں، اسکولوں کے بچے بچیاں گھروں کو نہ پہنچ سکیں۔
احتجاج ہو رہا ہے، دھرنا ہو رہا ہے۔ ''جینا ہوگا مرنا ہوگا، دھرنا ہوگا دھرنا ہوگا'' اور جنھیں جینا ہوتا ہے وہ جیتے رہتے ہیں، اور جنھیں مرنا ہوتا ہے وہ مرتے رہتے ہیں۔ اور جینا، مرنا، دھرنا جاری رہتا ہے۔
جنھیں جینا چاہیے وہ نہیں جیتے اور جنھیں مرجانا چاہیے وہ نہیں مرتے۔ یہ کام کم ازکم ہمارے پاکستان اور تیسری دنیا میں ہوئے چلا جا رہا ہے۔ تیسری دنیا میں غربت نے مسلسل ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں، بچے بھوک سے بلک رہے ہیں، ماؤں کی چھاتیاں خشک پڑی ہیں، مائیں زندہ ہیں، ڈھانچوں کی صورت، مردوں کا بھی یہی حال ہے۔
ہمارے دیہاتوں میں رہنے والے غریب، مہلک ترین بیماریوں میں مبتلا ہیں، ہیپاٹائٹس اے بی سی سب لاحق ہیں۔ گندا پانی پینے پر مجبور، غریب گندا پانی پیے جا رہے ہیں۔ انسان اور جانور ایک ہی پانی پی رہے ہیں۔
ان حالات میں ہمارا مستقبل کب سنور سکتا ہے؟
یہ کیسا قدرت کا نظام ہے کہ ایک طرف دولت کے انبار لگے ہوئے ہیں، آسائشوں کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں، آسودگیاں ہی آسودگیاں ہیں، عیاشیاں ہی عیاشیاں ہیں، اور یہ وہ لوگ ہیں جن کا پیمانہ اتنا بڑا ہے کہ بھرتا ہی نہیں! ان کی لوٹ مار جاری ہی جاری رہتی ہے اور دوسری طرف جیب میں ایک ٹکا نہیں، آسائشوں کا پرچھاواں بھی نہیں، آسودگیاں کسے کہتے ہیں، یہ دوسری طرف کے لوگ جانتے ہی نہیں۔ اور رہ گیا ان کا پیمانہ! ارے بھائی ان غربت کے ماروں کا کون سا پیمانہ! کیسا پیمانہ!
ذرا سا پاناما لیکس ہوا ہے اور دنیا بھر میں شور مچ گیا ہے، ارے دوڑو! ارے بھاگو! ارے پکڑو! ارے مدد کو آؤ! ارے ہمیں بچاؤ! مگر انھیں کون بچائے؟ جنھوں نے بچانا ہے وہی پکڑے ہوئے ہیں تو بچائے کون؟ چھڑائے کون؟
یہ تو سانڈوں کی لڑائی ہے، اس لڑائی میں کون کودے، اس لڑائی میں جن سانڈوں کو ہارنا ہے، وہ ہار کے رہیں گے اور جن سانڈوں کو جیتنا ہے وہ جیت کے رہیں گے۔
غریب کا حال وہی رہے گا اس پر سانڈ مسلط رہیں گے۔ ہم نے دیکھا اپنے ملک پاکستان میں بھی دیکھا، جب جب ''علامہ'' کی دنیا کے غریب جاتے ہیں ملک بھر کے سانڈ مل کر کھڑے ہوگئے اور دنیا بھر کے سانڈ ان کی پشت پر کھڑے ہوگئے اور ''علامہ'' کے غریب پسپا ہوگئے۔ ''اپنا ایک ہی دشمن ہے، اس کے ہاتھ ہزاروں ہیں ان ہزاروں ہاتھوں کے مقابلے کے لیے لاکھوں ہاتھ درکار ہیں''پھر کہیں یہ اسلحہ بردار ہزاروں ہاتھ ٹوٹیں گے۔ ریزہ ریزہ ہوں گے۔ اور یہ جو آیندہ اقتدار میں آنے کے لیے پَر تول رہے ہیں کیا یہ مسائل کا خاتمہ کرینگے، کیا یہ غریبوں کو جینے کا حق دینگے؟