چانکیہ کے دیش میں
ویتنام ہو یا افغانستان، عراق ہو یا ایران امریکی جنگی صلاحیت کہیں بھی کبھی بھی اپنے آپ کو نہیں منوا سکی
لاہور:
چند ماہ قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کے لیے جو زبان استعمال کی وہ غیر سفارتی تو تھی مگر اس زبان نے امریکی عزائم کو بالکل واضح کردیا تھا۔
امریکی صدر نے فرمایا کہ ہم پاکستان کو افغانستان کے امور طے کرنے کے لیے لاکھوں ڈالر دیتے رہے ہیں اور پاکستان اس کے جواب میں پاکستان کو دہشت گردوں کی آماجگاہ بنائے ہوئے ہے اور وہ اقدام نہیں کر رہا جو امریکا چاہتا ہے۔
امریکی صدرکے اس بیان پر پاکستان میں ہلچل مچ گئی اور لیڈران کرام سر جوڑکر بیٹھے اور طے ہوا کہ کرنا کیا ہے؟ چنانچہ پاکستانی وزیر خارجہ خواجہ آصف امریکا کے دورے پر روانہ ہوگئے۔ وہاں انھوں نے اپنے ہم منصب کو پاکستان تشریف لانے کی دعوت دی اور امریکی گیدڑ بھبکیاں ایک بار پھر سننے کو ملیں۔
خواجہ آصف واپس آئے تو انداز کچھ ایسا تھا جیسے امریکا کو فتح کرکے آئے ہوں۔ آتے ہی خبر دی کہ سب کچھ ٹھیک ہے وہ امریکی وزیر خارجہ کو دعوت نامہ دے آئے ہیں کہ وہ ہمارے ملک میں قدم رنجہ فرمائیں اور انھوں نے ازراہ کرم ہماری اس درخواست کو شرف قبولیت عطا فرمایا ہے اور یہ ہماری سب سے بڑی فتح ہے۔ انھوں نے یہ بھی فرمایا کہ ہم مشرف کی طرح ایک ہی دھمکی میں ڈھیر نہیں ہوئے ہیں بلکہ ان کی متعدد دھمکیوں کو ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے اڑا آئے ہیں۔ موصوف نے یہ وضاحت نہیں فرمائی کہ ان سے امریکی حکام نے کیا فرمائشیں کیں اور آپ نے اس کے جواب میں کس نیازمندی کا اظہارکیا۔ بس فتح کے شادیانے بجاتے اور خود اپنے آپ خوامخواہ خوش ہوتے رہے۔
بالآخر وہ وقت آ پہنچا۔ جن کا انتظار تھا وہ آگئے۔ امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن اسلام آباد تشریف لائے۔ پاکستانی قیادت نے یکجا ہوکر ان کا استقبال کیا۔ سول وفوجی قیادت اور وزیراعظم کے ہمرکاب رہی۔ تاکہ جو کچھ وہ ارشاد فرمائیں اسے سب سن لیں۔ انھوں نے کوئی مروت نہیں کی اور وہی فرمایا جو ان کے صدر فرما چکے تھے۔ پاکستان میں ہنوز دہشت گردوں کے ٹھکانے موجود ہیں۔ 75 کے قریب دہشت گردوں کی ایک فہرست بھی پکڑا دی کہ یہ امریکا اور افغانستان کو مطلوب ہیں اور پاکستان میں پائے جاتے ہیں۔
امریکا دہشت گردوں کے پائے جانے پر انھیں اپنے مخصوص جہاز سے تباہ کرنے کا اختیار حاصل کرچکا ہے اور پاکستان میں کارروائیاں بھی کرچکا ہے۔ تو کیا اس فہرست کا مطلب یہ تو نہیں کہ ڈرون حملوں کے لیے جواز فراہم کیا جائے۔
امریکی وزیر خارجہ نے پاکستان میں حکومت اور جمہوریت کے عدم استحکام پر بھی اسی معنی خیز انداز میں گفتگو فرمائی۔ یوں بھی امریکا کا رویہ ماضی میں بھی یہی رہا ہے کہ وہ حکومتوں کو آگاہ کرتے رہے ہیں کہ ہماری مانو تو حکمراں رہوگے ورنہ ذلیل کرکے نکالے جاؤ گے اور ہمارے حکمراں ان کی مانتے رہے ۔
بس ایک جملہ کہ ہم دہشت گردی کے خلاف پاکستانی قربانیوں کا احساس رکھتے اور انھیں بمراحم خسروانہ قدر کی نظر سے دیکھتے ہیں وزارت خارجہ کے حکام سے لے کر وزرا باتدبیر تک سب کے دل کو خوش کرگیا اور چار گھنٹے کے مختصر قیام کے بعد مسٹر ٹیلرسن عازم ہند ہوئے۔
بات کبھی بھی پاکستان میں ختم نہیں ہوتی نہ پاکستان پر ختم ہوتی ہے۔ بات ہندوستان تک جاتی ہے اورگئی۔ بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے مسٹر ٹیلرسن کا استقبال کیا۔ بھارت سے امریکا کو کوئی شکوہ شکایت تو تھی نہیں البتہ انھوں نے جو باتیں وہاں کہیں اور جو بھارتی میڈیا نے خوشی خوشی پھیلائیں وہ اسلام آباد میں ہونے والی باتوں سے کہیں زیادہ معنی خیز تھیں اور خطرناک بھی۔
مسٹر ٹیلرسن نے فرمایا کہ امریکا اس خطے میں سیکیورٹی کے لیے بھارتی صلاحیتیں بڑھائے گا۔ گویا ایک تو وہ بھارت کو جنوبی ایشیا کا تھانیدار بنائے گا ، دوسرے یہ کہ بھارت مدتوں سے پاکستان میں سرجیکل اسٹرائیک کا جو خواب دیکھ رہا ہے اس کی تعبیر فراہم کرنے کے لیے امریکا بھارت کو مناسب طور پر مسلح کرے گا ۔ یہ الگ بات ہے کہ تمام امریکی حمایت کے باوجود بھارت یہ صلاحیت پیدا نہ کرسکے گا اور امریکا محض ہیجڑے کی کمر پکڑنے کی مشقت کے سوا کچھ بھی حاصل نہ کرسکے گا۔
بھارت کی سرزمین پر بھی مسٹر ٹیلرسن نے پاکستان انتہا پسند ، پاکستانی حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی بات کی۔ اگرچہ وہ اس وقت بھی ہندوستان میںایک انتہا پسند حکومت کے پشت پناہ بنے ہوئے ہیں۔ امریکی حکمت عملی کا یہی دوغلہ پن اسے ہمیشہ لے ڈوبتا ہے۔
ویتنام ہو یا افغانستان، عراق ہو یا ایران امریکی جنگی صلاحیت کہیں بھی کبھی بھی اپنے آپ کو نہیں منوا سکی کیونکہ نہ ان کے پیش نظر کوئی مقصد ہے نہ وہ کسی نظریے کے حامل ہیں نہ وہ عدل پر قائم رہتے ہیں نہ صاف گوئی پر۔ منافقت اور دوعملی ہمیشہ امریکی حکومتوں کو لے ڈوبی ہے اور مستقبل میں بھی یہی کچھ ہوگا۔ وہ بھارت سے امیدیں لگائے ہوئے ہیں مگر بھارت بھی انھی کی طرح کائیاں ہے۔ وہ پاکستان نہیں... وہ چانکیہ کا دیش ہے جو مسٹر ٹیلرسن کو ہی نہیں مسٹر ٹرمپ کو بھی سیاست سکھا دے گا۔
چند ماہ قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کے لیے جو زبان استعمال کی وہ غیر سفارتی تو تھی مگر اس زبان نے امریکی عزائم کو بالکل واضح کردیا تھا۔
امریکی صدر نے فرمایا کہ ہم پاکستان کو افغانستان کے امور طے کرنے کے لیے لاکھوں ڈالر دیتے رہے ہیں اور پاکستان اس کے جواب میں پاکستان کو دہشت گردوں کی آماجگاہ بنائے ہوئے ہے اور وہ اقدام نہیں کر رہا جو امریکا چاہتا ہے۔
امریکی صدرکے اس بیان پر پاکستان میں ہلچل مچ گئی اور لیڈران کرام سر جوڑکر بیٹھے اور طے ہوا کہ کرنا کیا ہے؟ چنانچہ پاکستانی وزیر خارجہ خواجہ آصف امریکا کے دورے پر روانہ ہوگئے۔ وہاں انھوں نے اپنے ہم منصب کو پاکستان تشریف لانے کی دعوت دی اور امریکی گیدڑ بھبکیاں ایک بار پھر سننے کو ملیں۔
خواجہ آصف واپس آئے تو انداز کچھ ایسا تھا جیسے امریکا کو فتح کرکے آئے ہوں۔ آتے ہی خبر دی کہ سب کچھ ٹھیک ہے وہ امریکی وزیر خارجہ کو دعوت نامہ دے آئے ہیں کہ وہ ہمارے ملک میں قدم رنجہ فرمائیں اور انھوں نے ازراہ کرم ہماری اس درخواست کو شرف قبولیت عطا فرمایا ہے اور یہ ہماری سب سے بڑی فتح ہے۔ انھوں نے یہ بھی فرمایا کہ ہم مشرف کی طرح ایک ہی دھمکی میں ڈھیر نہیں ہوئے ہیں بلکہ ان کی متعدد دھمکیوں کو ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے اڑا آئے ہیں۔ موصوف نے یہ وضاحت نہیں فرمائی کہ ان سے امریکی حکام نے کیا فرمائشیں کیں اور آپ نے اس کے جواب میں کس نیازمندی کا اظہارکیا۔ بس فتح کے شادیانے بجاتے اور خود اپنے آپ خوامخواہ خوش ہوتے رہے۔
بالآخر وہ وقت آ پہنچا۔ جن کا انتظار تھا وہ آگئے۔ امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن اسلام آباد تشریف لائے۔ پاکستانی قیادت نے یکجا ہوکر ان کا استقبال کیا۔ سول وفوجی قیادت اور وزیراعظم کے ہمرکاب رہی۔ تاکہ جو کچھ وہ ارشاد فرمائیں اسے سب سن لیں۔ انھوں نے کوئی مروت نہیں کی اور وہی فرمایا جو ان کے صدر فرما چکے تھے۔ پاکستان میں ہنوز دہشت گردوں کے ٹھکانے موجود ہیں۔ 75 کے قریب دہشت گردوں کی ایک فہرست بھی پکڑا دی کہ یہ امریکا اور افغانستان کو مطلوب ہیں اور پاکستان میں پائے جاتے ہیں۔
امریکا دہشت گردوں کے پائے جانے پر انھیں اپنے مخصوص جہاز سے تباہ کرنے کا اختیار حاصل کرچکا ہے اور پاکستان میں کارروائیاں بھی کرچکا ہے۔ تو کیا اس فہرست کا مطلب یہ تو نہیں کہ ڈرون حملوں کے لیے جواز فراہم کیا جائے۔
امریکی وزیر خارجہ نے پاکستان میں حکومت اور جمہوریت کے عدم استحکام پر بھی اسی معنی خیز انداز میں گفتگو فرمائی۔ یوں بھی امریکا کا رویہ ماضی میں بھی یہی رہا ہے کہ وہ حکومتوں کو آگاہ کرتے رہے ہیں کہ ہماری مانو تو حکمراں رہوگے ورنہ ذلیل کرکے نکالے جاؤ گے اور ہمارے حکمراں ان کی مانتے رہے ۔
بس ایک جملہ کہ ہم دہشت گردی کے خلاف پاکستانی قربانیوں کا احساس رکھتے اور انھیں بمراحم خسروانہ قدر کی نظر سے دیکھتے ہیں وزارت خارجہ کے حکام سے لے کر وزرا باتدبیر تک سب کے دل کو خوش کرگیا اور چار گھنٹے کے مختصر قیام کے بعد مسٹر ٹیلرسن عازم ہند ہوئے۔
بات کبھی بھی پاکستان میں ختم نہیں ہوتی نہ پاکستان پر ختم ہوتی ہے۔ بات ہندوستان تک جاتی ہے اورگئی۔ بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے مسٹر ٹیلرسن کا استقبال کیا۔ بھارت سے امریکا کو کوئی شکوہ شکایت تو تھی نہیں البتہ انھوں نے جو باتیں وہاں کہیں اور جو بھارتی میڈیا نے خوشی خوشی پھیلائیں وہ اسلام آباد میں ہونے والی باتوں سے کہیں زیادہ معنی خیز تھیں اور خطرناک بھی۔
مسٹر ٹیلرسن نے فرمایا کہ امریکا اس خطے میں سیکیورٹی کے لیے بھارتی صلاحیتیں بڑھائے گا۔ گویا ایک تو وہ بھارت کو جنوبی ایشیا کا تھانیدار بنائے گا ، دوسرے یہ کہ بھارت مدتوں سے پاکستان میں سرجیکل اسٹرائیک کا جو خواب دیکھ رہا ہے اس کی تعبیر فراہم کرنے کے لیے امریکا بھارت کو مناسب طور پر مسلح کرے گا ۔ یہ الگ بات ہے کہ تمام امریکی حمایت کے باوجود بھارت یہ صلاحیت پیدا نہ کرسکے گا اور امریکا محض ہیجڑے کی کمر پکڑنے کی مشقت کے سوا کچھ بھی حاصل نہ کرسکے گا۔
بھارت کی سرزمین پر بھی مسٹر ٹیلرسن نے پاکستان انتہا پسند ، پاکستانی حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی بات کی۔ اگرچہ وہ اس وقت بھی ہندوستان میںایک انتہا پسند حکومت کے پشت پناہ بنے ہوئے ہیں۔ امریکی حکمت عملی کا یہی دوغلہ پن اسے ہمیشہ لے ڈوبتا ہے۔
ویتنام ہو یا افغانستان، عراق ہو یا ایران امریکی جنگی صلاحیت کہیں بھی کبھی بھی اپنے آپ کو نہیں منوا سکی کیونکہ نہ ان کے پیش نظر کوئی مقصد ہے نہ وہ کسی نظریے کے حامل ہیں نہ وہ عدل پر قائم رہتے ہیں نہ صاف گوئی پر۔ منافقت اور دوعملی ہمیشہ امریکی حکومتوں کو لے ڈوبی ہے اور مستقبل میں بھی یہی کچھ ہوگا۔ وہ بھارت سے امیدیں لگائے ہوئے ہیں مگر بھارت بھی انھی کی طرح کائیاں ہے۔ وہ پاکستان نہیں... وہ چانکیہ کا دیش ہے جو مسٹر ٹیلرسن کو ہی نہیں مسٹر ٹرمپ کو بھی سیاست سکھا دے گا۔