فسطائی گینگز کا سر کچل ڈالیے

مسلح فسطائی گینگز کی پورے شہر پر حکمرانی ہے۔

نماز جنازہ کے بعد خطاب کرتے ہوئے شیعہ علما و رہنمائوں نے کہا کہ کراچی میں سیاسی جماعتیں اور کالعدم جماعتوں کے دہشت گرد گروہ مل کر عوام کے قتل عام میں ملوث ہیں۔ فوٹو: محمد نعمان/ ایکسپریس

سانحہ عباس ٹائون کراچی میں جاں بحق ہونے والوں کی تعداد50 ہو گئی، دھماکوں میں ملوث ملزمان کا تاحال کوئی سراغ نہیں مل سکا، کالعدم تحریک پاکستان نے کراچی دھماکوں سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے تاہم اس واقعے کی مذمت سے گریز کیا ہے۔ادھر پولیس اور رینجرز جائے دھماکا پر سانحے کے دوسرے روز بھی غائب رہی۔ یوں بھی عوام سخت حالت اضطراب میں ہیں کہ کراچی پولیس اور رینجرز کا مشترکہ طرز عمل سانحات کے دوران سین سے غائب رہنا آخر کیا معنی رکھتا ہے۔

ان اداروں کا کام توقاتلوں،دہشت گردوں،گھیرائو جلائو میں ملوث عناصر کو موقعے پر ہی ناکام بنانا ، فوری منتشر کرنا یا ان کے تخریب کاری اور بلوہ و ہنگاموں کے عزائم کوناکام بنانا ہے۔مگر مشاہدے میں بار بار آیا ہے کہ ادھر بدامنی کا کوئی اندوہ ناک واقعہ ہوتا ہے ادھر پولیس اور رینجرز اہلکار علاقے سے نکل جاتے ہیں یا دور کھڑے بربادی اور انارکی کا تماشا دیکھتے ہیں ، پوچھو کہ دہشت گردوں کے خلاف بروقت کارروائی کیوں نہیں کرتے تو جواب ملتا ہے کہ کارروائی کی ہدایت نہیں ملتی یا کی بھی تو مزید لاشیں گریں گی،حالات خراب ہوسکتے ہیں۔

اسی بے سرو پا منطق نے کراچی کو موت کا اندھا کنواں بنادیا ہے۔ چنانچہ مسلح فسطائی گینگز کی پورے شہر پر حکمرانی ہے۔ سینیٹ میں اپوزیشن جماعتوں کے ارکان نے شدید احتجاج کیا اور کہا ایسا نہ ہو کہ عدم تحفظ پر لوگ اقوام متحدہ سے رجوع کرلیں۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے عباس ٹائون بم دھماکے کا از خود نوٹس لے لیا ہے۔ اس واقعے کے خلاف ملک بھر میں یوم سوگ منایا گیا، کراچی سمیت سندھ میں ہڑتال اور ملک کے کئی شہروں میں احتجاجی ریلیاں نکالی گئیں، سندھ اور پنجاب میں سرکاری عمارتوں پر قومی پرچم سرنگوں رہا'وکلاء نے عدالتی بائیکاٹ کیا،کراچی اور اندرون سندھ کئی شہروں میں پیٹرول پمپ، مارکیٹیں دکانیں اور تعلیمی ادارے بند رہے۔


گورنر سندھ نے دہشتگردی میں املاک کو ہونے والے نقصان کے ازالے کا اعلان اور اس واقعے کی تحقیقات کے لیے 6 رکنی کمیٹی تشکیل دیدی جو 3 دن میں رپورٹ دے گی جس کی سربراہی ایڈیشنل آئی جی سی آئی ڈی کریں گے، تدفین کے بعد سہراب گوٹھ کے قریب ہنگامہ آرائی اور شہر کے مختلف علاقوں میں فائرنگ سے 3 افراد جاں بحق اور 22زخمی ہو گئے ہیں جب کہ مشتعل افراد نے 11گاڑیوں اور پتھاروں کو بھی نذر آتش کر دیا، حکومت سندھ نے سانحے میں ملوث دہشت گردوں کی اطلاع دینے والے کو 50 لاکھ روپے انعام دینے کا اعلان کیا ہے۔

نماز جنازہ کے بعد خطاب کرتے ہوئے شیعہ علما و رہنمائوں نے کہا کہ کراچی میں سیاسی جماعتیں اور کالعدم جماعتوں کے دہشت گرد گروہ مل کر عوام کے قتل عام میں ملوث ہیں۔ کراچی میں ڈبل سواری پر پابندی لگا دی گئی ہے جب کہ وفاقی وزیرداخلہ رحمان ملک نے کہا ہے کہ سانحہ عباس ٹائون کی ایک ہفتے قبل پیش گوئی کر دی تھی، جس پر 4 دن تک سیکیورٹی سخت تھی لیکن بعد میں نرمی کردی گئی۔ لشکر جھنگوی کے 3 سے 4 افراد اہم ہیں ، کراچی سے لشکر جھنگوی کے 30 افرادکوگرفتارکیا گیا ہے۔اگرچہ آئی جی سندھ فیاض لغاری نے دعویٰ کیا ہے کہ عباس ٹائون دھماکے پر 100 سے زائد افراد زیر تفتیش ہیں۔

گزشتہ رات سے چھاپہ مار کارروائیوں کے دوران کالعدم تنظیموں کے 5دہشت گردوں سمیت60 ملزمان کو حراست میں لیا گیا ہے جن چار کا تعلق لشکر جھنگوی سے جب کہ ایک کا تحریک طالبان سے ہے تاہم دیکھنا یہ ہے کہ اصل ملزمان کی گرفتاری پولیس اور انٹیلی جنس حکام کو کب نصیب ہوتی ہے۔ دہشت گردی کے تسلسل کا سب سے دردناک پہلو یہ ہے کہ ان واقعات کے اصل ملزمان نہ تو واردات سے پہلے اور نہ بعد میں گرفتار ہوتے ہیں۔عوامی حلقوں میں بس ایک نہ ختم ہونے والی پر شور اور بے نتیجہ بحث جاری ہے کہ اتنے سارے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہوتے ہوئے ملزمان کس طرح دندناتے پھرتے ہیں اور ملک میں ہونے والے درجنوں سانحات کے ماسٹر مائنڈ کون سے ٹرمینیٹر اور جان ریمبو ہیں کہ قابو میں نہیں آتے۔متاثرین سانحہ اس کا جواب مانگتے ہیں۔
Load Next Story