نشیمنوں کو جلا کر کیا چراغاں خوب

کمزور دل اور بوڑھے، دل پکڑے ٹیلی ویژن کے سامنے سے ہٹ کر دوسرے کمروں میں لیٹ گئے تھے

آج اتوار ہے، چھٹی کا دن، اس دن بیٹیاں، داماد، بہو بیٹے سب ماں باپ کے گھر جمع ہوتے ہیں اور مل کر رات کا کھانا کھایا جاتا ہے، دن بھر اچھا گزرا، باتیں ہوئیں اور ساتھ ساتھ رات کے کھانے کی تیاریاں بھی ہوتی رہیں، مغرب کی اذان ہوئی تو گھروں کے بوڑھے، جوان اور بچے مسجدوں کی طرف روانہ ہوئے۔ اب نمازی نماز مغرب پڑھ کر مسجدوں سے نکل رہے تھے، شام تقریباً سات بج کر 10 منٹ ہوئے تھے کہ ابوالحسن اصفہانی روڈ پر بہت بڑا دھماکہ گنجان آباد رہائشی فلیٹوں کے درمیان کیا گیا۔ جس کی آواز دس کلومیٹر دور تک سنی گئی۔

ایک قیامت کا منظر تھا اور کراچی تھا۔ دھماکا اس درجہ مہلک تھا کہ آمنے سامنے موجود چار منزلہ بلڈنگوں کے تیسرے اور چوتھے فلوروں سے آگ کے شعلے باہر کی جانب لپک رہے تھے اور عورتیں، بچے، بوڑھے فلیٹوں سے نکل کر باہر آ رہے تھے۔ بازار میں سیکڑوں دکانیں مٹی کا ڈھیر بن چکی تھیں، عمارتوں کی بالکونیاں نیچے گر رہی تھیں اور ملبے تلے دبے ہوئے زخمی مدد کے لیے چیخ رہے تھے، علاقہ مکینوں نے اپنی مدد آپ کے تحت زخمیوں کو نکال کر اسپتال پہنچانا شروع کیا۔ ملبے کو ہٹا کر زخمی نکالے، جلتے فلیٹوں سے لوگوں کو نکالا، یہ سب کام علاقہ مکین ہی کرتے رہے، پولیس، رینجرز کا دور دور تک نام و نشان نہیں تھا۔ البتہ آگ بجھانے والی گاڑیاں اور مختلف سماجی تنظیموں کی ایمبولینسیں، کچھ دیر بعد ہی جائے حادثہ پر پہنچ گئی تھیں۔

فلیٹوں میں لگی آگ اس قدر شدید تھی کہ قابو میں نہیں آ رہی تھی۔ فوری طور پر دس افراد کی لاشیں نکال کر اسپتال پہنچائی جا رہی تھیں، واقعی قیامت صغری کا منظر تھا، جسے اہل کراچی اپنے اپنے گھروں میں بیٹھے دیکھ رہے تھے۔ کمزور دل اور بوڑھے، دل پکڑے ٹیلی ویژن کے سامنے سے ہٹ کر دوسرے کمروں میں لیٹ گئے تھے، اس رات اہل کراچی دھڑکتے دلوں، اداس آنکھوں، ویران چہروں کے ساتھ جلتے گھر، تباہ حال بازار، سراسیمہ عورتیں بچے، اور نوجوان لڑکوں کو امدادی کاموں میں مصروف دیکھتے رہے، رات کے کھانے کا کسے ہوش تھا، سو تیار کھانے دھرے کے دھرے رہ گئے۔

اب تو آدھی رات ہونے کو تھی، مگر پولیس، رینجرز یا حکومتی نمایندے، کوئی نہیں آیا۔ کچھ پولیس والے اور رینجرز جائے حادثے کی طرف آئے بھی تو دور بہت دور ہی رک گئے اور وہیں رکے رہے۔ مصیبت زدگان کو بچانے کوئی نہیں آیا۔ سنا ہے عین اس وقت جب عباس ٹاؤن میں قیامت برپا تھی، حکمران حلقے میں جشن برپا تھا، حکمران شہزادی شرمیلا فاروقی کی منگنی پر ایک بہت بڑا جشن مہٹہ پیلس میں منایا جا رہا تھا، جس میں اسلام آباد سے وزیر اعظم راجہ جی بھی بطور خاص آئے ہوئے تھے۔

سندھ کے وزیر اعلیٰ، سائیں قائم علی شاہ، اپنے سارے رتنوں کے ساتھ موجود تھے، پورے ملک سے بڑے بڑے امراء، رؤسا، جاگیردار، وڈیرے، سردار، خان، پیر فقیر، گدی نشین سب آئے ہوئے تھے۔ اس یادگار منگنی کے جشن کو یادگار بنانے کے لیے مہٹہ پیلس کو سنہرے قمقموں سے یوں جگمگایا گیا تھا جیسے عمارت کو سونے سے منڈھ دیا گیا ہو۔ اس موقعے پر انواع و اقسام کے لذیذ کھانے اور پینے سمیت تمام لوازمات کا خاص خیال رکھا گیا تھا۔ شرمیلا نے بعد میں وضاحت کی کہ عشائیہ تھا منگنی نہ تھی!

ادھر سر شام ہی عباس ٹاؤن میں شام غریباں برپا کر دی گئی تھی۔ لمحوں میں بریکنگ نیوز سے ساری دنیا میں، دلدوز مناظر نظر آنے لگے، مگر عباس ٹاؤن کی سیکیورٹی پر مامور پولیس کو بھی حکمرانوں نے اپنے جشن میں ڈیوٹی دینے کے لیے بلا لیا تھا اور یوں میدان بالکل خالی تھا اور قیامت برپا کرنے والے بلا روک ٹوک بارود سے بھری گاڑی لے کر آ گئے۔

منگنی کے جشن میں پورے ملک سے معزز مہمان آ رہے تھے، ایئر پورٹ سے مہٹہ پیلس تک، پولیس رینجرز، خفیہ والے ڈیوٹیاں دے رہے تھے، وزیر اعظم راجہ صاحب کے آگے پیچھے، سیکیورٹی والے کانوائے کی شان دبدبہ اور پھر دوسرے وزراء کی ''آنیاں جانیاں''۔ شہر کی تمام فورسز جشن والوں کے ساتھ مصروف تھیں۔ عوام کس کھاتے میں، وہ مرے، جئیں، تباہ ہوں، برباد ہوں۔

غرض کہ ادھر رات بھر قیامت برپا رہی اور ادھر مہٹہ پیلس والے رات بھر جشن مناتے رہے، اس صورت حال پر اور کیا لکھوں؟ اس بے حسی کا عالم اور کیسے کروں، لفظ بے حسی بھی کم ہے، پتا نہیں اسے کیا کہوں۔ برسوں پرانا اسی روشنیوں کے شہر کراچی پر گزرنے والی ایک اور قیامت کا واقعہ یاد آ گیا ہے۔ اس ملک پر پہلا فوجی راج لے کر آنے والا فیلڈ مارشل ایوب خان نے 1964 کے صدارتی انتخاب میں دھونس، دھن اور دھاندلی سے قائد اعظم کی بہن محترمہ فاطمہ جناح کو ہرایا تھا۔

جب کہ بدترین دھاندلی کے باوجود کراچی کے شہریوں نے مادر ملت کو سو فیصد ووٹ دے کر کامیاب کیا تھا اور حکمرانوں کی حسرت ہی رہی کہ وہ اس شہر سے اپنی جھوٹی ہی سہی جیت کا اعلان کر سکیں۔ تب ایوب خان کے بیٹے گوہر ایوب جشن مناتے ہوئے کراچی کے دل لیاقت آباد کے مین روڈ سے جلوس لے کر گزرتے ہوئے جو کچھ کیا وہ اہل کراچی کو یاد ہے۔ اس پر شاعر عوام حبیب جالب نے فوری طور پر اپنے رد عمل کا اظہار یوں کیا تھا، اسی کو قبول کر لو کہ اب میرے پاس مزید کہنے کو یہی ہے:


نشیمنوں کو جلا کر کیا چراغاں خوب

سنوارتے ہیں یونہی چہرۂ گلستاں خوب

کھلا کے شاخ دل و جاں پہ پھول زخموں کے

مسرتوں کو کیا آپ نے نمایاں خوب

لہو اچھال کے اہل وفا کا راہوں میں

قدم قدم پہ کیا پاس دل فگاراں خوب

مچی ہے چاروں طرف آپ کے کرم کی دھوم

نبھائے آپ نے الفت کے عہد و پیماں خوب

ہر ایک بجھتا ہوا دیپ کہہ رہا ہے یہی

تمام رات رہا جشن نو بہاراں خوب
Load Next Story