چار بڑے شہروں کے چار لوگ…
بابو کے پاکستان میں سیاست سمیت ہر سچ جھوٹ ہے، فریب ہے اور دھوکا ہے
پاکستان میں نہ تو اسٹیبلشمنٹ کی حکومت ہے اور نہ ہی یہاں کوئی 22 خاندان راج کرتے ہیں، یہاں تو چار بڑے شہروں کا راج ہے جن کا ملک کے چھوٹے بڑے ڈھائی سو شہروں پر تسلط ہے، یہ تسلط اتنا مضبوط ہے کہ پاکستان کے ڈھائی سو شہروں کی آواز دب چکی ہے، ان کے مسائل گم ہو چکے ہیں، پاکستان کراچی، لاہور، کوئٹہ اور پشاور میں سمٹ چکا ہے، ان شہروں کا مسئلہ ہی دراصل مسئلہ ہے، ان چار شہروں کی ساڑھے تین کروڑ کی آبادی پاکستان کی ساڑھے چودہ کروڑ کی آبادی کو نگل چکی ہے، یہ ساڑھے تین کروڑ جو فیصلہ کریں، اسے ہی ملک کا حقیقی فیصلہ تصور کیا جاتا ہے مگر ساڑھے چودہ کروڑ کیا چاہتے ہیں، اسے کوئی نہیں سوچتا، ان کی رائے کی کوئی اہمیت نہیں، ایک بابو کا پاکستان ہے، ایک زندہ دل پینڈو کا پاکستان ہے۔
بابو کے پاکستان میں سیاست سمیت ہر سچ جھوٹ ہے، فریب ہے اور دھوکا ہے، پینڈو بھائی کے پاکستان میں لسی ہے، دودھ ہے اور میٹھا ہے، پینڈو کا پاکستان مہمان نواز ہے، جان نچھاور کرنے والا ہے۔ بابو کے پاکستان میں ہاؤہو کی آواز ہے، ایک طرف بیج بو کر فصل کاٹی جاتی ہے اور دوسری طرف اس فصل کے فائدے لینے والے ہیں، ایک طرف پسینہ ہے، دوسری طرف بدنیتی اور کینہ ہے، ایک پاکستان میں فصلیں لہلہاتی ہیں، جوانی مسکراتی ہے، بیل کے گلے میں پڑی گھنٹی کی چھن چھن کی طرح ہر چیز لے، سر اور تال میں ہے، بابو کا پاکستان تیز رفتار ہے، یہاں کچھ رکتا نہیں، پشاور، لاہور، کراچی اور کوئٹہ کے بازاروں میں کھوے سے کھوا چھلتا ہے، یہ تاجروں کی دنیا ہے، یہاں ہر آدمی بیوپاری ہے، یہاں ہر شے بکتی ہے، ایمان، ضمیر سمیت ہر چیز کی قیمت مقرر ہے۔
پاکستان کی آبادی کا ساٹھ فیصد حصہ زراعت سے منسلک ہے مگر اتنی بڑی آبادی جس پیشے سے منسلک ہے، اس کو ان چار شہروں کی آبادی آج بھی ایک گاؤں کی روایت سمجھتی ہے، ان ساڑھے تین کروڑ کو نہیں پتہ کہ یہ خود ایک گاؤں میں ہیں، پاکستان کی اکثریتی آبادی تو زمین کا سینہ چیر کر اپنا رزق پیدا کرتی ہے، پاکستان کی پہچان کراچی اور لاہور کی میم نہیں ہے، پشاور کا چپلی کباب، کوئٹہ کی الیکٹرانک مارکیٹ سے پاکستان کو کوئی نہیں پہچانتا، دنیا میں پاکستان کی پہچان آم ہے، آٹا اور کپاس ہے، دال، بنولہ اور چنا ہے، دودھ، مرچیں اور گنا ہے جن کی پیداوار میں پاکستان دنیا کے دس بڑے ممالک میں آتا ہے۔
یہ اعزاز پاکستان کو کراچی، لاہور، پشاور اور کوئٹہ نے نہیں دلوایا، یہ اعزاز ان ساڑھے چودہ کروڑ نے دلوایا ہے جو گمنا م ہیں، جن کے مسائل، مسائل نہیں، کراچی کے ایک نلکے میں پانی نہ آئے، الیکٹرونک میڈیا پر بریکنگ نیوز چل جاتی ہے، یہاں تو پورے پورے گاؤں سیلابی ریلے میں بہہ جائیں تو ٹکر سے آگے بات نہیں بنتی، ورلڈ بینک کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بیس اعشاریہ سات فیصد شہری جب کہ تریسٹھ اعشاریہ آٹھ فیصد دیہی زندگی ہے، یہ تفریق شاید دنیا کے اکثر ممالک میں ہو مگر ہمارے یہاں المیہ یہ ہے کہ جن لوگوں کا شیئر زیادہ ہے۔
ان کو کوئی پوچھتا ہی نہیں، ان پر کیا الم بیت رہے ہیں، کسی کو پرواہ ہی نہیں، ساڑھے تین کروڑ لوگوں کی خبریں اخباروں میں نیشنل نیوز کہلاتی ہیں، ساڑھے چودہ کروڑ لوگوں کی خبروں کے لیے ڈسٹرکٹ نیوز کا صفحہ ہے، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان ساڑھے تین کروڑ لوگوں کی خبریں ڈسٹرکٹ کے صفحے پر لگیں، ان لوگوں نے ملک کو دیا کیا ہے، یہ لوگ تو ساڑھے چودہ کروڑ لوگوں کا حق کھانے والے غاصب ہیں، یہ چار شہر پاکستان کے ڈھائی سو شہروں کا حق مارنے والوں کی کمین گاہیں ہیں، یہ وڈیرے ، جاگیردار، سردار اور چوہدری اپنے اپنے لوگوں کا حق مار کر شہر کی فصیلوں کے پیچھے پناہ لے لیتے ہیں اور فصلوں کو پانی دیتے کسان کی کمر جھک جاتی ہے۔
ترقیاتی کاموں کا معیار بھی یہی چار شہر ہیں، لاہور میں میڑو بس چل گئی، کراچی میں انڈر پاس بن گیا مگر کیا کسی نے سوچا ہے کہ سکھر سے لاڑکانہ جانے والے راستے کا کیا حال ہے، وہاڑی کے لوگ کس طرح ایک جگہ سے دوسری جگہ کا سفر کرتے ہیں، لیاقت پور کو دیکھ کے کیوں لگتا ہے کہ یہ لاہور کی سو سال پرانی تصویر ہے، تربت، خضدار اور کوئٹہ میں اتنا فرق کیوں ہے، چترال، مستونگ اور مینگورہ میں پشاور کی طرح لمبی لمبی لشکارے مارتی سڑکیں کیوں نہیں ہیں، گلگت، استور، سست، چیلاس کے لوگ آج بھی بنیادی سہولیات سے کیوں محروم ہیں، یہ چار شہر پاکستان کے کسی ''دوسرے'' مسئلے کو اوپر نہیں آنے دیتے، یہ خوف زدہ شہر پاکستان کے ڈھائی سو شہروں سے ڈرتے ہیں، ان کو پتہ ہے کہ اگر حقیقی پاکستان کھڑا ہو گیا تو ان چھوٹے قد کے شہروں کو جائے امان نہیں ملے گی، بہت سے چہروں سے نقاب اتر جائے گا۔
پاکستان میں کون سی سیاسی جماعت مقبول ہے، اس بات کا فیصلہ ان چار شہروں کی ہوا کو دیکھ کر لگایا جاتاہے، پورے ملک میں قومی اسمبلی کی342 نشستیں ہیں، جن میں تیرہ لاہور، بیس کراچی، پشاور کی چار اور کوئٹہ کی دو نشستیں ہیں، ملک کے ساڑھے چودہ کروڑ کے پاس تین سو تین نشستیں ہیں، ان کی اہمیت چار شہروں کی 39 نشستوں سے کہیں زیادہ ہے، تبدیلی ملک کے ساڑھے چودہ کروڑ عوام مل کرلاتے ہیں مگر کراچی اور لاہور کی دیواروں کی وال چاکنگ سے سیاسی پنڈت نہ جانے کون سے نتائج نکالنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں، اکثریت کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے ان ساڑھے چودہ کروڑ پر طاقت ور لوگوں کا تسلط ہو چکا ہے، یہ طاقت ور لوگ ان کے ووٹوں سے اسمبلیوں میں بیٹھ کر چار شہروں کی فصیلوں میں پناہ لے لیتے ہیں اور پھر اگلے الیکشن میں ان کو اپنا چہرہ دکھاتے ہیں۔
پاکستان کے ان چار شہروں کے ادیبوں اور دانش وروں کو ہی دراصل قلم کی حرمت کا ٹھیکیدار سمجھا جاتا ہے، بدین کے ساحل پر بیٹھ کر گیت لکھنے والا ملاح بوڑھا ہو گیا ہے، اس کی آواز بیٹھ چکی ہے، آج تک اس پُر سوز آواز نے کسی کا کلیجہ نہیں چیرا، ان چار شہروں کے بے سرے مٹک مٹک کر راج کرتے ہیں اور وقت نے ثابت کیا ہے کہ ان ساڑے چودہ کروڑ میں سے اگر کوئی نکل کر آ جائے تو وہ پٹھانے خان کی طرح دلوں کو فتح کر لیتا ہے، ان ساڑھے چودہ کروڑ کو جب موقع ملتا ہے تو یہ کسی سے پیچھے نہیں رہتے مگر موقع ایسی کمبخت شے ہے کہ ملتا ذرا کم ہے، شہر والے موقع نامی مخلوق پر بھی اپنے پنجے ایسے گاڑ کر بیٹھے ہیں جیسے یہ ان کالے پالک ہے ۔
مجھے آج تک دادی کے چار لوگ اور پاکستان کے چار شہروں کی کیمسٹری سمجھ نہیں آئی، بچپن میں جب ہم کوئی شرارت کرتے تھے تو دادی کہتی تھیں کہ چار لوگ دیکھیں گے تو کیا کہیں گے، یہ چار لوگ کون ہیں جو ہماری ذات میں اتنی دلچسپی رکھتے ہیں، یہ بات کبھی سمجھ نہیں آئی، ان چار لوگوں کو میں آج تک ڈھونڈ رہا ہوں مگر چار چھوڑ ایک بھی نہیں ملتا، مجھے ان چار لوگوں نے احساس محرومی میں مبتلا کر دیا ہے، جیسے مجھے کوئی نہیں چاہتا، میں نظر انداز ہو گیا ہوں، گاؤں کی پگڈنڈی پر جب کوئی فیکا دور شہر کی چمنیوں سے دھواں اٹھتے دیکھتا ہے تو وہ بھی شاید میری طرح سوچتا ہے، اس کے احساس میں بھی محرومی ہے، مجھے چار لوگوں کی نگاہ التفات نہ ہونے کا شکوہ ہے، فیکے کو یہی شکوہ چار شہروں سے ہے، ہم دونوں کا غم ایک سا ہے، یہ کالم میں نے آپ کے لیے نہیں لکھا، آپ کے لیے تو اس اخبار کی نیشنل نیوز ہیں، یہ کالم میں نے صرف اور صرف فیکے کے لیے لکھا ہے!
بابو کے پاکستان میں سیاست سمیت ہر سچ جھوٹ ہے، فریب ہے اور دھوکا ہے، پینڈو بھائی کے پاکستان میں لسی ہے، دودھ ہے اور میٹھا ہے، پینڈو کا پاکستان مہمان نواز ہے، جان نچھاور کرنے والا ہے۔ بابو کے پاکستان میں ہاؤہو کی آواز ہے، ایک طرف بیج بو کر فصل کاٹی جاتی ہے اور دوسری طرف اس فصل کے فائدے لینے والے ہیں، ایک طرف پسینہ ہے، دوسری طرف بدنیتی اور کینہ ہے، ایک پاکستان میں فصلیں لہلہاتی ہیں، جوانی مسکراتی ہے، بیل کے گلے میں پڑی گھنٹی کی چھن چھن کی طرح ہر چیز لے، سر اور تال میں ہے، بابو کا پاکستان تیز رفتار ہے، یہاں کچھ رکتا نہیں، پشاور، لاہور، کراچی اور کوئٹہ کے بازاروں میں کھوے سے کھوا چھلتا ہے، یہ تاجروں کی دنیا ہے، یہاں ہر آدمی بیوپاری ہے، یہاں ہر شے بکتی ہے، ایمان، ضمیر سمیت ہر چیز کی قیمت مقرر ہے۔
پاکستان کی آبادی کا ساٹھ فیصد حصہ زراعت سے منسلک ہے مگر اتنی بڑی آبادی جس پیشے سے منسلک ہے، اس کو ان چار شہروں کی آبادی آج بھی ایک گاؤں کی روایت سمجھتی ہے، ان ساڑھے تین کروڑ کو نہیں پتہ کہ یہ خود ایک گاؤں میں ہیں، پاکستان کی اکثریتی آبادی تو زمین کا سینہ چیر کر اپنا رزق پیدا کرتی ہے، پاکستان کی پہچان کراچی اور لاہور کی میم نہیں ہے، پشاور کا چپلی کباب، کوئٹہ کی الیکٹرانک مارکیٹ سے پاکستان کو کوئی نہیں پہچانتا، دنیا میں پاکستان کی پہچان آم ہے، آٹا اور کپاس ہے، دال، بنولہ اور چنا ہے، دودھ، مرچیں اور گنا ہے جن کی پیداوار میں پاکستان دنیا کے دس بڑے ممالک میں آتا ہے۔
یہ اعزاز پاکستان کو کراچی، لاہور، پشاور اور کوئٹہ نے نہیں دلوایا، یہ اعزاز ان ساڑھے چودہ کروڑ نے دلوایا ہے جو گمنا م ہیں، جن کے مسائل، مسائل نہیں، کراچی کے ایک نلکے میں پانی نہ آئے، الیکٹرونک میڈیا پر بریکنگ نیوز چل جاتی ہے، یہاں تو پورے پورے گاؤں سیلابی ریلے میں بہہ جائیں تو ٹکر سے آگے بات نہیں بنتی، ورلڈ بینک کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بیس اعشاریہ سات فیصد شہری جب کہ تریسٹھ اعشاریہ آٹھ فیصد دیہی زندگی ہے، یہ تفریق شاید دنیا کے اکثر ممالک میں ہو مگر ہمارے یہاں المیہ یہ ہے کہ جن لوگوں کا شیئر زیادہ ہے۔
ان کو کوئی پوچھتا ہی نہیں، ان پر کیا الم بیت رہے ہیں، کسی کو پرواہ ہی نہیں، ساڑھے تین کروڑ لوگوں کی خبریں اخباروں میں نیشنل نیوز کہلاتی ہیں، ساڑھے چودہ کروڑ لوگوں کی خبروں کے لیے ڈسٹرکٹ نیوز کا صفحہ ہے، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان ساڑھے تین کروڑ لوگوں کی خبریں ڈسٹرکٹ کے صفحے پر لگیں، ان لوگوں نے ملک کو دیا کیا ہے، یہ لوگ تو ساڑھے چودہ کروڑ لوگوں کا حق کھانے والے غاصب ہیں، یہ چار شہر پاکستان کے ڈھائی سو شہروں کا حق مارنے والوں کی کمین گاہیں ہیں، یہ وڈیرے ، جاگیردار، سردار اور چوہدری اپنے اپنے لوگوں کا حق مار کر شہر کی فصیلوں کے پیچھے پناہ لے لیتے ہیں اور فصلوں کو پانی دیتے کسان کی کمر جھک جاتی ہے۔
ترقیاتی کاموں کا معیار بھی یہی چار شہر ہیں، لاہور میں میڑو بس چل گئی، کراچی میں انڈر پاس بن گیا مگر کیا کسی نے سوچا ہے کہ سکھر سے لاڑکانہ جانے والے راستے کا کیا حال ہے، وہاڑی کے لوگ کس طرح ایک جگہ سے دوسری جگہ کا سفر کرتے ہیں، لیاقت پور کو دیکھ کے کیوں لگتا ہے کہ یہ لاہور کی سو سال پرانی تصویر ہے، تربت، خضدار اور کوئٹہ میں اتنا فرق کیوں ہے، چترال، مستونگ اور مینگورہ میں پشاور کی طرح لمبی لمبی لشکارے مارتی سڑکیں کیوں نہیں ہیں، گلگت، استور، سست، چیلاس کے لوگ آج بھی بنیادی سہولیات سے کیوں محروم ہیں، یہ چار شہر پاکستان کے کسی ''دوسرے'' مسئلے کو اوپر نہیں آنے دیتے، یہ خوف زدہ شہر پاکستان کے ڈھائی سو شہروں سے ڈرتے ہیں، ان کو پتہ ہے کہ اگر حقیقی پاکستان کھڑا ہو گیا تو ان چھوٹے قد کے شہروں کو جائے امان نہیں ملے گی، بہت سے چہروں سے نقاب اتر جائے گا۔
پاکستان میں کون سی سیاسی جماعت مقبول ہے، اس بات کا فیصلہ ان چار شہروں کی ہوا کو دیکھ کر لگایا جاتاہے، پورے ملک میں قومی اسمبلی کی342 نشستیں ہیں، جن میں تیرہ لاہور، بیس کراچی، پشاور کی چار اور کوئٹہ کی دو نشستیں ہیں، ملک کے ساڑھے چودہ کروڑ کے پاس تین سو تین نشستیں ہیں، ان کی اہمیت چار شہروں کی 39 نشستوں سے کہیں زیادہ ہے، تبدیلی ملک کے ساڑھے چودہ کروڑ عوام مل کرلاتے ہیں مگر کراچی اور لاہور کی دیواروں کی وال چاکنگ سے سیاسی پنڈت نہ جانے کون سے نتائج نکالنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں، اکثریت کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے ان ساڑھے چودہ کروڑ پر طاقت ور لوگوں کا تسلط ہو چکا ہے، یہ طاقت ور لوگ ان کے ووٹوں سے اسمبلیوں میں بیٹھ کر چار شہروں کی فصیلوں میں پناہ لے لیتے ہیں اور پھر اگلے الیکشن میں ان کو اپنا چہرہ دکھاتے ہیں۔
پاکستان کے ان چار شہروں کے ادیبوں اور دانش وروں کو ہی دراصل قلم کی حرمت کا ٹھیکیدار سمجھا جاتا ہے، بدین کے ساحل پر بیٹھ کر گیت لکھنے والا ملاح بوڑھا ہو گیا ہے، اس کی آواز بیٹھ چکی ہے، آج تک اس پُر سوز آواز نے کسی کا کلیجہ نہیں چیرا، ان چار شہروں کے بے سرے مٹک مٹک کر راج کرتے ہیں اور وقت نے ثابت کیا ہے کہ ان ساڑے چودہ کروڑ میں سے اگر کوئی نکل کر آ جائے تو وہ پٹھانے خان کی طرح دلوں کو فتح کر لیتا ہے، ان ساڑھے چودہ کروڑ کو جب موقع ملتا ہے تو یہ کسی سے پیچھے نہیں رہتے مگر موقع ایسی کمبخت شے ہے کہ ملتا ذرا کم ہے، شہر والے موقع نامی مخلوق پر بھی اپنے پنجے ایسے گاڑ کر بیٹھے ہیں جیسے یہ ان کالے پالک ہے ۔
مجھے آج تک دادی کے چار لوگ اور پاکستان کے چار شہروں کی کیمسٹری سمجھ نہیں آئی، بچپن میں جب ہم کوئی شرارت کرتے تھے تو دادی کہتی تھیں کہ چار لوگ دیکھیں گے تو کیا کہیں گے، یہ چار لوگ کون ہیں جو ہماری ذات میں اتنی دلچسپی رکھتے ہیں، یہ بات کبھی سمجھ نہیں آئی، ان چار لوگوں کو میں آج تک ڈھونڈ رہا ہوں مگر چار چھوڑ ایک بھی نہیں ملتا، مجھے ان چار لوگوں نے احساس محرومی میں مبتلا کر دیا ہے، جیسے مجھے کوئی نہیں چاہتا، میں نظر انداز ہو گیا ہوں، گاؤں کی پگڈنڈی پر جب کوئی فیکا دور شہر کی چمنیوں سے دھواں اٹھتے دیکھتا ہے تو وہ بھی شاید میری طرح سوچتا ہے، اس کے احساس میں بھی محرومی ہے، مجھے چار لوگوں کی نگاہ التفات نہ ہونے کا شکوہ ہے، فیکے کو یہی شکوہ چار شہروں سے ہے، ہم دونوں کا غم ایک سا ہے، یہ کالم میں نے آپ کے لیے نہیں لکھا، آپ کے لیے تو اس اخبار کی نیشنل نیوز ہیں، یہ کالم میں نے صرف اور صرف فیکے کے لیے لکھا ہے!