کل کا وزیر اعظم
میاں نواز شریف ابھی تک سیاسی گرداب سے اپنے آپ کو نکالنے میں کامیاب نہیں ہوسکے
ہماری دونوں ہر دلعزیز پارٹیوں مسلم لیگ یا پیپلز پارٹی کا جب نام لیا جائے تو پاکستانی ناراض ہو جاتے اور تیسری پارٹی کو آزمانے کی بات کرتے ہیں عوامی مقدمہ یہ ہے کہ ان دونوں پارٹیوں نے پاکستانیوں کو سو پیاز بھی کھلوائے ہیں اور سو جوتے بھی ۔ جو بھی پارٹی اقتدار میں آئی تولوگ اس سے پہلے والی کو یاد کرنا شروع کر دیتے ہیں کہ دونوں صورت میں جوتے اور پیاز پاکستانیوں کا مقدر ہی ٹھہرے۔
الیکشن کی آمد سے پہلے مسلم لیگ نواز مشکلات میں گھری ہوئی ایک پارٹی ہے جس کے لیڈر کو نااہل کر دیا گیا ہے گو کہ وہ ابھی بھی پارٹی کی سربراہی کر رہے ہیں لیکن یہ زور زبردستی کسی بھی وقت ختم ہو کر پارٹی کو لاوارث کر جائے گی۔
نااہلی کے بعد مسلم لیگ نواز نے اپنے تئیں یہ کوشش ضرور کی کہ اس کے پیپلز پارٹی سے سیاسی روابط بحال ہو جائیں تا کہ اس مشکل وقت میں پیپلز پارٹی کا ساتھ شاید کچھ رعاتیں حاصل کرنے کا سبب بن جائے لیکن آصف علی زرداری جیسا کایاں سیاستدان یہ بات دہرا رہا ہے کہ میاں صاحب جب مشکل میں ہوتے ہیں تو ان کو جمہوریت یاد آجاتی ہے اور جب ستے خیراں ہوں تو ملنے سے بھی انکار کر دیتے ہیں، وہ میاں نواز شریف سے شاکی ہیں کہ انھوں نے طے شدہ ملاقات منسوخ کر دی تھی۔
پیپلز پارٹی مشورے دے رہی ہے کہ میاں صاحب صبر سے حالات کا مقابلہ کریں اور ہمیں فون نہ کریں بلکہ نواز لیگ کے رہنماؤں کی مس کالیں اپنے دوستوں کو بھی دکھاتے پھر رہے ہیں اس کے باوجود مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کا تعلق ٹام اور جیری کارٹون جیسا ہی ہے جس میں دونو ںکا ایک دوسرے کے ساتھ گزارا بھی ممکن نہیں اور ایک دوسرے کے بغیر بھی نہیں رہ سکتے۔
اس وقت مسلم لیگ نواز کی یہ شدیدخواہش ہے کہ آصف علی زرداری سے سیاسی مکالمہ شروع ہو جائے، دوسری طرف مسلم لیگ کے رہنماؤں کی جانب سے لفظی گولہ باری بھی جاری ہے، آئے روز کسی نہ کسی وزیر کا ایک نیا بیان پیپلز پارٹی کی شان میں آجاتا ہے۔ لگ تو ایسے ہی رہاہے کہ نواز لیگ کو پیپلز پارٹی سے دور رکھنے کی کوشش ہو رہی ہے تا کہ یہ دونوں پارٹیاںمزید کوئی ایسا سیاسی گٹھ جوڑ نہ کر سکیں جس کے بعد آیندہ کی سیاست میں ان کا کوئی موثر کردار ہو۔
مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے مشترکہ سیاسی حریف عمران خان ان دونوں کو مسلسل اپنے نشانے پر رکھے ہوئے ہیں اور وہ کسی رعائت کے موڈ میں نہیں ہیں بلکہ دونوں کے عیب گنوا رہے ہیں اور موجودہ سیاسی صورتحال کو دونوں کی ملی بھگت سے تعبیر کر رہے ہیں ۔ ان دونوں جماعتوں کی سیاسی صورتحال کچھ اتنی بھی اچھی نہیں کہ وہ انتخابات میں دھڑلے کے ساتھ اتر سکیں ،کسی حد تک مسلم لیگ نواز پیپلز پارٹی سے بہتر ہے لیکن وہ بھی صوبہ پنجاب کی حد تک جہاں پر اس کو بہت بڑے حریف عمران خان کا سامنا ہے جو اپنے سونامی سے سب کو بہا لے جانے کا عندیہ دے رہے ہیں۔
پیپلز پارٹی ایک کمزور حریف کے طور پر پنجاب میں مسلم لیگ نواز اور تحریک انصاف کا سامنا کرے گی لیکن کوئی اگر اس شبہ میں ہے کہ پیپلز پارٹی کا حال آخری الیکشن والا ہو گا تو وہ غلطی پر ہے کیونکہ اب کی بار پیپلز پارٹی کو پنجاب سے بھی نشستیں ملیں گی اور اس کی وجہ کوئی اور نہیں مسلم لیگ نواز کی حکومت ہی ہے جس نے اپنے سب سے بڑے صوبے کے ایک بڑے حصے جنوبی پنجاب پر اس طرح توجہ نہیں دی جیسے لاہور اور اس کے نواحی شہروں میں ترقیاتی کام کیے اس کا خمیازہ ان کو آیندہ الیکشن میں بھگتنا پڑے گا۔
دوسری جانب میاں نواز شریف ابھی تک سیاسی گرداب سے اپنے آپ کو نکالنے میں کامیاب نہیں ہوسکے، ان کا سیا سی میدان میں کردار محدود کر دیا گیا ہے، الیکشن سر پر ہیں اور پارٹی سربراہی کی جھگڑے سے نپٹ رہی ہے۔ میاں نواز شریف کی مسلم لیگ ضیاء الحق کی چھاؤں میں پیدا ہوئی جس کا ووٹ بینک بھٹو مخالف اور ضیاء الحق کا حامی تھا اور اس بڑے گروہ کی قیادت نواز شریف کے سپرد کر دی گئی جنہوں نے اسے اپنے نام دے کر مسلم لیگ نواز کی بنیاد رکھی ۔
عوام نے اس نئی مسلم لیگ کوخوش آمدید کہا اور پھر نواز شریف کو تین مرتبہ ملک کے اعلیٰ ترین منصب تک پہنچایا، یہ کمال میاں نواز شریف کی اپنی شخصیت کا ہے جنہوں نے ضیاء الحق کے بعد اپنی علیحدہ سیاسی حیثیت بنائی اور کامیابی سے اس کو برقرار بھی رکھا باوجود اس کے اس سے پہلے دو دفعہ حکومت سے بے دخل کیے گئے اور جلا وطن بھی ہوئے لیکن انھوں نے واپس آتے ہی پارٹی کو دوبارہ وہیں سے جوڑ لیا جہاں اسے چھوڑ گئے تھے اور پرویز مشرف نے اسے ہائی جیک کر لیا تھا۔
یہ نواز شریف کی فہم و فراست ہی تھی کہ وہ تیسری بار بھی وزیر اعظم بن گئے، توقع کی جارہی تھی کہ وہ سنبھل کر اس بار اقتدار کی سیڑھیاں چڑھیں گے مگر وہ ایک بار پھر اقتدار کے نشے میں اور اپنے نادان ساتھیوں کے مشوروں میں آکر پھنس گئے اور پارٹی کے اقتدار میں ہونے کے باوجود نہ صرف اقتدار سے دورہو گئے بلکہ احتساب کی پیشیاں بھی بھگت رہے ہیں ،کل کا وزیر اعظم آج اگر ملزم کی طرح عدالتوں میں پیش ہو رہا ہوگا تو اس کو غصہ بھی ہو گا اور اس کی سوچ بھی باغیانہ ہو گی مگر نواز شریف کو ان مشکل حالات میں سب سے پہلے اپنی پارٹی کو بچانا ہے۔
وہ سیاست کی معراج بھی دیکھ چکے ہیں،سیاسی جیل بھی بھگت چکے ہیں اور سیاسی حریفوں کو سیاسی میدان میں مات دینے کا تجربہ بھی رکھتے ہیں، اس سب کے باوجود یہ ان کا امتحان ہے کہ وہ جتنا جلد ممکن ہو ذاتی سوچ کو قومی سوچ میں بدل لیں ورنہ سیاسی خود کشی تو کسی بھی وقت کی جا سکتی ہے، اس کا ان کو اختیار بھی ہے اگر وہ یہ سب کچھ کسی نادانی میں کر رہے ہیں تو اس سے باز آجائیں، ملک و قوم کو ان کی ضرورت ہے ، ان کی سیاسی خود کشی کا فائدہ ان کے سیاسی حریفوں کو ہوگا اور اگر اس میں سے کچھ بچ گیا تو وہ میاں صاحب کو مل جائے گا لہذا میاں صاحب ذرا صبر ؔکہ ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں۔
الیکشن کی آمد سے پہلے مسلم لیگ نواز مشکلات میں گھری ہوئی ایک پارٹی ہے جس کے لیڈر کو نااہل کر دیا گیا ہے گو کہ وہ ابھی بھی پارٹی کی سربراہی کر رہے ہیں لیکن یہ زور زبردستی کسی بھی وقت ختم ہو کر پارٹی کو لاوارث کر جائے گی۔
نااہلی کے بعد مسلم لیگ نواز نے اپنے تئیں یہ کوشش ضرور کی کہ اس کے پیپلز پارٹی سے سیاسی روابط بحال ہو جائیں تا کہ اس مشکل وقت میں پیپلز پارٹی کا ساتھ شاید کچھ رعاتیں حاصل کرنے کا سبب بن جائے لیکن آصف علی زرداری جیسا کایاں سیاستدان یہ بات دہرا رہا ہے کہ میاں صاحب جب مشکل میں ہوتے ہیں تو ان کو جمہوریت یاد آجاتی ہے اور جب ستے خیراں ہوں تو ملنے سے بھی انکار کر دیتے ہیں، وہ میاں نواز شریف سے شاکی ہیں کہ انھوں نے طے شدہ ملاقات منسوخ کر دی تھی۔
پیپلز پارٹی مشورے دے رہی ہے کہ میاں صاحب صبر سے حالات کا مقابلہ کریں اور ہمیں فون نہ کریں بلکہ نواز لیگ کے رہنماؤں کی مس کالیں اپنے دوستوں کو بھی دکھاتے پھر رہے ہیں اس کے باوجود مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کا تعلق ٹام اور جیری کارٹون جیسا ہی ہے جس میں دونو ںکا ایک دوسرے کے ساتھ گزارا بھی ممکن نہیں اور ایک دوسرے کے بغیر بھی نہیں رہ سکتے۔
اس وقت مسلم لیگ نواز کی یہ شدیدخواہش ہے کہ آصف علی زرداری سے سیاسی مکالمہ شروع ہو جائے، دوسری طرف مسلم لیگ کے رہنماؤں کی جانب سے لفظی گولہ باری بھی جاری ہے، آئے روز کسی نہ کسی وزیر کا ایک نیا بیان پیپلز پارٹی کی شان میں آجاتا ہے۔ لگ تو ایسے ہی رہاہے کہ نواز لیگ کو پیپلز پارٹی سے دور رکھنے کی کوشش ہو رہی ہے تا کہ یہ دونوں پارٹیاںمزید کوئی ایسا سیاسی گٹھ جوڑ نہ کر سکیں جس کے بعد آیندہ کی سیاست میں ان کا کوئی موثر کردار ہو۔
مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے مشترکہ سیاسی حریف عمران خان ان دونوں کو مسلسل اپنے نشانے پر رکھے ہوئے ہیں اور وہ کسی رعائت کے موڈ میں نہیں ہیں بلکہ دونوں کے عیب گنوا رہے ہیں اور موجودہ سیاسی صورتحال کو دونوں کی ملی بھگت سے تعبیر کر رہے ہیں ۔ ان دونوں جماعتوں کی سیاسی صورتحال کچھ اتنی بھی اچھی نہیں کہ وہ انتخابات میں دھڑلے کے ساتھ اتر سکیں ،کسی حد تک مسلم لیگ نواز پیپلز پارٹی سے بہتر ہے لیکن وہ بھی صوبہ پنجاب کی حد تک جہاں پر اس کو بہت بڑے حریف عمران خان کا سامنا ہے جو اپنے سونامی سے سب کو بہا لے جانے کا عندیہ دے رہے ہیں۔
پیپلز پارٹی ایک کمزور حریف کے طور پر پنجاب میں مسلم لیگ نواز اور تحریک انصاف کا سامنا کرے گی لیکن کوئی اگر اس شبہ میں ہے کہ پیپلز پارٹی کا حال آخری الیکشن والا ہو گا تو وہ غلطی پر ہے کیونکہ اب کی بار پیپلز پارٹی کو پنجاب سے بھی نشستیں ملیں گی اور اس کی وجہ کوئی اور نہیں مسلم لیگ نواز کی حکومت ہی ہے جس نے اپنے سب سے بڑے صوبے کے ایک بڑے حصے جنوبی پنجاب پر اس طرح توجہ نہیں دی جیسے لاہور اور اس کے نواحی شہروں میں ترقیاتی کام کیے اس کا خمیازہ ان کو آیندہ الیکشن میں بھگتنا پڑے گا۔
دوسری جانب میاں نواز شریف ابھی تک سیاسی گرداب سے اپنے آپ کو نکالنے میں کامیاب نہیں ہوسکے، ان کا سیا سی میدان میں کردار محدود کر دیا گیا ہے، الیکشن سر پر ہیں اور پارٹی سربراہی کی جھگڑے سے نپٹ رہی ہے۔ میاں نواز شریف کی مسلم لیگ ضیاء الحق کی چھاؤں میں پیدا ہوئی جس کا ووٹ بینک بھٹو مخالف اور ضیاء الحق کا حامی تھا اور اس بڑے گروہ کی قیادت نواز شریف کے سپرد کر دی گئی جنہوں نے اسے اپنے نام دے کر مسلم لیگ نواز کی بنیاد رکھی ۔
عوام نے اس نئی مسلم لیگ کوخوش آمدید کہا اور پھر نواز شریف کو تین مرتبہ ملک کے اعلیٰ ترین منصب تک پہنچایا، یہ کمال میاں نواز شریف کی اپنی شخصیت کا ہے جنہوں نے ضیاء الحق کے بعد اپنی علیحدہ سیاسی حیثیت بنائی اور کامیابی سے اس کو برقرار بھی رکھا باوجود اس کے اس سے پہلے دو دفعہ حکومت سے بے دخل کیے گئے اور جلا وطن بھی ہوئے لیکن انھوں نے واپس آتے ہی پارٹی کو دوبارہ وہیں سے جوڑ لیا جہاں اسے چھوڑ گئے تھے اور پرویز مشرف نے اسے ہائی جیک کر لیا تھا۔
یہ نواز شریف کی فہم و فراست ہی تھی کہ وہ تیسری بار بھی وزیر اعظم بن گئے، توقع کی جارہی تھی کہ وہ سنبھل کر اس بار اقتدار کی سیڑھیاں چڑھیں گے مگر وہ ایک بار پھر اقتدار کے نشے میں اور اپنے نادان ساتھیوں کے مشوروں میں آکر پھنس گئے اور پارٹی کے اقتدار میں ہونے کے باوجود نہ صرف اقتدار سے دورہو گئے بلکہ احتساب کی پیشیاں بھی بھگت رہے ہیں ،کل کا وزیر اعظم آج اگر ملزم کی طرح عدالتوں میں پیش ہو رہا ہوگا تو اس کو غصہ بھی ہو گا اور اس کی سوچ بھی باغیانہ ہو گی مگر نواز شریف کو ان مشکل حالات میں سب سے پہلے اپنی پارٹی کو بچانا ہے۔
وہ سیاست کی معراج بھی دیکھ چکے ہیں،سیاسی جیل بھی بھگت چکے ہیں اور سیاسی حریفوں کو سیاسی میدان میں مات دینے کا تجربہ بھی رکھتے ہیں، اس سب کے باوجود یہ ان کا امتحان ہے کہ وہ جتنا جلد ممکن ہو ذاتی سوچ کو قومی سوچ میں بدل لیں ورنہ سیاسی خود کشی تو کسی بھی وقت کی جا سکتی ہے، اس کا ان کو اختیار بھی ہے اگر وہ یہ سب کچھ کسی نادانی میں کر رہے ہیں تو اس سے باز آجائیں، ملک و قوم کو ان کی ضرورت ہے ، ان کی سیاسی خود کشی کا فائدہ ان کے سیاسی حریفوں کو ہوگا اور اگر اس میں سے کچھ بچ گیا تو وہ میاں صاحب کو مل جائے گا لہذا میاں صاحب ذرا صبر ؔکہ ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں۔