تماشا جاری ہے…

16سالہ معصوم لڑکی کو برہنہ کر کے گلیوں میں گشت پر مجبور کیا گیا۔

ali.dhillon@ymail.com

پاکستان میں روز کچھ نیا ہوتا ہے، سیاست میں کچھ نیا ہو تو سمجھ آتا مگر جب ہماری عزت کے تماشے لگیں جیسے گزشتہ دنوں ڈیرہ اسماعیل خان کا واقعہ رپورٹ ہوا ، یقین مانیں روح کانپ اُٹھی، کیا یہی ہے پاکستان کا اصلی چہرہ، جرم مرد کریں اور اس جرم کی سزا عورت بھگتے، کمسن، نابالغ اور کنواری بہنیں اور بیٹیاں بھگتیں۔ کچھ کیس جو میڈیا کی وجہ سے سامنے آجاتے ہیں، ان پر تو عدالت اور سول سوسائٹی آواز اٹھا لیتی ہے لیکن چند دن شور مچتا ہے، پھر خبر اندرونی صفحات کے کونوں کھدروں میں دب جاتی ہے اور لوگ بھول جاتے ہیں۔

نہ جانے کتنی عورتوں اور بچیوں کی عزتیں گاؤں کی پنچایت کے ایما پر سرعام لوٹی گئی ہوںگی لیکن بے کس اور مجبور اپنے ہی باپ بھائیوں کے آگے روند ڈالی جاتی ہیں اور ان کا کسی کو پتہ نہیں چلتا۔ کیونکہ ''باعزت مرد'' اپنی بہنوں اور بیٹیوں کو خود ''ونی'' کردیتے ہیں۔کہیں 70 سالہ بوڑھے کو 13 سالہ بچی ونی کردی جاتی ہے۔ کہیں پنچایت کے زبردستی کے فیصلوں سے بیٹیوں کو وڈیروں کے نکاح میں دے دیا جاتا ہے، اور کہیں ان بیٹیوں پر ایسے فیصلے مسلط کیے جاتے ہیں جن سے زمین پھٹ جاتی اور آسمان شرما جاتا ہے۔

تحریک انصاف کے گڑھ کے پی کے کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں بھی گزشتہ دنوں کچھ ایسا ہی واقعہ ہوا جہاں بااثر غنڈوں نے لڑکی کو دشمنی کی بھینٹ چڑھا دیا۔ 16سالہ معصوم لڑکی کو برہنہ کر کے گلیوں میں گشت پر مجبور کیا گیا۔ اخباری خبر کے مطابق گرہ مٹ نامی علاقے کے 5مسلح افراد نے ذاتی دشمنی کے باعث مخالف خاندان کی 16 سالہ لڑکی کو اس وقت برہنہ کرکے گاؤں میں گھومنے پر مجبور کر دیا جب وہ پانی بھر کے گھر واپس آرہی تھی۔ان غنڈوں، مسٹنڈوں، جاہلوں، کم عقلوں اور بے تربیتوں نے اس برہنہ بچی کو چادر تک نہ لینے دی، کسی کے گھر میں پناہ بھی نہ لینے دی۔

بربریت کا یہ ''رقص ''ایک گھنٹہ جاری رہا۔ مظلوم بچی کی مدد کوئی کوئی مرد سامنے نہ آیا۔ بچی کے ورثاء تھانے رپوٹ درج کرانے گئے تو پولیس انھیں ٹالتی رہی لیکن جب خبر میڈیا تک پہنچی تو پولیس نے 5 ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کر لیا، مگر حوا کی بیٹی برباد ہوگئی، اب یہ قوم کی یہ بیٹی موت سے بھی بدتر زندگی گزارے گی۔

اس بیٹی نے ماں،باپ، بہن ،بھائیوںسمیت قیامت سے پہلے قیامت دیکھ لی ۔ وہ ایک گھنٹہ اس خاندان پر کس قدر بھاری گزرا ہوگا ، اس کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا ہے، آج وہ گھر میں کسی کونے میں بیٹھ کر اس نظام کا نوحہ ضرور پڑھ رہی ہوگی جس میں اسلامی سلطنت میں دن دیہاڑے اس کے ساتھ ظلم ہوا۔ مگر مجال ہے کوئی مدد کو آن پہنچے۔ بقول شاعر ساحر لدھیانوی

مدد چاہتی ہے یہ حوّا کی بیٹی

پیمبر کی امت زلیخا کی بیٹی

یشودھا کی ہم جنس رادھا کی بیٹی


کہاں ہیں، کہاں ہیں محافظ خودی کے

یہ کوچے یہ گلیاں یہ منظر دکھاؤ

ثنا خوان تقدیس مشرق کو لاؤ

ثنا خوان تقدیس مشرق کہاں ہیں

آج وہ عمران خان اور آئی جی کے پی کے صلاح الدین محسود اور علاقے کے دیگر پولیس افسران سے التجا کر رہی ہے کہ کہاں ہیں مضبوط اور خود مختار پولیس کے دعوے ، آج وہ ان مفاد پرست سیاستدانوں سے مخاطب ہے کہ جو روز نئے پاکستان اور قانون کی حکمرانی کے نعرے لگاتے ہیں۔ جب عدالتوں کے گسے پٹے نظام میں مجھے بلایا جائے گا ،اور کٹہرے میں کھڑا کیا جائے گا اور بھری عدالت میں مجھ سے پوچھا جائے گا کہ بتاؤ کیا ہوا؟ خدارا یہ سب میں کیسے بتاؤں گی؟ کیسے دھراؤں گی؟ اور جب کہا جائے گا کہ ملزمان کی پہچان کرو اور جب وہ میرے سامنے آئیں گے تو اے خدا میری ہستی مجھے مار دے گی۔

یہ واقعہ وہ ہے جو رپورٹ ہوا میں بذات خود بطوررپورٹر یہ ایسے واقعات رپورٹ کرتا آیا ہوں، آج سے 30سال پہلے بھی یہی حالات تھے اور آج بھی یہی حالات ہیں ، اُس وقت بھی بیٹیاں اس دھرتی پر ہونے والے ظلم کی داستانیں اور نوحے پڑھا کرتی تھیں آج بھی یہی حالات ہیں اور کسی بیٹی کے ساتھ ہونے والا یہ پہلا ظلم نہیں مذکورہ لڑکی جیسی بہت سے لڑکیاں دن دیہاڑے اپنی عزت گنوا بیٹھتی ہیں۔

کبھی لڑکیوں کی پیدائش پر صف ماتم بچھ جاتی ہے تو کبھی ، چولہے پھٹنے کی جھوٹی کہانیوں میں، تیزاب سے جلا دینے، عصمت فروشی، شوہر کے تشدد اور گھریلو تشدد سے دو چار رہنے کی خبریں روز نظر سے گزرتی ہیں۔مگر بد قسمتی سے کمزور عدالتی نظام اور عورت کی آزادی نہ ہونے کے باعث بہت سے جرائم رپورٹ بھی نہیں ہو پاتے۔ معاشرے کا یہ خوفناک پہلو مذہب اور ثقافت کے نام پر عورتوں پر مظالم اور مردوں کے معاشرے پر غلبے کی عکاسی کرتا ہے جب کہ ہمارے پیارے نبیؐ نے ہمیشہ عورتوں کو عزت دی، ان پر کبھی تشدد نہیں کیا اور ہمیں بھی یہی حکم دیا۔آج نہ تو کہیں سے محمد بن قاسم کی آمد ہوتی ہے اور نہ ہی کہیں سے انصاف کا بول بھالا کرنے والے حکمرانوں کی آمد ہوتی ہے۔

وطن عزیز کے مختلف گوشوں میں ہر روز کہیں نہ کہیں عورتوں پر تشدد اور جرائم ہورہے ہوتے ہیں؛گزشتہ دس سالوں میں 70ہزار خواتین کے ساتھ وطن عزیز میں ریپ ہوا اور انھی سالوں میں ہماری بیٹیوں کی عزتیں پامال کرنے جیسے1000سے زائد واقعات رپورٹ ہوئے، جب کہ جو رپورٹ نہیں ہوئے ان کی تعداد ہزارو ں میں ہے، کیا یہی نیا پاکستان ہے؟ کیا نئے پاکستان میں جتنی لڑکیاں اس ہوس، بدلے اور پنچایت کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں انھیں انصاف ملے گا یا وہ بھی کسی بند کمرے میں پنکھے کے ساتھ لٹکی ہوئی ملیں گی۔ اور یہ تماشا ہمیشہ کے لیے جاری رہے گا، پھر کوئی بیٹی عزت گنوا بیٹھے گی اور پھر یہی تماشا لگے گا مگر انصاف نہیں ملے گا۔ خدارا ہماری یہ بیٹیاں ہماری عزت ہیں، ان کی عزت محفوظ کیجیے ، اگر خدا نے آپ کو صاحب اقتدار کیا ہے ، عزت بخشی ہے تو یقینا اُس بیٹی کے سر پر ضرور ہاتھ رکھیں جس کے پاس ایک عزت تھی اب شاید وہ بھی نہیں رہی...!
Load Next Story