رنچھوڑ لائن 12 اسکولوں کی عمارتیں خستہ طلبا غائب
چیف جسٹس کےحکم پرسیشن ججزکادورہ،عمارتیں مخدوش ،فنڈزکاریکارڈ نہیں، طلبا نہ ہونے کے برابر،اساتذہ خوش گپیوں میں مصروف.
چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس افتخار محمد چوہدری کے حکم پر سیشن ججز نے12 سرکاری اسکولوں کا اچانک دورہ کیا اسکولوں کی حالت خستہ، عمارتیں مخدوش پائی گئیں اور سرکاری فنڈ کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں تھا۔
آڈٹ کرنے کوئی نہیں آتا بلکہ خود جاکر آڈٹ کرایا جاتا ہے،بچوں کی حاضری نہ ہونے کے برابر تھی،اساتذہ خوش گپیوں میں مصروف پائے گئے اسکولوں کا کوئی ریکارڈ مرتب نہیں تھا،ججز نے محکمہ تعلیم کے ڈی او پر شدید برہمی کااظہار کیا،تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس سپریم کورٹ کے حکم پر ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج جنوبی احمد صبا نے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی سربراہی میں جوڈیشل مجسٹریٹ و ڈپٹی پبلک پراسیکوٹر کو سرکاری اسکولوں کا دورہ کرنے کی ہدایت کی تھی۔
سیشن جج کی ہدایت پر ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ارجمند عزیز ، جوڈیشل مجسٹریٹ جنوبی ذیشان احمد ، خاتون ڈپٹی ڈسٹرکٹ پبلک پراسیکیوٹر رخسانہ رضی ، ڈی او گل صنوبر اور سپروائزر نسرین نے رنچھوڑلائن میں واقع 12 گورنمنٹ پرائمری گرلز اسکولز کا دورہ کیا،اس موقع پر مدرسہ البنات گرلز پرائمری اسکول انتہائی مخدوش حالت میں تھا 4 کمروں پر مشتمل اسکول کے دو کمرے انتہائی خستہ حالت کے باعث بند کردیے گئے تھے صرف 2 کمروں پر مشتمل اسکول کے تمام بچے ایک کمرے میں موجود تھے ٹیچرز گپوں میں مصروف تھیں اس موقع پر پرنسپل نے بتایا کہ اسکول کی تزئین وآرئش ازسرنو تعمیرات کے لیے متعدد بار تحریری طور پر محکمہ تعلیم کو آگاہ کیا لیکن محکمہ تعلیم نے کوئی توجہ نہیں دی بچوں اور اساتذہ کو بلڈنگ کے منہدم ہونے کا خوف رہتا ہے۔
ججزز نے ایس ایل لوگو پرائمری گرلز ، ایم ایم سلاوٹ اسکول ، مس شرین ٹی حاجی گورنمنٹ پرائمری گرلز سمیت 12سرکاری اسکولوں کا دورہ کیا ان اسکولوں میں بچوں کی حاضری نہ ہونے کے برابر تھی ہر اسکول میں صرف دو اور چار سے زیادہ بچے موجود نہیں تھے اساتذہ کی تعداد بچوں کی نسبت زیادہ تھی جو سارا دن صرف فارغ وقت گزار کر چلی جاتی ہیں بچوں کے مطابق ٹیچرز بریک کے وقت آتی ہیں بچے بریک کے بعد نہیں آتے ٹیچر کے مطابق داخلے نہایت کم ہوتے ہیں،اس موقع پر ججز نے ریکارڈ چیک کیا جوکہ مرتب نہیں تھا۔
سرکاری اسکول کو ملنے والے 22 ہزار روپے کے بجٹ سے متعلق ریکارڈ طلب کیا گیا تو کوئی ریکارڈ موجود نہ ہونے کے باعث فاضل ججز کو فراہم نہیں کیا گیا کہ بجٹ کہاں خرچ کیا جاتا ہے اس موقع پر آڈٹ رپورٹ طلب کی گئی تو بتایا گیا کہ آڈٹ کیلیے کوئی اسکول نہیں آتا بلکہ وہ خود جاکر آڈٹ کراتے ہیں،سرکاری اسکولوں کی خستہ حالی پر ججز نے ڈی او پر شدید برہمی کا اظہار کیا اور اپنے ریمارکس میں کہا کہ انھوں نے کبھی بھی اسکول کا دورہ نہیں کیا اور نہ ہی کوئی ریکارڈ چیک کیا ہے ایک اسکول کی ہیڈ مس نے ججز کی آمد کی اطلاع پر محلے کے بچوں کو جمع کرکے ایک کلاس روم میں بٹھا دیا تھا جو درست طریقے سے بول بھی نہیں سکتے تھے۔
آڈٹ کرنے کوئی نہیں آتا بلکہ خود جاکر آڈٹ کرایا جاتا ہے،بچوں کی حاضری نہ ہونے کے برابر تھی،اساتذہ خوش گپیوں میں مصروف پائے گئے اسکولوں کا کوئی ریکارڈ مرتب نہیں تھا،ججز نے محکمہ تعلیم کے ڈی او پر شدید برہمی کااظہار کیا،تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس سپریم کورٹ کے حکم پر ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج جنوبی احمد صبا نے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی سربراہی میں جوڈیشل مجسٹریٹ و ڈپٹی پبلک پراسیکوٹر کو سرکاری اسکولوں کا دورہ کرنے کی ہدایت کی تھی۔
سیشن جج کی ہدایت پر ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ارجمند عزیز ، جوڈیشل مجسٹریٹ جنوبی ذیشان احمد ، خاتون ڈپٹی ڈسٹرکٹ پبلک پراسیکیوٹر رخسانہ رضی ، ڈی او گل صنوبر اور سپروائزر نسرین نے رنچھوڑلائن میں واقع 12 گورنمنٹ پرائمری گرلز اسکولز کا دورہ کیا،اس موقع پر مدرسہ البنات گرلز پرائمری اسکول انتہائی مخدوش حالت میں تھا 4 کمروں پر مشتمل اسکول کے دو کمرے انتہائی خستہ حالت کے باعث بند کردیے گئے تھے صرف 2 کمروں پر مشتمل اسکول کے تمام بچے ایک کمرے میں موجود تھے ٹیچرز گپوں میں مصروف تھیں اس موقع پر پرنسپل نے بتایا کہ اسکول کی تزئین وآرئش ازسرنو تعمیرات کے لیے متعدد بار تحریری طور پر محکمہ تعلیم کو آگاہ کیا لیکن محکمہ تعلیم نے کوئی توجہ نہیں دی بچوں اور اساتذہ کو بلڈنگ کے منہدم ہونے کا خوف رہتا ہے۔
ججزز نے ایس ایل لوگو پرائمری گرلز ، ایم ایم سلاوٹ اسکول ، مس شرین ٹی حاجی گورنمنٹ پرائمری گرلز سمیت 12سرکاری اسکولوں کا دورہ کیا ان اسکولوں میں بچوں کی حاضری نہ ہونے کے برابر تھی ہر اسکول میں صرف دو اور چار سے زیادہ بچے موجود نہیں تھے اساتذہ کی تعداد بچوں کی نسبت زیادہ تھی جو سارا دن صرف فارغ وقت گزار کر چلی جاتی ہیں بچوں کے مطابق ٹیچرز بریک کے وقت آتی ہیں بچے بریک کے بعد نہیں آتے ٹیچر کے مطابق داخلے نہایت کم ہوتے ہیں،اس موقع پر ججز نے ریکارڈ چیک کیا جوکہ مرتب نہیں تھا۔
سرکاری اسکول کو ملنے والے 22 ہزار روپے کے بجٹ سے متعلق ریکارڈ طلب کیا گیا تو کوئی ریکارڈ موجود نہ ہونے کے باعث فاضل ججز کو فراہم نہیں کیا گیا کہ بجٹ کہاں خرچ کیا جاتا ہے اس موقع پر آڈٹ رپورٹ طلب کی گئی تو بتایا گیا کہ آڈٹ کیلیے کوئی اسکول نہیں آتا بلکہ وہ خود جاکر آڈٹ کراتے ہیں،سرکاری اسکولوں کی خستہ حالی پر ججز نے ڈی او پر شدید برہمی کا اظہار کیا اور اپنے ریمارکس میں کہا کہ انھوں نے کبھی بھی اسکول کا دورہ نہیں کیا اور نہ ہی کوئی ریکارڈ چیک کیا ہے ایک اسکول کی ہیڈ مس نے ججز کی آمد کی اطلاع پر محلے کے بچوں کو جمع کرکے ایک کلاس روم میں بٹھا دیا تھا جو درست طریقے سے بول بھی نہیں سکتے تھے۔